التوبہ آية ۱۱۱
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَــنَّةَ ۗ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَۗ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى التَّوْرٰٮةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ۗ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَـبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِىْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۗ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ
طاہر القادری:
بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے،
English Sahih:
Indeed, Allah has purchased from the believers their lives and their properties [in exchange] for that they will have Paradise. They fight in the cause of Allah, so they kill and are killed. [It is] a true promise [binding] upon Him in the Torah and the Gospel and the Quran. And who is truer to his covenant than Allah? So rejoice in your transaction which you have contracted. And it is that which is the great attainment.
1 Abul A'ala Maududi
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں اس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون تو خوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اس سے کیا ہے، اور یہی بڑی کامیابی ہے،
3 Ahmed Ali
بے شک الله مسلمانوں سے ان کی جان اوران کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کی جنت ہے الله کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں یہ توریت اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنااسے ضروری ہے اور الله سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو اور یہ بڑی کامیابی ہے
4 Ahsanul Bayan
بلا شبہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی (١)۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے (٢) تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ (٣) اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
١١١۔١ یہ اللہ کے ایک خاص فضل و کرم کا بیان ہے کہ اس نے مومنوں کو، ان کی جان و مال کے عوض، جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیے، جنت عطا فرما دی، جب کہ یہ جان و مال بھی اسی کا عطیہ ہے۔ پھر قیمت اور معاوضہ بھی جو عطا کیا یعنی جنت وہ نہایت ہی بیش قیمت ہے۔
١١١۔٢ یہ اسی سودے کی تاکید ہے کہ اللہ تعالٰی نے سچا وعدہ پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن میں بھی کیا ہے۔ اور اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔
١١١۔٣ یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے لیکن یہ خوشی اسی وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمان کو بھی یہ سودا منظور ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے انہیں دریغ نہ ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے۔ جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے
6 Muhammad Junagarhi
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وه لوگ اللہ کی راه میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، اس پر سچا وعده کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیاده اپنے عہد کو کون پورا کرنے واﻻ ہے، تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ هخدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے جاتے بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے ؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
آیت نمبر ١١١ تا ١١٨
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنین سے ان کی جانوں اور مالوں کا جنت کے بدلے سودا کرلیا ہے اس طریقہ پر کہ وہ ان کو اس کی اطاعت میں مثلاً جہاد میں خرچ کریں وہ اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں (یُقاتلُ ) بیان شراء کے لئے جملہ مستانفہ ہے، اور ایک قراءت میں یُقْتَلُونَ (مجہول) مقدم ہے (اور یُقَاتلُ ) معروف مؤخر ہے، یعنی ان میں سے بعض قتل کئے جاتے ہیں اور باقی قتال کرتے ہیں، ان سے اللہ کی جانب سے (جنت) کا تورات اور انجیل اور قرآن میں پختہ وعدہ ہے (وعدًا اور حَقًّا) دونوں اپنے فعل محذوف کی وجہ سے مصدر منصوب ہیں، اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا ہے ؟ یعنی اس سے بڑھ کر کوئی وعدہ پورا کرنے والا نہیں، لہٰذا تم اپنے اس بیع کے معاملہ پر جو تم سے کیا ہے خوشیاں منائو اس میں غیبت سے (خطاب) کی جانب التفات ہے، یہ عظیم کامیابی ہے (یعنی) انتہائی مقصد کا حصول ہے، (وہ مجاہدین) شرک ونفاق سے توبہ کرنے والے ہیں (اَلتائبون) مرفوع بالمدح ہے مبتداء کی تقدیر کے ساتھ عبادت کرنے والے ہیں، یعنی اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں، اور ہرحال میں اس کی حمد بیان کرنے والے ہیں روزہ رکھنے والے ہیں رکوع سجدہ کرنے والے ہیں یعنی نماز پڑھنے والے ہیں، نیکی کا حکم کرنے والے اور بدی سے روکنے والے ہیں، اور اللہ کے احکام پر عمل کر کے اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور (اے نبی) ان مومنوں کو جنت کی خوشخبری سنا دو اور (آئندہ آیت) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے چچا ابو طالب کے لئے اور بعض صحابہ کے اپنے مشرک والدین کے لئے استغفار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی نبی کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں، اس وجہ سے کہ وہ کفر پر مرے ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنے والد کے لئے دعاء مغفرت کی تھی وہ اس وجہ سے کی تھی کہ انہوں نے اپنے قول \&\& ساستغفرلک ربی \&\& سے استغفار کا وعدہ کیا تھا، اس امید پر کہ وہ ایمان لے آئیں گے، مگر جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ ان کے والد ان کے کفر پر مرنے کی وجہ سے اللہ کے دشمن ہیں تو انہوں نے اس سے اظہار بیزاری کردیا، اور ان کے لئے دعاء مغفرت کرنی ترک کردی، حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) بہت زیادہ عاجزی کرنے والے اور دعاء کرنے والے اور بردبار تکلیف پر صبر کرنے والے تھے، اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام کی ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرے جب تک کہ صاف صاف ان کو یہ نہ بتادے کہ ان کو کن کاموں سے بچنا چاہیے پھر (بھی) اگر وہ اس سے نہ بچیں تو وہ گمراہی کے مستحق ہوجاتے ہیں، درحقیقت اللہ ہر شیٔ کا علم رکھتا ہے اور اسی میں سے استحقاق اضلال و ہدایت ہے یہ بھی واقعہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حکومت اللہ ہی کے قبضے میں ہے وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، اے لوگو اللہ کے سوا اب نہ تمہارا کوئی حامی ہے جو اس سے تمہارے حفاظت کرسکے اور نہ مددگار کہ تم کو اس کے ضرر سے بچا سکے اللہ نے نبی کے حال پر اور مہاجرین وانصار کے حال پر توجہ فرمائی یعنی ان کی توبہ کو دوام بخشا، جنہوں نے تنگی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا ان کی یہ حالت غزوہ تبوک کے وقت تھی کہ دو آدمی ایک کھجور کو آدھا آدھا کرتے تھے اور دس آدمی ایک اونٹ پر باری باری سے سوار ہوتے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا، یہاں تک کہ اوجھ (کا پانی) بھی پی گئے، اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل آپ کی اتباع سے کجی یعنی تخلف کی طرف مائل ہو چلے تھے (تزیغ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے اس لئے کہ وہ اس وقت بڑی تکلیف میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کو ثابت قدمی عطا فرما کر ان کی طرف توجہ فرمائی بیشک اللہ تعالیٰ ان پر بڑا شفیق بڑا مہربان ہے اور ان تینوں حضرات کی طرف بھی توجہ فرمائی جن کی توبہ کو مؤخر کردیا گیا تھا، یہ معنی حتی اذا ضاقت کے قرینہ کی وجہ سے ہیں، جب زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تو وہ کوئی ایسی جگہ نہ پاتے تھے جس میں ان کو اطمینان حاصل ہو سکے اور تاخیر (قبولیت) توبہ اور وحشت نیز غم کی وجہ سے خود ان کی اپنی جانیں بھی ان کو بار معلوم ہونے لگیں جس کی وجہ سے نہ ان کے قلوب میں سرور تھا اور نہ انس، اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوا ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے پھر اللہ ان کی طرف متوجہ ہوا یعنی ان کو توبہ کی توفیق بخشی تاکہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : بِاَنْ یبذلوھا فی طاعتہ، یہ ایک تمثیل ہے، یعنی مجاہدین کے اپنی جانوں اور مالوں کو راہ خدا میں قربان کرنے کے عوض جنت دینے کو شراء سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا حقیقةً بیع وشراء ہونا ضروری نہیں ہے۔
قولہ : جملہ استیناف، یہ ماسبق سے عدم وصل کی علت کا بیان ہے۔
قولہ : فَیُقْتَلُ بعضھم ویقاتل الباقی، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ مجہول کے مقدم ہونے کی صورت میں جب وہ مقتول ہوجاتے ہیں تو پھر وہ قتال کیسے کرتے ہیں ؟
قولہ : مصدران منصوبان بفعلھما المحذوف، یعنی وعدًا اور حقًا دونوں اپنے اپنے فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہیں تقدیر عبارت یہ ہے وَعَدَھم وَعْدًا وَحقَّ الوعدُ حَقًّا، اور اس کا قرینہ شراء بمعنی وَعْد ہے۔
قولہ : رفع علی المدح، نہ یہ کہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے اس لئے کہ اس صورت میں بلافائدہ حذف خبر کی ضرورت ہوگی، مرفوع بالمدح ہونے کی صورت میں بھی اگرچہ حذف لازم آتا ہے مگر وہ فائدہ سے خالی نہیں
ہے کما ھو ظاھر۔
