اور جس نے بخل کیا اور بےپروا رہا
واما من بخل الخ اس میں دوسرے گروہ کے تین اوصاف کا ذکر فرمایا، (١) راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے بخل کرنا (٢) خدا سے بےنیازی اختیار کرنا اور (٣) اچھی بات یعنی کلمہ ایمان کی تکذیب کرنا، مذکورہ دونوں گروہوں میں سے پہلے گروہ کے بارے میں فرمایا فستنیسرہ للیسریٰ ، یسر کے لفظی معین ہیں آرام دہ چیز جس میں مشقت نہ ہو اور مراد اس سے جنت ہے، اسی طرح اس کے مقابل دوسرے گروہ کے متعلق فرمایا فسنیسرہ للعسری، عسر کے معنی ہیں مشکل اور تکلیف دہ چیز مراد اس سے جہنم ہے، اور معنی دونوں جملوں کے یہ ہیں کہ جو لوگ اپنی سعی اور محنت پہلے تین کاموں میں لگاتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں خرچ اور اللہ سے ڈرنا اور ایمان کی تصدیق ان لوگوں کو یسریٰ یعنی اعمال جنت کے لئے آسان کردیتے ہیں اور جو لوگ یہ سعی اور عمل دوسرے تین کاموں میں خرچ کرتے ہیں ان کو ہم عسریٰ یعنی اعمال جہنم کے لئے آسان کردیتے ہیں، یہاں بظاہر مقتضائے مقام یہ کہنے کا تھا کہ ان کے لئے اعمال جنت یا اعمال دوزخ آسان کردیئے جائیں گے، کیوں کہ آسان یا مشکل ہونا اعمال ہی کی صفت ہو کستی ہے اس لئے کہ نہ خود ذوات اور اشخاص آسان ہوتے ہیں اور نہ مشکل مگر قرآن کریم نے اس کی تعبیر اس طرح فرمائی کہ خود ان لوگوں کی ذات اور وجود ان اعمال کے لئے آسان کردیئے جائیں گے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی طبیعتوں اور مزاجوں کو ایسا بنایا جائے گا کہ پہلے گروہ کے لئے اعمال جنت ان کی طبیعت بن جائیں گے ان کے خلاف کرنے میں وہ تکلیف محسوس کرنے لگیں گی، اسی طرح دوسرے گروہ کا مزاج ایسا بنادیا جائے گا کہ اس کو اعمال جہنم ہی پسند آئیں گے اور اعمال جنت سے نفرت ہوگی، ان دونوں گروہوں کے مزاجوں میں یہ کفیت پیدا کردینے کو اس سے تعبیر فرمایا کہ یہ خود ان کاموں کے لئے آسان ہوگئے۔