البینہ آية ۱
لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ۙ
طاہر القادری:
اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر ہو گئے اور مشرکین اس قت تک (کفر سے) الگ ہونے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل (نہ) آجاتی،
English Sahih:
Those who disbelieved among the People of the Scripture and the polytheists were not to be parted [from misbelief] until there came to them clear evidence
1 Abul A'ala Maududi
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آ جائے
2 Ahmed Raza Khan
کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل نہ آئے
3 Ahmed Ali
اہلِ کتاب میں سے کافر اور مشرک لوگ باز آنے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے
4 Ahsanul Bayan
اہل کتاب کے کافر (۱) اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے (وہ دلیل یہ تھی کہ)
١۔١ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں،
۱۔۲مشرک سے مراد عرب و عجم کے وہ لوگ ہیں جو بتوں اور آگ کے پجاری تھے۔ منفکّین باز آنے والے، بیّنۃ (دلیل) سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور عرب وعجم کے مشرکین اپنے کفرو شرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن لے کر آ جائیں اور وہ ان کی ضلالت و جہالت بیان کریں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ کافر ہیں (یعنی) اہل کتاب اور مشرک وہ (کفر سے) باز رہنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس کھلی دلیل (نہ) آتی
6 Muhammad Junagarhi
اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ﻇاہر دلیل نہ آجائے باز رہنے والے نہ تھے (وه دلیل یہ تھی کہ)
7 Muhammad Hussain Najafi
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ (اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس ایک واضح دلیل نہ آجائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اہل کتاب کے کفاّر اور دیگر مشرکین اپنے کفر سے الگ ہونے والے نہیں تھے جب تک کہ ان کے پاس کِھلی دلیل نہ آجاتی
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ کافر ہیں (یعنی) اہل کتاب اور مشرک وہ (کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل (نہ) آتی
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے یعنی بت پرست تھے (والمشرکین) کا عطف اھل پر ہے اور من اھل الکتاب میں من بیانیہ ہے، وہ (اپنے کفر سے) باز آنے والے نہیں تھے (منفکین) یکن کی خبر ہے، یعنی جس (کفر) پر وہ تھے اس کو چھوڑنے والے نہیں تھے تاآنکہ ان کے پاس واضح دلیل آجائے، یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول (رسول من اللہ) البینۃ سے بدل ہے اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جو ان کو باطل سے پاک صحیفے پڑھ کر سنائے، جن میں صحیح احکام مکتوب ہوں یعنی اس کے مضمون کو پڑھ کر سنائے اور وہ قرآن ہے، چناچہ ان میں سے بعض اس پر ایمان لائے اور ان میں سے بعض نے انکار کردیا اور اہل کتاب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے میں اختلاف نہیں کیا مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح بیان آچکا اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا قرآن ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لانے والے ہیں جو آپ کا معجزہ ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے پر متفق تھے، مگر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے تو آپ کا ان لوگوں نے انکار کردیا جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کیا اور ان کی کتابوں تو رات اور انجیل میں ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں، یعنی یہ کہ اس کی بندگی کریں، ان حذف کردیا گیا اور لام اس کی جگہ زیادہ کردیا گیا، اپنے دین کو اس کیلئے شرک سے خلاص کر کے دین ابراہیم اور دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر استقامت کے ساتھ اور نماز قائم کریں، اور زکوۃ ادا کریں یہی درست دین ہے اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیں گے اور (خالد ین) حال مقدرہ ہے یعنی اللہ کی طرف سے ان کے لئے جہنم میں ہمیشہ کے لئے دخول مقدر ہوچکا ہے یہی لوگ بدترین خلائق ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے وہ یقینا بہترین خلائق ہیں ان کا صلہ ان کے رب کے یہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اللہ ان سے ان کی طاعت کی وجہ سیر اضی ہوا اور وہ اس سے اس کے ثواب کی وجہ سے راضی ہوئے، یہ (صلہ) اس شخص کے لئے ہے جس نے اپنے رب کا خوف کیا یعنی اس کی سزا کا خوف کیا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ڈرا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ لم یکن الذین کفروا، الذین کفروا، یکن کا اسم ہے من بیانیہ ہے نہ کہ تبعیضیہ، من اھل الکتاب والمشرکین جملہ ہو کر کفروا کی ضمیر سے حال ہے، الذین اپنے صلہ سے مل کر یکن کا اسم ہے منفکین یکن کی خبر ہے،
قولہ :۔ منفکین، انفکاک سے اسم فاعل، باز آنے والے، جدا ہونے والے۔
سوال : منفکین کا مفعول کیا ہے ؟ اور اس کے حذف پر کیا دلیل ہے ؟
جواب : مفسر علام نے عماھم علیھم کہہ کر حذف مفعول کی طرف اشارہ کردیا اور وہ کفر ہے، اور دلیل حذف پر الذین کا صلہ کفروا ہے۔
سوال : اہل کتاب کے لئے کفروا ماضی اور مشرکین کے لئے المشرکین کو اسم فاعل لانے میں کیا نکتہ ہے ؟
جواب : اہل کتاب ابتداء سے کافر نہیں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر کے کافر ہوئے بخلاف مشرکین عرب کے کہ وہ شروع ہی سے کافر تھے۔
قولہ :۔ الحجۃ الواضحۃ یہ حذف موصوف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ :۔ یتلوا مضمون ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یتلوا صحفاً مطھرۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیفہ یعنی قرآن میں مکتوب کو پڑھ کر سناتے تھے، حالانکہ اس وقت مصحف میں کوئی چیز لکھی ہوئی نہیں تھی اور آپ زبانی پڑھ کر سناتے تھے ؟
جواب :۔ آیت حذف مضاف کے ساتھ ہے، ای یتلوا مضمون الصحف الذی یتضمنہ الصحف۔ (فتح القدیر شواکنی)