قولہ : بتقدیر المبتدا، اور وہ ھم ہے۔ قولہ : من الشرک والنفاق یہ دونوں التائبون سے متعلق ہیں۔
قولہ : الصائمون، یہ السّائحون کے معنی کا بیان ہے آپ (علیہ السلام) نے فرمایا، \&\& سَیاحة امتی الصوم \&\&۔
قولہ : ونزل فی استغفارہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لعمِہ ابی طالب، خواجہ ابو طالب جب زیادہ بیمار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواجہ ابو طالب سے کہا یہ کلمہ (شہادت) کہہ لو تاکہ میں اس کے ذریعہ اللہ کے روبرو حجت پیش کرسکوں مگر خواجہ ابو طالب نے انکار کردیا، تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& لا اَزَالُ استغفرلکَ ما لم اُنْہ عنہ \&\& (رواہ الشیخان) اسی طرح حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے ایک شخص کو سنا کہ وہ اپنے والدین کے لئے دعاء مغفرت کر رہا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ تو اپنے والدین کے لئے دعاء مغفرت کر رہا ہے حالانکہ وہ کافر تھے، تو اس شخص نے جواب دیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے والد کے لئے دعاء استغفار کی تھی حالانکہ ان کے والد مشرک تھے، یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو ذکر کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (رواہ الترمذی)
قولہ : اوّاہ، یہ فَعَال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے، بہت آہ کرنے والا، نرم دل۔
قولہ : اَدامَ توبتہ، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ قبولیت توبہ کے لئے اول ارتکاب معصیت لازم ہے اس لئے کہ قبولیت توبہ ارتکاب معصیت کی فرع ہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں اور صحابہ نے بھی اس واقعہ میں کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو پھر توبہ کی قبولیت کا کیا مطلب ہے ؟
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں جہاد سے بلاعذر بیٹھ رہنے کا بیان تھا، ان آیات میں جہاد میں شریک ہو کر اپنی جان ومال کی قربانی پیش کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے۔
شان نزول : روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ١٣ نبوی میں ستر شرفاء مدینہ نے مکہ میں آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی اس کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے اس وفد کے قائد حضرت عبد اللہ (رض) بن رواحہ تھے، جب وفد کے شرکاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کر رہے تھے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) \&\& اشترط لربک ولنفسک \&\& آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب اور اپنے لئے شرط لگائیے ! آپ نے فرمایا \&\& اشترط لربی أن تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا \&\& میرے رب کی شرط یہ ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور میرے لئے شرط یہ ہے کہ جس طرح تم اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرو، حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا تو اے اللہ کے رسول اس کے عوض ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& جنت \&\& تو حضرت عبد اللہ نے فرمایا \&\& ربح البیع لا نقیل ولا نستقیل \&\& سودا نفع کا ہے نہ ہم اس بیع کو توڑیں گے اور نہ توڑنے کی درخواست کریں گے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
وَعْدًا عَلَیْہ حقًّا فی التوراة والانجیل قرآن مجید تو اس مضمون کی تکرار سے بھرا پڑا ہے، قرآن کے ساتھ تورات اور انجیل کے
ناموں کا اضافہ بیان کی تاکید کے لئے ہے مطلب یہ ہے کہ یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔
اعتراض اور جواب : اس بات پر بہت سے اعتراضات کئے گئے ہیں کہ جس وعدہ کا یہاں ذکر ہے وہ تو رات اور انجیل میں موجود نہیں ہے۔
جواب : تورات میں تحریفات اور ترمیمات دوست و دشمن سب کے نزدیک مسلم ہیں، اگر موجودہ تورات میں اس قسم کا مضمون نہ ملے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں جہاں تک انجیل کا تعلق ہے تو یہ اعتراضات بےبنیاد ہیں تمام تر تحریفات کے باوجود جو انجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعدد اقوال ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے مضمون کے ہم معنی ہیں مثلاً ۔ \&\& جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں سے یا باپ یا ماں یا بچیوں یا کھیتیوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا \&\&۔ \&\& مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت ان ہی کی ہے
