الانفال آية ۷۰
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّمَنْ فِىْۤ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤىۙ اِنْ يَّعْلَمِ اللّٰهُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ خَيْرًا يُّؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَـكُمْۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اے نبی! آپ ان سے جو آپ کے ہاتھوں میں قیدی ہیں فرما دیجئے: اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی جان لی تو تمہیں اس (مال) سے بہتر عطا فرمائے گا جو (فدیہ میں) تم سے لیا جا چکا ہے اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
O Prophet, say to whoever is in your hands of the captives, "If Allah knows [any] good in your hearts, He will give you [something] better than what was taken from you, and He will forgive you; and Allah is Forgiving and Merciful."
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے غیب کی خبریں بتانے والے جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ اگر اللہ نے تمہارے دل میں بھلائی جانی تو جو تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
3 Ahmed Ali
اے نبی! جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر الله تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کر ے گا تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہیں بخشے گا اور الله بحشنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالٰی تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا (١) تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا (٢) اور پھر گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
٧٠۔١ یعنی ایمان و اسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔
٧٠۔٢ یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالٰی قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیاوی مال و دولت سے بھی خوب نوازا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا اور پھر گناه بھی معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے ہی
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی! ان قیدیوں سے کہو جو آپ کے قبضہ میں ہیں کہ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی اور بھلائی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔ اور تمہیں بخش بھی دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر اپنے ہاتھ کے قیدیوں سے کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی دیکھے گا تو جو مال تم سے لے لیا گیا ہے اس سے بہتر نیکی تمہیں عطا کردے گا اور تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان کے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دیگا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمہ : اے نبی ان لوگوں سے کہو جو تمہارے قبضہ میں قید ہیں اور ایک قراءت میں اَسْرَیٰ ہے اگر اللہ تمہارے دلوں میں کوئی خیر دیکھے گا (یعنی ایمان و اخلاص) تو جو کچھ تم سے فدیہ کے طور پر لیا ہے اس سے زیادہ دے گا اس طور پر کہ دنیا میں تم کو اس کا دوگنادے گا اور آخرت میں تم کو ثواب دے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اللہ بڑا غفور رحیم ہے اور اگر یہ قیدی اپنی کہی ہوئی بات (اظہار اسلام) میں خیانت کرتے ہیں تو یہ لوگ بدر سے پہلے اللہ کے ساتھ کفر کرکے خیانت کرچکے ہیں آخر اس نے تم کو ان پر بدر میں قتل و قید کے ذریعہ قدرت دیدی اگر انہوں نے پھر ایسی حرکت کی تو ان کو ایسی ہی توقع رکھنی چاہیے، اللہ اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر اور اپنی صنعت کے بارے میں با حکمت ہے جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا اور مہاجرین ہیں، اور جن لوگوں نے نبی کو ٹھکانہ دیا اور مدد کی اور وہ انصار ہیں دراصل ایک دوسرے کے نصرت اور ارث میں ولی ہیں اور وہ لوگ جو ایمان تو لائے لیکن ہجرت نہیں کی تمہاری ان کے ساتھ کوئی ولایت نہیں (وَلایة) واؤ کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ ہے، لہٰذا ان کے اور تمہارے درمیان نہ تو ارث ہے اور نہ ان کا مال غنیمت میں کوئی حصہ ہے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں، اور یہ حکم آخر سورت سے منسوخ ہے، البتہ اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تمہارے اوپر لازم ہے کہ کفار کے مقابلہ میں ان کی مدد کرو سوائے ان لوگوں سے مقابلہ کے کہ ان کے اور تمہارے درمیان عہد و میثاق ہے تو ان کے مقابلہ میں (مسلمانوں کی) مدد نہ کرو اور ان سے کئے ہوئے عہد کو نہ توڑو، جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اسے خوب دیکھتا ہے اور کفار آپس میں ایک دوسرے کے نصرت اور ارث میں ولی ہیں لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی ارث نہیں ہے اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی اگر تم مومنین کی حمایت اور کافروں سے قطع تعلق نہ کرو گے تو ملک میں کفر کی قوت اور اسلام کے ضعف سے زبردست فساد برپا ہوجائیگا، اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور جنت میں عزت کی روزی ہے اور جو لوگ ایمان و ہجرت کی طرف سبقت کرنے والوں کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو اے مہاجر اور اے انصار وہ تم میں سے ہیں اور قرابتدار ارث اور توارث میں ایمان اور سابقہ آیت میں ہجرت مذکورہ کی وجہ سے بعض سے اولیٰ ہیں اللہ کی کتاب لوح محفوظ میں یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے اور اسی میں سے میراث کی حکمت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بآ خِرِ السُّورةِ ای، واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض . قولہ : مِنْ بَعْدُ ای بعد الحدیبیةِو قبل الفتح .
