بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کرتے رہے یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
English Sahih:
Indeed, they who have believed and done righteous deeds and humbled themselves to their Lord – those are the companions of Paradise; they will abide eternally therein.
1 Abul A'ala Maududi
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
3 Ahmed Ali
البتہ جولوگ ایمان لائے اورنیک کام کیے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کی وہ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے اور اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔ یہی صاحب جنت ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں، جہاں وه ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور عجز و نیاز کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور جھک گئے یہی لوگ جنتی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش آئے وہی اہل جّنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے اور اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی یہی صاحب جنت ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے (بدبختوں کا حال اور اللہ کے ہاں ان کی جزابیان کرنے کے بعد خوش بخت لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے) فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اصول دین اور اس کے قواعد پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو انہوں نے ان امور کا اعتراف کیا اور ان کی تصدیق کی۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور عمل نیک کئے۔“ جو اعمال قلوب، اعمال جوارح اور اقوال لسان پر مشتمل ہیں۔ ﴿وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ﴾ ” اور عاجزی کی انہوں نے اپنے رب کے سامنے“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے فرافگندہ ہوگئے، اس کی قوت و اقتدار کے سامنے تذلل اور انکساری اختیار کی، اپنے دل میں اس کی محبت، اس کا خوف اور اس پر امیدیں رکھتے ہوئے اس کی طرف لوٹے اور اس کے حضور اپنی عاجزی اور بے مائیگی کا اظہار کیا ﴿أُولَـٰئِكَ ﴾ ” یہی“ یعنی وہ لوگ جن میں یہ تمام صفات جمع ہیں ﴿أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ ” جنتی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ کیونکہ بھلائی کا کوئی ایسا مقصد نہیں جو انہوں نے حاصل نہیں کیا اور کوئی ایسی منزل نہیں جس کی طرف انہوں نے سبقت نہ کی ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( doosri taraf ) jo log emaan laye hain , aur unhon ney naik amal kiye hain , aur woh apney perwerdigar kay aagay jhuk ker mutmaeen hogaye hain , to woh jannat kay basney walay hain . woh hamesha ussi mein rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ بروں کے ذکر کے بعد اچھے لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے، جن کے جسمانی اعضا فرماں برداری کرنے والے تھے، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے۔ بلند وبالا بالا خانے، بچھے بچھائے تخت، چکھے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے ابھرے فرش، خوبصورت بیویاں، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا، نہ بیماری، نہ غفلت، نہ رفع حاجت ہوگی، نہ تھوک، نہ ناک مشک، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا۔ اور سنتے میں ہے کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے۔ وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا۔ اس کے برخلاف مومن سمجھ دار، ذکی، عاقل، عالم، دیکھتا، بھالتا، سوچتا، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا۔ بھلائی لے لیتا، برائی چھوڑ دیتا، دلیل اور شبہ میں فرق کرلیتا اور باطل سے بچتا، حق کو مانتا۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں ؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے۔ ارشاد ہے ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20) 59 ۔ الحشر :20) دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بلکل کامیاب ہیں اور آیت میں ہے اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، اندھیرا اور اجالا برابر نہیں، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا۔ تو تو صرف آ گاہ کردینے والا ہے۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہوچکا ہے۔