الدہر آية ۱
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔـا مَّذْكُوْرًا
طاہر القادری:
بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا،
English Sahih:
Has there [not] come upon man a period of time when he was not a thing [even] mentioned?
1 Abul A'ala Maududi
کیا انسان پر لا متناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟
2 Ahmed Raza Khan
بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا
3 Ahmed Ali
انسان پر ضرور ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ اس کا کہیں کچھ بھی ذکر نہ تھا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً گزرا ہے انسان ایک وقت زمانے میں (١) جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
١۔١ یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت گزر چکا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا انسان پر ایک ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے نہیں تھا
9 Tafsir Jalalayn
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بیشک انسان (یعنی) آدم پر، زمانہ میں ایسا وقت (یعنی) چالیس سال بھی گزرا ہے کہ وہ اس میں کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا (بلکہ) وہ اس زمانہ میں ایک ناقابل ذکر مٹی کا پتلا تھا، یا انسان سے جنس انسان مراد ہے، اور حین سے مدت حمل مراد ہے، بیشک ہم نے انسانوں کو مرد اور عورت (یعنی) حال یہ کہ ہم اس کو اہل بنا کر آزمانے والے تھے، اسی لئے ہم نے اس کو شنوا اور بینا بنایا، ہم نے اس کو راہ دکھائی (یعنی) رسول بھیج کر اس کے لئے راہ ہدایت واضح فرمائی، اب خواہ وہ شکر گزار مومن بنے، یا ناشکرا دونوں مفعول سے حال ہیں یعنی اس کی حالت شکر یا حالت کفر میں جو اس کے لئے مقدر ہے (یعنی) راستہ واضح کردیا، اور اما حالات کی تفصیل کے لئے ہے، بیشک ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں جن کے ذریعہ ان کو آگ میں گھسیٹا جائے گا اور طوق ان کی گردن میں کہ جن میں زنجیروں کو باندھا جائے گا اور دہکتی ہوئی آگ جس میں ان کو عذاب دیا جائے گا تیار کر رکھی ہے، بیشک نیک لوگ ایسا جام شراب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی کاس شراب کے اس پیالے کو کہتے ہیں جس میں شراب ہو اور کاس سے مراد جام کی شراب ہے، یعنی محل بول کر حال مراد ہے اور من تبعیضیہ ہے، (کافور) ایک چشمہ ہے کہ جس سے اللہ کے نیک بندے اس کے ولی پئیں گے عینا، کافور سے بدل ہے، وہ چشمہ کہ جس میں کافور کی خوشبو ہوگی اور اپنے گھروں میں جہاں چاہیں گے اس سے نہریں نکال کرلے جائیں گے اور خدا کی اطاعت میں جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی بڑائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے اور مسکین کو یعنی فقیر اور یتیم کو جس کا باپ نہ ہو اور قیدیوں کو جو (اس پر) کسی کے حق میں محبوس ہو اس کھانے کی خواہش کے باوجود کھلاتے ہیں (حال یہ کہ وہ کہتے ہیں) ہم تو تمہیں خدا کی رضا مندی یعنی طلب ثواب کے لئے کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کوئی صلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری، اس میں کھانا کھلانے کی علت کا بیان ہے، خواہ انہوں نے یہ بات کہی ہو یا خدا کو ان کے بارے میں اس بات کا علم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہو، دونوں قول ہیں، بیشک ہم اپنے پروردگار سے اداسی کے دن سے جس میں چہرے بگڑ جائیں گے ڈرتے ہیں یعنی اس دن کی نہایت شدت کی وجہ سے کریہہ المنظر ہوجائیں گے، پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی (یعنی) حسن اور چہرے کی رونق اور خوشی عطا فرمائی اور ان کی معصیت سے باز رہنے پر صبر کرنے کے بدلے انہیں جنت میں داخلہ اور ریشم کا لباس عطا فرمایا، یہ لوگ وہاں مسہریوں پر خیموں میں تکیہ لگائے بیٹھیں گے (متکئین) ادخلوھا مقدر کی ضمیر مرفوع سے حال ہے نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے اور نہ جاڑے کی سردی، یعنی نہ گرمی اور نہ سردی ہوگی، (لایرون) لا یجدون کے معنی میں حال ثانیہ ہے، کہا گیا ہے کہ زمھریر سے مراد قمر ہے (جنت) بغیر شمس و قمر کے (نور عرش سے منور ہوگی) اور ان پر جنت کے درختوں کے سایہ جھکے ہوئے ہوں گے، (دانیۃ) کا عطف لایرون کے محل پر ہے ای لایرون غیر رائین کے معنی ہیں، اور ان درختوں کے پھلوں کے گچھے نیچے لٹکائے گئے ہوں گے، یعنی ان درختوں کے پھل قریب کردیئے گئے ہوں گے، کہ ان کو کھڑے کھڑے اور بیٹھے بیٹھے اور لیٹے لیٹے حاصل کرلیں، اور جنت میں ان پر چاندی کے برتنوں اور ایسے جاموں کا دور چلایا جائے گا، کہ جو شیشے کے ہوں گے (اکواب) ایسے جام کہ جن میں ٹونٹی نہ ہو اور شیشے بھی چاندی کے یعنی وہ جام ایسی چاندی کے ہوں گے کہ جن کا اندر باہر سے نظر آئے گا، کانچ کے مانند اور دورچلانے والے ان جاموں کو ایک انداز سے پینے والوں کے پیاس کے مطابق بغیر زیادتی اور کمی کے بھریں گے اور یہ (طریقہ) لذیذ ترین طریقہ ہے اور انہیں وہاں ایسے جام شراب پلائے جائیں گے کہ جن کی آمیزش زنجبیل (سونٹھ) کی ہوگی یعنی ان میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی، جنت کے ایک چشمے سے کہ جس کا نام سلسبیل ہے، عینا، زنجبیل سے بدل ہے یعنی اس کا پانی زنجبیل کی مانند ہوگا جس سے عرب لذت حاصل کرتے ہیں جس کا حلق سے اترنا سہل ہوگا، اور ان کے پاس ایسے نو خیز لڑکے آمد و رفت رکھیں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، یعنی نوجوانی کی صفت سے ہمیشہ متصف رہیں گے کبھی بوڑھے نہ ہوں گے، اور جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وہ لڑی یا صدف سے بکھرے ہوئے موتی ہیں اور لڑی میں یا صدف میں حسین ترین معلوم ہونے کی وجہ سے، اور تو وہاں جہاں کہیں نظر ڈالے گا یعنی جب بھی تیری طرف سے رویت پائی جائے گی تو تو نعمت ہی نعمت کہ ان کی صفت بیان نہیں ہوسکتی اور بڑا ملک دیکھے گا ایسا وسیع کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی وہ سبز ریشم کے موٹے اور باریک کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے (عالیھم) ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے، اور اس کا مابعد مبتداء کی خبر ہے، اور ایک قرأت میں یاء کے سکون کے ساتھ مبتداء ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہے، اور (عالیھم) کی ضمیر متصل معطوف علیہ (یعنی) جنتیوں کی طرف راجع ہے، خضر رفع کے اور استبرق جر کے ساتھ، ریشم کے موٹے کپڑے کو کہتے ہیں اور وہ استر ہوگا، اور سندس ابرا (اوپر کا کپڑا) اور ایک قرأت میں مذکورہ قرأت کا عکس ہے اور ایک تیسری قرأت میں دونوں کا رفع ہے اور ایک اور قرأت میں دونوں کا جر ہے، اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ایک دوسری جگہ ہے کہ ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو دونوں قسم کے زیور ایک ساتھ یا متفرق طریقہ پر پہنائے جائیں گے، اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا وہ شراب اپنی طہارت اور نظافت میں انتہا درجہ کو پہنچی ہوگی، بخلاف دنیا کی شرابوں کے (ان سے کہا جائے گا) یہ نعمتیں تمہارے لئے بطور صلہ کے ہیں اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھل قد اس میں اشارہ ہے کہ ھل بمعنی قد ہے اس لئے کہ استفہام کے معنی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں، یا پھر استفہام تقریری ہوسکتا ہے۔
قولہ : علی الانسان، آدم یہاں انسان کی تفسیر آدم سے کی ہے اور آئندہ انسان کی تفسیر جنس آدم سے کی ہے، حالانکہ قاعدہ ہے اذا اعیدت المعرفۃ کانت عین الاولی جب معرفہ کا اعادہ کیا جائے تو عین اولیٰ مراد ہوتا ہے اس کا مقتضٰی ہے کہ دونوں جگہ انسان کی تفسیر آدم سے ہو۔
جواب : یہ قاعدہ اکثر یہ ہے کلیہ نہیں۔
دوسرا جواب : خلقنا الانسان میں مضاف محذوف ہے ای خلقنا ذریۃ الانسان۔
قولہ : نبتلیہ جملہ مستانفہ ہے یا خلقنا کی ضمیر فاعل سے حال مقدرہ ہے ای خلقناہ حال کونہ مریذین ابتلاء … اس لئے کہ ابتلا بالتکالیف سمیع وبصیر ہونے کے بعد ہی ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے۔
قولہ : انا ھدیناہ یہاں ہدایت سے مراد دلالت اور رہنمائی ہے مفسر علام نے بینا کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : کاس ” جام شراب “ یہاں کاس بول کر مجازاً شراب مراد ہے یعنی ظرف بول کر مظروف مراد ہے، اور اگر کاس سے ظرف ہی مراد لیا جائے تو من کو ابتدائیہ ماننا ہوگا یعنی شراب پینے کی ابتداء جام شراب سے ہوگی، ظرف بول کر مظروف مراد لینے سے تکلف کی وجہ یہ ہے کہ کان مزاجھا کافورا جملہ ہو کر کاس کی صفت واقع ہو رہی ہے ترجمہ یہ ہوگا، جنتی ایسے جام سے پئیں گے کہ جس میں کافور کی آمیزش ہوگی حالانکہ جام میں کافور کی آمیزش کا کوئی مطلب نہیں ہے، البتہ شراب میں آمیزش ہوسکتی ہے اسی شبہ کو دفع کرنے کے لئے کہہ دیا اس سے مافی الک اس مراد ہے۔
قولہ : یشرب بھا، باء میں چند وجوہ ہیں، (١) باء زائدہ ای یشربھا اس وقت یشرب متعدی بنفسہ ہوگا، (٢) بمعنی من مفسر علام نے یہی معنی مراد لئے ہیں، (٣) باء حالیہ، ای ممزوجۃ بھا (٤) یشربون یلتذون کے معنی کو متضمن ہو، ای یلتذون بھا شاربین۔
قولہ : المحبوس بحق اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر کسی کا حق واجب ہے مثلاً قرض وغیرہ جس کو یہ ادا نہیں کرسکتا، قرض خواہ نے اپنے حق کے عوض اس کو قید کرا دیا، اس لئے کہ قرض خواہ کو یہ حق ہے کہ مقروض کو عدم ادائیگی کی صورت میں قید کرا دے اور اگر کوئی شخص باطل اور غلط طریقہ پر محبوس ہے تو اس کو کھانا کھلانا بطریق اولیٰ کار ثواب ہوگا۔
قولہ : انما نطعمکم لوجہ اللہ الخ، قائلین اس سے پہلے محذوف ہے۔
قولہ : شکورا، شکرا کے معنی میں ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے شکوراً لایا گیا ہے، ایک نسخہ میں فیہ علۃ الاطعام ہے، اس کا مطلب ہے کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ یہ اطعام کی علت ہے، اور بعض نسخوں میں علۃ کے بجائے علی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تم کو لوجہ اللہ کھانا کھلاتے ہیں اس کھلانے پر ہم شکریہ کے طالب نہیں ہیں، مگر اس صورت میں فیہ کی ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : وھل تکلموا بذلک او علمہ اللہ منھم اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مذکورہ جملہ میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ یہ مقولہ کھانا کھلانے والوں کا ہو اور انہوں نے زبان مقال سے یہ بات کہی ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ مقولہ اللہ تعالیٰ کا ہو، اور اللہ تعالیٰ کو چونکہ ہر شخص کی نیت اور ارادہ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ انہوں نے کھانا لوجہ اللہ کھلایا ہے کسی صلہ یا شکر یہ کا طالب ہو کر نہیں کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔
قولہ : یوما عبوسا قمطریرا، عبوس صفت مشبہ کا صیغہ ہے منہ بگاڑنے والا، ترش رو ہونے والا، قمطریرامصیبت اور رنج کا طویل دن (یعنی روز قیامت) کو کہتے ہیں، اصل محاورہ میں قمطرت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی دم اٹھا کر، ناک چڑھا کر، منہ بنا کر مکروہ شکل اختیار کرلے، اسی مناسبت سے ہر مکروہ اور رنج وہ دن کو ” قمطریر “ کہتے ہیں اصل مادہ قطر ہے میم زائد ہے (لغات القرآن) یوما موصوف ہے عبوسا صفت اول ہے اور قمطریرا صفت ثانی ہے جملہ ہو کر نخاف کا ظرف ہے۔
قولہ : فی ذلک ای فی العبوس۔
قولہ : لایرون یہ بھی اذخلوا کی ضمیر سے حال ثانیہ ہے۔
