یوسف آية ۸۰
فَلَمَّا اسْتَاۡيْــَٔسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا ۗ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِىْ يُوْسُفَ ۚ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَأْذَنَ لِىْۤ اَبِىْۤ اَوْ يَحْكُمَ اللّٰهُ لِىْ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ
طاہر القادری:
پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہوگئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،
English Sahih:
So when they had despaired of him, they secluded themselves in private consultation. The eldest of them said, "Do you not know that your father has taken upon you an oath by Allah and [that] before you failed in [your duty to] Joseph? So I will never leave [this] land until my father permits me or Allah decides for me, and He is the best of judges.
1 Abul A'ala Maududi
جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا "تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
پھر جب اس سے نا امید ہوئے الگ جاکر سرگوشی کرنے لگے، ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لے لیا تھا اور اس سے پہلے یوسف کے حق میں تم نے کیسی تقصیر کی تو میں یہاں سے نہ ٹلوں گا یہاں تک کہ میرے باپ اجازت دیں یا اللہ مجھے حکم فرمائے اور اس کا حکم سب سے بہتر،
3 Ahmed Ali
پھر جب اس سےناامید ہوئے مشورہ کرنے کے لیے اکیلے ہو بیٹھے ان میں سے بڑے نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے الله کا عہد لیا تھا اور پہلے جویوسف کے حق میں قصور کر چکے ہو سو میں تو اس ملک سے ہرگز نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ میرا با پ مجھے حکم دے یا میرے لیے الله کوئی حکم فرمائے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جب یہ اس سے مایوس ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے (١) ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں (٢) یا اللہ تعالٰی میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
٨٠۔١ کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟
٨٠۔٢ اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بےگناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب یہ اس سے مایوس ہو گئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشوره کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ میرے معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
پھر جب وہ لوگ اس (یوسف) سے مایوس ہوگئے تو علیٰحدہ جاکر باہم سرگوشی (مشورہ) کرنے لگے جو ان میں (سب سے) بڑا تھا اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ (بنیامین کے بارے میں) خدا کے نام پر تم سے عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف(ع) کے بارے میں جو تقصیر تم کر چکے ہو (وہ بھی تم جانتے ہو) اس لئے میں تو اس سر زمین کو نہیں چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا پھر اللہ میرے لئے کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اب جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو الگ جاکر مشورہ کرنے لگے تو سب سے بڑے نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے باپ نے تم سے خدائی عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کرحُکے ہو تو اب میں تو اس سرزمین کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ والد محترم اجازت دے دیں یا خدا میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے ؟ اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کرچکے ہو۔ تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لئے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر کرنیوالا ہے۔
آیت نمبر ٨٠ تا ٩٣