قولہ :۔ ان یعبدوہ یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : الا لیعبدوہ میں لام غرض کے لئے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کرانے کے لئے حکم دیا اور یہ استکمال بالغیر ہے جو کہ علامت نقس ہے جو خدا کی شان رفیع کے خلاف یہع ؟
جواب :۔ اصل میں ان یعبدوہ تھا، ان کو حذف کر کے لام لایا گیا ہے گویا اس طرح لام بمعنی ان ہے۔
قولہ :۔ دین القمیۃ یہاں بھی ایک سوال ہے۔
سوال : یہ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے جو کہ اضافت الشئی الی نفسہ کے مترادف ہے اور وہ غیر مستحسن ہے تو اس کو کیوں ذکر کیا ؟
جواب :۔ مفسر علام نے الملۃ محذوف مان کر اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دین اور ملت میں فرق اعتباری ہے لہٰذا اضافت الشئی الی نفسہ کا اعتراض لازم نہیں آتا۔
قولہ :۔ خالد بن فیھا حال مقدرۃ اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے یہاں دونوں کا زمانہ ایک نہیں ہے اس لئے خالدین ان کی خبر مذوف کی ضمیر سے حال ہے اور وہ مشرکون ہے مطلب یہ کہ ہم ان کے جہنم میں خلود کا اعتقاد رکھتے ہی، ظاہر ہے کہ اعتقاد کا زمانہ دنیا ہے اور خلود کا زمانہ آخرت ہے ؟
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کافروں کے خلود مقدر کا اعتقاد رکھتے ہیں، اعتقاد ہمارا کام ہے اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالنا اللہ کا کام ہے، اور اللہ کے جانب سے تقدیر کا زمانہ اور اعتقاد کا زمانہ ایک ہے، لہٰذا اس میں کوئی حرج اور اشکال نہیں۔
تفسیر و تشریح
اس سورت کا نام بینۃ قرار دیا گیا ہے، اس کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی ہے اور بعض دوسرے حضرات اس کو مدنی قرار دیتے ہیں، اس سورت میں اندرونی کوئی ایسی شہادت نہیں۔ کہ جو مدنی یا مکی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہو، ابن زبیر (رض) اور عطا بن یسار (رض) کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے، ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) کے دو قول ہیں ایک مکی ہونے کا اور دوسرا مدنی ہونے کا، ابو حیان بھی بحر محیط میں مکی ہونے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
سورت کا مضمون اور موضوع :
اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کے ساتھ رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا ؟ سب سے پہلے رسول بھیجنے کی ضرورت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے لوگ خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین جس کفر کی حالت میں مبتلا تھے اس سے ان کا نکلنا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ ایک ایسا رسول بھیجا جائے کہ جس کا وجود خود اپنی رسالت پر دلیل ہو اور وہ خدا کی کتاب کو لوگوں کے روبرو اس کی اصلی اور صحیح صورت میں پیش کرے، جو باطل کی ان تمام آمیزشوں سے پاک ہو جن سے پچھلی آسمانی کتابوں کو آلودہ کردیا گیا تھا۔
” اہل کتاب ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو کسی آسمانی کتاب کے ماننے والے ہوں، خواہ وہ کتاب ان کے پاس اصلیشکل میں باقی ہو یا محرف ہوچکی ہو، مثلاً یہود و نصاریٰ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہود و نصاریٰ پر لازم تھا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے مگر انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے اور آیت میں مشرکین سے مراد عام ہے خواہ بت پرست ہوں یا آتش پرست، غضری کہ اللہ کے علاوہ جو بھی کسی شئی کی پرستش کرتا ہو وہ کافر کا مصداق ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ﴾ ” نہیں ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے۔“ یعنی یہودونصارٰی میں سے ﴿وَالْمُشْرِكِينَ ﴾ اور مشرکین اور دیگر قوموں کی تمام اصناف میں سے ﴿مُنفَكِّينَ﴾ ” باز آنے والے۔ “ یعنی یہ سب اپنے کفر اور ضلالت سے جدا نہیں ہوں گے ، وہ اپنی گمراہی اور ضلالت میں بھٹکے رہیں گے اور مرور اوقات ان کے کفر پر اضافہ ہی کرے گا۔ ﴿ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ﴾ یہاں تک کہ ان کے پاس واضح دلیل اور نمایاں برہان آجائے۔ پھر ﴿الْبَيِّنَةُ ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
ehal-e-kitab aur mushrikeen mein say jo log kafir thay , woh uss waqt tak baaz aaney walay nahi thay jab tak kay unn kay paas roshan daleel naa aati
12 Tafsir Ibn Kathir
پاک و شفاف اوراق کی زینت قرآن حکیم :
اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں فرماتا ہے کہ یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے فی صحف مکرمتہ، الخ کہ وہ نامی گرامی بلندو بالا پاک صاف اوراق میں پاک باز نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا کہ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ابن زید فرماتے ہیں ان صحیفوں میں کتابیں ہیں استقامت اور عدل و انصاف والی پھر فرمایا کہ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختالف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوگئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے سو ایک کے سب جہنم میں جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ ایک کون ہے فرمایا وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پھر فرمایا کہ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں جیسے اور جگہ ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25) 21 ۔ الأنبیاء :25) ، یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو اسی لیے ہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر جیسے اور جگہ ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36) 16 ۔ النحل :36) ، یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو حنیف کی پوری تفسیر سورة انعام میں گذر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں۔ پھر فرمایا نمازوں کو قائم کریں جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلی عبادت ہے اور زکوٰۃ دیتے رہیں یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں یہی دین مضبوط سیدھا درست عدل والا اور عمدگی والا ہوے بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری، امام شافعی، وغیرہ نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے۔