قولہ : زمھریرا، زمھریر کے معنی سخت سردی کے ہیں فلسفہ کی اصطلاح میں زمہریر فضاء میں ایک نہایت شدید سرد طبقہ کا نام ہے اس کے علاوہ فضاء میں کرہ ناری اور کرہ ہوائی بھی ہیں۔
قولہ : علی محل لا یرون، لا یرون حال ہونے کی بنا پر محلا منصوب ہے اسی وجہ سے دانیۃ بھی منصوب ہے۔
قولہ : علیھم، منھم، علی کی تفسیر من سے کر کے اشارہ کردیا کہ علی بمعنی من ہے اس لئے کہ دانیۃ کا صلہ من مستعمل ہے نہ کہ علی۔
قولہ : شجرھا، ظلالھا کی تفسیر شجرھا سے کرنے کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض یہ ہے کہ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے، حالانکہ سایہ سورج کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جنت میں شمس و قمر نہ ہوں گے تو سایہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب دیا کہ ظلال سے مراد نفس شجر ہے، یعنی درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی۔
قولہ : احسن منہ فی غیر ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال : جنت کے غلمان کو بکھرے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دینے میں کیا حکمت ہے ؟ جب کہ عام طور پر منظوم اور پروئے ہوئے موتیوں سے تشبیہ دی جاتی ہے ؟
جواب : جنتی غلمان کو حسن و انتشار میں غیر مثقب (بن بندھے) موتیوں سے تشبیہ دینا مقصود ہے، اس لئے کہ موتی میں سوراخ ہونے کے بعد چمک اور صفائی کم ہوجاتی ہے جو کہ ایک قسم کا نقص ہے اور بن بندھے (غیر مثقب) موتی منتشر ہی ہوتے ہیں، یعنی موتی جب صدف اور سلک میں نہیں ہوتا تو وہ حسن و خوبی میں بہتر ہوتا ہے اس سے جو صدف یا سلک میں ہوتا ہے۔
قولہ : اذا رأیت وجدت، رایت کی تفسیر وجدت سے کر کے اشارہ کردیا کہ رأیت یہاں لازم ہے اسی وجہ سے اس کے مفعول کو حذف کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
ھل اتی علی الانسان، ھل بمعنی قد ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے الانسان سے بعض حضرات نے ابوالبشر ” آدم (علیہ السلام) “ مراد لئے ہیں، اور حین سے روح پھونکنے تک کا زمانہ مراد لیا ہے، جو چالیس سال ہے، اور اکثر مفسرین نے الانسان کو بطور جنس کے استعمال کیا ہے، اور حین سے مراد حمل کی مدت لی ہے جس میں جنبین قابل ذکر شئی نہیں ہوتی، اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں رحم مادر سے باہر آتا ہے اور جب عنفوان شباب کا زمانہ آتا ہے تو اپنے رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت اور حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں کہ مجھ پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب میں عالم نیست میں تھا اور کوئی قابل ذکر شئی نہ تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ابتدائی ، اس کے انتہائی اور اس کے متوسط احوال بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرا ہے اور ویہ وہ زمانہ ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے تھا اور وہ ابھی پردہ عدم میں تھا بلکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس کی نسل کو مسلسل بنایا ﴿ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ ﴾ ” نطفہ مخلوط سے“ یعنی حقیر اور گندے پانی سے بنایا ﴿ نَّبْتَلِيهِ ﴾ ہم اس کے ذریعے اس کو آزماتے ہیں تاک ہم جان لیں کہ آیا وہ اپنی پہلی حالت کو چشم بصیرت سے دیکھ اور اس کو سمجھ سکتا ہے یا اس کو بھول جاتا ہے ۔ اور اس کو اس کے نفس نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ،اس کے ظاہری اور باطنی قوٰی، مثلا : کان، آنکھیں اور دیگر اعضا تخلیق کیے، ان قوٰی کو اس کے لیے مکمل کیا ، ان کو صحیح سالم بنایا تاکہ وہ ان قوی کے ذریعے سے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہو ، پھر اس کی طرف اپنے رسول بھیجے ،ان پر کتابیں نازل کیں اسے وہ راستہ دکھایا جو اس کے پاس پہنچاتا ہے ، اس راستے کو واضح کیا اور اسے اس راستے کی ترغیب دی اور اسے ان نعمتوں کے بارے میں بتایا جو اسے اس کے پاس پہنچنے پر حاصل ہوں گی ۔ پھر اس راستے سے خبردار کیا جو ہلاکت کی منزل تک پہنچاتا ہے، اسے اس راستے سے ڈرایا ، اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ اس راستے پر چلے گا تو اسے کیا سزا ملے گی اور وہ کس عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:
اول: اس نعمت پر شکر ادا کرنے والا بندہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہرہ مند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو ادا کرنے والا جن کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا ہے۔
ثانی: نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا مگر اس نے ان نعمتوں کو ٹھکرادیا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور اس راستے پر چل نکلا جو ہلاکت کی گھاٹیوں میں لے جاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
insan per kabhi aisa waqt aaya hai kay nahi jab woh koi qabil-e-ziker cheez nahi tha-?
12 Tafsir Ibn Kathir
اے انسان اپنے فرائض پہچان
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ہوا پانی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے، اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا، اسے ہم آزما رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ ۙ ) 67 ۔ الملک :2) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کرسکو۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 17ۚ ) 41 ۔ فصلت :17) یعنی ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی اور جگہ ہے آیت ( وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ 10ۚ ) 90 ۔ البلد :10) ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں، یعنی بھلائی برائی کی، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابو صالح ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اسے ہم نے راہ دکھائی یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے شاکراً اور کفوراً کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال لا کی ضمیر ہے جو آیت ( اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا ) 76 ۔ الإنسان :3) میں ہے، یعنی وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے، جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خریدوفروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کردیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے آپ نے فرمایا اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کیا ہے ؟ فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آسکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے اے کعب روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے یا فرمایا کہ دلیل نجات ہے۔ اے کعب وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جاسکتا وہ حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے، اے کعب لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خریدو فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گذرتا ہے، سورة روم کی آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30ڎ) 30 ۔ الروم :30) کی تفسیر میں حضرت جابر کی روایت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بھی گذر چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے پھر یا تو شکر گذار بنتا ہے یا ناشکرا، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسرا شیطان کے ہاتھ میں پس اگر وہ اس کام کے لئے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لئے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے۔