ترجمہ : جب برادران یوسف، یوسف کی طرف سے بالکل ناامید ہوگئے تو ایک گوشہ میں جاکر مشورہ کرنے لگے (نجیا) مصدر واحد اور غیر واحد سب پر اس کا اطلاق صحیح ہے، یعنی انہوں نے آپس میں مشورہ کیا، ان میں جو عمر کے لحاظ سے یا رائے کے اعتبار سے بڑا تھا جس کا نام روبیل یا یہودا تھا بولا کیا تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے تمہارے بھائی کے بارے میں خدا کے نام پر پختہ عہد لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم زیادتی کر ہی چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے، ما، زائدہ ہے، اور کہا گیا ہے کہ ما مصدریہ مبتداء ہے اور اس کی خبر میں قبل ہے، اب میں تو ملک مصر کو ہرگز نہ چھوڑوں گا تاآنکہ اباجان ہی مجھے اپنے پاس واپس آنے کی اجازت نہ دیدیں، یا اللہ ہی میرے بھائی کو رہائی دلا کر میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، تم اپنے اباجان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کے صاحبزادے نے چوری کرلی ہے (اس لئے گرفتار ہوئے ہیں) اور ہم وہی شہادت دے رہے ہیں جن کا ہم کو یقینی علم ہوا ہے، اس کے کجاوہ سے پیالہ برآمد ہوتے دیکھنے کی وجہ سے، اور قول وقرار کرتے وقت کچھ ہم غیب کے جاننے والے تو تھے نہیں اور اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ چوری کرے گا تو ہم (ہرگز) عہد نہ کرتے، اور اس بستی والوں سے معلوم کرلیں جس میں ہم تھے اور وہ بستی مصر ہے یعنی اس بستی والوں کے پاس کسی کو بھیج کر تحقیق کر الیجئے اور اس قافلے والوں سے دریافت کرلیجئے جس میں ہم آئے ہیں، اور وہ کنعانی لوگ ہیں، اور عیر سے اصحاب عیر مراد ہیں، اور ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں چناچہ (نو بھائی) حضرت یعقوب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مذکورہ تمام باتیں اباجان سے کہیں (یعقوب (علیہ السلام) نے) کہا (حقیقت ایسی نہیں ہے) بلکہ تم نے اپنی طرف سے ایک بات گھڑلی جس کو تم نے عملی جامہ پہنا دیا، ان کو متہم کرنے کی وجہ بھائیوں کی وہ حرکت تھی جو وہ یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں کرچکے تھے، لہٰذا اب صبر ہی بہتر ہے، (تقدیر عبارت یہ ہے) فصبری صبر جمیل، مجھے امید ہے کہ اللہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے دونوں بھائیوں (بنیامین اور یہودا) کو میرے پاس پہنچا دے گا وہی میری حالت سے واقف (اور) اپنی صنعت میں باحکمت ہے اور ان سے سلسلہ گفتگو ختم کرکے ان کی طرف منہ پھیرلیا، اور کہا ہائے یوسف ! اسفی کا الف یاء اضافت سے بدلا ہوا ہے، معنی میں یا حزنی کے ہے، یوسف کے غم میں روتے روتے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں (یعنی) آنکھوں کی سیاہی زائل ہو کر سفیدی میں تبدیل ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے (یعنی) مغموم بےچین تھے، اپنی بےچینی کا اظہار نہیں کر رہے تھے، بیٹوں نے کہا واللہ تم تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ اپنے طول مرض کی وجہ سے لب جان ہوجاؤ گے (حرضا) مصدر ہے اس میں واحد اور غیر واحد سب برابر ہیں، یا ہلاک ہی ہوجاؤ گے (یعقوب) نے ان سے کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں نہ کہ کسی اور سے (بث) اس شدید غم کو کہتے ہیں کہ جس پر صبر نہ کیا جاسکے یہاں تک کہ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوجائے ایک وہی ذات ایسی ہے کہ اسی سے فریاد فائدہ دے سکتی ہے اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم واقف نہیں ہو اس بات سے کہ یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہے اور وہ زندہ ہے (یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے کہا میرے پیارے بچو ! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو پوری طرح تلاش کرو (یعنی) ان کی خبر نکالو، اور اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو یقیناً اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں، چناچہ برادران یوسف مصر کی طرف روانہ ہوئے، جب یہ لوگ یوسف کے حضور حاضر ہوئے تو عرض کیا اے سردار بااقتدار ہم اور ہمارے بچے بھوک (فاقہ) میں مبتلا ہوگئے ہیں، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں جس کو اس کے کھوٹے ہونے کی وجہ سے ہر وہ شخص رد کرتا ہے جو اس کو دیکھتا ہے اور وہ کھوٹے دراہم یا ان کے علاوہ تھے، آپ ہم کو بھر پور غلہ دیجئے اور ہماری کھوٹی پونجی سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمارے اوپر خیرات کیجئے، اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو جزائے خیر عطا کرتا ہے، یعنی ان کو اجر عطا کرتا ہے، چناچہ یوسف (علیہ السلام) کو ان پر ترس آگیا، اور یوسف کا دل ان پر نرم ہوگیا اور یوسف اور اس کے بھائیوں کے درمیان جو حجاب تھا وہ ہٹا دیا، پھر زجروتوبیخ کے طور پر ان سے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف کے ساتھ زدو کو ب اور فروخت وغیرہ کا کیا سلوک کیا تھا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا تھا اس کے بھائی سے جدا ہونے کے بعد اس وقت جبکہ تم کو معلوم نہیں تھا کہ یوسف کس رتبہ کو پہنچے گا، یوسف کی پہچان کے بعد جب یوسف کے خصائل ظاہر ہوگئے تو اقرار کرتے ہوئے کہنے لگے کیا تم سچ مچ یوسف ہی ہو ؟ (ء انک) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں کے درمیان دونوں صورتوں میں الف داخل کرکے، انہوں نے کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی (بنیامین) ہے بلاشبہ اللہ نے جمع کرکے ہمارے اوپر انعام فرمایا، واقعی جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور پیش آنے والے مصائب پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک کام کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کیا کرتا، اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر رکھا ہے، کہنے لگے بخدا اللہ نے آپ کو ہم پر ملک وغیرہ میں فضیلت دی ہے اور بیشک ہم تیرے معاملہ میں خطا اور گنہگار تھے ان مخففہ عن الثقیلہ ہے سو ہم کو (اللہ نے) تمہارے سامنے ذلیل کردیا، (یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے کہا آج تم پر کوئی ملامت (الزام) نہیں، عدم ملامت کیلئے الیوم کو خاص کیا اسلئے کہ وہ دن ملامت کا دن تھا لہٰذا دیگر ایام ملامت میں بطریق اولی داخل ہوں گے، اللہ تمہارا قصور معاف کرے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، اور (یوسف نے) اپنے والد کے بارے میں دریافت کیا تو کہا ان کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئی ہیں، (یعنی نابینا ہوگئے ہیں) اب تم میرا یہ کرتہ لے جاؤ اور یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا وہی کرتہ تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ میں ڈالتے وقت پہنا تھا، اور کنویں میں بھی (یوسف) اس کو پہنے ہوئے تھے، اور وہ جنتی لباس تھا، اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کرتہ کو یعقوب کے پاس بھیجنے کیلئے کہا تھا، اور کہا تھا کہ اس میں ایک قسم کی خوشبو ہے، اور جب بھی کسی مبتلائے مصیبت پر ڈالا جاتا ہے اس کو عافیت نصیب ہوتی ہے، تم اس کو میرے اباجان کے چہرے پر ڈالدو ان کی بینائی لوٹ آئے گی اور تم اپنے سب گھر والوں کو بھی میرے پاس لے آؤ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : استیئسوا، وہ ناامید ہوگئے (استیئاس) سے ماضی مذکر غائب۔
قولہ : یئسوا اس میں اشارہ ہے کہ استفعل معنی میں فعل کے ہے اور سین و تاء مبالغہ کیلئے ہیں، ای یئسوا یأسا کاملا۔
قولہ : ای یناجی بعضھم بعضا، اس میں اشارہ ہے کہ نجیا حال ہے تقدیر عبارت یہ ہے خلصوا متناجین۔
قولہ : صبری اس میں اشارہ ہے کہ فصبر جمیل، صبری مبتداء محذوف کی خبر ہے، بعض حضرات نے صبری کے بجائے امری محذوف مانا ہے۔ قولہ : انمحق انمحاق (انفعال) یہ محق سے ماخوذ ہے بمعنی مٹانا اور باطل کرنا۔
قولہ : لا، اس میں اشارہ ہے کہ تفتئوا سے پہلے حرف نفی لامحذوف ہے، ورنہ تو ترجمہ یہ ہوگا کہ تم بھول جاتے ہو اور یاد کرتے رہتے ہو، حالانکہ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے، دوسری بات یہ کہ تفتئوا جواب قسم ہے اور جواب قسم جب ماضی مثبت واقع ہوتا ہے تو اس پر لام اور نون کا لانا ضروری ہوتا ہے حالانکہ یہاں یہ دونوں نہیں ہیں۔
قولہ : حرضا، حرضا مصدر ہے لہٰذا جمع پر حمل درست ہے۔ قولہ : مزجاۃ ازجیت سے ماخوذ ہے ازجیتہ ای دفعتہ۔
قولہ : مستثبتین اور بعض نسخوں میں متثبتین ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ھل علمتم اور مافعلتم بیوسف میں ما استفہام تقریری ہے۔ قولہ : فاذلنا لک الخ ای جَعَلَنَا ذَلِیْلاً ۔ (ترویح الارواح)
تفسیر و تشریح
فلما۔۔۔۔ الخ جب برادران یوسف بنیامین کی رہائی سے مایوس ہوگئے تو خلوت میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے ان میں سے علم و فضل میں بڑے بھائی نے جس کا نام یہودا تھا یا عمر میں بڑے بھائی تھے جس کا نام روبیل تھا کہ میں تو یہیں رہوں گا آپ سب لوگ اباجان کے پاس جائیں اور ان کو بتلائیں کہ آپ کے صاحبزادے نے چوری کی جس کی پاداش میں ان کو روک لیا گیا ہے، اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ چشم دید حالات ہیں کہ مسروقہ مال ہمارے سامنے بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا، اور ہمیں کوئی غیب کا علم تو تھا نہیں کہ یہ چوری کرے گا ورنہ ہم ہرگز اس کو واپس لانے کی ذمہ داری نہ لیتے۔ چونکہ برادران یوسف اس سے پہلے ایک فریب یوسف کے بارے میں دے چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ہمارے مذکورہ بیان سے والد صاحب کو ہرگز اطمینان نہ ہوگا، اس لئے مزید تاکید کیلئے کہا کہ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ آئے تو آپ مصر کے لوگوں سے تحقیق کرالیں، اور آپ اس قافلے سے
