ابراہیم آية ۱۳
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَـنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَـتَعُوْدُنَّ فِىْ مِلَّتِنَا ۗ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَــنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَۙ
طاہر القادری:
اور کافر لوگ اپنے پیغمبروں سے کہنے لگے: ہم بہرصورت تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہوگا، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے،
English Sahih:
And those who disbelieved said to their messengers, "We will surely drive you out of our land, or you must return to our religion." So their Lord inspired to them, "We will surely destroy the wrongdoers.
1 Abul A'ala Maududi
آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ "یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے" تب اُن کے رب نے اُن پر وحی بھیجی کہ "ہم اِن ظالموں کو ہلا ک کر دیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر کچھ ہوجاؤ، تو انہیں ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے
3 Ahmed Ali
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا ہمارے دین میں لوٹ آؤ تب انہیں ان کے رب نے حکم بھیجا کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے
4 Ahsanul Bayan
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے (١)
١٣۔١ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا '(وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١ښ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ١٧٢۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ١٧٣ )۔ 37۔ الصافات;171)۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ فتح مند اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا '(كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ )۔ 58۔ المجادلہ;21)۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
6 Muhammad Junagarhi
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ اور تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کردیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ گے تو پروردگار نے ان کی طرف وحی کی کہ خبردار گھبراؤ نہیں ہم یقینا ظالمین کو تباہ و برباد کردیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا (ہمارے) مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دینگے
آیت نمبر ١٣ تا ٢١
ترجمہ : اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تم کو یقیناً ملک بدر کردیں گے الایہ کہ تم ہمارے مذہب میں داخل ہوجاؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کافروں ہی کو غارت کردیں گے اور ان کے ہلاکت کے بعد تم کو ان کی زمین پر بسا دیں گے، یہ مدد اور وراثت ارضی اس کیلئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے گا اور عذاب کی وعید کا ڈر رکھے گا اور رسولوں نے اپنی قوم کے مقابلہ میں اللہ سے مدد طلب کی اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں ہر سرکشی کرنے والا ضدی حق کا دشمن نامراد ہوگیا، اس کے سامنے جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوگا جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائیگا، اور وہ ایسا پانی ہے کہ جو جہنمیوں کے اندر سے نکلے گا جو پیپ اور خون کا آمیزہ ہوگا جس کو وہ مجبوراً پیئے گا (یعنی) اس کی تلخی کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے پیئے گا اس کی قباحت اور کراہت کی وجہ سے اس کو نگل نہ سکے گا، اور اس کی ہر طرف سے موت آتی نظر آئے گی یعنی موت کے اسباب جو موت کے متقاضی ہوں گے مختلف اقسام کے عذابوں سے، مگر وہ مرے گا نہیں اور اس عذاب کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا سخت عذاب ہوگا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے لوگوں کے اعمال صالحہ مثلا صلہ رحمی اور صدقہ کی مثال ان سے منتفع نہ ہونے میں الذین کفروا مبتداء (مبدول منہ) اور اعمالھم بدل ہے اس راکھ کی سی ہے کہ جس پر آندھی کے دن تیز و تند ہوا چلی ہو (اور) اس کو اڑتا ہوا غبار کردیا کہ اس کے اجر کے پانے پر قادر نہ ہونگے (یعنی اپنے اعمال صالحہ کا اجر پانے پر قادر نہ ہو) اور مجرور (کرماد) مبتداء کی خبر ہے، جو بھی انہوں نے دنیا میں عمل (صالح) کیا کفار اسی پر یعنی اس کا اجر پانے پر اسکی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے قادر نہ ہوں گے یہی دور کی گمراہی ہلاکت ہے، اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا استفہام تقریری ہے، کہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بامقصد پیدا کیا، بالحق، خلق کے متعلق ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کر دے اور تمہارے بجائے ایک نئی مخلوق پیدا کردے اور اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل نہیں ہے، اور پوری مخلوق (روزمحشر) اللہ کے روبرو حاضر ہوگی اور تعبیر یہاں اور آئندہ صیغۂ ماضی کے ذریعہ یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ہے اس وقت کمزور لوگ یعنی تابعین سربراہوں (یعنی) متبوعین سے کہیں گے ہم تو تمہارے تابعدار تھے تبعا، تابع کی جمع ہے تو کیا تم اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم سے دفع کرسکتے ہو پہلا من تبیین کیلئے ہے اور دوسرا تبعیض کیلئے ہے، مخدومین جواب دیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہاری رہنمائی کرتے (یعنی) ہم تم کو ہدایت کی طرف دعوت دیتے، اب ہم خواہ وائے ویلا کریں یا صبر کریں دونوں ہمارے لئے برابر ہیں (اب) ہمارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے من زائدہ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لتصیرن مفسر علام نے لتعودن کی تفسیر لتصیرن سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ عود کیلئے پہلے اس حالت پر ہونا ضروری ہے جس سے عود کرے اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء (علیہ السلام) پہلے اپنی امت کے دین پر ہوتے تھے بعد میں اس سے نکل کر دین حق پر آتے تھے حالانکہ امر واقعہ ایسا نہیں ہے نبی ابتداء ہی سے دین حق پر ہوتے ہیں ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے تعودن، تصیرن کے معنی میں ہے، یعنی تم ہمارے دین پر ہوجاؤ۔
قولہ : بعدھلاکھم، اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : یدخلھا، یدخلھا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یسقی کا عطف محذوف پر ہے تاکہ عطف فعل علی الاسم لازم نہ آئے۔
قولہ : فیھا۔ سوال : (فیھا) مقدر ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : جب معطوف جملہ واقع ہوتا ہے تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو معطوف علیہ کی طرف راجع ہوتا ہے۔
قولہ : یتجرعہ، ای یتکلف۔
قولہ : یزدردہ، الازدراد خوشگواری اور سہولت سے کسی چیز کا حلق میں اتارنا۔
قولہ : اسبابہ المقتضیۃ للموت، اس میں اشارہ ہے کہ جہنم میں موت نہیں ہوگی اسلئے کہ موت کیلئے تو ایک ہی سبب کافی ہوتا ہے چہ جائے کہ بہت سے اسباب موجود ہوں اور پھر بھی موت نہ آئے، یہ موت نہ آنے کی دلیل ہے۔
قولہ : ویبدل منہ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : مبتداء اور خبر کے درمیان (اعمالھم) کا فصل بالاجنبی لازم آرہا ہے جو درست نہیں ہے۔
جواب : یہ فصل اجنبی نہیں ہے بلکہ وہ مبتداء سے بدل ہے اور بدل مبدل منہ سے اجنبی نہیں ہوتا۔
قولہ : فی یوم عاصف، عاصف کی یوم کی طرف اسناد مجاز کے طور پر ہے اور یوم عاصف، نھارہ صائم ولیلۃ قائم کے قبیل سے ہے۔
قولہ : من الاولی للتبیین یعنی من اپنے بعد واقع ہونے والے لفظ شئ کے بیان کیلئے ہے بیان جو کہ عذاب اللہ ہے مبین یعنی شئ پر مقدم ہے تقدیر عبارت یہ ہے، ” ھل انتم مغنون عنا بعض الشئ ھو بعض عذاب اللہ “۔
تفسیر و تشریح
قال الذین۔۔۔ الخ حضرات انبیاء کے وعظ و تذکیر سے بجائے اس کے کہ منکرین کے دل کچھ نرم پڑتے اور ٹھنڈے دل سے اپنے رسول کی بتائی باتوں پر غور کرتے الٹے انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تم ہی ہمارے دھرم میں آجاؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے گمراہ لوگوں کے دین دھرم میں شامل ہوا کرتے تھے اور وحی ہدایت آنے کے بعد دین باطل کو ترک کرکے دین حق کی طرف آتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرف خاموش زندگی بسر کرتے تھے کسی دین کی تبلیغ اور رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے اس لئے ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ بھی ہماری ملت میں ہیں، اور کار نبوت شروع کرنے کے بعد ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ملت آبائی سے نکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکوں کی ملت میں شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان پر اس سے خروج کا الزام عائد کیا جائے۔
ولنسکننکم الارض الخ اسی وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی، اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بادل ناخواستہ مکہ سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں کے بعد ہی آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سرجھکائے کھڑے آپ کے اشارۂ ابرو کے منتظر تھے، لیکن آپ نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشریب علیکم الیوم کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔
مثل الذین۔۔۔ الخ یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ بےوفائی، خودمختاری نافرمانی اور سرکشی کی روش اختیار کی اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کردیا کہ جس کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، ایسے لوگوں کی زندگی بھر کا سرمایۂ عمل ایسا لاحاصل اور بےمعنی ثابت ہوگا جیسا کہ راکھ کا ایک ڈھیر تھا، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا دیا کہ اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو کر رہ گیا، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے خیراتی اور رفائی کارنامے بھی جن پر ان کو فخر و ناز تھا سب کے سب آخر کار راکھ کا ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ وزن پاسکیں۔
دوزخیوں کی آپس میں گفتگو : جہنمی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہ وزاری کریں چناچہ وہ رو رو کر خوب آہ وزاری کریں گے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، پھر کہیں گے جنتیوں کو جنت ان کے صبر کی وجہ سے ملی چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں پھر وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تو اس وقت کہیں گے کہ ہم صبر کریں یا جزع و فزع اب رہائی کی کوئی صورت نہیں یہ ان کی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے انبیاء ورسل کی اپنی قوم کے سامنے دعوت، اس پر دوام اور عدم ملال کا ذکر فرمایا، تو ان کی قوم کے ساتھ ان کا منتہائے حال بھی بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ﴾ ” اور جو کافرتھے انہوں نے اپنے رسولوں سے کہا“ ان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا﴾ ” ہم تمہیں اپنے وطن سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ“ یہ انبیاء کی دعوت کو ٹھکرانے کا سب سے زیادہ بلیغ طریقہ ہے اور اس کے بعد ان پر کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ انہوں نے ہدایت ہی سے ردگردانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے رسولوں کو ان کے وطن سے نکال دینے کی بھی دھمکی دی اور وطن کو صرف اپنی طرف منسوب کیا، ان کا زعم تھا کہ وطن پر رسولوں کا کوئی حق نہیں۔ اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روئے زمین پر پھیلایا اور ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور زمین اور زمین کی ہر چیز کو ان کے لئے مسخر کردیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ان چیزوں سے مدد لیتے ہیں۔ پس جو کوئی ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے یہ اس کے لئے جائز ہیں اور اس پر کوئی گرفت نہیں اور جو کوئی ان کو کفر اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی میں استعمال کرتا ہے تو یہ اشیاء اس کے لئے خالص ہیں نہ اس کے لئے حلال ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ دشمنان انبیاء، درحقیقت، زمین کی کسی شے کے مالک نہیں، وہ زمین سے جس سے وہ انبیاء کرام کو جلاوطن کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اس کی کسی چیز کے بھی مالک نہیں۔۔۔ اگر ہم مجرد عادت کی طرف رجوع کریں تو انبیاء ومرسلین بھی اہل بلاد میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے وطن ہی میں بسنے والے افراد ہیں، تب وہ انہیں ان کے واضح اور صریح حق سے کیوں محروم کررہے ہیں کیا یہ تمام تر دین اور مروت کے منافی نہیں؟۔۔۔ اسی لئے جب رسولوں کے خلاف ان کی سازشیں اس حال کو پہنچ گئیں تو اس کے سوا کچھ باقی نہ رہا کہ اللہ اپنے حکم کو نافذ کردے اور اپنے اولیاء کی مدد کرے۔ ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ﴾ ” پس ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے“ عذاب کی مختلف اقسام کے ذریعے سے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apna liya tha , unhon ney apney payghumberon say kaha kay : hum tumhen apni sarzameen say nikal ker rahen gay , werna tumhen humaray deen mein wapis aana parray ga . chunacheh unn kay perwerdigar ney unn per wahi bheji kay : yaqeen rakho , hum inn zalimon ko halak kerden gay ,
12 Tafsir Ibn Kathir
آل لوط
کافر جب تنگ ہوئے، کوئی حجت باقی نہ رہی تو نبیوں کو دھمکانے لگے اور دیس نکالنے سے ڈرانے لگے۔ قوم شعیب نے بھی اپنے نبی اور مومنوں سے یہی کہا تھا کہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ لوطیوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے نکال دو ۔ وہ اگرچہ مکر کرتے تھے لیکن اللہ بھی ان کے داؤ میں تھا۔ اپنے نبی کو سلامتی کے ساتھ مکہ سے لے گیا مدینے والوں کو آپ کا انصار و مددگار بنادیا وہ آپ کے لشکر میں شامل ہو کر آپ کے جھنڈے تلے کافروں سے لڑے اور بتدریج اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترقیاں دیں یہاں تک کہ بالاخر آپ نے مکہ بھی فتح کرلیا اب تو دشمنان دین کے منصوبے خاک میں مل گئے ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی ان کی آرزویں پامال ہوگئیں۔ اللہ کا دین لوگوں کے دلوں میں مضبوط ہوگیا، جماعتوں کی جماعتیں دین میں داخل ہونے لگیں، تمام روئے زمین کے ادیان پر دین اسلام چھا گیا، کلمہ حق بلند وبالا ہوگیا اور تھوڑے سے زمانے میں مشرق سے مغرب تک اشاعت اسلام ہوگئی فالحمد للہ۔ یہاں فرمان ہے کہ ادھر کفار نے نبیوں کو دھمکایا ادھر اللہ نے ان سے سچا وعدہ فرمایا کہ یہی ہلاک ہوں گے اور زمین کے مالک تم بنو گے۔ جسے فرمان ہے کہ ہمارا کلمہ ہمارے رسولوں کے بارے میں سبقت کرچکا ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21) 58 ۔ المجادلة :21) اللہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ہی غالب آئیں گے، اللہ قوت والا اور عزت والا ہے۔ اور آیت میں ارشاد ہے کہ ذکر کے بعد زبور میں بھی یہی تحریر ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا کہ تم اللہ سے مدد طلب کرو، صبر و برداشت کرو، زمین اللہ ہی کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے انجام کار پرہیزگاروں کا ہی ہے۔ اور جگہ ارشاد ہے۔ آیت ( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا\013\07 ) 7 ۔ الاعراف :137) ضعیف اور کمزور لوگوں کو ہم نے زمین کی مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جہاں ہماری برکتیں تھیں بنی اسرائیل کے صبر کی وجہ سے ہمارا ان سے جو بہترین وعدہ تھا وہ پورا ہوگیا ان کے دشمن فرعون اور فرعونی اور ان کی تمام تیاریاں سب یکمشت خاک میں مل گئیں۔ نبیوں سے فرما دیا گیا کہ یہ زمین تمہارے قبضے میں آئے گی یہ وعدے ان کے لئے ہیں جو قیامت کے دن میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہیں اور میرے ڈراوے اور عذاب سے خوف کھاتے رہیں۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( فَاَمَّا مَنْ طَغٰى 37ۙ ) 79 ۔ النازعات :37) ، یعنی جس نے سرکشی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور آیت میں ہے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف جس نے کیا اسے دوہری جنتیں ہیں۔
رسولوں نے اپنے رب سے مدد و فتح اور فیصلہ طلب کیا یا یہ کہ ان کی قوم نے اسے طلب کیا جیسے قریش مکہ نے کہا تھا کہ الہٰی اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب ہمیں کر۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ادھر سے کفار کا مطالبہ ہوا ادھر سے رسولوں نے بھی اللہ سے دعا کی جیسے بدر والے دن ہوا تھا کہ ایک طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الہٰی آج سچے کو غا لب کر یہی ہوا بھی۔ مشرکین سے کلام اللہ میں اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ تم فتح طلب کیا کرتے تھے لو اب وہ آگئی اب بھی اگر باز آجاؤ تو تمہارے حق میں بہتر ہے الخ نقصان یافتہ وہ ہیں جو متکبر ہوں اپنے تئیں کچھ گنتے ہوں حق سے عناد رکھتے ہوں قیامت کے روز فرمان ہوگا کہ ہر ایک کافر سرکش اور بھلائی سے روکنے والے کو جہنم میں داخل کرو جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی پوجا کرتا تھا اسے سخت عذاب میں لے جاؤ۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا وہ تمام مخلوق کو ندا کر کے کہے گی کہ میں ہر ایک سرکش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں۔ الخ اس وقت ان بد لوگوں کا کیا ہی برا حال ہوگا جب کہ انبیا تک اللہ کے سا منے گڑگڑا رہے ہوں گے۔