کعب بن مالک (رض) کی کہانی خود ان کی زبانی : وعلی الثلثة الَّذینَ خُلِّفُوا، یہ وہی تین آدمی ہی جن کی طرف مذکورہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی مرارہ بن ربیع، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، جن کی توبہ قبول کرنے میں پچاس روز کی مہلت دی گئی تھی، اس کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری اور مسلم میں خود کعب بن مالک کی روایت سے اس طرح ہے، فرماتے ہیں کہ میں سوائے تبوک اور بدر کے ہر لڑائی میں شریک رہا ہوں حالانکہ غزوہ تبوک کے وقت میں بہت آسودہ حال تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ اگرچہ مصلحتاً اپنے جنگی سفر کی تفصیلات اور رخ کو پوشیدہ رکھنے کی تھی، تبوک کا سفر چونکہ بعید اور دشوار تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کو صاف صاف بتادیا کہ میرا ارادہ تبوک جانے کا ہے تم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیاری کرو، میں چونکہ خوشحال تھا اس لئے میں نے سوچا کہ جب چاہوں گا سامان سفر تیار کرلوں گا مگر آج کل کرتے کرتے وقت گذر گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر پر روانہ ہوگئے، پھر بھی میں یہ سوچتا رہا ان کو جانے دو میں ایک دو روز میں ان سے جا کر مل جائوں گا، حتی کہ اسلامی لشکر منزل مقصود پر پہنچ کر اور وہاں کچھ روز قیام کر کے واپس بھی آگیا، مگر میں شریک نہ ہوسکا، مجھے اس بات کا بڑا رنج تھا، جب میں مدینہ میں گھر سے باہر نکلا کرتا تھا تو مجھے سوائے معذورین اور منافقوں کے کوئی نظر نہ آتا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک پہنچنے پر لوگوں سے میرے بارے میں دریافت کیا کہ کعب کیوں نہیں آئے، بنی سلمہ کے ایک شخص نے کہا وہ آجکل کرتے کرتے رہ گئے جب آپ واپس تشریف لائے تو میں پیش بندی کے طور پر حیلے بہانے سوچنے لگا بلکہ اس سلسلہ میں اپنے گھر والوں اور دیگر حضرات سے بھی مشورہ کرتا مگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی، آخر یہ بات سمجھ میں آئی کہ چاہے جو کچھ ہو میں سچ بات کہہ دوں گا، اگر نجات ہوگی تو اسی میں ہوگی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ تھی کہ آپ جب سفر سے تشریف لاتے تو اول مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے اس مرتبہ بھی آپ مسجد میں تشریف فرما ہوئے، تقریباً اسی آدمی تھے جنہوں نے اپنے عذر بیان کئے اور آپ نے ان کا عذر قبول فرما لیا اور ان کے لئے مغفرت کی دعاء کی جب میرا نمبر آیا میں نے سلام کیا اور آپ مسکرائے اور غصہ میں فرمایا، آجا میں سامنے بیٹھ گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو کیوں رہ گیا تھا ؟ کیا تو نے سواری نہیں خریدی تھی، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آج اگر میں کسی اور کے سامنے ہوتا تو جھوٹ بول کر عذر وحیلہ کرلیتا اگر آپ کے سامنے جھوٹ بولوں گا تو اصل حقیقت اللہ آپ پر ظاہر کر دے گا، اور اگر سچ بولوں گا تو آپ خفاء بھی ہوں گے تو مجھے امید ہے کہ اللہ کے یہاں انجام بخیر ہوگا، واللہ مجھے کوئی عذر نہیں تھا، اور میں پہلے کی بہ نسبت خوشحال بھی تھا، آپ نے فرمایا \&\& تو نے سچ کہا \&\& اچھا جائو اللہ تمہارے بارے میں کچھ فیصلہ کرے گا میں چلا آیا لوگ کہنے لگے تو نے یہ کیا کیا ؟ تو بھی دوسروں کی طرح عذر بیان کردیتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کی دعاء تیرے لئے کافی تھی، میں نے ان لوگوں سے معلوم کیا کہ میرے بعد اور کون کون آیا تھا ؟ بتایا گیا کہ مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ آئے تھے انہوں نے بھی تمہاری طرح سچ کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تم سے فرمایا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو ہم تینوں سے بات کرنے سے منع فرما دیا غرضیکہ سب لوگوں نے ہم سے بات چیت بند کردی پچاس روز اسی حالت میں گذرے اور بیچارے وہ دونوں تو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے رویا کرتے تھے میں نماز کے لئے مسجد میں جایا کرتا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری طرف سے منہ پھیرلیا کرتے تھے، ابو قتادہ جو میرے چچا زاد بھائی تھے میں جب ان کو سلام کرتا تو وہ بھی جواب نہیں دیتے تھے، جب چالیس راتیں گذر گئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیغام بھیجا کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجائیں میں نے اس کو میکے چلے جانے کو کہہ دیا ہلال بن امیہ ایک ضعیف آدمی تھے ان کی بیوی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ کوئی خادم نہیں ہے ان کو بہت تکلیف ہوگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلال کی بیوی کو خدمت کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ اس کے پاس نہ جانا (مباشرت نہ کرنا) جب پچاس راتیں پوری ہوگئیں اور میں فجر کی نماز اپنے مکان کی چھت پر پڑھ رہا تھا، یہ آواز میرے کانوں میں آئی خوش ہوجائو اے کعب بن مالک پھر تو میں سجدے میں گرپڑا، اور سمجھ گیا کہ میری توبہ قبول ہوگئی صبح کو لوگ میرے اور ان دونوں کے پاس مبارک باد دینے کے لئے آنے لگے جب میں مسجد میں آیا تو طلحہ بن عبید اللہ نے مجھ سے مصافحہ کر کے مبارک باد دی پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توبہ کی خوش خبری سنائی، میں نے عرض کیا میں اس خوشی میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دیتا ہوں آپ نے سارا مال قبول نہیں فرمایا بلکہ ایک تہائی قبول فرمایا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ سچی خبر دیتا ہے، ایک عظیم بیع اور ایک بہت بڑے معاوضے کا سچا وعدہ کرتا ہے اور وہ بیع یہ ہے کہ ﴿اشْتَرَىٰ﴾ ” اس نے خرید لیا۔