الرعد آية ۱۹
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَـقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىۗ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
طاہر القادری:
بھلا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے حق ہے، اس شخص کے مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہے، بات یہی ہے کہ نصیحت عقل مند ہی قبول کرتے ہیں،
English Sahih:
Then is he who knows that what has been revealed to you from your Lord is the truth like one who is blind? They will only be reminded who are people of understanding.
1 Abul A'ala Maududi
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا وہ جانتا ہے جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا حق ہے وہ اس جیسا ہوگا جو اندھا ہے نصیحت وہی مانتے ہیں جنہیں عقل ہے،
3 Ahmed Ali
بھلا جو شخص جانتا ہے کہ تیرے رب سے تجھ پر جو کچھ اترا ہے حق ہے اس کےبرابر ہو سکتا ہے جو اندھا ہے سمجھتے تو عقل والے ہی ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو (١) نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں جو عقلمند ہوں (۲)
١٩۔١ یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے
۱۹۔۲ یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا وه ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وه حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے (رسول(ص)) کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے؟ نصیحت تو بس وہی قبول کرتے ہیں جو دانشمند ہوتے ہیں (اور وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
) کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب برحق ہے وہ اس کے جیسا ہوسکتا ہے جو بالکل اندھا ہے (ہرگز نہیں)اس بات کو صرف صاحبانِ عقل ہی سمجھ سکتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا حق ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے ؟ اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند ہیں۔
آیت نمبر ١٩ تا ٢٦
ترجمہ : اور (آئندہ آیت) (حضرت) حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، کیا وہ شخص کہ جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو، کہ نہ اس کو جانتا ہو اور نہ اس پر یقین رکھتا ہو، نہیں، نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوتے ہیں، جو اللہ کے عہد (پیمان) کو پورا کرتے ہیں جو ان سے وقت لیا گیا تھا کہ جب وہ عالم ذر (یعنی چیونٹیوں) کی شکل میں تھے یا مطلقاً کسی عہد کو نہیں توڑتے، اور وہ ایمان یا فرائض کو ترک کرکے عہد کو توڑتے نہیں ہیں، اور جو اس کو جوڑتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور وہ (جس کا حکم دیا ہے) ایمان لانا ہے اور صلہ رحمی کرنا ہے وغیرہ وغیرہ، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں یعنی اس کی وعید سے، اور برے حساب سے ڈرتے ہیں (اس جیسی آیت) سابق میں گذر چکی ہے، اور وہ اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کیلئے نہ کہ دنیاوی کسی غرض کیلئے طاعت پر اور مصیبت پر اور معصیت سے باز رہنے پر صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے طاعت میں ظاہر اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں مثلاً جہل کو بربادی سے اور تکلیف کو صبر سے یہی تو ہیں وہ جن کیلئے آخرت کا گھر ہے، یعنی دار آخرت میں اچھا انجام وہ جنت ہے جس میں وہ مقیم رہیں گے جہاں وہ خود بھی جائیں گے اور ان کے آباء اور ازواج اور اولاد میں سے جو ایمان لائے ہوں گے وہ بھی جائیں گے اگرچہ انہوں نے ان کے جیسا عمل نہ کیا ہو وہ بھی ان ہی کے درجوں میں ہوں گے اور یہ ان کے اکرام کے طور پر ہوگا، اور فرشتے ان کے پاس جنت کے پر دروازہ سے آئیں گے یا محفلوں کے ہر دروازہ سے آئیں گے، فرشتوں کا دخول اوّلی مبارکبادی کیلئے ہوگا وہ کہیں گے تمہارے اوپر سلامتی ہو یہ اجر وثواب تم کو اس صبر کے بدلے میں ہے کہ جو تم نے دنیا میں کیا، کیا ہی اچھا بدلہ ہے تمہارے لئے دار آخرت کا اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں اور جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اسے توڑتے ہیں، اور کفر و معاصی کے ذریعہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے اوپر لعنت ہے (یعنی) اللہ کی رحمت سے دوری ہے، اور ان کیلئے براگھر ہے، یعنی آخرت میں ان کیلئے برا انجام ہے اور وہ جہنم ہے، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے اور اہل مکہ تو دنیوی زندگی میں اترا کر مست ہوگئے، یعنی اس پر جو ان کو دنیوی زندگی میں حاصل ہوا اور دنیوی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں نہایت حقیر پونجی ہے، اس سے استفادہ کرتا ہے اور (پھر) چھوڑ کر (دنیا سے) رخصت ہوجاتا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَفَمَنْ یَعْلَمُ ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے اور فاء عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے أیَسْتوی المؤمن والکافر فمن یعلم الخ۔
قولہ : لا اس میں اشارہ ہے کہ استفہام انکاری بمعنی نفی ہے۔
قولہ : اُولٰئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدار یہ جملہ الذین صبروا مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : ھِیَ اس میں اشارہ ہے کہ جنّٰتُ عدنٍ مبتداء محذوف کی خبر ہے نہ کہ عُقْبَی الدار سے بدل جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے
قولہ : یدخلوانَھا ھم۔ سوال : ھم مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : تاکہ مَنْ صَلحَ کا عطف یدخلونھا کی ضمیر پر درست ہوجائے، اسلئے کی ضمیر مرفوع متصل پر عطف کیلئے ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید لانا ضروری ہوتا ہے۔
قولہ : یقولون، یقولون کو مقدر مانا تاکہ کلام مربوط منظم ہوجائے۔
قولہ : بما نالوا فیھا، یعنی دنیوی زندگی تو ہر شخص کو حاصل ہے نفس زندگی پر اترانا مراد نہیں ہے بلکہ دنیاوی زندگی میں ان کو جو کچھ حاصل ہوا اس پر اترانا اور بےجا فخر کرنا مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
افمن یعلم۔۔۔ الخ یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت اور صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہو، کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ استفہام انکار کیلئے ہے یعنی یہ اسی طرح برابر نہیں ہوسکتے جس طرح جھاگ پانی کے، اور سونا چاندی اور ان کا میل کچیل برابر نہیں ہوسکتے۔ اور جن کے پاس عقل سلیم اور قلب صحیح نہ ہو اور انہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کی کثافت سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کرلیا ہو وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتے، الذین یؤمنون بعھد اللہ الخ یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔
سوال : اللہ کے عہد سے کیا مراد ہے۔
جواب : اللہ کے عہد سے مراد اس کے احکام (اوامرو نواہی) ہیں جنہیں وہ نجالاتے ہیں، یا وہ عہد ہے جو عہد الست کہلاتا ہے، اور عہد و پیمان میں وہ قول وقرار بھی داخل ہیں جنہیں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔
اور اہل دانش کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کسی سے بھی کئے گئے عہد و میثاق کی خلاف ورزی نہیں کرتے ان میں وہ عہد و پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ سے کئے ہیں اور وہ بھی جو اللہ کے رسول کیلئے ہوں اور آپسی عہد و معاہدے بھی۔
والذین یصلون۔۔۔ الخ یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں بلکہ ان کو جوڑتے اور قائم رکھتے ہیں مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ رشتہ داری کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور ان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل صالح کرتے ہیں یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ پچھلے انبیاء اور ان کی کتابوں پر ایمان کو ملا دیتے ہیں۔ (معارف)
اللہ کی نافرمانیوں اور گناہوں سے بچتے ہیں تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، اور حدود اللہ سے تجاوز کرکے من مانی زندگی بسر نہیں کرتے، اور جب خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اپنوں اور بیگانوں میں امتیاز کئے بغیر علانیہ اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور اگر کوئی انکے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے وہ بھلائی سے پیش آتے ہیں یا عفو درگذر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں
یدخلونھا۔۔۔ (الآیۃ) یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ قرابتداروں کو جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتی کے ادنی درجہ کے جنتی کو اعلی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابتداروں کے ساتھ جمع ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نیک رشتہ داروں کو جمع فرما دے گا اور جس کے پاس ایمان کو پونجی نہیں ہوگی وہ جنت میں نہیں جائیگا خواہ وہ جنتی کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل علم و عمل اور غیر اہل علم لوگوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ ﴾ ” بھلا جو شخص جانتا ہے کہ جو کچھ اترا آپ پر آپ کے رب کی طرف سے، حق ہے“ پس اس حق کو خوب سمجھ لیا اور اس پر عمل پیرا ہوا،﴿كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ﴾ ” برابر ہوسکتا ہے اس کے جو کہ اندھا ہے“ اور وہ حق کا علم رکھتا ہے نہ حق پر عمل کرتا ہے، دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ پس بندے پر لازم ہے کہ وہ غور کرے کہ فریقین میں سے کس کا حال اچھا اور کس کا انجام بہتر ہے۔ پھر اسے چاہئے کہ اسی راستے کو ترجیح دے اور اسی گروہ کی پیروی میں رواں دواں رہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص غور و فکر نہیں کرتا کہ اس کے لئے کیا چیز فائدہ مند اور کیا چیز نقصان دہ ہے؟ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ ” عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔“ یعنی جو پختہ عقل اور کامل رائے رکھتے ہیں یہ لوگ کائنات کالب لباب اور بنی آدم میں چنے ہوئے لوگ ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo shaks yeh yaqeen rakhta ho kay tum per tumharay perwerdigar ki taraf say jo kuch nazil huwa hai , bar-haq hai , bhala woh uss jaisa kaisay hosakta hai jo bilkul andha ho-? haqeeqat yeh hai kay naseehat to wohi log qubool kertay hain jo aqal o hosh rakhtay hon ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک موازنہ
ارشاد ہوتا ہے کہ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو، سب پر ایمان رکھتا ہو، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو، سب خبروں کو سچ جانتا ہو، سب حکموں کو مانتا ہو، سب برائیوں کو جانتا ہو، آپ کی سچائی کا قائل ہو۔ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو، نہ سچا جانتا ہو، یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جیسے فرمان ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں۔ جنتی خوش نصیب ہیں، یہی فرمان یہاں ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں۔ باب یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھ داروں کی ہی ہوتی ہے۔