وراء یہاں پر معنی " امام " سامنے کے ہیں جیسے آیت (وکان ورائھم ملک) میں ہے ابن عباس کی قرأت ہی وکان امامھم ملک ہے غرض سامنے سے جہنم اس کی تاک میں ہوگی جس میں جا کر پھر نکلنا ناممکن ہوگا قیامت کے دن تک تو صبح شام وہ پیش ہوتی رہی اب وہی ٹھکانا بن گئی پھر و ہاں اس کے لئے پانی کے بدلے آگ جیسا پیپ ہے اور حد سے زیادہ ٹھنڈا اور بدبو دار وہ پانی ہے جو جہنمیوں کے زخموں سے رستا ہے۔ جیسے فرما آیت ( ھٰذَا ۙ فَلْيَذُوْقُوْهُ حَمِيْمٌ وَّغَسَّاقٌ 57ۙ ) 38 ۔ ص :57) پس ایک گرمی میں حد سے گزرا ہوا ایک سردی میں حد سے گزرا ہوا۔ صدید کہتے ہیں پیپ اور خون کو جو دوزخیوں کے گوشت سے اور ان کی کھالوں سے بہا ہوا ہوگا۔ اسی کو طینۃ الخبال بھی کہا جاتا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ جب اس کے پاس لایا جائے گا تو اسے سخت تکلیف ہوگی منہ کے پاس پہنچتے ہی سارے چہرے کی کھال جھلس کر اس میں گرپڑے گی۔ ایک گھونٹ لیتے ہی پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ کھولتا ہوا گرم پانی پلائے جائیں گے جو چہرہ جھلسا دے الخ۔ جبرا گھونٹ گھونٹ کر کے اتارے گا، فرشتے لو ہے کے گرز مار مار کر پلائیں گے، بدمزگی، بدبو، حرارت، گرمی کی تیزی یا سردی کی تیزی کی وجہ سے گلے سے اترنا محال ہوگا۔ بدن میں، اعضا میں، جوڑ جوڑ میں وہ درد اور تکلیف ہوگی کہ موت کا مزہ آئے لیکن موت آنے کی نہیں۔ رگ رگ پر عذاب ہے لیکن جان نہیں نکلتی۔ ایک ایک رواں ناقابل برداشت مصیبت میں جکڑا ہوا ہے لیکن روح بدن سے جدا نہیں ہوسکتی۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سے موت آرہی ہے لیکن آتی نہیں۔ طرح طرح کے عذاب دوزخ کی آگ گھیرے ہوئے ہے مگر موت بلائے سے بھی نہیں آتی۔ نہ موت آئے نہ عذاب جائے۔ ہر سزا ایسی ہے کہ موت کے لئے کافی سے زیادہ ہے لیکن وہاں تو موت کو موت آگئی ہے تاکہ سزا دوام والی ہوتی رہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ پھر سخت تر مصیبت ناک الم افزا عذاب اور ہیں۔ جیسے زقوم کے درخت کے بارے میں فرمایا کہ وہ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے شگوفے شیطانوں کے سروں جیسے ہیں وہ اسے کھائیں گے اور پیٹ بھر کے کھائیں گے پھر کھولتا ہوا تیز گرم پانی پیٹ میں جا کر اس سے ملے گا پھر ان کا لوٹنا جہنم کی جانب ہے۔ الغرض کبھی زقوم کھانے کا کبھی آگ میں جلنے کا کبھی صدید پینے کا عذاب انہیں ہوتا رہے گا۔ اللہ کی پناہ۔ فرمان رب عالیشان ہے آیت ( هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِيْ يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُوْنَ 43ۘ) 55 ۔ الرحمن :43) یہی وہ جہنم ہے جسے کافر جھٹلاتے رہے۔ آج جہنم کے اور ابلتے ہوئے تیز گرم پانی کے درمیان وہ چکر کھاتے پھریں گے۔ اور آیت میں ہے کہ زقوم کا درخت گنہگاروں کی غذا ہے جو پگھلتے ہوئے تانبے جیسا ہوگا، پیٹ میں جا کر ابلے گا اور ایسے جوش مارے گا جیسے گرم پانی کھول رہا ہو۔ اسے پکڑو اور اسے بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر گرم پانی کے تریڑے کا عذاب بہاؤ مزہ چکھ تو اپنے خیال میں بڑا عزیز تھا اور اکرام والا تھا یہی جس سے تم ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے۔ سورة واقعہ میں فرمایا کہ وہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دئے جائیں گے یہ بائیں ہاتھ والے کیسے بد لوگ ہیں گرم ہوا اور گرم پانی میں پڑے ہوئے ہوں گے اور دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا نہ باعزت دوسری آیت میں ہے سرکشوں کے لئے جہنم کا برا ٹھکانا ہے جس میں داخل ہوں گے اور وہ رہائش کی بدترین جگہ ہے اس مصیبت کے ساتھ تیز گرم پانی اور پیپ لہو اور اسی کے ہم شکل اور بھی قسم قسم کے عذاب ہوں گے جو دوزخیوں کو بھگتنے پڑیں گے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہوگا نہ کہ اللہ کا ظلم۔