الدہر آية ۲۳
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا ۚ
طاہر القادری:
بے شک ہم نے آپ پر قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے،
English Sahih:
Indeed, it is We who have sent down to you, [O Muhammad], the Quran progressively.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے تم پر قرآن بتدریج اتارا
3 Ahmed Ali
بےشک ہم نےہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا اتارا ہے
4 Ahsanul Bayan
بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے (١)
٢٣۔١ یعنی ایک ہی مرتبہ نازل کرنے کی بجائے حسب ضرورت مختلف اوقات میں نازل کیا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے، یہ تیرا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے، جیسا کہ مشرکین دعویٰ کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے محمد (ﷺ) ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہم ہی نے آپ پر تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن نازل کیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے آپ پر قرآن تدریجا نازل کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے
ترجمہ : بیشک ہم نے قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بتدریج نازل کیا نحن، ان کے اسم کی تاکید ہے یا فصل کے لئے ہے (نزلنا علیک الخ) ان کی خبر ہے یعنی ہم نے قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا، پس تو اپنے رب کے حکم پر اس کے پیغام کو پہنچا کر قائم رہ اور ان کفار میں سے کسی گنہگار اور ناشکرے کی بات نہ مان یعنی عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ کی جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ تم اپنی اس تحریک سے باز آجائو اور یہ بھی درست ہے کہ ہر گنہگار اور کافر مراد ہو یعنی ان میں سے تو کسی کی بات نہ مان اس گناہ اور کفر کے معاملہ میں جس کی طرف یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دے رہے ہیں، اور اپنے رب کے نام کا نماز میں صبح و شام ذکر کیا کر یعنی فجر اور ظہر اور عصر میں اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدہ کر یعنی مغرب اور عشاء کی نماز پڑھ، اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر (یعنی) رات میں نفل نماز پڑھا کر جیسا کہ سابق میں گزر چکا ہے، دو تہائی یا نصف رات یا ایک تہائی رات، بیشک یہ لوگ دنیا کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑ دیتے ہیں سخت دن کو، یعنی قیامت کے دن کو، کہ اس کے لئے عمل نہیں کرتے ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے اعضاء و مفاصل کو مضبوط کیا اور ہم جب چاہیں ان کے بدلے تخلیق میں ان جیسے (دیگر لوگ) لے آئیں اس طریقہ پر کہ ان کو ہلاک کردیں تبدیلا تاکید ہے اور اذا، ان کی جگہ واقع ہوا ہے جیسا کہ ” ان یشایذھبکم “ میں، مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا، اور اذا، یقینی الوقوع کے لئے استعمال ہوتا ہے، بیشک یہ سورت مخلوق کے لئے نصیحت ہے پس جو چاہے طاعت کے ذریعہ اپنے رب کی راہ اختیار کرے اور تم طاعت کے ذریعہ راستہ نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے (تشائون) تاء اور یاء کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اپنے فعل کے بارے میں علم و حکمت والا ہے جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے اور وہ مومنین ہیں اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ کافر ہیں (الظالمین) کا ناصب فعل مقدر ہے اور وہ اعد ہے جس کی تفسیر اعدلھم کر رہا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : تاکید لاسم ان، اوفصل، اس عبارت کا مقصد انا نحن نزلنا الخ کی دو ترکیبوں کی طرف اشارہ کرنا ہے، (١) نحن، انا کی ضمیر کی تاکید ہے اور تاکید مؤکد سے مل کر مبتداء اور نزلنا اس کی خبر (٢) انا مبتداء اول نحن ضمیر فصل، مبتداء ثانی نزلنا خبر مبتداء ثانی وہ اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر، مبتداء اول کی خبر۔
قولہ : ان ھولاء یحبون العاجلۃ یہ ما قبل مذکور امرونہی کی علت ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مذکورین سے اعراض اور توجہ الی ذکر اللہ اس لئے کیجئے کہ ان لوگوں کے توجہ الی اللہ نہ کرنے کی وجہ دنیا طلبی اور آخرت سے بےخوفی ہے۔
قولہ : ویذرون وراء ھم یوما ثقیلا، ورائھم، یوما سے حال مقدم ہے اس لئے کہ دراصل وراء ھم، یوما نکرہ کی صفت ہے یوما ثقیلا موصوف صفت سے مل کر یذرون کا مفعول ہے۔
قولہ : وقعت اذا موقع ان اس عبارت کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اذا امور محققہ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا تو یہ امر محتمل ہوا نہ کہ محقق اور امور محتملہ کے لئے ان آتا ہے نہ کہ اذا ؟
جواب : اذا بمعنی ان ہے مجازاً ۔
قولہ : ذلک ای اتخاذ السبیل۔
