Skip to main content

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ

Have not
أَلَمْ
کیا تم نے
you seen
تَرَ
دیکھا نہیں
[to]
إِلَى
طرف
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کی
(have) changed
بَدَّلُوا۟
جنہوں نے بدل دی
(the) Favor
نِعْمَتَ
نعمت
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی
(for) disbelief
كُفْرًا
کفر سے
and they led
وَأَحَلُّوا۟
اور لا اتارا
their people
قَوْمَهُمْ
اپنی قوم کو ہ
(to the) house
دَارَ
گھر میں
(of) destruction?
ٱلْبَوَارِ
حلاکت کے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
آیت نمبر ٢٨ تا ٣٤
ترجمہ : کیا آپ نے ان پر نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں یعنی ان کا شکر کو ناشکری سے بدل دیا اور وہ کفار قریش ہیں، اور اپنی قوم کو گمراہ کرکے ہلاکت کے گھر میں لا اتارا یعنی جہنم میں یہ عطف بیان ہے جس میں یہ سب داخل ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرالئے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ دین اسلام سے بہکائیں یاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اپنی دنیا میں (چند دن) مزے اڑالو، تمہاری جائے بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے (اے نبی) میرے ان بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہہ دیجئے کہ نماز کی پابندی کریں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ظاہر اور پوشیدہ طور پر خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی (نہ ان کے پاس کچھ ہوگا کہ جس کو وہ فدیہ میں دے سکیں) اور وہ دن قیامت کا ہوگا، اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور بادلوں سے پانی برسایا اس پانی کے ذریعہ تمہارے رزق کیلئے پھل پیدا کئے اور کشتیوں کو تابع کردیا کہ دریا میں سواریوں اور بوجھ کو اللہ کی اجازت سے لے کر چلتی ہیں اور اسی نے دریا تمہارے اختیار میں کر دئیے اور سورج و چاند کو تمہارے لئے مسخر کردیا (یعنی تمہارے کام میں لگا دیا) کہ اپنی منزولوں میں رواں دواں ہیں (ذرہ برابر) سستی نہیں کرتے اور رات کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو بھی تاکہ تم اس میں اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور جو چیز تم نے اس سے طلب کی اس میں سے تمہاری مصلحت کے مطابق عطا کی، اگر تم اللہ کے انعامات کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے یعنی تمہارے اندر ان کو شمار کرنے کی طاقت نہیں یقیناً کافر انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے یعنی اپنی رب کی نعمتوں کی ناشکری اور معصیت کرکے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای شکرھا، یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ بدلوا نعمۃ اللہ کفرا کے معنی ہیں کہ ان لوگوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل لیا، حالانکہ نعمت عین ہے اور کفر و صف ہے اور تبدیل عین بالوصف کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
جواب : مضاف محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ نعمت کے شکر کو ناشکری سے بدل دیا، یعنی شکر کرنے کے بجائے ناشکری کی۔
قولہ : لیضلوا۔ سوال : جعلوا للہ اندادا، کی غرض اضلال اور ضلال کو قرار دیا ہے حالانکہ شریک قرار دینے سے مشرکین کی غرض اضلال اور ضلال نہیں تھی۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اضلال اور ضلال اگرچہ انداد کی غرض نہیں ہے مگر نتیجہ ضرور ہے لہٰذا نتیجہ کو غرض قرار دیا ہے
قولہ : قل لعبادی الذین آمنوا یقیموا الصلوٰۃ الخ۔
سوال : یقیموا الصلوۃ الخ کا مقولہ واقع ہونا درست نہیں ہے اسلئے کہ اقامت صلوۃ مخاطب کا عمل ہے نہ کہ قائل کا مقولہ، حالانکہ مقولہ کیلئے قائل کا ہی مقولہ ہونا ضروری ہے۔
جواب : قل کا مقولہ محذوف ہے اور جواب امر جو کہ یقیموا الصلوٰۃ ہے حذف پر دال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے قل لعبادی الذین آمنوا أقیموا وأنفقوا، لیقیموا الصلوٰۃ وینفقوا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ امر مقولہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے قل لھم لیقیموا الخ قُلْ کی دلالت کی وجہ سے لام کو حذف کردیا گیا ہے یقیموا ہوگیا اور اگر ابتداء حذف کے ساتھ یقیموا کو مقولہ قرار دیدیا جائے تو درست نہ ہوگا۔
قولہ : سرا وعلانیۃ دونوں أنفقوا امر کی ضمیر سے حال واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں، ای ینفقون مسرین ومعلفین۔
