شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق (بھی) عطا فرمایا (تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں؟)، اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں، میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں،
English Sahih:
He said, "O my people, have you considered: if I am upon clear evidence from my Lord and He has provided me with a good provision from Him...? And I do not intend to differ from you in that which I have forbidden you; I only intend reform as much as I am able. And my success is not but through Allah. Upon Him I have relied, and to Him I return.
1 Abul A'ala Maududi
شعیبؑ نے کہا "بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
2 Ahmed Raza Khan
کہا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں او راس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں،
3 Ahmed Ali
کہا اے میری قوم دیکھو تو سہی اگر مجھے اپنے رب کی طرف سے سمجھ آ گئی ہے اور اس نے مجھے عمدہ روزی دی ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں اور مجھے تو صرف الله ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے (١) میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہارے خلاف کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں (٢) میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے (٣) میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے (٤) اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
٨٨۔١ رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ٨٨۔٢ یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ٨٨۔٣ میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔ ٨٨۔٤ یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لئے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا کہ اے قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں سے مجھے نیک روزی دی ہو (تو کیا میں ان کے خلاف کروں گا؟) اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی (کے فضل) سے ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں
6 Muhammad Junagarhi
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے، میرا یہ اراده بالکل نہیں کہ تمہارا خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں، میرا اراده تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ(ع) نے کہا میری قوم! مجھے غور کرکے بتاؤ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) روشن دلیل رکھتا ہوں اور پھر اس نے اپنی بارگاہ سے مجھے اچھی روزی بھی دی ہو (تو پھر کس طرح تبلیغِ حق نہ کروں؟) اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ جن چیزوں سے تمہیں روکتا ہوں۔ خود ان کے خلاف چلوں۔ میں تو صرف اصلاح (احوال) چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے۔ اور میری توفیق تو صرف اللہ کی طرف سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف (اپنے تمام معاملات میں) رجوع کرتا ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
شعیب نے کہا کہ اے قوم والو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں خدا کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے بہترین رزق عطا کردیا ہے اور میں یہ بھی نہیں چاہتا ہوں کہ جس چیز سے تم کو روکتا ہوں خود اسی کی خلاف ورزی کروں میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہو -میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی کی طرف میں توجہ کررہا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
انہوں نے کہا اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں سے مجھے نیک روزی دی ہو۔ (تو میں انکے خلاف کرونگا ؟ ) اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) مجھے تو فیق کا ملنا خدا ہی (کے فضل) سے ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ ﴾ جناب شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! بھلا بتاؤ، اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے“ یعنی خواہ مجھے اس وحی کی صحت پر یقین اور اطمینان ہو ﴿وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ﴾ ” اور اس نے روزی دی مجھ کو اچھی روزی“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے رزق کی مختلف اصناف عطا کر رکھی ہیں ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾ ” اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد میں خود وہ کام کروں جس سے میں تمہیں روکتا ہوں“ پس میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ناپ تول میں کمی سے منع کروں اور خود اس برائی کا ارتکاب کرتا رہوں اس کو سب سے پہلے خود ترک کرتا ہوں۔ ﴿إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ﴾ ” میں تو اصلاح کرنی چاہتا ہوں جہاں تک ہوسکے“ یعنی اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں کہ تمہارے احوال کی اصلاح ہو اور تمہارے منافع درست ہوں اور اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل کرنا میرا مقصد نہیں۔ حسب استطاعت میں کام کرتا ہوں اور چونکہ اس میں ایک قسم کے تزکیہ نفس کا دعویٰ ہے اس لئے قول کے ذریعے سے اس کو دور کیا ﴿وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ﴾ ” اور سب صرف اللہ کی توفیق سے ہے“ یعنی بھلائی کے کام کرنے اور شر سے بچنے کی توفیق مجھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ اس میں میری قوت و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” میں اسی پر توکل کرتا ہوں۔