قولہ : ناصبہ فعل مقدر یہ ما اضمر عاملہ علی شریطۃ التفسیر کے قبیل سے ہے یعنی الظالمین فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے ای اعد الظلمین اعدلھم۔
تفسیر و تشریح
فاصبر لحکم ربک الخ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے جس کار عظیم پر آپ کو مامور کیا ہے اس کی راہ میں سختوں اور تکالیف پر صبر کرو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس سلسلہ میں جو حالات بھی آئیں انہیں پامردی سے برداشت کرو، اور اس معاملہ میں کسی منکر حق کی بات نہ مانو خواہ وہ تمہیں کتنا ہی لالچ دے یا ڈرائے۔ کہا گیا ہے کہ آثم سے مراد عتبہ بن ربیعہ اور کفور سے مراد ولید بن مغیرہ ہے اس لئے کہ ان دونوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ اگر تم اپنے اس تبلیغی مشن کو ترک کردو تو ہم تم کو مالا مال کردیں گے اور عرب کی حسین ترین عورت سے شادی کردیں گے اور اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں گے۔
تمت
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا﴾”بے شک ہم نے آپ پر قرآن آہستہ آہستہ اتارا ہے“ اور اس کے اندر وعدہ وعید اور ہر چیز کا بیان ہے جس کے بندے محتاج ہیں ۔قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ کے اوامر و شرائع کو پوری طرح قائم کرنے، ان کے نفاذ کی کوشش کرنے اور اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) hum ney hi tum per Quran thora thora ker kay nazil kiya hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا باہم عہد و معاملات
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا جو خاص کرم کیا ہے اسے یاد دلاتا ہے کہ ہم نے تجھ پر بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن کریم نازل فرمایا اب اس اکرام کے مقابلہ میں تمہیں بھی چاہئے کہ میری راہ میں صبر و ضبط سے کام لو، میری قضا و قدر پر صابر شاکر رہو دیکھو تو سہی کہ میں اپنے حسن تدبیر سے تمہیں کہاں سے کہاں پہنچاتا ہوں۔ ان کافروں منافقوں کی باتوں میں نہ آنا گویہ تبلیغ سے روکیں لیکن تم نہ رکنا بلا رو و رعایت مایوسی اور تکان کے بغیر ہر وقت وعظ، نصیحت، ارشاد و تلقین سے غرض رکھو میری ذات پر بھروسہ رکھو میں تمہیں لوگوں کی ایذاء سے بچاؤں گا، تمہاری عصمت کا ذمہ دار میں ہوں، فاجر کہتے ہیں، بد اعمال عاصی کو اور کفور کہتے ہیں دل کے منکر کو، دن کے اول آخر حصے میں رب کا نام لیا کرو، راتوں کو تہجد کی نماز پڑھو اور دیر تک اللہ کی تسبیح کرو، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79) 17 ۔ الإسراء :79) ، رات کو تہجد پڑھو عنقریب تمہیں تمہارا رب مقام محمود میں پہنچائے گا، سورة مزمل کے شروع میں فرمایا اے لحاف اوڑھنے والے رات کا قیام کر مگر تھوڑی رات، آدھی یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ترتیل سے پڑھ۔ پھر کفار کو روکتا ہے کہ حب دنیا میں پھنس کر آخرت کو ترک نہ کرو وہ بڑا بھاری دن ہے، اس فانی دنیا کے پیچھے پڑھ کر اس خوفناک دن کی دشواریوں سے غافل ہوجانا عقلمندی کا کام نہیں پھر فرماتا ہے سب کے خالق ہم ہیں اور سب کی مضبوط پیدائش اور قومی اعضاء ہم نے ہی بنائے ہیں اور ہم بالکل ہی قادر ہیں کہ قیامت کے دن انہیں بدل کر نئی پیدائش میں پیدا کردیں، یہاں ابتداء آفرنیش کو اعادہ کی دلیل بنائی اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ اگر ہم چاہیں اور جب چاہیں ہمیں قدرت حاصل ہے کہ انہیں فنا کردیں مٹا دیں اور ان جیسے دوسرے انسانوں کو ان کے قائم مقام کردیں۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ۭوَكَان اللّٰهُ عَلٰي ذٰلِكَ قَدِيْرًا\013\03 ) 4 ۔ النسآء :133) ، اگر اللہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو برباد کر دے اور دوسرے لے آئے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ہر آن قادر ہے، اور جگہ فرمایا اگر چاہے تمہیں فنا کر دے اور نئی مخلوق لائے اللہ پر یہ گراں نہیں، پھر فرماتا ہے یہ سورت سراسر عبرت و نصیحت ہے، جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کر کے اللہ سے ملنے کی راہ پر گامزن ہوجائے، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَھُمُ اللّٰهُ ۭوَكَان اللّٰهُ بِهِمْ عَلِــيْمًا 39) 4 ۔ النسآء :39) ، ان پر کیا بوجھ پڑھ جاتا اگر یہ اللہ کو قیامت کو مان لیتے۔ پھر فرمایا بات یہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے تمہیں ہدایت کی چاہت نصیب نہیں ہوسکتی، اللہ علیم و حکیم ہے متقین ہدایت کو وہ ہدایت کی راہیں آسان کردیتا ہے اور ہدایت کے اسباب مہیا کردیتا ہے اور جو اپنے آپ کو مستحق ضلالت بنا لیتا ہے اسے وہ ہدایت سے ہٹا دیتا ہے ہر کام میں اس کی حکمت بالغہ اور حجت نامہ ہے۔ جسے چاہے اپنی رحمت تلے لے لے اور راہ راست پر کھڑا کر دے اور جسے چاہے بےراہ چلنے دے اور راہ راست نہ سمجھائے، اس کی ہدایت نہ تو کوئی کھو سکے نہ اس کی گمراہی کو کوئی راستی سے بدل سکے، اس کے عذاب ظالموں اور ناانصافیوں سے ہی مخصوص ہیں، الحمد اللہ سورة انسان کی تفسیر بھی ختم ہوئی، اللہ کا شکر ہے۔