بھی تحقیق کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہی مصر سے کنعان آیا ہے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں۔
قال بل۔۔۔۔ الخ غرضیکہ یعقوب (علیہ السلام) نے برادران یوسف کے بیان کی تصدیق نہ کی چونکہ یوسف کے معاملہ میں ان بھائیوں کا جھوٹ ثابت ہوچکا تھا اس لئے اس مرتبہ ان کی سچی بات کا بھی یقین نہیں کیا، اور کہہ دیا ” بل سولت لکم انفسکم امرًا، فصبر جمیل “ یعنی تم نے یہ بات اپنی طرف سے گھڑی ہے میرے لئے صبر ہی بہتر ہے، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو مجھے ملا دے گا۔
و تولی عنھم۔۔۔۔ الخ اس دوسرے صدمہ کے بعد صاحبزادوں سے اس معاملہ میں گفتگو موقوف کردی اور اپنے رب کے سامنے فریاد شروع کردی، اور اسی غم میں روتے روتے ان کی بینائی جاتی رہی مقاتل نے کہا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کی یہ حالت چھ سال رہی، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کے بعد زیادہ تر خاموش رہنا شروع کردیا دل ہی دل میں گھٹتے رہتے تھے کسی سے کچھ نہ کہتے تھے۔
یعقوب (علیہ السلام) کی اتنی شدید آزمائش کسی وجہ سے ہوئی ؟ امام قرطبی نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے اس شدید ابتلا و امتحان کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے، بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک روز حضرت یعقوب (علیہ السلام) تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے اور یوسف (علیہ السلام) ان کے سامنے سو رہے تھے، اچانک حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کچھ خراٹے کی آواز نکل تو یعقوب (علیہ السلام) کی توجہ یوسف (علیہ السلام) کی طرف چلی گئی ایسا تین مرتبہ ہوا تیسری مرتبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا دیکھو یہ مرا دوست مجھ سے ہم کلامی کے وقت غیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے میری عزت و جلال کی قسم کہ انکی دونوں آنکھیں نکال لونگا اور جس کی طرف توجہ کی ہے اس کو مدت دراز کیلئے اس سے جدا کردوں گا (معاف)
فلما دخلوا۔۔۔۔ الضر، جب برادران یوسف والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور عزیزمصر سے ملاقات ہوئی تو خوش آمدانہ گفتگو شروع کی، اپنی محتاجی اور بیکسی کا اظہار کیا کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھروالوں کو قحط کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچ رہی ہے، یہاں تک کہ اب ہمارے پاس غلہ خریدنے کیلئے بھی مناسب قیمت موجود نہیں ہم مجبور ہو کر کچھ نکمی نخالص چیزیں غلہ خریدنے کیلئے لے کر آئے ہیں آپ اپنے کریمانہ اخلاق سے انہی نکمی چیزوں کو قبول فرمالیں اور غلہ پورا عنایت فرمادیں ہماری کھوٹی پونجی کی وجہ سے غلہ میں کمی نہ کریں، ظاہر ہے کہ ہمارا ستحقاق نہیں ہے مگر آپ خیرات سمجھ کر دیدیجئے اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو جزاء خیر عطا کرتا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے جب بھائیوں کے یہ مسکنت آمیز الفاظ سنے اور شکستہ حالت دیکھی تو طبعی طور پر حقیقت حال ظاہر کردینے پر مجبور ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) پر منجانب اللہ اظہار حال کی جو پابندی لگی ہوئی تھی اب اس کے خاتمہ کا وقت آگیا تھا۔
یعقوب (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے نام خط : تفسیر مظہری اور قرطبی میں بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ اس موقع پر یعقوب (علیہ السلام) نے عزیز مصر کے نام ایک خط لکھ کردیا تھا جس کا مضمون یہ تھا۔
” منجانب یعقوب صفی اللہ بن اسحٰق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر امابعد ! ہمارا پورا خاندان بلاؤں اور آزمائشوں میں معروف ہے میرے دارا ابراہیم خلیل اللہ کا آتش نمرود میں امتحان لیا گیا، پھر میرے والد اسحٰق کا شدید امتحان لیا گیا پھر میرے لڑکے کے ذریعہ میرا امتحان لیا گیا، جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا، یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک جھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا، اور میں بتلاتا ہوں کہ ہم اولاد انبیاء ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی اور نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا، والسلام “۔
جب یوسف نے خط پڑھا تو کانپ گئے، اور بےاختیار رونے لگے اور اپنے راز کو ظاہر کردیا اور تعارف کی تمہید کے طور پر بھائیوں سے یہ سوال کیا کہ تم کو کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا تھا جبکہ تمہاری جہالت کا زمانہ تھا اور یوسف کی اس شان سے بھی ناواقف تھے جو اس کو حاصل ہونے والی تھی۔ برادران یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ سوال سنا تو چکرا گئے کہ عزیز مصر کو یوسف کے قصہ سے کیا واسطہ پھر ادھر بھی دھیان گیا کہ یوسف نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر یہی تھی کہ اس کو کوئی بلند مرتبہ حاصل ہوگا کہ ہم سب کو اس کے سامنے جھکنا پڑے گا، کہیں یہ عزیز مصر خود یوسف ہی نہ ہو پھر جب اس پر غور و تامل کیا تو کچھ علامات سے پہچان لیا اور مزید تحقیق کیلئے ان سے کہا۔
ائنک لانت یوسف کیا تو سچ مچ یوسف ہے، تو یوسف (علیہ السلام) نے کہا ہاں میں ہی یوسف یوں اور یہ بنیامین میرا حقیقی بھائی ہے سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور صبر وتقویٰ کے بتائج حسنہ بھی بیان کرکے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا لیکن یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ مجھے کنویں سے بجات عطا فرمائی بلکہ مصر کی فرماں روائی بھی عطا فرما دی، اور یہ نتیجہ ہے اس صبر وتقویٰ کا جس کی توفیق اللہ نے مجھے عطا فرمائی۔
بھائیوں کا اعتراف جرم : بھائیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کی یہ شان دیکھی تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی پیغمبرانہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو ہوا سو ہوا آج تمہیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی، فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردار ان قریش کو جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح ایذائیں پہنچائی تھیں قتل کی سازشیں کیں معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کیا حتی کہ وطن عزیز سے نکلنے پر مجبور کردیا اور مدینہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا یہی |" لاتشریب علیکم الیوم “ کے الفاظ فرما کر معاف فرما دیا تھا۔
اذھبوا۔۔۔ الخ یعنی میں بحالت موجودہ شام کا سفر نہیں کرسکتا تم جاؤ اور والدین اور اپنے سب متعلقین کو یہاں کے آؤ چونکہ والد بزرگوار کی نسبت معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی بینائی جاتی رہی ہے اسلئے اپنا کرتہ دے کر فرمایا یہ ان کی آنکھوں کو لگا دینا بینائی بحال ہوجائے گی۔ ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے روانہ ہوا ادھر یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے پیغمبر بیخبر ہوتا ہے، خدا کی قدرت، یوسف قریب ہی چاہ کنعان میں موجود ہیں کبھی نہ کہا کہ یوسف کی خوشبو آتی ہے کیونکہ خدا کو امتحان پورا کرنا تھا، مگر جب خدا کو منظور ہوا تو ادھر صدہا میل دور مصر سے قافلہ یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ لے کر چلا ادھر پیراہن یوسفی کی خوشبو یعقوب (علیہ السلام) کے مشام جان کو معطر کرنے لگی، کرتہ کی وجہ سے بینائی کا عود کر آنا ظاہر ہے کہ کوئی مادی سبب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک معجزہ تھا، یوسف (علیہ السلام) کو باذن خداوندی معلوم ہوگیا تھا کہ جب ان کا کرتہ والد کے چہرے پر ڈالا جائیگا تو اللہ تعالیٰ ان کی بینائی بحال کردیں گے۔
جنتی کرتہ کی خصوصیت : ضحاک اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا ہے کہ یہ اس کرتے کی خصوصیت تھی اسلئے کہ یہ کرتہ عام کپڑوں کی طرف نہ تھا بلکہ حضرت ابراہیم کیلئے جنت سے اس وقت لایا گیا تھا جب نمرود نے آپ کو برہنہ کرکے آگ میں ڈالا تھا، پھر یہ جنتی کرتہ ہمیشہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس رہا حضرت ابراہیم کے بعد حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کے پاس رہا ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس رہا آپ نے اس کرتے کو ایک متبرک شئ سمجھ کر ایک نلکی میں بند کرکے یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں بطور تعویذ ڈال دیا تھا تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں، برادران یوسف نے جب دھوکا دینے کیلئے ان کا کرتہ اتار لیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو برہنہ کرکے کنوئیں میں ڈالنے لگے تو جبرائیل امین تشریف لائے اور گلے میں پڑی ہوئی نلکی سے کرتا نکال کر یوسف (علیہ السلام) کو پہنا دیا اور یہ کرتہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس محفوظ تھا، اس وقت بھی جبرئیل ہی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ جنت کا لباس ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ گر نابینا کی آنکھوں سے لگا دیا جائے تو بینائی عود کر آتی ہے۔ (معارف)