قولہ : السفن، اسد کے وزن پر جمع ہے لہٰذا تجری فعل کا مؤنث لانا درست ہے۔
قولہ : دائبین، ایک دستور پر چلنے والے یہ دائبٌ کا تثنیہ ہے، بمعنی حال، عادت، رسم، دستور، (ف) دأب یدأب، دأبا لگا تار کسی کام میں لگنا۔
تفسیر و تشریح
الم تر۔۔۔۔ کفرا، یہ ذکر سرداران کفر اور پیشوایان ضلالت کا ہو رہا ہے، اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے رسالت محمدیہ کا انکار کرکے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑکر اپنے لوگوں کو ہلاک کردیا اگرچہ یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے خاص ہے مگر اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا، سو جس نے اس نعمت کی قدر کی اسے قبول کیا تو اس نے اس کا شکر ادا کیا اور وہ جنتی ہوگیا، اور جس نے اسے رد کردیا اور کفر اختیار کئے رکھا وہ مستحق دوزخ ہوا۔
نعمۃ کا لفظ اگرچہ مفرد استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے جنس کے طور پر عام ہے اس سے دنیا کی تمام نعمتیں جو محسوس و مشاہد ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہری منافع سے ہے مراد ہوسکتی ہیں اور معنوی و روحانی نعمتیں بھی جن کا تعلق انسان کے رشد و ہدایت کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء اور آسمانی کتابوں اور نشانیوں کی شکل میں نازل ہوتی ہیں مراد ہوسکتی ہیں، اور دونوں بھی۔ دونوں قسم کی نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ انسان اللہ کی عظمت اور قدرت کو پہچانتا اس کی نعمتوں کا شکر گذار ہوتا اس کی نافرمانبرداری اختیار کرتا مگر کفار و مشرکین نے نعمتوں کا مقابلہ شکر کے بجائے کفران نعمت سے اور اس کے احسانات کا مقابلہ سرکشی اور نافرمانی سے کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت و بربادی کے مقام میں ڈال دیا اور خود بھی ہلاک ہوئے۔
قل تمتعوا، تمتعوا کے معنی کسی چیز سے چند روزہ عارضی فائدہ حاصل کرنے کے ہیں، اس آیت میں مشرکین کو بتلا دیا گیا ہے کہ چند روز دنیا میں عیش کرلو اور دنیا کی نعمتوں سے چند روز فائدہ اٹھالو مگر انجام کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
قل لعبادی، سابقہ آیت میں نافرمان بندوں، کفار و مشرکین کی مذمت اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں اپنے فرمانبردار اور شکر گذار مومن بندوں کا ذکر ہے اور ان کو ادائے شکر کے طریقوں کی ہدایت ہے جس میں سب سے پہلی ہدایت اقامت صلوۃ کی ہے اقامت صلوۃ کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر تعدیل ارکان کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، صلہ رحمی کی جائے، ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے مالی فرائض ادا کئے جائیں۔
لابیع فیہ۔۔۔ خلۃ کی جمع ہے جس کے معنی بےغرض مخلصانہ دوستی کے ہیں، نیز اس لفظ کو باب مفاعلہ کا مصدر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے، قتال، دفاع وغیرہ اس صورت میں اس کے معنی دو شخصوں کے درمیان مخلصانہ دوستی کے ہوں گے، یہ سب نیکیاں دنیا ہی میں موت سے پہلے پہلے کرلینی چاہئیں، اس کے بعد قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خریدو فروخت ممکن ہوگی اور نہ ہی خود غرضی کی دوستی کسی کے کام آئیگی۔
اللہ الذی۔۔۔ الخ اس آیت میں آخر رکوع تک اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں کی یاد دہانی کرا کے انسان کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت و ترغیب دی ہے، غرضیکہ اللہ کی نعمتیں ان گنت اور بیشمار ہیں انہیں کوئی حیطۂ شمار میں نہیں لاسکتا چہ جائے کہ ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کرسکے، ایک اثر میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا قول ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے کہا ” اے رب میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ؟ جبکہ شکر بجائے خود تیری طرف سے میرے اوپر ایک نعمت ہے “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کردیا جبکہ تو نے یہ اعتراف کرلیا کہ اے اللہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں “۔ (ابن کثیر)

English Sahih:

Have you not considered those who exchanged the favor of Allah for disbelief and settled their people [in] the home of ruin?

1 Abul A'ala Maududi

تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا