المطففین آية ۱
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَۙ
طاہر القادری:
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے،
English Sahih:
Woe to those who give less [than due],
1 Abul A'ala Maududi
تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے
2 Ahmed Raza Khan
کم تولنے والوں کی خرابی ہے،
3 Ahmed Ali
کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے
4 Ahsanul Bayan
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے
6 Muhammad Junagarhi
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی
7 Muhammad Hussain Najafi
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے (ڈنڈی مارنے) والوں کے لئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ویل ہے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بڑی خرابی ہے (ویل) کلمہ عذاب ہے یا جہنم میں ایک وادی ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں یعنی ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، کیا انہیں یہ استفہام تو بیخ کے لئے ہے یقین نہیں کہ انہیں ایک عظیم (سخت) دن میں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا اور وہ قیامت کا دن ہے، جس دن لوگ اپنی قبروں سے رب العالمین یعنی مخلوق کے پروردگار کے حضور میں اس کے حکم سے اپنے حساب اور جزاء کے لئے کھڑے ہوں گے، یوم، لیوم کے محل سے بدل ہے اور اس کا ناصب مبعوثون ہے، ہرگز نہیں ! یقینا کافروں کا نامہ عمل قید خانہ کے دفتر میں ہے کہا گیا ہے کہ وہ شیاطین اور کافروں کے اعمال کے لئے ایک جامع کتاب ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ ساتویں زمین کے نیچے ایک مقام ہے اور وہ ابلیس اور اس کے لشکر کا ٹھکانہ ہے، تجھے کیا معلوم سجین کیا ہے ؟ یعنی جیل خانہ کا دفتر کیا ہے ایک کتاب ہے لکھی ہوئی مہر شدہ، اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو روز جزاء کو جھٹلاتے ہیں (الذین) مکذبین کا بیان یا بدل ہے اور اسے وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا بدعمل ہے (اثیم) مبالغہ کا صیغہ ہے، جب اسے ہماری کتاب قرآن سنائی جاتی ہے تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں یعنی وہ کہانیاں جو اگلے زمانوں میں لکھی گئیں، (اساطیر) اسطورہ بالضم یا اسطارۃ بالکسر کی جمع ہے (یہ بات) ہرگز نہیں ! کلا، ان الخ اس قوت کے لئے حرف تو بیخ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے پس وہ بدعملی زنگ کے مانند ہے، ہرگز نہیں ! بالیقین یہ لوگ قیامت کے دن خدا کے دیدار سے محروم ہوں گے جس کی وجہ سے ان کو خدا کا دیدار نصیب نہ ہوگا، پھر وہ جہنم میں جا پڑیں گے، یعنی جلا دینے والی آگ میں داخل ہوں گے، پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی عذاب ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے، ہرگز نہیں ! بیشک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال یعنی مومنین، صادقین فی الایمان کا نامہ عمل علیین میں ہے کہا گیا ہے کہ (علیین) ملائکہ اور مومنین جن وانس کے اعمال خیر کی جامع ایک کاتب ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ عرش کے نیچے ایک مقام ہے، تجھے کیا معلوم کہ علییون کیا ہے ؟ وہ تو لکھی ہوئی مہر شدہ ایک کتاب ہے جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں یقینا نیک لوگ جنت کے خیموں میں مسہریوں پر ہوں گے، جو ان کو عطا کیا جا رہا ہوگا اس کو دیکھ رہے ہوں گے ان کے چہروں پر تم خوش حالی کی رونق اور اس کی ترو تازگی محسوس کرو گے یہ لوگ میل سے پاک صاف سربمہر شراب پلائے جائیں گے یعنی شراب کی صراحی سیل بند ہوگی اس کی سیل کو خود وہی توڑیں گے اور اس کے آخری گھونٹ میں مشک کی خوشبو مہک رہی ہوگی، سبقت کرنے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے لہٰذا ان کو اللہ کی طاعت کی طرف سبقت کرنے میں سبقت کرنی چاہیے، اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی تسنیم کی تفسیر عیتاً سے کی گئی ہے لہٰذا (عیناً ) کا نصب امدح مقدر کی وجہ سے ہے، اس چشمہ کا پانی مقرب لوگ پئیں گے، یا یشرب، یتلذذ کے معنی کو متضمن ہے اور ابوجہل اور اس جیسے مجرم لوگ ایمان والوں مثلاً عمار (رض) اور بلال (رض) اور ان جیسے لوگوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اور مومنین جب ان کے پاس سے گذرتے تھے تو مجرمین مئومنین کی طرف آنکھ اور ابرو سے استہزاء اشارہ کرتے تھے اور جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس جاتے تھے (تو وہاں بھی) تمسخر کرتے تھے اور ایک قرأت میں فکھین ہے یعنی مومنین کے ذکر سے تعجب کرتے تھے، (مزے لیتے تھے) اور جب مومنین کو دیکھتے تو کہتے یقینا یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر گمراہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان کافروں کو مومنین کا یا ان کے اعمال کا پاسبان بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ یہ ان کو ان کی اصلاح کی جانب لوٹائیں، پس آج قیامت کے دن ایمان والے کافروں پر ہنسیں گے جنت میں مسہریوں پر بیٹھے ہوئے کافروں کے ٹھکانوں کو دیکھ رہے ہوں گے حال یہ کہ کافروں کو عذاب دیا جا رہا ہوگا، تو مومنین کافروں پر ہسنیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں مومنین پر ہنسا کرتے تھے، واقعی کافروں کو ان کے کئے کا خوب بدلہ ملا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ویل، ویل کے مفسر علام نے دو معنی بیان کئے ہیں : ایک بمعنی عذاب اور دوسرے جہنم میں ایک وادی کا نام، ویل اگر بمعنی عذاب ہو تو نکرہ ہوگا اور اگر جہنم کی وادی کا علم ہو تو معرفہ ہوگا، ویل مبتدا اور للمطففین اس کی خبر، علم ہونے کی صورت میں ویل کے مبتداء بننے میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اگر بمعنی عذاب ہو تو یہ اعتراض ہوگا کہ ویل نکرہ ہے اور نکرہ کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ نکرہ جب دعاء یا بد دعاء کے معنی میں ہو تو اس کا مبتداء واقع ہونا صحیح ہوجاتا ہے، ویل یہاں بد دعاء کے معنی میں ہے، لہٰذا اس کا مبتداء بننا درست ہے۔
