یوسف آية ۳۶
وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِۗ قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّىْۤ اَرٰٮنِىْۤ اَعْصِرُ خَمْرًا ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْۤ اَرٰٮنِىْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِىْ خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۗ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيْلِهٖ ۚ اِنَّا نَرٰٮكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ
طاہر القادری:
اور ان کے ساتھ دو جوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں (انگور سے) شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں،
English Sahih:
And there entered the prison with him two young men. One of them said, "Indeed, I have seen myself [in a dream] pressing [grapes for] wine." The other said, "Indeed, I have seen myself carrying upon my head [some] bread, from which the birds were eating. Inform us of its interpretation; indeed, we see you to be of those who do good."
1 Abul A'ala Maududi
قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا "میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں" دوسرے نے کہا "میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں" دونوں نے کہا "ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
اور اس کے ساتھ قیدخانہ میں دو جوان داخل ہوئے ان میں ایک بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتایے، بیشک ہم آپ کو نیکو کار دیکھتے ہیں
3 Ahmed Ali
اور اس کے ساتھ دو جوان قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرے نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھا رہا ہوں کہ اس میں سے جانور کھاتے ہیں ہمیں اس کی تعبیر بتلا ہم تجھے نیکو کار سمجھتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں (١)۔
٣٦۔١ یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک شراب پلانے پر معمور تھا اور دوسرا نان بھائی تھا، کسی حرکت پر دونوں کو قید میں ڈال دیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے، دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں دیگر تمام قیدیوں سے ممتاز تھے علاوہ ازیں خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم اور ملکہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ان دونوں نے خواب دیکھا تو قدرتی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف انہوں نے رجوع کیا اور کہا ہمیں آپ محسنین میں سے نظر آتے ہیں، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ محسن کے ایک معنی بعض نے یہ بھی کئے ہیں کہ خواب کی تعبیر آپ اچھی کر لیتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زندان ہوئے۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے (ہیں تو) ہمیں ان کی تعبیر بتا دیجیئے کہ ہم تمہیں نیکوکار دیکھتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یوسف (ع) کے ساتھ دو اور جوان آدمی بھی قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے لیے انگور کا رس) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوں۔ جن میں سے پرندے کھا رہے ہیں ہمیں ذرا اس کی تعبیر بتائیے ہم تمہیں نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور قید خانہ میں ان کے ساتھ دو جوان اور داخل ہوئے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اور دوسرے نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں لادے ہوں اور پرندے اس میں سے کھارہے ہیں -ذرا اس کی تاوہل تو بتاؤ کہ ہماری نظر میں تم نیک کردار معلوم ہوتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زنداں ہوئے۔ ایک نے دن میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا کیا ہوں کہ شراب (کے لئے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے ہیں (تو) ہمیں انکی تعبیر بتا دیجئے کہ ہم تمہیں نیکو کار دیکھتے ہیں۔
آیت نمبر ٣٦ تا ٤٢
ترجمہ : چناچہ (یوسف کو) جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کے ساتھ دو اور نوجوان بھی جیل خانہ میں داخل ہوئے جو بادشاہ کے غلام تھے، ایک ان میں سے بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا شاہی مطبخ کا ذمہ دار، ان دونوں کو معلوم ہوا کہ (یوسف) خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں تو دونوں نے مشورہ کیا کہ ہم اس کو ضرور آزمائیں گے، ان میں سے ایک نے جو کہ ساقی تھا کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے مطبخ کے ذمہ دار نے کہا میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے، ہم آپ کو نیک آدمی سمجھتے ہیں، (یوسف (علیہ السلام) نے) ان کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ خوابوں کی تعبیر سے واقف ہیں کہا کہ جو کھانے (پینے کی چیز) تم کو خواب میں کھلائی جاتی ہے بیدار ہونے کے بعد میں نے اس کی تعبیر بتادی اس کی تعبیر خارج میں ظاہر ہونے سے پہلے، یہ وہ علم ہے کہ جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے اس مقولہ میں ان دونوں کو ایمان پر آمادہ کرنا ہے پھر اسی کی تائید اپنے قول ” انی ترکت ملۃ الخ “ سے کی ہے میں نے تو ان لوگوں کا دین چھوڑ رکھا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ آخرت کے بھی منکر ہیں دوسرا ھم پہلے ھم کی تاکید ہے اور میں نے تو اپنے آباو اجداد ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کا دین اختیار کر رکھا ہے، ہمارے لئے ہماری عصمت کی وجہ سے کسی طرح زیبا نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریں، یہ توحید ہمارے اور تمام لوگوں پر اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ کہ وہ کافر ہیں اللہ کی شکر گزاری نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ شرک کرتے ہیں پھر صراحت کے ساتھ ان کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے کہا اے میرے قید خانہ کے رفیقو (تم خود ہی سوچو) کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا ایک کہ وہ اللہ ہے بہتر ہے، کہ جو (سب پر) غالب ہے استفہام تقریر کیلئے ہے اس کے علاوہ جن کی تم بندگی کرتے ہو ہو اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں اور اللہ نے ان کی عبادت پر کوئی سند اور دلیل نازل نہیں کی حکم (فیصلہ) صرف اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کا ہے اسی نے حکم دیا کہ صرف اسی کی بندگی کرو اور یہ توحید ہی صحیح دین ہے، لیکن اکثر لوگ اور وہ کافر ہیں اس عذاب کو نہیں جانتے جس کی طرف وہ جا رہے ہیں، اسی وجہ سے وہ شرک کرتے ہیں، اے میرے زندان کے ساتھیو ! تم میں سے ایک یعنی ساقی تین دن کے بعد (جیل سے) رہا کیا جائیگا، تو وہ حسب سابق اپنے مالک کو شراب پلائیگا یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے، اور دوسرا (بھی) تین دن کے بعد (جیل سے) رہا کیا جائیگا تو وہ سولی چڑھایا جائیگا پرندے اس کے سر کو (نوچ نوچ کر) کھائیں گے یہ اس کے خواب کی تعبیر ہے، تو ان دونوں نے کہا ہم نے کوئی خواب واب نہیں دیکھا، تو یوسف (علیہ السلام) نے کہا جس کا تم نے سوال کیا اس کا فیصلہ کردیا گیا خواہ تم نے سچ بولا یا جھوٹ بولا، اور دونوں میں سے جس کے بارے میں بری ہونے کا یقین تھا اس سے کہا اور وہ ساقی تھا، اپنے مالک سے میرا ذکر کرنا اور اس سے کہنا ایک غلام زندان میں ظلما بند ہے، چناچہ وہ (قید خانہ سے) رہا ہوگیا مگر شیطان نے ساقی کو اپنے مالک سے یوسف کا ذکر کرنا بھلا دیا جس کی وجہ سے یوسف قید میں کئی سال رہے کہا گیا ہے کہ سات سال رہے اور کہا گیا ہے کہ بارہ سال رہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فسجن اس حذف میں اشارہ ہے کہ واؤ عاطفہ ہے اور دخل کا عطف محذوف پر ہے اور محذوف سجن ہے۔
قولہ : الملک اس بادشاہ کا نام ریان بن الولید تھا۔
قولہ : ای عنبا یہ مایول الیہ کے اعتبار سے مجاز ہے لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ خمر نچوڑنے کی چیز نہیں ہے۔
قولہ : مخبرا انہ عالم بتعبیر الرؤیا، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کا جواب، سوال کے مطابق نہیں ہے۔
قولہ : فی منامکما، اس اضافہ کا مقصد اس تفسیر کو دفع کرنا ہے جو بعض مفسرین نے طعام ترزقانہ کی اس کھانے سے کی ہے جو کہ قیدیوں کو دیا جاتا تھا، اسلئے کہ اس تفسیر کے مطابق دونوں قیدیوں کے سوال اور یوسف (علیہ السلام) کے جواب میں مطابقت باقی نہیں رہتی اسلئے کہ سوال خواب میں کھانے کی اشیاء کے بارے میں تھا اور جواب بیداری میں کھانے کے بارے میں ہے۔
قولہ : ذلکما یہ اسم اشارہ بعید کیلئے ہے اور مراد خواب کی تعبیر کا علم ہے۔
