اور جب وہ (دوزخ کے گڑھے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آسکے گا
وما یغنی عنہ مالہ اذا تردی یعنی جس مال کی خاطر یہ کمبخت حقوق واجبہ میں بخل کیا کرتا تھا یہ مال ان پر عذاب آنے کے وقت کچھ کام نہ دے گا تردی کے لفظی معنی گڑھے میں گر جانے اور ہلاک ہونے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ موت کے بعد قبر میں اور پھر قیامت میں جب وہ جہنم کے گڑھے میں گرتا ہوگا تو یہ مال اس کو کچھ نفع نہیں دے گا۔ (معارف)
صحابہ کرام (رض) جہنم سے محفوظ ہیں :
اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو ان حضرات سے گناہ کا صدور شاذ و نادر ہی ہوا ہے اور بوجہ خوف آخرت کے ان کے حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی ہوگی علاوہ ازیں ان کے ایک گناہ کے مقابل ہمیں ان کے اعمال حسنہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی وجہ سے بھی یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے جیسا کہ خود قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ” ان الحسنات یذھبن السیئات “ یعنی نیک اعمال برے اعمال کا کفارہ بن جاتے ہیں اور خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں رہنا ایسا عمل ہے کہ جو تمام اعمال حسنہ پر غالب ہے حدیث میں صلحاء امت کے بارے میں آیا ہے ” ھم قوم لایشقی جلیسھم ولایخاب انیسھم “ (صحیحین) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا شقی اور نامراد نہیں ہوسکتا اور جو ان سے مانوس ہو وہ محروم نہیں ہوسکتا تو جو شخص سید الانبیاء کا جلیس اور اینس ہو وہ کیسے شقی ہوسکتا ہے اسی لئے احادیث صحیحہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں کہ صحابہ کرام (رض) سب کے سب عذاب جہنم سے بری ہیں خود قرآن مجید میں صحابہ کرام (رض) کے بارے میں موجود ہے ’ وکلا وعد اللہ الحسنی “ یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے اللہ نے حسنی یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