ابراہیم آية ۱
الٓرٰ ۗ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِـتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۙ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِۙ
طاہر القادری:
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف (لائیں) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے،
English Sahih:
Alif, Lam, Ra. [This is] a Book which We have revealed to you, [O Muhammad], that you might bring mankind out of darknesses into the light by permission of their Lord – to the path of the Exalted in Might, the Praiseworthy –
1 Abul A'ala Maududi
ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
2 Ahmed Raza Khan
ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیریوں سے اجالے میں لا ؤ ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف جو عزت والا سب خوبیوں والا ہے
3 Ahmed Ali
یہ ایک کتا ب ہے ہم نے اسے تیری طرف نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف غالب تعرف کیے ہوئے راستہ کی طرف نکالے
4 Ahsanul Bayan
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں (١) ان کے پروردگار کے حکم (٢) سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
١۔١ جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '(هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ) 57۔ الحدید;9) سورہ الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے '(اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ) 2۔ البقرۃ;257)۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
١۔٢ یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓرٰ۔ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف
6 Muhammad Junagarhi
الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، را۔ (اے رسول(ص)) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لئے نازل کی ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی کی طرف لائیں (یعنی) اس خدا کے راستہ کی طرف جو غالب (اور) قابل تعریف ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤر -یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں اور خدائے عزیز و حمید کے راستے پر لگادیں
9 Tafsir Jalalayn
الر (یہ) ایک (پرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لیجاؤ۔ (یعنی) انکے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے راستے کی طرف۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ١ تا ٦
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، الرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اے محمد اس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو کفر کی ظلمتوں سے انکے رب کے حکم سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالیں، اور الی النور سے الی صراط العزیز بدل ہے یعنی غالب اور قابل ستائش اللہ کے راستہ کی طرف (لائیں) (اللہ) کا جر (العزیز) سے بدل یا عطف بیان ہونے کی وجہ سے ہے، اس کا مابعد (یعنی الذین لہ الخ) اللہ کی صفت ہے اور (اللہ) کے رفع کی صورت میں اللہ مبتداء ہوگا اور الذین لہ اس کی خبر ہوگی وہ اللہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے، ملک اور تخلیق اور مملوک ہونے کے اعتبار سے، اور کافروں کیلئے تو شدید عذاب کی وجہ سے ہلاکت (و بربادی) ہے جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں پسند کرتے ہیں (الذین) الکافرین کی صفت ہے، اور لوگوں کو اللہ کے راستہ یعنی دین اسلام سے روکتے ہیں اور اس راستہ میں کجی نکالتے ہیں یہی لوگ پر لے درجہ کی گمراہی میں ہیں (یعنی) حق سے دور ہیں ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان ہی میں بھیجا ہے تاکہ وہ جو کچھ لے کر آیا ہے اسے ان کو سمجھائے اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت بخشے، وہ اپنے ملک میں غلبہ والا اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو اپنے نو معجزے دیکر بھیجا اور ان سے کہا یہ کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو کفر کی ظلمت سے ایمان کی روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد دلا بلاشبہ اس تذکیر میں طاعتوں پر ہر صبر کرنے والے اور نعمتوں پر شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں اور اس وقت کا ذکر جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قوم سے کہا تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جبکہ تم کو قوم فرعون سے نجات دی وہ تم کو شدید تکلیف پہنچا رہا تھا اور تمہارے نو مولود لڑکوں کو قتل کر رہا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ رہا تھا اور اس نجات یا عذاب میں ہمارے رب کی طرف سے بڑا انعام یا بڑی آزمائش تھی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھذا القرآن، اس تقدیر میں اشارہ ہے کہ کتاب انزلناہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، نہ کہ کتاب مبتداء اور انزلناہ اس کی خبر، اسلئے کہ کتاب نکرۂ محضہ ہے جس کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
قولہ : ویبدل من الی النور، الی صراط العزیز، الی صراط العزیز، الی النور سے اعادۂ عامل کے ساتھ بدل ہے۔
قولہ : بالجر بدل او عطف بیان، یعنی لفظ اللہ، العزیز سے بدل ہے یا عطف بیان ہے۔
سوال : اللہ، علم ہے اور العزیز صفت ہے علم کا صفت سے بدل واقع ہونا صحیح نہیں ہے۔
جواب : العزیز صفت مختصہ ہونے کی وجہ سے بمنزلہ علم کے ہے لہٰذا لفظ اللہ کا اس سے بدل واقع ہونا درست ہے۔
قاعدۂ معروفہ : صفت معرفہ اگر موصوف پر مقدم ہو تو صفت کا اعراب حسب عامل ہوتا ہے اور موصوف بدل یا عطف بیان واقع ہوتا ہے، اصل عبارت اس طرح ہے، ” الی صراط اللہ العزیز الحمید الذی لہ ما فی السموات وما فی الارض “ لفظ اللہ کی تین صفات ہیں ان میں سے دو مقدم ہیں اور ایک مؤخر ہے العزیز اور الحمید مقدم ہیں اور الذی لہ مافی السموٰات الخ مؤخر ہے۔ اسی معروف قاعدہ کے اعتبار سے لفظ اللہ، العزیز سے بدل یا عطف بیان واقع ہے، دوسری صورت لفظ اللہ میں رفع کی ہے، اس میں لفظ اللہ مبتداء اور الذی لہ مافی السموات الخ کی خبر ہوگی۔
قولہ : نعت، یعنی الذین یستحبون الخ جملہ ہو کر للکافرین کی صفت ہونے کی وجہ سے محلا مجرور ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ مبتداء ہونے کی وجہ سے محلا مرفوع ہے اور اولئک فی ضلال بعید اس کی خبر ہے۔
قولہ : بنعمہ۔ ایام اللہ سے نعمت مراد اس طرح ہے کہ یہ ظرف بول کر مظروف مراد لینے کے قبیل سے ہے نعمتیں اور احسانات چونکہ ایام میں حاصل ہوتے ہیں اسلئے ایام بول کر انعامات اور احسانات مراد لئے ہیں۔
قولہ : یستبقون، یستحیون کی تفسیر یستبقون سے کرکے اشارہ کردیا کہ یستحیون کے معنی موضوع لہ مراد نہیں ہیں بلکہ لازم معنی مراد ہیں۔
تفسیر و تشریح
سورة ابراہیم ترتیب کے لحاظ سے چودھویں سورت ہے، باختلاف تعداد چند آیتوں کے علاوہ پوری سورت مکی ہے، سورت کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے اس سورت کے مرکزی مضامین میں ان لوگوں کو فہمائش اور تنبیہ کرنا ہے کہ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے، اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لئے ہر طرح کی تدبیریں اور بدتر چالیں چل رہے تھے۔ اس سورت کی شروع میں رسالت اور نبوت اور ان کی کچھ خصوصیات کا ذکر ہے، پھر توحید کا بیان ہے اور اس کے شواہد کا ذکر ہے اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا ہے، اور اسی کی مناسبت سے سورت کا نام سورة ابراہیم ہے۔
الرٰ ،۔۔۔۔ باذن ربھم، الرٰ ان حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے متعلق بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس میں اسلم اور محتاط طریقہ سلف صالحین کا ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھیں کہ جو کچھ اس کی مراد ہے وہ حق ہے لیکن اس کے معنی کی تحقیق و تفتیش کے درپے نہ ہوں۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطانی راستوں سے ہٹا کہ خدا کے راستہ پر لانا ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص خدا کی راہ پر نہیں وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو، بخلاف اس کے کہ جس نے خدا کا راستہ پالیا وہ علم کی روشنی میں آگیا خواہ وہ ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔
ہدایت صرف خدا کا فعل ہے : لتخرج الناس۔۔۔۔ باذن ربھم، ناس سے تمام عالم کے انسان مراد ہیں، ظلمٰت، ظلمۃ کی جمع ہے یہاں ظلمت سے کفر و شرک اور بداعمالیوں کی ظلمت مراد ہے اور نور سے مراد ایمان کی روشنی ہے، چونکہ کفر و شرک کی بہت سی انواع و اقسام ہیں اسلئے ظلمات کو جمع لایا گیا ہے اور ایمان اور حق ایک ہی ہے اسلئے نور کو مفرد کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے، اس آیت میں تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کو اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت میں ہدایت دینا اللہ کا کام ہے یہ اسناد مجازی نسبت الی السبب کے قبیل سے ہے اس لئے کہ ہدایت دینا محض اللہ کا کام ہے آپ کا کام صرف رہنمائی کرنا ہے ” انک لاتھدی من احببت “ آپ اپنے مہربان چچا خواجہ ابو طالب کو تمام تر خواہش کے باوجود ایمان پر نہ لاسکے اسی آیت کے آخر میں الا باذن ربھم کا لفظ دیا تاکہ یہ شبہ ختم ہوجائے کہ کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکالنا آپ کا کام ہے، اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ خواہ وہ نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو راہ راست پیش کردینے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔
اللہ کے راستہ سے روکنے کا مطلب : اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کیلئے میں میکھ نکالتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کیلئے کتابیں نازل کیں اور کتابوں پر عمل کرکے دکھانے کے لئے رسول بھیجے تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو اس کی قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دشوار نہ ہو لیکن اس کے باوجود ہدایت ملے گی اس کو جس کو اللہ چاہے گا۔
جس طرح ہم نے اے محمد آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں کفر و جہل کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی سے روشناس کرائیں۔
ان فی ذلک۔۔۔۔ شکور، صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اسلئے یہاں صرف ان ہی دو کا ذکر کیا گیا ہے یہاں دونوں مبالغہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ” صبار “ بہت صبر کرنے والا ” شکور “ بہت شکر کرنے والا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو شکر ادا کرنے کی توفیق مل گئی وہ کبھی نعمتوں اور برکتوں سے محروم نہ ہوگا، اور اللہ نے فرمایا اگر تم میری نعمتوں کی ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے مخلوق کے فائدے کے لئے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت، اخلاق بد اور مختلف اقسام کے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر علم و ایمان اور اخلاق حسنہ کی روشنی میں لے جائے اور فرمایا ﴿بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ” ان کے رب کے حکم سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبوب مراد صرف اللہ تعالیٰ کے اراے اور اس کی مدد ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس آیت کر یمہ میں بندوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ اپنے رب سے مدد طلب کریں۔ پھر اللہ نے اس ” نور“ کی تفسیر بیان فرمائی جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ ” غالب اور قابل تعریف (اللہ) کے راستے کی طرف“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم والے گھر تک پہنچانے والا راستہ، جو حق کے علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچانے والے راستے کا ذکر کرنے کے بعد ﴿الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کوئی اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کوئی اعوان و انصار نہ ہوں، تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کے ساتھ غالب اور طاقتور ہے، وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش اور اچھے انجام کا مالک ہے۔ نیز یہ اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ، اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور نعوت جلال پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور جس نے اپنے بندوں کے لئے یہ راستہ مقرر کیا ہے، وہ غالب، قوت والا، اپنے اقوال و افعال اور احکام میں قابل ستائش ہے۔ وہ معبود ہے اور تمام عبادات کا مستحق ہے یہ عبادات اس صراط مستقیم کی منازل ہیں۔ اللہ تعالیٰ، تخلیق، رزق اور تدبیر کے اعتبار سے جس طرح آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں پر احکام دینی بھی نافذ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے فائدہ چھوڑ دے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Raa . ( aey payghumber ! ) yeh aik kitab hai jo hum ney tum per nazil ki hai , takay tum logon ko unn kay perwerdigar kay hukum say andheron say nikal ker roshni mein ley aao , yani uss zaat kay raastay ki taraf jiss ka iqtidar sabb per ghalib hai , ( aur ) jo her tareef ka mustahiq hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حوف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لاسکتا ہے۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہوجاتی ہے۔
اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ\015\08 ) 7 ۔ الاعراف :158) ، میں۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہوگی۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید ؟