قولہ : مطففین، یہ مطفف کی جمع ہے، کم کرنے والے کو کہتے ہیں کمی خواہ ناپ تول میں ہو یا کسی اور چیز میں، حضرت عمر (رض) نے ایک شخص کو جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو آپ نے فرمایا ” طففت یا رجل “ اے شخص تو نے نماز کا حق ادا نہیں کیا۔
قولہ : من الناس اس میں اشارہ ہے کہ علی بمعنی من ہے۔
قولہ : ای کالوالھم اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کالوھم میں ھم ضمیر مفعول ہے یہ اصل میں لھم تھا، لام حرف جر کو حذف کردیا، حرف جر کے حذف کے بعد کالوا متعدی بنفسہ ہوگیا۔
قولہ : ای فیہ اس میں اشارہ ہے کہ لیوم میں لام بمعنی فی ہے لیوم، مبعوثون کا ظرف ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، یوم یقوم الناس میں یوم لیوم کے محل پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : کتب بمعنی مکتوب اعمال الکفار میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کتاب بمعنی کتب ہے۔
قولہ : سجین، سجین کے نونکے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ نون اصلی ہے اور یہ لفظ سجن سے مشتق ہے جس کے معنی قید و بند کے ہیں اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ نون، لام سے بدلا ہوا ہے یہ اصل میں سجیل جو سجل سے ماخوذ ہے اس کے معنی لکھنے کے ہیں سجیل بمعنی کتاب جامع ہے۔
قولہ : مرقوم یہ کتاب الفجار میں مذکور کتاب کا بیان ہے مطلب یہ ہے کہ یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں اعمال لکھے ہوئے ہیں بعض حضرات نے رقم بمعنی ختم (مہر) لئے ہیں مفسر علام نے بھی یہی معنی مراد لئے ہیں۔
قولہ : علیین یہ اسم مفرد، بروزن جمع ہے لفظوں میں اس کی جمع نہیں۔
تفسیر و تشریح
ویل للمطففین، تطفیف سے مشتق ہے جس کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں، عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لئے بولا جاتا ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والا بھی کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا، بلکہ ہر گاہک سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے، جو عام طور پر خریدار کو معلوم بھی نہیں ہوتا، ناپ تول میں کمی کرنا قرآنی حکم کے اعتبار سے حرام ہے، تطفیف صرف ناپ تول ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر حق واجب میں کمی کرنے کو تطفیف کہتے ہیں، ایک مزدور اگر کام کی چوری کرتا ہے یا کوئی ملازم اپنے فرض منصبی میں کوتاہی کرتا ہے یہ سب بھی تطفیف میں شامل ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی، اس سورت کے نازل ہونے کے بعد یہ لوگ اس بری عادت سے باز آگئے اور ایسے باز آئے کہ آج تک اہل مدینہ پورا ناپنے تولنے میں معروف مشہور ہیں۔ (رواہ الحاکم و النسائی)
قوم شعیب (علیہ الصلوۃ والسلام) پر جس جرم کی وجہ سے عذاب نازل ہوا تھا وہ یہی تھا کہ اس کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کا مرض عام تھا حضرت شعیب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے مسلسل نصیحت کرنے کے باوجود یہ قوم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی تھی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَیْلٌ﴾ ” ہلاکت ہے۔“ یہ عذاب اور عقاب کا کلمہ ہے ﴿ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ﴾” ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے “ اور اللہ تعالیٰ نے لمطففین کی تفسیر بیان فرمائی کہ ﴿الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں تو ان سے کسی کمی کے بغیر پورالیتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
bari kharabi hai naap tol mein kami kernay walon ki
12 Tafsir Ibn Kathir
ناپ تول میں کمی کے تنائج
نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کرلیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ مکہ مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۙ ) 83 ۔ المطففین :1) ہے۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35) 17 ۔ الإسراء :35) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کردیا کرو۔ اور جگہ حکم ہے۔ آیت (وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا\015\02ۙ ) 6 ۔ الانعام :152) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کردیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ ) 55 ۔ الرحمن :9) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کردیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہوگا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہوگا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہوگی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہوگا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا۔ (موطا مالک) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہوجائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہوگا اور سخت تیز ہوگا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہوگا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہوگا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہوگا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہوگی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہوگی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشیر غفاری (رض) سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مددگار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے (ابن جریر) ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔ پھر کہتے دعا (اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