تفسیر وتشریح
شان نزول : یٰایّھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الْاَسْریٰ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت حضرت عباس (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، بدر کے قیدیوں میں دیگر مشرکین کے ساتھ حضرت عباس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا بھی قید کرلئے گئے تھے، حضرت عباس (رض) جنگ بدر کے موقع پر جنگی خرچ کے لئے اپنے ہمراہ تقریباً سات سو سونے کی گنیاں (اشرفیاں) ساتھ لے کر چلے تھے اور ابھی وہ خرچ ہونے نہ پائی تھیں کہ گرفتار کرلئے گئے۔
جب فدیہ دینے آیا تو حضرت عباس (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرے ساتھ جو سونا تھا جسے لوٹ لیا گیا ہے اس کو میرے فدیہ کی رقم میں لگالیا جائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& جو مال آپ کفر کی امداد کے لئے لائے تھے وہ تو مسلمانوں کا مل غنیمت بن گیا فدیہ اس کے علاوہ ہوگا \&\& اور آپ نے یہ بھی فرمایا اپنے دو بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کا فدیہ بھی ادا کریں، حضرت عباس (رض) نے عرخ کیا کہ اگر اتنا مالی بار مجھ پر ڈالا گیا تو مجھے قریش سے بھیک مانگنی پڑے گی میں بالکل فقیر ہوجاؤں گا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کیا آپ کے پاس وہ مال موجود نہیں جو مکہ سے روانگی کے وقت آپ نے اپنی بیوی ام فضل کے حوالہ کیا تھا، حضرت عباس نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا جبکہ وہ مال میں نے رات کی تاریکی اور تنہائی میں اپنی بیوی کو دیا تھا اور کوئی تیسرا آدمی اس سے واقیف نہیں، آپ نے فرمایا مجھے میرے رب نے اس کی پوری تفصیل بتلادی، حضرت عباس (رض) کے دل میں یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے کا یقین ہوگیا، اس سے پہلے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے معتقد تھے مگر شبہات تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس وقت رفع فرمادیئے، حضرت عباس درحقیقت اسی وقت مسلمان ہوگئے تھے مگر چونکہ ان کا بہت سا روپیہ قریش مکہ کے ذمہ قرض تھا، اگر وہ اسی وقت اپنے مسلمان ہونیکا اعلان کردیتے تو سارا روپیہ مارا جاتا اسلئے اعلان نہیں کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کا کسی سے اظہار نہیں فرمایا، فتح مکہ سے پہلے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مکہ سے ہجرت کی اجازت چاہی مگر آپ نے مشورہ یہی دیا کہ ابھی ہجرت نہ کریں۔
حضرت عباس کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے میرے اسلام لانے کے بعد اپنے وعدہ پورا کردیا اور فرمایا کہ اس وقت میرے پاس ٢٠ غلام ہیں جن کے یاتھوں میں میرا سارا کاروبار ہے اور وہ مختلف مقامات پر کاروبار کرتے ہیں اور کسی کا کاروبار ٢٠ ہزار درہم سے کم کا نہیں ہے اور اس پر مزید یہ انعام ہے کہ مجھے حجاج کو آب زم زم پلانے کی خدمت مل گئی ہے جو میرے نزدیک ایسا گرانقدر کام ہے کہ سارے اہل مکہ کے اموال بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں، اور میں امید کرتا ہوں کہ آخرت میں خدا مجھے اس سے بھی زیادہ عطا کرے گا، مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ (رض) کی ایک صحیح حدیث اسی مضمون کی ہے اس سے حضرت ابن عباس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے مستدرک حاکم میں ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بحرین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار درہم تھی تو آپ نے فرمایا، اس کو مسجد میں پھیلا دو ، اور نماز میں مشغول ہوگئے، نماز سے فراغت کے بعد آپ نے ہر شخص کو جو بھی نظر آیا دیا کسی کو محروم نہیں رکھا اتنے میں حضرت عباس (رض) آئے اور کہا مجھے بھی اس میں سے کچھ دیجئے میں نے ایک وقت اپنا اور اپنے بھتیجوں کا فدیہ دیا تھا، آپ نے فرمایا لے لو، انہوں نے لپیں بھر بھر کو مال لینا شروع کردیا اور اپنی چادر میں اس کو باندھ کر اٹھانے لگے تو نہیں اٹھاسکے، تو کہنے لگے کسی کو حکم دیجئے کہ وہ اٹھوا دے آپ نے فرمایا نہیں، پھر کہا تو آپ ہی اٹھوا دیں، آپ نے فرمایا، نہیں، آخر انہوں نے اس میں سے کچھ کم کردیا باقی کاندھے پر رکھ کر چلے گئے، آنحضرت ان کو دیکھ کر تعجب کررہے تھے جب وہ کچھ دور چلے گئے اور نظروں سے پوشیدہ ہوگئے تو آنحضرت بھی وہاں سے اٹھے اس وقت ایک درہم بھی باقی نہیں رہا تھا۔
قتادہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن سرح جب مرتد ہو کر مشرکوں سے مل گیا تو یہ آیت نازل ہوئی \&\& ان یُرِیدوا خیانتک فقد خانوا اللہ من قبلُ \&\& یہ عبداللہ بن سعد وہی ہے جو مسلمان ہو کر کچھ دنوں تک کاتب وحی رہا اور بعد میں مرتد ہو کر مدینہ سے مکہ جا کر مشرکین مکہ سے جا ملا، فتح مکہ کے وقت جن آٹھ مردوں اور چھ عورتوں کو قتل کرنے کا حکم ہوا تھا ان میں عبداللہ بن سعد بھی تھا لیکن یہ حضرت عثمان غنی (رض) کا دور کا بھائی تھا، اسلئے حضرت عثمان نے اس کی سفارش کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفارش منظور فرما کر عبداللہ کا اسلام قبول فرما لیا، آیت کے الفاظ عام ہیں لہٰذا آیت یہ ہے کہ عبداللہ بن سعد کی طرح جو کوئی اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ خیانت کرے گا وہ بد عہدی کے جرم میں پکڑا جا ئیگا۔
فائدہ : حضرت علی (رض) ، حضرت عباس (رض) ، عقیل، جعفر اور حارث کی اولاد کو بنی ہاشم کہتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ اسیران بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ جب رہائی کے عوض ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ انہوں نے اس سے قبل اسلام قبول کیا ہوا تھا، مگر مسلمانوں نے ان سے فدیہ کو ساقط نہ کیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور ان لوگوں کی دل جوئی کی خاطر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جو اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں۔ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّـهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ﴾ ” اے نبی ! ان سے کہہ دو ! جو تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں، اگر اللہ تمہارے دلوں میں کچھ نیکی جانے گا، تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے“ یعنی جو مال تم سے لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے بدلے خیر کثیر عطا کرے گا۔ ﴿وَيَغْفِرْ لَكُمْ﴾ ” اور (اللہ تعالیٰ) تمہارے گناہ بخش دے گا“ اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اپنا وعدہ پورا کردیا، اس کے بعد انہیں بہت زیادہ مال حاصل ہوا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مال آیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے کپڑے میں جتنا مال اٹھا سکتے ہیں لے لیں۔ انہوں نے اتنا مال لیا کہ ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! tum logon kay haathon mein jo qedi hain , ( aur jinhon ney musalman honey ka irada zahir kiya hai ) unn say keh do kay : agar Allah tumharay dilon mein bhalai dekhay ga to jo maal tum say ( fidya mein ) liya gaya hai uss say behtar tumhen deydey ga , aur tumhari bakhshish kerday ga , aur Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
فدیہ طے ہو گیا
بدر والے دن آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے یقیناً معلوم ہے کہ بعض بنو ہاشم وغیرہ زبردستی اس لڑائی میں نکالے گئے ہیں انہیں ہم سے لڑائی کرنے کی خواہش نہ تھی۔ پس بنو ہاشم کو قتل نہ کرنا۔ ابو البختری بن ہشام کو بھی قتل نہ کیا جائے۔ عباس بن عبدالمطلب کو بھی قتل نہ کیا جائے۔ اسے بھی بادل ناخواستہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ کھینچا ہے۔ اس پر ابو حذیفہ بن عتبہ نے کہا کہ کیا ہم اپنے باپ دادوں کو اپنے بچوں کو اپنے بھائیوں کو اور اپنے قبیلے کو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں ؟ واللہ اگر وہ مجھے مل گیا تو میں اس کی گردن ماروں گا۔ جب یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اے ابو حفصہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے منہ پر تلوار ماری جائے گی ؟ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری کنیت سے مجھے یاد فرمایا حضرت عمر نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں ابو حذیفہ کی گردن اڑادوں واللہ وہ تو منافق ہوگیا۔ حضرت ابو حذیفہ (رض) فرماتے ہیں واللہ مجھے اپنے اس دن کے قول کا کھٹکا آج تک ہے میں اس سے ابھی تک ڈر ہی رہا ہوں تو میں اس دن چین پاؤں گا جس دن اس کا کفارہ ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ میں راہ حق میں شہید کردیا جاؤں چناچہ جنگ یمامہ میں آپ شہید ہوئے (رض) و رضا۔ ابن عباس کہتے ہیں جس دن بدری قیدی گرفتار ہو کر آئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس رات نیند نہ آئی صحابہ نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا میرے چچا کی آہ و بکا کی آواز میرے کانوں میں ان قیدیوں میں سے آرہی ہے صحابہ نے اس وقت ان کی قید کھول دی تب آپ کو نیند آئی۔ انہیں ایک انصاری صحابی نے گرفتار کیا تھا۔ یہ بہت مالدار تھے انہوں نے سو اوقیہ سونا اپنے فدئیے میں دیا۔ بعض انصاریوں نے سرکار نبوت میں گذارش بھی کی کہ ہم چاہتے ہیں اپنے بھانجے عباس کو بغیر کوئی زر فدیہ لیے آزاد کردیں لیکن مساوات کے علم بردار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک چونی بھی کم نہ لینا پورا فدیہ لو۔ قریش نے فدئیے کی رقمیں دے کر اپنے آدمیوں کو بھیجا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے قیدی کی من مانی رقم وصول کی۔ عباس (رض) نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو مسلمان ہی تھا آپ نے فرمایا مجھے تمہارے اسلام کا علم ہے اگر یہ تمہارا قول صحیح ہے تو اللہ تمہیں اسکا بدلہ دے گا لیکن چونکہ احکام ظاہر پر ہیں اس لیئے آپ اپنا فدیہ ادا کیجئے بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں کا بھی۔ نوفل بن حارث بن عبد المطلب کا اور عقیل بن ابی طالب بن عبد المطلب کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا جو بنو حارث بن فہر کے قبیلے سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے پاس تو اتنا مال نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے زمین میں دفنایا ہے اور تم نے کہا ہے کہ اگر اپنے اس سفر میں کامیاب رہا تو یہ مال بنو الفضل اور عبداللہ اور قشم کا ہے ؟ اب تو حضرت عباس (رض) کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ واللہ میرے علم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس مال کو بجز میرے اور ام الفضل کے کوئی نہیں جانتا۔ اچھایوں کیجئے کہ میرے پاس سے بیس اوقیہ سونا آپ کے لشکریوں کو ملا ہے اسی کو میرا زر فدیہ سمجھ لیا جائے۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں وہ مال تو ہمیں اللہ نے اپنے فضل سے دلوا ہی دیا۔ چناچہ اب آپ نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا اور اپنے حلیف کا فدیہ اپنے پاس سے ادا کیا اور اس بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اگر تم میں بھلائی ہے تو اللہ اس سے بہتر بدلہ دے گا۔ حضرت عباس کا بیان ہے کہ اللہ کا یہ فرمان پورا اترا اور ان بیس اوقیہ کے بدلے مجھے اسلام میں اللہ نے بیس غلام دلوائے جو سب کے سب مالدار تھے ساتھ ہی مجھے اللہ عزوجل کی مغفرت کی بھی امید ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے میں نے اپنے اسلام کی خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی اور کہا کہ میرے بیس اوقیہ کا بدلہ مجھے دلوائے جو مجھ سے لیے گئے ہیں۔ آپ نے انکار کیا الحمد اللہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور آپ کے ساتھیوں نے حضور سے کہا تھا کہ ہم تو آپ کی وحی پر ایمان لا چکے ہیں آپ کی رسالت کے گواہ ہیں ہم اپنی قوم میں آپ کی خیر خواہی کرتے رہے اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے جس کے دل میں نیکی ہوگی اس سے جو لیا گیا ہے اس سے بہت زیادہ دے دیا جائے گا اور پھر اگلا شرک بھی معاف کردیا جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ ساری دنیا مل جانے سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے مجھ سے جو لیا گیا واللہ اس سے سو حصے زیادہ مجھے ملا۔ اور مجھے امید ہے کہ میرے گناہ بھی دھل گئے۔ مذکور ہے کہ جب بحرین کا خزانہ سرکار رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پہنچا وہ اسی ہزار کا تھا آپ نماز ظہر کے لیے وضو کرچکے تھے پس آپ نے ہر ایک شکایت کرنے والے کی اور ہر ایک سوال کرنے والے کی داد رسی اور نماز سے پہلے ہی سارا خزانہ راہ اللہ لٹا دیا۔ حضرت عباس کو حکم دیا کہ لے اس میں سے لے اور گٹھڑی باندھ کرلے جاؤ پس یہ ان کے لیے بہت بہتر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف فرمائے گا۔ یہ خزانہ ابن الحضرمی نے بھیجا تھا اتنا مال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی نہیں آیا۔ سب کا سب بوریوں پر پھیلادیا گیا اور نماز کی اذان ہوئی۔ آپ تشریف لائے اور مال کے پاس کھڑے ہوگئے مسجد کے نمازی بھی آگئے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ایک کو دینا شروع کیا نہ تو اس دن ناپ تول تھی نہ گنتی اور شمار تھا، پس جو آیا وہ لے گیا اور دل کھول کرلے گیا۔ حضرت ابن عباس نے تو اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ لی لیکن اٹھا نہ سکے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا اونچا کر دیجئے آپ کو بےساختہ ہنسی آگئی اتنی کہ دانت چمکنے لگے۔ فرمایا کچھ کم کردو جتنا اٹھے اتنا ہی لو۔ چناچہ کچھ کم لیا اور اٹھا کر یہ کہتے ہوئے چلے کہ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات تو پوری ہوتی دکھا دی اور دوسرا وعدہ بھی انشاء اللہ پورا ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے بہتر ہے جو ہم سے لیا گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اس مال کا تقسیم فرماتے رہے یہاں تک کہ اس میں سے ایک پائی بھی نہ بچی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اہل کو اس میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی۔ پھر نماز کے لیے آگے بڑھے اور نماز پڑھائی دوسری حدیث۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بحرین سے مال آیا اتنا کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنا مال کبھی نہیں آیا۔ حکم دیا کہ مسجد میں پھیلا دو پھر نماز کے لیے آئے کسی کی طرف سے التفات نہ کیا نماز پڑھا کر بیٹھ گئے پھر تو جسے دیکھتے دیتے اتنے میں حضرت عباس (رض) آگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ مجھے دلوائیے میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا ہے آپ نے فرمایا اپنے ہاتھ سے لے لو۔ انہوں نے چادر میں گٹھڑی باندھی لیکن وزنی ہونے کے باعث اٹھا نہ سکے تو کہا یا رسول اللہ کسی کو حکم دیجئے کہ میرے کاندھے پر چڑھا دے آپ نے فرمایا میں تو کسی سے نہیں کہتا، کہا اچھا آپ ہی ذرا اٹھوا دیجئے آپ نے اس کا بھی انکار کیا اب تو بادل ناخواستہ اس میں کچھ کم کرنا پڑا پھر اٹھا کر کندھے پر رکھ کر چل دیجئے۔ ان کے اس لالچ کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہیں جب تک یہ آپ کی نگاہ سے اوجھل نہ ہوگئے انہیں پر رہیں پس جب کل مال بانٹ چکے ایک کوڑی بھی باقی نہ بچی تب آپ وہاں سے اٹھے امام بخاری شریف میں تعلیقاً جزم کے صیغہ کے ساتھ وارد کی ہے۔ اگر یہ لوگ خیانت کرنا چاہیں گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے وہ خود اللہ کی خیانت بھی کرچکے ہیں۔ تو ان سے یہ بھی ممکن ہے کہ اب جو ظاہر کریں اس کے خلاف اپنے دل میں رکھیں۔ اس سے تو نہ گھبرا جیسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت انہیں تیرے قابو میں کردیا ہے۔ ایسے ہی وہ ہمیشہ قادر ہے۔ اللہ کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں۔ ان کے اور تمام مخلوق کے ساتھ جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے ازلی ابدی پورے علم اور کامل حکمت کے ساتھ حضرت قتادہ کہتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کاتب کے بارے میں اتری ہے جو مرتد ہو کر مشرکوں میں جا ملا تھا۔ عطاء خراسانی کا قول ہے کہ حضرت عباس اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیر خواہی کرتے رہیں گے۔ سدی نے اسے عام اور سب کو شامل کہی یہی ٹھیک بھی ہے واللہ اعلم۔