حضرت مجد الف ثانی (رح) تعالیٰ کی تحقیق : حضرت مجدد الف ثانی کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال اور ان کا وجود خود جنت ہی کی ایک چیز تھی اسلئے ان کے جسم کے متصل ہونے والے ہر کرتہ کی یہ خاصیت ہوسکتی ہے۔ (مظہری)
مادی سبب : یہ بات قابل توجہ اور قرین عقل و قیاس ہے کہ کسی شدید صدمہ کی وجہ سے جس طرح بینائی جاسکتی ہے اسی
طرح بیحد مسرت اور خوشی کی وجہ سے عود بھی کرسکتی ہے، چناچہ واقعات و مشاہدات کی وجہ سے یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ کسی سخت صدمہ یا غیر معمولی خوشی کے اثر سے بعض نابینا دفعۃً بینا ہوگئے ہیں۔ (فوائد عثمانی)
قرطبی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ برادران یوسف میں سے یہودا نے کہا کہ یہ کرتہ میں لے کر جاؤں گا کیونکہ انکے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر بھی میں ہی لے کرگیا تھا جس سے والد صاحب کو صدمہ پہنچا تھا، اب اس کی مکافات بھی میرے ہی ہاتھ سے ہونی چاہیے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب یوسف علیہ السلام کے بھائی اس بارے میں مایوس ہوگئے کہ وہ ان کے بھائی کے معاملے میں نرمی اختیار کریں۔ ﴿خَلَصُوا نَجِيًّا﴾ ” تو وہ علیحدگی میں اکٹھے ہوئے اور اصلاح کرنے لگے۔“ جہاں کوئی اور موجود نہ تھا انہوں نے سر گوشیوں میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا۔ ﴿قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” ان کے بڑے نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا“ یعنی تم سے اس کی حفاظت کرنے اور ساتھ لے کر آنے کا عہد لیا تھا، سوائے اس کے کہ تم کسی مصیبت میں گھر کر بے بس ہوجاؤ۔ ﴿وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ﴾ ” اور اس سے پہلے تم یوسف علیہ السلام کے بارے میں کوتاہی کرچکے ہو“ پس تم میں دو امور اکٹھے ہوگئے ہیں۔
(1) یوسف علیہ السلام کے بارے میں تمہاری گزشتہ کو تاہی۔
(2) اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ نہ لانا۔۔۔ میرے پاس تو ایسی کوئی دلیل نہیں جس کے ذریعے سے میں اپنے باپ کا سامنا کرسکوں۔
﴿فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ﴾ پس میں تو یہیں مقیم رہوں گا اور یہاں سے نہیں جاؤں گا ﴿حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّـهُ لِي﴾ ” یہاں تک کہ حکم دے مجھ کو میرا باپ یا اللہ میری بابت فیصلہ کر دے“ یعنی اللہ تعالیٰ میرے لئے اکیلے یا بھائی کے ساتھ آنا مقدر کر دے۔ ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو وصیت کی کہ انہیں اپنے باپ سے جا کر کیا کہنا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
chunacheh jab woh yousuf say mayyus hogaye to alag ho ker chupkay chupkay mashwara kernay lagay . unn sabb mein jo bara tha , uss ney kaha : kiya tumhen maloom nahi kay tumharay walid ney tum say Allah kay naam per ehad liya tha , aur iss say pehlay tum yousuf kay moamlay mein jo qusoor ker-chukay ho , ( woh bhi maloom hai ) lehaza mein toh iss mulk say uss waqt tak nahi talon ga jab tak meray walid mujhay ijazat naa den , ya Allah hi meray haq mein koi faisla farmadey . aur wohi sabb say behtar faisla kernay wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہوگئے، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے۔ الزام ثابت ہوچکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹہوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرلیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہوچکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا جاہا تھا انہوں نے روکا تھا۔ اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کرلیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کردی۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے۔ کہ ہم نے صداقت، امانت، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے۔