قولہ : ذلک التوحید اسم اشارہ بعید کے بجائے اسم اشارہ قریب کا لانا علو مرتبہ اور عظمت توحید کو ظاہر کرنے کیلئے ہے۔
قولہ : ثم صرح بدعا ئھما الی الایمان یعنی ماقبل میں توحید کی دعوت کنایۃ اشارۃ تھی یہاں صراحۃ ہے لہٰذا تکرار کا اعتراض ختم ہوگیا
قولہ : صاحبی یہ صاحب کا تثنیہ ہے اصل میں صاحبین تھا منادی مضاف ہونے کی وجہ سے آخر سے نون ساقط ہوگیا۔
قولہ : لعصمتنا اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ ہمارے لئے ہرگز مناسب نہیں کہ ہم کسی کو خدا کا شریک ٹھہرائیں، یہ نامناسب ہونا صرف حضرت یوسف اور ان کے اباء و اجداد ہی کیلئے نامناسب اور نازیبا نہیں ہے بلکہ یہ تو تمام انسانوں کیلئے نامناسب ہے پھر یوسف (علیہ السلام) کا اپنے ساتھ خاص کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟
جواب : لعصمتنا کا اضافہ کرکے اسی سوال کا جواب دیا ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفر و شرک کا نامناسب ہونا ہمارے لئے اس لئے نہیں ہے کہ وہ حرام ہے بلکہ اس لئے نامناسب ہے کہ ہم کو اس سے پاک و صاف اور محفوظ رکھا گیا ہے بخلاف غیر انبیاء کے ان کو کفر سے پاک و صاف اور محفوظ نہیں رکھا گیا ہے اگرچہ کفر و شرک کو ان کے اوپر حرام کیا گیا ہے۔
قولہ : سمیتم بھا، سمیتموھا کی تفسیر سمیتم بھا سے کرنے کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے اعتراض یہ ہے کہ ھا ضمیر کا مرجع اسماء ہے لہٰذا ترجمہ ہوگا کہ وہ چند نام ہیں جن کا تم نے نام رکھ لیا ہے اس طرح اسماء کیلئے اسماء کا ہونا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ حرف جر ضمیر منصوب سے پہلے محذوف ہے تقدیر عبارت سمیتم بھا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے سمیتہ زیدا ای سمیت زیدا۔ قولہ : مایصیرون یہ یعلمون کا مفعول ہے۔
تفسیر و تشریح
یوسف (علیہ السلام) پس دیوار زندان اور دو نوجوانوں کا جیل خانہ میں دخول : ودخل۔۔۔ فتیان، حسن اتفاق کہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ دو نوجوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے، یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے وابستہ تھے ایک ان میں سے بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا شاہی باروچی خانہ کا ذمہ دار، جس زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا اس زمانہ کے فرعون کا نام ریان بن الولید تھا، اور اس ساقی کا نام ابروہایا ادیونا تھا اور دوسرے کا نام مخلب یا غالب تھا، نام کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔
ان دونوں جوانوں کے جیل میں جانے کی وجہ : بیان کیا گیا ہے کہ مصر کے کچھ لوگوں نے جو بادشاہ سے کسی وجہ سے ناراض تھے بادشاہ کو راستہ سے ہٹانے کی سازش کی اور اس کا آلہ کار ان دونوں جو نوانوں کو بنایا ان کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم بادشاہ کے کھانے یا پانی میں زہر ڈال کر بادشاہ کو ہلاک کردو گے تو تمہیں بہت سا مال دیں گے، یہ دونوں نوجوان اس پر آمادہ ہوگئے مگر بعد میں ساقی اس معاملہ سے الگ ہوگیا لیکن نان پز اس پر قائم رہا اور بادشاہ کے کھانے میں اس نے زہر ملا دیا جب کھانا بادشاہ کے سامنے آیا تو ساقی نے عرض کیا کہ آپ اس کھانے کو نہ کھائیں اس لئے کہ یہ کھانا زہر آلود ہے اور خباز نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہا بادشاہ سلامت آپ یہ مشروب نہ پئیں اس لئے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے بادشاہ نے ساقی سے کہا تم اس مشروب کو پیو چناچہ ساقی نے پی لیا اور اس کو کوئی نقصان نہیں ہوا اس کے بعد نان پز سے کہا تم یہ کھانا کھاؤ اس نے انکار کردیا، وہ کھانا ایک جانور کو کھلا کر تجربہ کیا گیا چناچہ وہ جانور مسموم کھانا کھا کر مرگیا، بادشاہ نے دونوں کو قید خانہ بھیج دیا ساقی کو ابتداءً شریک سازش ہونے کیوجہ سے اور خباز کو مجرم ہونے کی وجہ سے۔ (حاشیہ جلالین)
