النحل آية ۱۰
هُوَ الَّذِىْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۤءِ مَاۤءً لَّـكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ
طاہر القادری:
وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو،
English Sahih:
It is He who sends down rain from the sky; from it is drink and from it is foliage in which you pasture [animals].
1 Abul A'ala Maududi
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے تمہارا پینا ہے اور اس سے درخت ہیں جن سے چَراتے ہو
3 Ahmed Ali
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی نازل کیا اسی میں سے پیتے ہو اور اسی سے درخت ہوتے ہیں جن میں چراتے ہو
4 Ahsanul Bayan
وہی تمہارے فائدے کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی (شاداب ہوتے ہیں) جن میں تم اپنے چارپایوں کو چراتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ وہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے لئے) آسمان سے پانی برسایا جس سے تم پیتے بھی ہو اور جس سے وہ درخت (اور سبزے اگتے ہیں) جن میں تم (اپنے جانور) چراتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ وہی خدا ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے جس کا ایک حصّہ پینے والا ہے اور ایک حصّے سے درخت پیدا ہوتے ہیں جن سے تم جانوروں کو چراتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی (شاداب ہوتے ہیں) جن میں تم اپنے چارپایوں کو چراتے ہو۔
آیت نمبر 10 تا 21
ترجمہ : (اللہ) وہی ہے جس نے تمہارے فائدہ کے لئے آسمان بادلوں سے پانی برسایا اسی کو تم پیتے ہو اور اسی سے نباتات اگتی ہیں جس کو چرنے کے لئے تم اپنے جانوروں کو چھوڑتے ہو، اسی (پانی) سے تمہارے لئے کھیتی زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتی ہے بیشک ان تمام مذکورہ چیزوں میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لئے جو اس کی صنعت میں غور و فکر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ایمان لے آتے ہیں، اور اسی نے رات اور دن کو اور شمس و قمر کو اور ستاروں کو (اپنی قدرت سے) تمہارے کام میں لگا رکھا ہے (الشمس) پر نصب کے ساتھ اس کے ماقبل پر عطف کرتے ہوئے، اور رفع کے ساتھ مبتداء ہونے کی وجہ سے اور (القمر اور النجوم) میں بھی مذکورہ دونوں اعراب ہیں، (مسخراتٍ ) نصب کے ساتھ ہے، حال کی وجہ سے اور رفع ہے خبر ہونے کی وجہ سے بلا شبہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں (یعنی) غور و فکر کرتے ہیں، بہت سی چیزوں کو اس نے زمین میں تمہارے لئے پیدا کیا جن کے رنگ روپ مختلف قسم کے ہیں جیسا کہ سرخ، سبز اور زرد وغیرہ، وہ حیوان اور نبات وغیرہ ہیں یقیناً ان (مذکورہ) چیزوں میں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سی نصیحتیں ہیں اور دریا بھی اس نے تمہاری سواری کے لئے اور اس میں غوطہ زنی کے لئے بس میں کردیئے ہیں تاکہ تم اس میں سے نکال کر تازہ گوشت کھاؤ وہ مچھلی ہے، اور اس میں سے زیور نکالو کہ جن کو تم پہنو اور وہ موتی اور مونگے ہیں، اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، یعنی ایک ہی ہوا سے آتے جاتے دریا میں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، اور تاکہ تم تجارت کے ذریعہ اللہ کا فضل (روزی) طلب کرو (لِتبتغوا) کا عطف لتا کلوا پر ہے، اور تاکہ اس پر تم اللہ کا شکریہ ادا کرو اور اس نے زمین میں نہ ہلنے والے پہاڑ ثبت کردیئے تاکہ تم کو لے کر نہ ہلے (یعنی اضطرابی) حرکت نہ کرے اور زمین میں نیل کے، مانند نہریں بنائیں اور راستے بنائے تاکہ تم اپنے مقاصد تک رسائی حاصل کرسکو اور بہت سی ایسی نشانیاں بنائیں جن سے تم رہنمائی حاصل کرتے ہو جیسا کہ پہاڑوں سے دن میں اور ستاروں کے ذریعہ اور نجم بمعنی نجوم ہے راستہ کی اور قبلے کی، رات میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں کیا وہ اللہ جو پیدا کرتا ہے اس کے برابر ہے جو (کچھ) پیدا نہیں کرتا اور وہ بت ہیں، کہ جن کو عبادت میں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، نہیں (یعنی برابر نہیں ہوسکے) کیا تم اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ایمان لے آؤ، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ تم ان کا شکرادا کرسکو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے اسلئے کہ وہ تمہاری کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باوجود تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو اللہ اس کو جانتا ہے اور جن کو یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں (بندگی) کرتے ہیں اور وہ بت ہیں، وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود مخلوق ہیں، یعنی پتھر وغیرہ سے تراشے ہوئے ہیں، بےجان ہیں یہ خبر ثانی ہے ان میں جان نہیں یہ تاکید ہے، اور ان بتوں کو تو یہ بھی شعور نہیں کہ مخلوق کو کب اٹھایا جائیگا ؟ تو پھر ان کی کیوں بندگی کی جائے ؟ اسلئے کہ معبود تو وہی ہوسکتا ہے جو خالق ہو، زندہ ہو، عالم الغیب ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بالنصب حالٌ (مَسَخَّرات) الشمس پر نصب میں حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اور ماقبل میں مذکورہ سب سے حال ہوگا اور عامل سَخَّر کی ضمیر ہوگی، اور الشمسُ پر رفع کی صورت میں مسخّراتٌ مبتداء کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا۔
قولہ : ماذرَاَ اس کا عطف اللیلَ پر ہے مفسر علام نے سخّر محذوف نکال کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : مَوَاخِرَ یہ ماخر کی جمع ہے (ف) مَخْرًا، مخورًا، پانی کو چیرنا۔
قولہ : عطفٌ علی لتا کلوا (یعنی) تبتغوا اس کا عطف لتا کلوا پر ہے، درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : وجعلَ فیھا، اس کا عطف رواسیَ پر ہے اسلئے کہ القیٰ کے اندر جعل کے معنی ہیں۔
قولہ : خبرٌ ثان، یعنی اَمْواتٌ، الذین یدعون کی خبر ثانی ہے اور اول خبر مِنْ دونِ اللہ ہے۔
قولہ : تاکید، یعنی غیر احیاء، اموات کی تاکید ہے، لہٰذا عدم حاجت کا اعتراض ختم ہوگیا۔
تفسیر وتشریح
منہ۔۔۔۔ تسیمون، شجر کا لفظ اکثرتنے دار درخت کے لئے بولا جاتا ہے، اور کبھی زمین سے اگنے والی ہر چیز کیلئے بھی بولا جاتا ہے، جیسا گھاس، بیلیں وغیرہ اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں اسلئے کہ آگے جانوروں کے چرانے کا ذکر ہے اس کا تعلق زیادہ تر گھاس ہی سے ہے۔
تسیمون، اسامت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں جانوروں کو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھورنا۔
انَّ ۔۔۔ یتفکرون، ان تمام آیات میں نعماء الٰہیہ اور عجیب و غریب حکمت کے ساتھ تخلیق کائنات کا ذکر ہے جس میں غور و فکر کرنے والوں کو ایسے دلائل و شواہد ملتے ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی توحید کا گویا مشاہدہ ہونے لگتا ہے اسی لئے ان آیتوں میں ذکر کرتے کرتے بار بار درمیان میں فرمایا کہ اس میں سوچنے والوں کے لئے دلیل ہے، کیونکہ کھیتی اور درخت اور ان کے پھل پھول وغیرہ کا تعلق اللہ جل شانہ کی صنعت و حکمت کے ساتھ غور و فکر چاہتا ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ دانہ یا گٹھلی زمین کے اندر ڈالنے سے اور پانی ڈالنے سے اور پانی دینے سے تو خود بہ خود یہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں سے ایک عظیم الشان درخت نکل آئے اور اس پر رنگا رنگ پھول لگنے لگیں یہ سب قادر مطلق کی صنعت و حکمت ہے۔
وسخر۔۔۔۔ النھار الخ خدائی قدرت کاملہ کی نشانیوں میں رات اور دن کا ایک دوسرے کے پیچھے چلے آنا بھی ہے، تاکہ لوگوں کا کاربار چلے اور ان کو سکون و راحت بھی ملے، اسی طرح چاند اور سورج بھی ایک معینہ نظام کے ساتھ نکلتے اور چھپتے ہیں رات اور دن کی آمد و رفت اور سمش و قمر کے طلوع و غروب کے ساتھ انسانوں کے بیشمار فوائد وابستہ ہیں بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کے بغیر انسانی زندگی محال ہے خدا تعالیٰ نے اپنے اقتدار کامل سے چاند سورج اور تمام ستاروں کو ایک ادنی خادم کی طرح ہمارے کاموں میں لگا رکھا ہے، مجال نہیں کہ ذرا بھی سستی یا سرتابی کرسکیں۔
ھو۔۔۔۔ کلوا، آسمان اور زمین کی مخلوقات اور ان میں انسان کے فوائد و منافع بیان کرنے کے بعد سمندروں کے اندر حق تعالیٰ کی حکمت بالغہ سے انسان کے لئے کیا کیا فوائد ہیں ان کا بیان ہے کہ اس سے تم کو مچھلی کا تازہ گوشت ملتا ہے، اور دریا کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس میں غوطہ لگا کر انسان اپنے لئے زینت کا سامان نکال لیتا ہے، مراد موتی مونگے اور جواہرات ہیں جو سمندر سے نکلتے ہیں اگرچہ زیورات کے پہننے کی نسبت مردوں کی طرف کی گئی ہے مگر مراد عورتیں ہیں، اس لئے کہ دراصل عورتوں کی زیب وزینت مردوں ہی کے لئے ہے، اس کے علاوہ انگوٹھی وغیرہ کی صورت میں بھی استعمال کرتا ہے۔
وَتَرَ ۔۔۔ فیہ الخ دریاؤں کا یہ تیسرا فائدہ بتایا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دریا کو بلا دبعیدہ کے سفر کا راستہ بنایا ہے ہوائی جہاز کی ایجاد سے پہلے دور و دراز ملکوں کے سفر کا سب سے آسان طریقہ دریا کے راستہ سفر کرنا تھا اور تجارتی مال کی درآمد برآمد کا آسان وسیلہ بھی۔
والقیٰ ۔۔۔ بکم، رواسِیَ ، راسیۃ کی جمع ہے بھاری پہاڑ کو کہتے ہیں، تمیدَ ، میدٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ڈگمگانے اور اضطرابی
حرکت کرنے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ کرۂ ارض کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنی بہت سی حکمتوں کے تحت ٹھوس اور اجزاء سے نہیں بنایا اس لئے وہ کسی جانب سے بھاری اور کسی جانب سے ہلکی واقع ہوئی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ زمین کو عام فلا سفروں کی طرح ساکن مانا جائے یا حرکت مستدیرہ کے ساتھ متحرک قرار دیا جائے اور دونوں صورتوں میں زمین میں ایک اضطرابی حرکت ہوتی اس اضطرابی حرکت کو روکنے کے لئے اور اجزاء زمین کو متوازن کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کا وزن رکھ دیا تاکہ وہ اضطرابی حرکت نہ کرسکے باقی رہا سوال حرکت مستدیرہ کا تو دیگر سیارات جیسے حرکت کرتے ہیں زمین بھی ویسی ہی حرکت کرتی ہے اور قدیم فلاسفہ میں سے فیثا غورث کی بھی یہی تحقیق ہے اور جدید فلاسفہ سب اس پر اور نئے تجربات نے اس کو زیادہ واضح کردیا ہے، تو قرآن کریم میں نہ اس کا اثبات ہے اور نہ اس کی کہیں نفی بلکہ یہ اضطرابی حرکت جس کو پہاڑوں کے ذریعہ بند کیا گیا ہے اس کی حرکت مستدیرہ کے لئے اور زیادہ معین ہوگی جو دیگر سیارات کی طرح زمین کے لئے ثابت ہے۔ (معارف)
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور کائنات کا مفصل ذکر کرنے کے بعد اس بات پر تنبیہ فرمائی جس کے لئے ان سب نعمتوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے وہ ہے حق تعالیٰ کی توحید کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، اسلئے فرمایا کہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ نے تنہا زمین و آسمان بنائے کوہ و دریا بنائے، نباتات اور حیوانات بنائے، درخت اور ان کے پھل پھول بنائے کیا وہ ذات کہ جو ان سب چیزوں کی خالق ومالک ہے ان بتوں کی مانند ہوجائے گی جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے، تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں اپنی عظمت اور قدرت کے بارے میں انسان کو آگاہ فرماتا ہے اور ان آیات کے اختتام پر ﴿لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ” غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔“ کہہ کر اپنی قدرت کا ملہ پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی ہے، جس نے اپنی قدرت کاملہ سے اس رقیق و لطیف بادل سے پانی برسایا، یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے بکثرت پانی نازل کیا جسے وہ خود پیتے ہیں، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہیں اور اس سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں، پس ان کھیتوں سے بے شمار پھل اور دیگر نعمتیں پیدا ہوتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
wohi hai jiss ney aasman say paani barsaya jiss say tumhen peenay ki cheezen hasil hoti hain , aur ussi say woh darkht ugtay hain jinn mein tum maweshiyon ko charatay ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
تمہارے فائدوں کے سامان
چوپائے اور دوسرے جانوروں کی پیدائش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذائقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنا دے اسی آب باراں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں۔ سوم کے معنی چرنے کے ہیں اسی وجہ سے اہل سائمہ چرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا۔ پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے، مختلف شکل و صورت کے، مختلف خوشبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لئے پیدا کرتا ہے پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی وحدانیت جاننے کے لئے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ آسمان و زمین کا خالق، بادلوں سے پانی برسانے والا، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