التوبہ آية ۷۳
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْـكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْۗ وَ مَأْوٰٮهُمْ جَهَـنَّمُۗ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ
طاہر القادری:
اے نبی (معظم!) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہے،
English Sahih:
O Prophet, fight against the disbelievers and the hypocrites and be harsh upon them. And their refuge is Hell, and wretched is the destination.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی) جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پر اور ان پر سختی کرو، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی،
3 Ahmed Ali
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے لڑائی کر اوران پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، (١) اور ان پر سخت ہو جاؤ (٢) ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے۔
٧٣۔١ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ و نصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے
٧٣۔٢ سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کر سکتے تھے نہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔
٧٣۔٣ جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو۔ اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا ٹھکانہ دورخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے، جو نہایت بدترین جگہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں۔ اور ان پر سختی کریں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر !کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جہنّم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
آیت نمبر ٧٣ تا ٨٠
ترجمہ : اے نبی کافروں کے ساتھ تلوار سے اور منافقوں کے ساتھ زبان وبرہان سے جہاد کیجئے، اور ان منافقوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور خفگی کے ذریعہ سختی سے پیش آئیے، (آخر کار) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے اور منافق اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ گالی کی جو بات ہماری طرف سے آپ کو پہنچی ہے وہ ہم نے نہیں کہی، حالانکہ یقینا وہ کافرانہ بات انہوں نے کہی، اور اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے یعنی اسلام ظاہر کرنے کے بعد انہوں نے کفر ظاہر کیا، اور انہوں نے اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کے ارادہ سے تبوک سے لوٹتے وقت لیلة العقبہ میں کرنا چاہتے تھے اور وہ دس سے کچھ زائد لوگ تھے، اور عمار بن یاسر نے ان کی سواریوں کے منہ پر مار مار کر ان کو رخ پھیر دیا، جب وہ ڈھانٹے مار کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یکبارگی چڑھ آئے اور ان (منافقوں کو) جو بات ناپسند آئی وہ صرف یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل (و عنایت) سے مال غنیمت کے ذریعہ ان کی شدید حاجت کے وقت غنی کردیا حاصل یہ ہے کہ ان (منافقوں) کو اس کی طرف سے جو کچھ پہنچا وہ اس کے سوا کچھ نہیں تھا، اور یہ ایسی بات نہیں کہ جس سے اظہار ناراضگی کیا جائے، اگر یہ لوگ نفاق سے توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر یہ لوگ ایمان سے اعراض کریں گے تو اللہ ان کو دنیا میں قتل کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ دردناک عذاب دے گا اور دنیا میں ان کا نہ کوئی یار ہوگا جو ان کی (اس کے عذاب سے) حفاظت کرسکے اور نہ مددگار جو ان کو بچا سکے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر ہمیں (اللہ) اپنے فضل سے (دولت) عطاء کرے گا تو ہم ضرور صدقہ (و خیرات کیا) کریں گے (لنصدقنّ ) میں دراصل تاء کا صاد میں ادغام ہے اور صالحین میں سے ہوجائیں گے اور یہ شخص ثعلبہ بن حاطب تھا کہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی تھی کہ آپ میرے لئے دعاء فرما دیا کہ اللہ مجھے خوب دولتمند کر دے، اور میں اس مال سے ہر حقدار کا حق ادا کردوں، چناچہ آپ نے دعاء فرما دی جس کی وجہ سے اس کے لئے فراخی کردی گئی تو وہ جمعہ و جماعت کا بھی تارک ہوگیا، اور زکوٰة دینی بند کردی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، جب ان کو اس نے اپنے فضل سے (مال) عطا کردیا تو اس میں بخیلی کرنے لگے اور اللہ کی اطاعت سے بھی روگردانی کرنے لگے حال یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اعراض کرنے والے ہی ہیں (اس بخل) کا انجام یہ ہوا کہ ان کے قلوب میں اللہ کے روبرو پیشی کے وقت تک کے لئے نفاق پیوست کردیا گیا، اور وہ قیامت کا دن ہے، اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافی کی اور اس وجہ سے کہ وہ عہد کے بارے میں جھوٹ بولتے رہے پھر اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں زکوٰة (کا مال) لے کر حاضر ہوا، تو آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے منع کردیا ہے کہ میں تیرا مال قبول کروں، تو اس نے اپنے سر پر خاک ڈالنی شروع کردی، پھر اس (مال زکوٰة) کو ابوبکر صدیق کے پاس لے گیا تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں (مال زکوٰة لے کر) حاضر ہوا، آپ نے بھی قبول نہ کیا، اس کے بعد حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، اس کا انتقال حضرت عثمان (رض) کے عہد خلافت میں ہوا، کیا منافق جانتے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی راز کی باتوں کو جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور ان سرگوشیوں کو جن کو وہ آپس میں کرتے ہیں جانتا ہے، یقینا اللہ ان مغیبات کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، اور جب آیت (خُذْ مِنْ اَمْوالھم) نازل ہوئی تو ایک شخص (حضرت عبد الرحمن بن عوف) آئے اور بڑی مقدار (چار ہزار دینار) صدقہ کیا تو منافقوں نے کہا ریاکار ہے، اور ایک دوسرے شخص (حضرت ابو عقیل انصاری) آئے انہوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو (منافقوں) نے کہا اللہ تو اس (قلیل صدقہ) سے مستغنی ہے، تو آئندہ آیت (الذین یلمزون الخ) نازل ہوئی، اور ان (دولتمند منافقوں) کو بھی خوب جانتا ہے (الذین) مبتداء ہے، جو خوش دلی سے دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں (صدقات) پر باتیں بگھارتے ہیں (نکتہ چینی) کرتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہ خدا میں دینے کے لئے) اس کے سوا کچھ نہیں جو وہ محنت مزدوری کر کے لاتے ہیں تو یہ (دولتمند) ان کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ نے بھی ان کا مذاق اڑایا یعنی ان کے مذاق اڑانے کا بدلہ دیا، (سخر اللہ منھم) مبتداء کی خبر ہے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ایسے لوگوں کے لئے معافی طلب کرو یا نہ کرو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے، آپ نے فرمایا مجھے (استغفار کرنے یا نہ کرنے) کا اختیار دیا گیا تو میں نے استغفار کو اختیار کیا، (رواہ البخاری) اگر تم ستر مرتبہ بھی ان لوگوں کو معاف کرنے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا اور ستر کے عدد سے کثرت استغفار میں مبالغہ کرنا مقصود ہے اور بخاری شریف میں ایک حدیث ہے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اگر میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں تو وہ معاف کردے گا تو میں اس سے زیادہ کرتا، اور کہا گیا ہے کہ (ستر کا) عدد مخصوص مراد ہے بخاری کی حدیث کی وجہ سے کہ میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سواء علیھم استغفرت لھم اَمْ لَمْ تستغفرلھم، کے ذریعہ بتادیا گیا کہ ان سے مغفرت کو کاٹ دیا گیا ہے، اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہنمائی نہیں فرماتے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : المنفقون، (مفاعلة) اسم فاعل جمع مذکر غائب مرفوع، دو رخی کرنے والا شریعت کی اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو زبان سے اسلام کا اقرار کرے مگر دل میں اس کے برخلاف ہو، نفق کے اصل معنی خرچ ہوجانے اور چلے جانے کے ہیں، نَفَقَتِ الدراھم، روپیہ سب ختم ہوگیا، نافِقاء (ضَبّ ) گوہ کابل، سوراخ، جس کے کم از کم دو دہانے ہوتے ایک دہانے سے داخل ہوتی ہے شکاری اس سوراخ کی طرف متوجہ رہتا ہے گوہ دوسرے سوراخ سے نکل کر باہر چلی جاتی ہے منافق بھی زبانی اقرار سے اسلام میں داخل ہوتا ہے مگر ولی عقیدہ کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں منافق مردوں کی تعداد (٣٠٠) اور منافق عورتوں کی تعداد (١٧٠) تھی۔ (جمل)
قولہ : بعضھم من بعض، بعضھم مبتداء ہے اور من بعض اس کی خبر ہے اور مِنْ اتصالیہ ہے۔
قولہ : یقبضون ایدیھم، قبض ید، بخل سے کنایہ ہے حقیقةً مٹھی بند کرنا مراد نہیں ہے اسی طرف مفسر علام نے عن الانفاق فی الطاعة کہہ کر اشارہ کیا ہے۔
قولہ : ترکوا طاعتہ دونوں جگہ نسیان سے اس کے لازم معنی یعنی ترک مراد ہیں، اول جگہ اس لئے کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہے اور نہ قابل مذمت اور دوسری جگہ اس لئے کہ نسیان کی نسبت اللہ کی طرف محال ہے لہٰذا لازم معنی یعنی محروم کرنا مراد ہیں۔
قولہ : انتم ایّھا المنافقون، اس میں اشارہ ہے کہ کاف، کالذین میں مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے نہ کہ فعل محذوف کی وجہ سے محل نصب میں۔
قولہ : کخوضھم یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : منافقین کے خوض کو کفار کی ذوات کے ساتھ تشبیہ درست نہیں ہے اس لئے کہ خوض صفت ہے اور کفار ذوات۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے اور وہ مصدر ہے، ای خضتم خوضاً کخوضھم۔
قولہ : المؤتفکت، یہ مؤتفکة کی جمع ہے ایتفاک، (افتعال) مصدر ہے، اِفک مادہ ہے الٹی ہوئی، زیروزبر کی ہوئی مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں، جو بحر مردار کے ساحل پر آباد تھیں، جس کا مرکزی شہر سندوم یا سدوم تھا۔
قولہ : فکذبوھم اس اضافہ کا مقصد فما کان اللہ لیظلمھم کے عطف کو درست کرنا ہے تاکہ فاء تعقیبیہ کے ذریعہ عطف درست ہوجائے
تفسیر وتشریح
شان نزول : سابقہ آیات میں منافقوں کا حال اور ان کا انجام اس کے بعد مومنوں کے اوصاف اور آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ کا بیان تھا، اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کفار اور منافقوں سے جہاد کرو، خطاب اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر حکم پوری امت کو ہے اور یہ بھی حکم فرمایا کہ اپنی عادت کے خلاف ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے اطوار بیان فرمائے کہ ان کی عادت یہ ہے کہ ایک بات کہہ کر مکر جاتے ہیں، اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، چناچہ ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ اور کافرانہ کلمے نکالے جب اس کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو صاف انکار کردیا، اس آیت کے شان نزول کے بارے میں مفسرین نے کئی سبب بیان کئے ہیں۔
پہلا سبب : کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت جلاس بن سوید بن صامت اور ودیعہ بن ثابت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کی مذمت کے بارے میں بکثرت آیات کا نزول ہونے لگا تو منافقوں نے کہا کہ اگر محمد کا کہنا ہمارے بھائیوں کے بارے میں کہ جو غزوہ میں شریک نہیں ہوئے ہیں صحیح ہے اگر وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں تو پھر تو ہم گدھے ہیں، عامر بن قیس رضی (رض) نے کہا اس میں کیا شک ہے واللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق ومصدوق ہیں اور تو گدھے سے بھی بدتر ہے، اور عامر بن قیس نے اس کی اطلاع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی کردی، جب جلاس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی کہی ہوئی بات سے مکر گیا اور قسم کھا گیا کہ عامر بن قیس جھوٹا ہے اور عامر نے قسم کھائی کہ واللہ اس نے ایسا ہی کہا تھا اور دعا کی اللھم انزل علی نبیک شیئا \&\& فنزلت، عامر بن قیس نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ تو اس بارے میں اپنے نبی پر کچھ نازل فرما، چناچہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کے سننے والے عاصم بن عدی تھے اور بعض نے کہا ہے حذیفہ بن یمان تھے۔
دوسرا سبب : کہا گیا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جبکہ اس نے غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت یہ بات کہی تھی کہ ہماری مثال تو محمد کے بارے میں ایسی ہے جیسی کہ کسی نے کہا ہے سمِّن کلبکَ یا کلکَ \&\& لئن رجعنا الی المدینة لیخرجنَّ الاعزّ منھا الاذل \&\& کہاوت مشہور ہے کہ کتے کو کھلا پلا کر موٹا کر اور تجھ ہی کو کاٹنے کو آئے، وطنی زبان میں کہا جاتا ہے \&\& ہماری بلی ہم کو ہی کو میاؤں \&\& مدینہ پہنچ کر عزت دار ذلت وارذلت دار کو نکالدے گا، اس کی اطلاع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا تو صاف انکار کردیا اور قسم کھا گیا کہ اس نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔
تیسرا سبب : ایک روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی گم ہوگئی مسلمان اس کو تلاش کر رہے تھے اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں مگر اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ؟
وھمّوا بما لم ینالوا الخ یہ اشارہ ان سازشوں کی طرف ہے جو منافقوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر کی تھی، ان میں ایک سازش کے واقعہ کو محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر مسلمانوں کا لشکر جب ایسے مقام پر پہنچا کہ جہاں سے راستہ پہاڑوں کے درمیان درے سے گذرتا تھا تو بعض منافقین نے طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں گذرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گڑھے میں پھینک دیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوگئی آپ نے تمام اہل لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمار بن یاسر اور حذیفہ بن یمان کو ساتھ لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے اثناء راہ یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ آدمی ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں یہ دیکھ کر حضرت حذیفہ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں مگر وہ دور ہی سے حذیفہ (رض) کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں پہچان نہ لئے جائیں فوراً بھاگ نکلے۔
دوسری سازش : جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ منافقوں کو رومیوں کے مقابلے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ساتھیوں کو بخیریت بچ کر واپس آنے کی امید نہیں تھی اس لئے انہوں نے آپس میں طے کرلیا تھا کہ جوں ہی ادھر کوئی سانحہ پیش آئے ادھر مدینہ میں عبد اللہ بن ابی کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے، مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سازشیں جن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھیں ان میں سے ایک مقصد بھی ان کو حاصل نہیں ہوا ؟ رکوع کے آغاز ہی میں ایک اہم ہدایت ہے کہ کفار و منافقین سے تلوار اور زبان سے جہاد کر اور سختی سے پیش آئو جس کا حکم مسلمانوں کو دیا جانا ضروری تھا اس کے بغیر اسلامی معاشرہ کو تنزل وانحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا تھا، کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستین میں بٹھائے جاتے ہوں اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لئے پھرتا ہے اس کو آزادی سے چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرہ میں ڈالنا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس گروہ کے ساتھ سختی کا معاملہ کر کے ان کو مخلصین سے بالکل الگ تھلگ کردیا جائے۔
وَمَا نقموا اِلاَّ اَنْ اغنھم اللہ ورسولہ من فضلہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا، اور اوس اور خزرج کے قبیلے مال یا جان کے لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتے تھے، مگر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر یہی متوسط قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا، وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان اور اکابر بن گئے، اور ہر طرف سے فتوحات، غنائم اور تجارت کی برکات اس کے مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں، اللہ تعالیٰ منافقین کو اسی پر شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں، یہ کلمہ بطور طنز فرمایا گیا ہے یعنی تم احسان فراموش ہو، احسان مند ہونے کے بجائے عداوت رکھتے ہو۔
الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین، غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہنگامی چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مالدار منافقین ہاتھ روک کر بیٹھے رہے، مگر جو مخلصین اہل ایمان تھے بڑھ چڑھ کردینے لگے تو ان لوگوں نے ان پر آوازیں کسنی شروع کردیں، اگر کوئی ذی استطاعت مسلمان (مثلا عبد الرحمن بن عوف وغیرہ) اپنی حیثیت کے مطابق بڑی رقم پیش کرتا تو اس پر ریا کاری کا الزام لگاتے اور اگر کوئی غریب مسلمان (مثلاً ابو عقیل وغیرہ) اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی رقم پیش کرتا یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کرتا یہ اس پر آوازیں کستے کہ لو یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کئے جائیں، تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہیں گذری تھی کہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کا انتقال ہوگیا اس کے بیٹے عبداللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمان تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لئے آپ کا کرتہ مانگا، آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عنایت کردیا، پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائیں آپ اس کے لئے بھی تیار ہوگئے حضرت عمر نے باصرار عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جو ایسا ایسا کرچکا ہے مگر آپ ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے، اور اس رحمت کی بنا پر جو سب کے لئے عام تھی آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں دعاء مغفرت کرنے میں بھی تامل نہ کیا آخر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھانے کھڑے ہو ہی گئے تو آیت نازل ہوئی اور براہ راست حکم خداوندی سے آپ کو نماز پڑھانے سے روک دیا گیا۔
استغفر لھم اولا تستغفر لھم الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی ہے کہ ان منافقوں کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے اور ایسے لوگوں کی مغفرت نہ ہونے کا اللہ کا وعدہ ہے اس لئے یہ لوگ ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے لئے دعاء مغفرت کی جائے، لہٰذا اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے تو بھی خدا ان کو معاف نہ کرے گا، اس لئے کہ استغفار تو گنہگاروں کے حق میں سود مند ہوتا ہے نہ کہ اس کے لئے جو خدا اور رسول کے ساتھ کفر کر کے بغیر توبہ کے مرگیا اور نہ ان کے زندوں کو توبہ پر مجبور کیا جائے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے حق میں استغفار کرنے اور نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو آپ نے فرمایا میں ستر بار سے زیادہ ان کے لئے استغفار کروں گا شاید خدا انہیں معاف کر دے، اس پر اللہ تعالیٰ نے خفگی کے ساتھ فرمایا کہ استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے خاتمہ کا حال معلوم ہے لہٰذا ان کی مغفرت نہ ہوگی یہ خفگی کی آیت سورة منافقون میں ہے۔
ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ شعبی سے یوں روایت کی ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی قریب المرگ ہوا تو اس کا بیٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے معلوم کیا تیرا کیا نام ہے اس نے کہا حباب بن عبد اللہ آپ نے فرمایا حباب شیطان کا نام ہے اب تیرا نام عبداللہ بن عبداللہ ہے اور پھر آپ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اپنا کرتہ اسے پہنایا، اور آپ نے اس کے واسطے مغفرت کی دعاء فرمائی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ﴾ ” اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں“ بھرپور جہاد ﴿وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان پر سختی کریں۔“ جہاں حالات سختی کا تقاضا کریں وہاں سختی کیجیے۔ اس جہاد میں تلوار کا جہاد اور حجت و دلیل کا جہاد سب شامل ہیں۔ پس جو جنگ کرتا ہے اس کے خلاف ہاتھ، زبان اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے جہاد کیا جائے اور جو کوئی ذمی بن کر یا معاہدہ کے ذریعے سے اسلام کی بالا دستی قبول کرتا ہے، تو اس کے خلاف دلیل و برہان کے ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ اس کے سامنے اسلام کے محسن اور کفر و شرک کی برائیاں واضح کی جائیں۔ پس یہ تو وہ رویہ ہے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ﴿وَ﴾ اور آخرت میں، تو ﴿وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ﴾ ” اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے“ یعنی ان کی جائے قرار جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ ﴿وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾ ” اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! kafiron aur munafiqon say jihad kero , aur unn per sakhti kero . unn ka thikana jahannum hai , aur woh boht bura thikana hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
چار تلواریں ؟
کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا۔ مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے ( آیت فاذا انسلح الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو۔ دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے ( قاتلوا الذین لایومنون الح، ) جو اللہ پر قیامت کے دن ایمان نہیں لاتے اللہ رسول کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے۔ دین حق کو قبول نہیں کرتے ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔ تیسری تلوار منافقین ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ( آیت جاھد الکفار والمنافقین) کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے (آیت فقاتلو اللتی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آجائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہئے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے۔ ابن عباس فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے۔ مجاہد کا بھی تقریبا یہی قول ہے۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کرلے۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کرچکے ہیں۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہوگئی۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو وہی مثال ہے کہ " اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے " واللہ اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے۔ ایک مسلمان نے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ گفتگو دہرادی۔ آپ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زید بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ پس حضرت انس (رض) نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زید کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں حضرت زید نے کہا واللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے۔ پھر آپ نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گوش گذار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زید کی سچائی بیان فرمائی۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہوگیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کردیا ہو۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو۔ اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم۔ مغازی اموی میں حضرت کعب بن مالک (رض) کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق موخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا انمیں سے بعض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی تھے۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں حضرت عمیر بن سعد (رض) یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے، رسوائی یقینا ہلاکت سے ہلکی چیز ہے۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اس پر یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کرلی اور درست ہوگئے یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب (رض) کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر کروں گا فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آجائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کردیا جاؤں چناچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مع اپنے ڈر کے سنا دی۔ ابن جریر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو ؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسالفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری۔ اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بات کہہ دی تھی قتل کر دے۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اسے سرداربنا دیں گو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی نہ ہوں۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا۔ چناچہ حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں میں اور حضرت عمار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں للکارا اور وہ دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے آپ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں آپ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے ؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے۔ ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کرکے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا۔ اسکی راہ کوئی نہ آئے حضرت حذیفہ (رض) آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار (رض) پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آگئی حضرت عمار (رض) نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کردیا جب نیچے میدان آگیا آپ سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار (رض) بھی واپس پہنچ گئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچان بھی ؟ حضرت عمار (رض) نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں پوچھا انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو ؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں۔ ایک شخص سے حضرت عمار (رض) نے انکی تعداد دریافت کی تو اسنے کہا چودہ۔ آپ نے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا۔ حضرت عمار (رض) فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی۔ امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار (رض) کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتادو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا۔ گرمی کا موسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہوگا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا۔ اسی باعث حضرت حذیفہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز دار کہا جاتا تھا آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبداللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید، طائی اوس بن قیطی، حارث بن سوید، سفیہ بن دراہ، قیس بن فہر، سوید، داعن قبیلہ بنو جعلی کے، قیس بن عمرو بن سہل، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا۔ اگر ان پر اللہ کا پورا فضل ہوجاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہوجاتی جیسے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی۔ تم فقیر بےنوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کردیا۔ ہر سوال کے جواب میں انصار (رض) فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس سے زیادہ احسان ہے۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بےقصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بےایمانی پر اتر آئے۔ جیسے سورة بروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کردیا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی قتل، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابل برداشت عذاب کی سزا بھی۔ دنیا میں کوئی نہ ہوگا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