قید خانہ میں دعوت و تبلیغ : حضرت یوسف (علیہ السلام) خدا کے پیغمبر تھے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و طہارت راستبازی و حسن کرداری کے لحاظ سے قید خانہ میں ممتاز تھے تمام قیدی آپ کی عزت و احترام کرتے تھے حتی کہ قید خانہ کا داروغہ بھی آپ کا معتقد ہوگیا تھا غرضیکہ آپ کی نیک نامی کی شہرت عام تھی زندانیاں اپنی ضرورتوں میں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتے تھے آپ ان کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آتے اگر ان کے بس میں ہوتا تو ان کی مدد کرتے یا داروغہ سے سفارش کرکے مدد کرتے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تعبیر رؤیا کا خصوصی علم بھی عطا کیا تھا ایک روز وہ دونوں نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ نیک آدمی معلوم ہوتے ہو ہم نے خراب دیکھا ہے آپ اس کی تعبیر بتائیں، یہاں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ان نوجوانوں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا محض یوسف (علیہ السلام) کی آزمائش کیلئے انہوں نے فرضی خواب بیان کئے تھے علامہ سیوطی کی رائے بھی یہی ہے مگر دیگر اکثر مفسرین کی رائے اس کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ کہ دونوں نوجوانوں نے اپنے خواب بیان کئے اول ساقی نے کہا میں نے جواب دیکھا ہے کہ شراب کیلئے انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیوں کا خوان ہے اور پرندے اس سے کھا رہے ہیں۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی اور نبی زاد تھے دین کی تبلیغ کا ذوق ان کے رگ و ریشہ میں پیوست تھا، اسلئے دین حق کی اشاعت ان کی زندگی کا نصب العین تھا، گو قید میں تھے مگر مقصد حیات کیسے فراموش کرسکتے تھے ؟ موقع کو غنیمت جانا اور ان سے نرمی اور محبت سے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ نے جو باریں مجھے تعلیم فرمائی ہیں منجملہ ان کے تعبیر رؤیا کا علم بھی اس نے مجھے عطا کیا ہے، میں اس سے پہلے کہ تمہارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے تمہارے خوابوں کی تعبیر بتادوں گا، مگر میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ڈرا اس پر بھی غور کرو اور سمجھو۔ میں نے ان لوگوں کی ملت کا اختیار نہیں کیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں میں نے اپنے آباء و اجداد یعنی ابراہیم، اسحٰق، اور یعقوب (علیہم السلام) کی ملت کی پیروی کی ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک ٹھہرائیں، یہ اللہ کا ایک فضل ہے جو اس نے ہم پر کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے
اے دوستو ! تم نے اس پر بھی غور کیا کہ جدا جدا معبودوں کا ہونا بہتر ہے یا یکتا اللہ کا جو سب پر غالب ہے، تم اس کو علاوہ جن کی بھی بندگی کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جن کو تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں برہان و سند نہیں اتاری حکومت تو صرف اللہ ہی کی ہے اس نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو یہی راہ مستقیم ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ شکر گزار بھی نہیں ہیں۔
رشد و ہدایت کی تبلیغ کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تعبیر خواب کی طرف متوجہ ہونا : یاصاحبی۔ کما، توحید کی نصیحت کرنے کے بعد ان کے خوابوں کی تعبیر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا دوستو ! جس نے یہ دیکھا ہے کہ وہ انگور نچوڑ رہا ہے وہ قید سے رہا ہو کر حسب سابق بادشاہ کے ساقی کی خدمت انجام دے گا اور جس نے روٹیوں والا خواب دیکھا ہے اسے سولی دی جائیگی اور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے، جن باتوں کے بارے میں تم نے سوال کیا تھا وہ فیصل ہو چکیں اور فیصلہ یہی ہے۔
احکام و مسائل
آیات مذکورہ سے مفہوم چند احکام و مسائل :
(١) جیل خانہ عام طور پر مجرموں اور بدمعاشوں کی بستی سمجھی جاتی ہے، مگر یوسف (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور حسن معاشرت کا معاملہ کیا جس سے یہ سب لوگ گرویدہ ہوگئے، اس سے معلوم ہوا کہ مصلحین کیلئے ضروری ہے کہ مجرموں اور بدمعاشوں کو بھی حسن معاشرت کے ذریعہ مانوس و مربوط کریں ان سے نفرت کا اظہار نہ کریں۔
(٢) انا نراک من المحسنین سے یہ معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر ایسے ہی لوگوں سے دریافت کرنا چاہیے جن کے نیک اور ہمدرد ہونے پر اعتماد ہو۔
(٣) یہ بھی معلوم ہوا کہ اصلاح خلق کی خدمت کرنے والوں کا چاہیے کہ اپنے عمل و اخلاق کے ذریعہ لوگوں کا اپنے اوپر اعتماد بحال کریں خواہ اس میں ان کو کچھ اپنے کمالات کا اظہار کرنا پڑے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اس موقع پر اپنا معجزہ بھی ذکر کیا اور اپنا خاندان نبوت کا ایک فرد ہونا بھی ظاہر کیا، اگر یہ اظہار اخلاص کے ساتھ ہو تو فلا تذکروا انفسکم کی ممانعت میں نہیں آتا۔