“ یعنی میں اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کے کافی ہونے پر مجھے اعتماد ہے۔ ﴿وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ ” اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ اس نے مختلف اقسام کی عبادات کا جو مجھے حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لئے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور ان دو امور کے ذریعے سے بندہ مومن کے احوال درست ہوتے ہیں : ١۔ اپنے رب سے مدد طلب کرنا ٢۔ اور اس کی طرف رجوع کرنا۔۔۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ﴾(ہود:11؍123) ” اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کر۔“ اور فرمایا : ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾(الفاتحة:1؍4) ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
shoaib ney kaha : aey meri qoam kay logo ! zara mujhay yeh batao kay agar mein apney perwerdigar ki taraf say aik roshan daleel per qaeem hun , aur uss ney khaas apney paas say mujhay acha rizq ata farmaya hai ( to phir mein tumharay ghalat tareeqay per kiyon chalun ? ) aur mera aisa koi irada nahi hai kay mein jiss baat say tumhen mana ker raha hun , tumharay peechay jaker wohi kaam khud kernay lagun . mera maqsad apni istataat ki hadd tak islaah kay siwa kuch nahi hai . aur mujhay jo kuch tofiq hoti hai , sirf Allah ki madad say hoti hai . ussi per mein ney bharosa ker rakha hai , aur ussi ki taraf mein ( her moamlay mein ) rujoo kerta hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
قوم کو تبلیغ آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیرت پر قائم ہوں اور اسی کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بہترین روزی دے رکھی ہے۔ یعنی نبوت یا رزق حلال یا دونوں، میری روش تم یہ نہ پاؤ گے کہ تمہیں تو بھلی بات کا حکم کروں اور خود تم سے چھپ کر اس کے برعکس کروں۔ میری مراد تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنی ہے۔ ہاں میرے ارادہ کی کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ اور توکل ہے اور اسی کی جانب رجوع توجہ اور جھکنا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے راویت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی مالک نے کہا کہ اے معاویہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے پڑوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے، تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمہاری بات چیت بھی ہوچکی ہے اور تمہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہچانتے بھی ہیں۔ پس میں اس کے ساتھ چلا۔ اس نے کہا کہ میرے پڑوسیوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رہا کر دیجئے وہ مسلمان ہوچکے تھے۔ آپ نے اس سے منہ پھر لیا۔ وہ غضب ناک ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا واللہ اگر آپ نے ایسا جواب دیا تو لوگ کہیں گے کہ آپ ہمیں تو پڑوسیوں کے بارے میں اور حکم دیتے ہیں اور آپ خود اس کے خلاف کرتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے ؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے ان پر تو نہیں۔ جاؤ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اور روایت میں ہے کہ اس کی قوم کے چند لوگ کسی شبہ میں گرفتار تھے۔ اس پر قوم کا ایک آدمی خاص حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ فرما رہے تھے۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کسی چیز سے اوروں کو روکتے ہیں اور خود اسے کرتے ہیں۔ آپ نے سمجھا نہیں۔ اس لیے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں حضرت بہزبن حکیم کے دادا کہتے ہیں میں نے بیچ میں بولنا شروع کردیا کہ اچھا ہے آپ کے کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے منہ سے میری قوم کے لیے کوئی بد دعا نکل جائے کہ پھر انہیں فلاح نہ ملے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اسی کوشش میں رہے یہاں تک کہ آپ نے اس کی بات سمجھ لی اور فرمانے لگے کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ؟ یا ان میں سے کوئی اس کا قائل ہے ؟ واللہ اگر میں ایسا کروں تو اس کا بوجھ بار میرے ذمے ہے ان پر کچھ نہیں۔ اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو ۔ اسی قبیل سے وہ حدیث بھی ہے جسے مسند احمد لائے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میری جانب سے کوئی ایسی حدیث سنو کہ تمہارے دل اس کا انکار کریں اور تمہارے بدن اور بال اس سے علیحدگی کریں یعنی متاثر نہ ہوں اور تم سمجھ لو کہ وہ تم سے بہت دور ہے تو میں اس سے اس سے بھی زیادہ دور ہوں۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ حضرت مسروق کہتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا آپ بالوں میں جوڑ لگانے کو منع کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا آپ کے گھر کی بعض عورتیں تو ایسا کرتی ہیں آپ نے فرمایا اگر ایسا ہو تو میں نے اللہ کے نیک بندے کی وصیت کی حفاظت نہیں کی۔ میرا ارادہ نہیں کہ جس چیز سے تمہیں روکوں اس کے برعکس خود کروں۔ حضرت ابو سلیمان ضبی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کے رسالے آتے تھے جن میں اوامر ونواہی لکھے ہوئے ہوتے تھے اور آخر میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ میں بھی اس میں ہی ہوں جو اللہ کے نیک بندے نے فرمایا کہ میری توفیق اللہ ہی کے فضل سے ہے۔ اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