“ یعنی اللہ نے بنفس نفیس خرید لیا ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم ﴾ ” مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو“ یعنی ان کی جان اور ان کے مال کی قیمت لگا دی گئی ہے اور یہ فروخت شدہ مال تجارت ہے۔ ﴿بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ ” اس کے بدلے میں ان کے لئے (وہ) جنت ہے“ جس میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی انواع و اقسام کی لذتیں، فرحتیں، مسرتیں، خوبصورت حوریں اور دلکش مکانات ہوں گے۔
اس عقد و بیع کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں، اس کے کلمہ کو سر بلند کرنے اور اس کے دین کو غالب کرنے کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کرتے ہیں۔ ﴿يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ﴾ ” وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں، پس مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں“ یہ عقد و بیع بہت سی تاکیدات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی ہے ﴿وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ﴾ ”وعدہ ہوچکا ہے اس کے ذمے سچا، تورات میں، انجیل میں اور قرآن میں۔“ جو ان تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ کتاب ہے اور یہ کتابیں سب سے کامل کتابیں ہیں جو اس دنیا میں بھیجی گئیں اور ان کتابوں کو لانے والے سب سے کامل اور اولوالعزم رسول ہیں، یہ تمام کتابیں اس سچے وعدے پر متفق ہیں۔
﴿وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا﴾ ” اور کون ہے اللہ سے زیادہ قول کا پورا، پس خوشی کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر قائم رہنے والے مومنو ! ﴿بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ﴾ ” اس سودے پر جو تم نے اس سے کیا ہے“ تاکہ تم راضی اور خوش ہوجاؤ، ایک دوسرے کو خوشخبری دو اور ایک دوسرے کو جہاد کی ترغیب دو ﴿ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” اور یہی بڑی کامیابی ہے۔“ جس سے بڑی اور جلیل القدر اور کوئی کامیابی نہیں، کیونکہ یہ کامیابی ابدی سعادت، دائمی نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا، جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے، کو متضمن ہے۔
اگر آپ اس معاہدہ بیع کی قدر و منزلت کو جاننا چاہیں تو خریدار کی طرف دیکھیں کہ وہ کون ہے؟ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور اس عوض کی طرف نظر کریں جو سب سے بڑا معاوضہ ہے اور اس معاوضے میں سب سے جلیل القدر چیز جنت ہے اور اس قیمت پر غور کریں جو اس معاوضے کے بدلے میں خرچ کی گئی ہے اور وہ ہے جان اور مال جو انسان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب چیز ہے اور اس ہستی کی طرف دیکھیں جس کے ہاتھ پر یہ معاہدہ بیع منعقد ہوا ہے، وہ تمام رسولوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی ہے۔ یہ معاہدہ کون سی کتابوں میں رقم کیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی عظیم کتابوں میں یہ معاہدہ تحریر کیا گیا ہے جو مخلوق میں سب سے افضل ہستیوں پر نازل کی گئی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
waqiaa yeh hai kay Allah ney mominon say unn ki janen aur unn kay maal iss baat kay badlay khareed liye hain kay jannat unhi ki hai . woh Allah kay raastay mein jang kertay hain , jiss kay nateejay mein maartay bhi hain , aur martay bhi hain . yeh aik sacha wada hai jiss ki zimma daari Allah ney toraat aur injeel mein bhi li hai , aur Quran mein bhi . aur kon hai jo Allah say ziyada apney ehad ko poora kernay wala ho-? lehaza apney uss soday per khushi manao jo tum ney Allah say kerliya hai . aur yehi bari zabardast kamiyabi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کرچکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا۔ یعنی وہ خریدو فروخت جسے وہ پہلے سے کرچکا تھا اس نے پوری کی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت ! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کرلی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔ جس نے اس خریدو فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