(٤) چوتھی بات یہ بتلائی گئی کہ داعی اور مصلح کا فرض ہے کہ ہرحال میں اپنے وظیفۂ دعوت و تبلیغ کو مقدم رکھے، جب بھی کوئی موقع میسر ہو خواہ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر اس کو ہاتھ سے نہ جانے دے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس یہ قیدی خواب کی تعبیر دریافت کرنے کیلئے آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ان کو رشد و ہدایت کا تحفہ عطا فرمایا، یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دعوت و تبلیغ کے کام کیلئے کسی جلسے یا منبر اور اسٹیج ہی درکار ہوتے ہیں، شخصی اور نجی ملاقاتوں کے ذریعہ یہ کام زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
(٥) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی کیلئے اس قیدی سے جس کا دوبارہ اپنی ملازمت پر بحال ہونا یقینی تھا کہا
کہ جب تم بادشاہ کے پاس جاؤ تو میرا بھی ذکر کرنا کہ ایک بےقصور جیل میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی مصیبت سے خلاصی کیلئے کسی شخص کی کوشش کو واسطہ بنانا توکل کے خلاف نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ﴾ ” اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے۔“ جب یوسف علیہ السلام قید خانے میں ڈالے گئے تو ان کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قید کئے گئے۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے خواب دیکھا، انہوں نے تعبیر پوچھنے کی غرض سے اپنا اپنا خواب یوسف علیہ السلام کو سنایا﴿قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا ﴾ ” ان میں سے ایک نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھا رہا ہوں“ اور یہ روٹی ﴿تَاْکُلُ الطَّیْرُمِنْہُ﴾ ” پرندے کھا رہے ہیں۔“ ﴿نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ﴾” ہمیں اس کی تعبیر بتا دیجئے۔‘‘ یعنی اس کی تفسیر سے ہمیں آگاہ کیجیے کہ اس خواب کا انجام کیا ہوگا۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے کہا : ﴿ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” بے شک ہم آپ کو بھلائی کرنے والا دیکھتے ہیں“ یعنی آپ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہیں۔ آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتا کر ہم پر احسان کیجیے جیسا کہ آپ نے دوسرے لوگوں پر احسان کیا ہے۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام کے احسان کو وسیلہ بنایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yousuf kay sath do aur nojawan qaid khaney mein dakhil huye . unn mein say aik ney ( aik din yousuf say ) kaha kay : mein ( khuwab mein ) apney aap ko dekhta hun kay mein sharab nichor raha hun aur doosray ney kaha kay : mein ( khuwab mein ) yun dekhta hun kay mein ney apney sar per roti uthai hoi hai , ( aur ) perinday uss mein say kha rahey hain . zara hamen iss ki tabeer batao , hamen tum naik aadmi nazar aatay ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات
اتفاق سے جس روز حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام بحلث تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی۔ سچائی، امانت داری، سخاوت، خوش خلقی، کثرت عبادت، اللہ ترسی، علم و عمل، تعبیر خواب، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ مشہور ہوگئے تھے۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ کا تشخص تھا۔ یہ دونوں ہی ملازم حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بہت ہی محبت کرنے لگے۔ ایک دن کہنے لگے کہ حضرت ہمیں آپ سے بہت ہی محبت ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا۔ پھوپھی کی محبت، باپ کا پیار، عزیز کی بیوی کی چاہت، سب مجھے یاد ہے۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے۔ ابن مسعود کی قرأت میں خمرا کے بدلے لفظ عنبا ہے، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں، اس نے توڑے ہیں۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کردیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آکر اس میں سے کھا رہے ہیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے دریافت کی تھی۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی۔