ابراہیم آية ۲۸
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
طاہر القادری:
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتِ (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیا،
English Sahih:
Have you not considered those who exchanged the favor of Allah for disbelief and settled their people [in] the home of ruin?
1 Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت ناشکری سے بدل دی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر لا اتار،
3 Ahmed Ali
کیاتو نے انہیں نہیں دیکھا کہ جنہوں نے الله کی نعمت کےبدلے میں ناشکری کی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا
4 Ahsanul Bayan
کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا (١)۔
٢٨۔١ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نت رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے رحمتہ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہوگیا اور جس نے اس نعمت کو رد کر دیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا
6 Muhammad Junagarhi
کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں ﻻ اتارا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کو کفرانِ نعمت سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں یعنی دوزخ میں جا اتارا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفرانِ نعمت سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچادیا
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
آیت نمبر ٢٨ تا ٣٤
ترجمہ : کیا آپ نے ان پر نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں یعنی ان کا شکر کو ناشکری سے بدل دیا اور وہ کفار قریش ہیں، اور اپنی قوم کو گمراہ کرکے ہلاکت کے گھر میں لا اتارا یعنی جہنم میں یہ عطف بیان ہے جس میں یہ سب داخل ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرالئے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ دین اسلام سے بہکائیں یاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اپنی دنیا میں (چند دن) مزے اڑالو، تمہاری جائے بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے (اے نبی) میرے ان بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہہ دیجئے کہ نماز کی پابندی کریں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ظاہر اور پوشیدہ طور پر خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی (نہ ان کے پاس کچھ ہوگا کہ جس کو وہ فدیہ میں دے سکیں) اور وہ دن قیامت کا ہوگا، اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور بادلوں سے پانی برسایا اس پانی کے ذریعہ تمہارے رزق کیلئے پھل پیدا کئے اور کشتیوں کو تابع کردیا کہ دریا میں سواریوں اور بوجھ کو اللہ کی اجازت سے لے کر چلتی ہیں اور اسی نے دریا تمہارے اختیار میں کر دئیے اور سورج و چاند کو تمہارے لئے مسخر کردیا (یعنی تمہارے کام میں لگا دیا) کہ اپنی منزولوں میں رواں دواں ہیں (ذرہ برابر) سستی نہیں کرتے اور رات کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو بھی تاکہ تم اس میں اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور جو چیز تم نے اس سے طلب کی اس میں سے تمہاری مصلحت کے مطابق عطا کی، اگر تم اللہ کے انعامات کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے یعنی تمہارے اندر ان کو شمار کرنے کی طاقت نہیں یقیناً کافر انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے یعنی اپنی رب کی نعمتوں کی ناشکری اور معصیت کرکے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای شکرھا، یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ بدلوا نعمۃ اللہ کفرا کے معنی ہیں کہ ان لوگوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل لیا، حالانکہ نعمت عین ہے اور کفر و صف ہے اور تبدیل عین بالوصف کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
جواب : مضاف محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ نعمت کے شکر کو ناشکری سے بدل دیا، یعنی شکر کرنے کے بجائے ناشکری کی۔
قولہ : لیضلوا۔ سوال : جعلوا للہ اندادا، کی غرض اضلال اور ضلال کو قرار دیا ہے حالانکہ شریک قرار دینے سے مشرکین کی غرض اضلال اور ضلال نہیں تھی۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اضلال اور ضلال اگرچہ انداد کی غرض نہیں ہے مگر نتیجہ ضرور ہے لہٰذا نتیجہ کو غرض قرار دیا ہے
قولہ : قل لعبادی الذین آمنوا یقیموا الصلوٰۃ الخ۔
سوال : یقیموا الصلوۃ الخ کا مقولہ واقع ہونا درست نہیں ہے اسلئے کہ اقامت صلوۃ مخاطب کا عمل ہے نہ کہ قائل کا مقولہ، حالانکہ مقولہ کیلئے قائل کا ہی مقولہ ہونا ضروری ہے۔
جواب : قل کا مقولہ محذوف ہے اور جواب امر جو کہ یقیموا الصلوٰۃ ہے حذف پر دال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے قل لعبادی الذین آمنوا أقیموا وأنفقوا، لیقیموا الصلوٰۃ وینفقوا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ امر مقولہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے قل لھم لیقیموا الخ قُلْ کی دلالت کی وجہ سے لام کو حذف کردیا گیا ہے یقیموا ہوگیا اور اگر ابتداء حذف کے ساتھ یقیموا کو مقولہ قرار دیدیا جائے تو درست نہ ہوگا۔
قولہ : سرا وعلانیۃ دونوں أنفقوا امر کی ضمیر سے حال واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں، ای ینفقون مسرین ومعلفین۔
قولہ : السفن، اسد کے وزن پر جمع ہے لہٰذا تجری فعل کا مؤنث لانا درست ہے۔
قولہ : دائبین، ایک دستور پر چلنے والے یہ دائبٌ کا تثنیہ ہے، بمعنی حال، عادت، رسم، دستور، (ف) دأب یدأب، دأبا لگا تار کسی کام میں لگنا۔
تفسیر و تشریح
الم تر۔۔۔۔ کفرا، یہ ذکر سرداران کفر اور پیشوایان ضلالت کا ہو رہا ہے، اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے رسالت محمدیہ کا انکار کرکے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑکر اپنے لوگوں کو ہلاک کردیا اگرچہ یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے خاص ہے مگر اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا، سو جس نے اس نعمت کی قدر کی اسے قبول کیا تو اس نے اس کا شکر ادا کیا اور وہ جنتی ہوگیا، اور جس نے اسے رد کردیا اور کفر اختیار کئے رکھا وہ مستحق دوزخ ہوا۔
نعمۃ کا لفظ اگرچہ مفرد استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے جنس کے طور پر عام ہے اس سے دنیا کی تمام نعمتیں جو محسوس و مشاہد ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہری منافع سے ہے مراد ہوسکتی ہیں اور معنوی و روحانی نعمتیں بھی جن کا تعلق انسان کے رشد و ہدایت کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء اور آسمانی کتابوں اور نشانیوں کی شکل میں نازل ہوتی ہیں مراد ہوسکتی ہیں، اور دونوں بھی۔ دونوں قسم کی نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ انسان اللہ کی عظمت اور قدرت کو پہچانتا اس کی نعمتوں کا شکر گذار ہوتا اس کی نافرمانبرداری اختیار کرتا مگر کفار و مشرکین نے نعمتوں کا مقابلہ شکر کے بجائے کفران نعمت سے اور اس کے احسانات کا مقابلہ سرکشی اور نافرمانی سے کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت و بربادی کے مقام میں ڈال دیا اور خود بھی ہلاک ہوئے۔
قل تمتعوا، تمتعوا کے معنی کسی چیز سے چند روزہ عارضی فائدہ حاصل کرنے کے ہیں، اس آیت میں مشرکین کو بتلا دیا گیا ہے کہ چند روز دنیا میں عیش کرلو اور دنیا کی نعمتوں سے چند روز فائدہ اٹھالو مگر انجام کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
قل لعبادی، سابقہ آیت میں نافرمان بندوں، کفار و مشرکین کی مذمت اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں اپنے فرمانبردار اور شکر گذار مومن بندوں کا ذکر ہے اور ان کو ادائے شکر کے طریقوں کی ہدایت ہے جس میں سب سے پہلی ہدایت اقامت صلوۃ کی ہے اقامت صلوۃ کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر تعدیل ارکان کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، صلہ رحمی کی جائے، ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے مالی فرائض ادا کئے جائیں۔
لابیع فیہ۔۔۔ خلۃ کی جمع ہے جس کے معنی بےغرض مخلصانہ دوستی کے ہیں، نیز اس لفظ کو باب مفاعلہ کا مصدر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے، قتال، دفاع وغیرہ اس صورت میں اس کے معنی دو شخصوں کے درمیان مخلصانہ دوستی کے ہوں گے، یہ سب نیکیاں دنیا ہی میں موت سے پہلے پہلے کرلینی چاہئیں، اس کے بعد قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خریدو فروخت ممکن ہوگی اور نہ ہی خود غرضی کی دوستی کسی کے کام آئیگی۔
اللہ الذی۔۔۔ الخ اس آیت میں آخر رکوع تک اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں کی یاد دہانی کرا کے انسان کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت و ترغیب دی ہے، غرضیکہ اللہ کی نعمتیں ان گنت اور بیشمار ہیں انہیں کوئی حیطۂ شمار میں نہیں لاسکتا چہ جائے کہ ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کرسکے، ایک اثر میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا قول ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے کہا ” اے رب میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ؟ جبکہ شکر بجائے خود تیری طرف سے میرے اوپر ایک نعمت ہے “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کردیا جبکہ تو نے یہ اعتراف کرلیا کہ اے اللہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں “۔ (ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار قریش کا اور ان کے معاملات کا مآل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرًا﴾ ” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا“ یہاں اللہ تعالیٰ کی نعمت سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ہے۔ آپ انہیں دنیا وآخرت میں نیکیوں کے ادراک کی طرف دعوت دیتے تھے، مگر انہوں نے اس نعمت کو ٹھکرا کر، اس کا انکار کرکے اور اپنے آپ کو اس نعمت کو قبول کرنے سے باز رکھ کر اس نعمت کو بدل ڈالا۔ ﴿وَ﴾ اور دوسروں کو اس نعمت کو قبول کرنے سے روکا حتیٰ کہ ﴿أَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ﴾ ” اتارا انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں“ اس سے مراد جہنم ہے، کیونکہ وہ ان کی گمراہی کا سبب بنے اور اپنی قوم کے لئے وبال بن گئے جبکہ ان سے نفع کی اور امید تھی۔ منجملہ اس کے یہ بھی ہے کہ غزوہ بدر کے لئے ان کو نکلنے پر آمادہ کرنے کے لئے جنگ پر نکلنے کے بڑے فوائد بیان کئے۔ تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کریں۔ پس ان کے ساتھ عبرت ناک سلوک ہوا اور جنگ بدر میں ان کے بہت سے بڑے بڑے سردار اور بہادر مارے گئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney unn logon ko nahi dekha jinhon ney Allah ki naimat ko kufr say badal daala , aur apni qoam ko tabahi kay ghar mein laa utaara
12 Tafsir Ibn Kathir
منافقین قریش
صحیح بخاری میں ہے الم تر معنی میں الم تعلم کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا بوار کے معنی ہلاکت کے ہیں باریبوربورا سے بورا کے معنی ہلکین کے ہیں مراد ان لوگوں سے بقول ابن عباس (رض) کفار اہل مکہ ہیں اور قول ہے کہ مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے لیکن مشہور اور صحیح قول ابن عباس (رض) کا اول ہی ہے۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لئے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے۔ حضرت علی (رض) سے بھی ایک قول حضرت ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کوا کے جواب میں آپ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے فرمایا مراد اس سے منافقین قریش ہیں۔
اور روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا کہ کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا۔ یہ سن کر عبداللہ بن کوا کھڑا ہوگیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا آپ نے فرمایا یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا۔ بدر میں ابو جہل تھا اور احد میں ابو سفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے۔ ابن عباس (رض) نے جب آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں۔
میرے ماموں اور تیرے چچا، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہوگئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے۔ یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان سے کہہ دو کہ دینا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے۔ جیسے فرمان ہے ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کردیں گے دنیاوی نفع اگرچہ ہوگا لیکن لوٹیں گے تو ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے۔