اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَـنُوْنَ فِىْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں
English Sahih:
Do they not see that they are tried every year once or twice but then they do not repent nor do they remember?
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
کیا انہیں نہیں سوجھتا ک ہ ہر سال ایک یا دو بار آزمائے جاتے ہیں پھر نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت مانتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ آزمائے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں (١) پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔
١٢٦۔١ یفتنون کے معنی ہیں آزمائے جاتے ہیں۔ آفت سے مراد یا تو آسمانی آفات ہیں مثلًا قحط سالی وغیرہ (مگر یہ بعید ہے) یا جسمانی بیماریاں اور تکالیف ہیں یا غزوات ہیں جن میں شرکت کے موقع پر ان کی آزمائش ہوتی تھی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے یہ مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ ہر سال ایک یا دو بار بلا میں پھنسا دیئے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا (یہ لوگ) نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ انہیں ہر سال ایک دو مرتبہ بلا میں مبتلا کیا جاتا ہے پھراس کے بعد بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ عبرت حاصل کرتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک بار یا دو بار مصیبت میں مبتلا کئے جاتے ہیں پھر (بھی) وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
عذاب سے دوچار ہونے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا
یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضروری وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے۔ کبھی قحط سالی ہے کبھی جنگ ہے، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بےچین ہو رہے ہیں۔ فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے۔ بخیلی عام ہو رہی ہے۔ ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آرہا ہے۔ جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نے مانیں وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے۔ ان کی اس بےایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کردیئے۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپروا ہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا