النحل آية ۱۱۱
يَوْمَ تَأْتِىْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَتُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
وہ دن (یاد کریں) جب ہر شخص محض اپنی جان کی طرف سے (دفاع کے لئے) جھگڑتا ہوا حاضر ہوگا اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا،
English Sahih:
On the Day when every soul will come disputing [i.e., pleading] for itself, and every soul will be fully compensated for what it did, and they will not be wronged [i.e., treated unjustly].
1 Abul A'ala Maududi
(اِن سب کا فیصلہ اُس دن ہوگا) جب کہ ہر متنفس اپنے ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا
2 Ahmed Raza Khan
جس دن ہر جان اپنی ہی طرف جھگڑتی آئے گی اور ہر جان کو اس کا کیا پورا بھردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا
3 Ahmed Ali
ٰجس دن ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہو آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اوران پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا
4 Ahsanul Bayan
جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لئے لڑتا جھگڑتا آئے (١) اور ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر (مطلقاً) ظلم نہ کیا جائے گا (٢)۔
١١١۔١ یعنی کوئی اور کسی حمایت میں آگے نہیں آئے گا نہ باپ، نہ بھائی، نہ بیٹا نہ بیوی نہ کوئی اور۔ بلکہ ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، خاوند بیوی سے بھاگے گا۔ ہر شخص کو صرف اپنی فکر ہوگی جو اسے دوسرے سے بےپروا کر دے گی۔ "لکل امرء منھم یومئذ شأن یغنیہ" ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا جو اسے مشغول رکھنے کیلیے کافی ہوگا۔
١١١۔٢ یعنی نیکی کے ثواب میں کمی کر دی جائے اور برائی کے بدلے میں زیادتی کر دی جائے۔ ایسا نہیں ہوگا کسی پر ادنیٰ سا ظلم بھی نہیں ہوگا۔ برائی کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا کسی برائی کا ہوگا۔ البتہ نیکی کی جزا اللہ تعالٰی خوب بڑھا چڑھا کر دے گا اور یہ اس کے فضل وکرم کا مظاہرہ ہوگا جو قیامت والے دن اہل ایمان
کے لئے ہوگا۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر (مطلقاً) ﻇلم نہ کیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اس دن کو یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنی ذات کی خاطر جھگڑا کرتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر (کسی طرح بھی) کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب ہر انسان اپنے نفس کی طرف سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوگا اور نفس کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا۔
آیت نمبر 111 تا 119
ترجمہ : اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنے ہی لئے دلیل و حجت کرتا ہوا آئیگا، اسے کسی دوسرے کا کچھ غم نہ ہوگا اور وہ قیامت کا دن ہوگا، اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائیگا اور ان پر مطلقًا ظلم نہ کیا جائیگا اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالت عجیبہ بیان فرماتے ہیں قریۃً ، مثلاً سے بدل ہے (اور) وہ بستی مکہ ہے اور مراد مکہ کے رہنے والے ہیں، کہ وہ تاخت و تاراج سے مامون و مطمئن تھے کسی تنگی یا خوف کی وجہ سے ان کو وہاں سے منتقل ہونے کی ضرورت نہیں تھی اس بستی والوں کا رزق با فراغت ہر جگہ سے چلا آرہا تھا پھر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرکے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھوک کا محیط عذاب کہ سات سال تک قحط میں مبتلا کئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرایا کے خوف کا مزا چکھایا یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا، ان کے پاس انہی میں کا ایک رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچا، پھر بھی انہوں نے اسے جھٹلایا تو انھیں بھوک اور خوف کے عذاب نے آدبوچا، اور وہ تھے ہی ظالم اے ایمان والو اللہ نے جو تمہیں حلال طیب روزی دے رکھی ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو، تم پر صرف مرد اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا جائے حرام کیا گیا ہے پھر جو شخص (فاقہ کی وجہ سے) بالکل ہی بےقرار ہوجائے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو اور نہ (حد) ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو (تو ان کے اس کھانے کو) اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کسی چیز کو جو تمہاری زبان سے نکلتا ہے جھوٹ موٹ نہ کہد یا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اسلئے کہ اللہ نے نہ اس کو حلال کیا ہے اور نہ اس کو حرام کہ اس (حلت و حرمت) کی نسبت اس کی طرف کرکے اللہ پر بہتان بازی کرو، یقیناً وہ لوگ جو اللہ پر بہتان تراشی کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے ان کے لئے دنیا میں چند روزہ عیش ہے اور ان کے لئے آخرت میں دردناک عذاب ہے اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم آپ سے اس سے پہلے کرچکے ہیں ” وعلی الذین ھادوا حرّمنا کل ذی ظفر “ (الی آخر الآیۃ) میں یعنی ہم نے یہودیوں پر ہر ناخون والے جانور کو حرام کردیا تھا، ان چیزوں کو حرام کرکے ہم نے ان پر ظلم کیا بلکہ ان معاصی کا ارتکاب کرکے جو اس سزا کی موجب تھیں خود ہی انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا، پھر آپ کا رب ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی کی وجہ سے شرک کیا پھر انہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو آپ کا رب (ان کی) جہالت یا توبہ کے بعد بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : تحاجُّ ، تجادل کا صلہ چونکہ عن نہیں آتا اسلئے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ تجادلُ ، تحاجّ کے معنی میں ہے۔
قولہ : لا یھمُّھا غیر ھا، یعنی کسی کو کسی کا کوئی غم نہ ہوگا، بلکہ ہر شخص نفسی نفسی پکاررہا ہوگا۔
قولہ : جزاء اسمیں حذف مضاف کیطرف اشارہ ہے اسلئے کہ توفی عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں چونکہ اعراض کا انتقال نہیں ہوا کرتا
قولہ : لاتھاج، یہ اَھَاجَ الغبارَ سے ماخوذ ہے یعنی غبار اڑایا، (اور فارسی میں) بمعنی تاراج شد۔
قولہ : لباس الجوع، بھوک اور خوف کو لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے، دونوں میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جس طرح بھوک اور خوف جسم انسانی کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے اس لئے کہ ان دونوں کا اثر پورے جسم پر ہوتا ہے اسی طرح لباس بھی پورے جسم کو گھیر لیتا ہے اسی وجہ سے بھوک اور خوف کے اثر کو لباس سے تشبیہ دی ہے، ادراک کو چکھنے سے اس لئے تعبیر کیا ہے کہ چکھنے سے بھی بعض چیزوں کا ادراک ہوتا ہے۔ قولہ : لو صفِ السنتکم اس میں اشارہ ہے کہ لما تصف میں ما، مصدریہ ہے۔
قولہ : الکذبَ ، لا تقولوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : ھذا حلال و ھذا حرام یہ الکذب سے بدل ہے۔
قولہ : لَھُمْ ، متاعٌ، متاعٌ قلیل مبتداء مؤخر اور لھم مقدم ہے۔
سوال : یوم تاتی کل نفسٍ تجادل عن نفسھا، یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عن نفسِھا میں نفس کی اضافت نفس کیجانب ہورہی ہے حالانکہ مضاف اور مصاف الیہ کے درمیان تغایر ضروری ہے ورنہ تو اضافۃ الشئ الی نفسہ لازم آئے گی۔
جواب : اول نفس سے پورا جسم انسانی مراد ہے اور ثانی نفس سے ذات عبارت ہے کل انسانٍ یجادل عن ذاتِہٖ ولا یھم غیرھا، مجادلۃ کے معنی عذر خواہی کے ہیں۔
تفسیر وتشریح
یوم۔۔۔ نفسھا، یعنی ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا اس وقت نہ کوئی کسی کی حمایت کرے گا اور نہ سفارش بلکہ آپس میں تعارف اور جان پہچان اور نسبی و صہری رشتہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بھاگیں گے، بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، شوہر بیوی سے بھاگے گا کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا، اور لکلٌ امریٌ منھم یومئذٍ شان یغنیہ ہر شخص کو اس دن اپنی پڑی ہوگی، وَضَرَبَ اللہ مثلا قریۃ الخ اکثر مریں اس قریہ سے مراد مکہ لیا ہے یعنی اس میں اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے یہ بددعا فرمائی اللھُمَّ اشددُ وطأتکَ علی مُضَرَ واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسفَ ، (بخاری شریف) اے اللہ مضر قبیلہ پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف علیہ الصلاۃ السلام کے زمانہ میں ہوئی تھی، چناچہ اللہ نے مکہ کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا حتی کہ اس کا یہ حال ہوگیا کہ ہڈیاں، درختوں کے پتے کھانے پڑے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کفران نعمت کرنے والوں کا یہ حال ہوگا جہاں بھی ہوں، نزول کا سبب اگر خاص بھی ہو تب بھی جمہور مفسرین کو عموم سے انکار نہیں، العبرۃُ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب .
انما۔۔۔ بہ الخ یہ آیت اس سے پہلے تین مرتبہ گذر چکی ہے، سورة بقرہ میں، سورة انعام میں، سورة مائدہ میں، یہ چوتھا مقام ہے اس میں لفظ اِنّما حصر کے لئے ہے لیکن یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کے مطابق حصر لایا گیا ہے ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے واضح ہے کہ ان میں چار محرمات کا ذکر ہے ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔
وما۔۔۔ بہ، جو جانور غیر اللہ کے نام زد کردیا جائے۔ اس کی مختلف صوتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقریب اور اس کی خوشنودی کے لئے اسے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح اسی غیر اللہ کا نام لیا جائے جس کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقریب ہی ہو لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جیسا کہ بعض جاہل، جانور کو بزرگوں کے لئے نام زد کرتے ہیں مثلاً یہ کہ یہ فلاں پیر کا بکرا گیارہوں شریف کا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں، اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا، حالانکہ دفقہاء نے اس صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے، اس لئے کہ یہ ” مااُھِلَّ لغیر اللہ بہ “ میں داخل ہے چناچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے، ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو، اس لئے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسلمان غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائیگا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہوگا درمحتار میں ہے کسی حاکم یا کسی بڑے کی آمد پر (حسن خلق یا شرعی ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضا مندی اور اس کی تعظیم کے طور پر) جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا، اس لئے وہ ” ما اھل لغیر اللہ بہ “ میں داخل ہے اگرچہ بوقت ذبح اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو، اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے (کتاب الذبائح) ، البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو ” وما اُھِلّ لغیر اللہ بہ “ کا مدلول نہیں مانتے اور اشتراک علت (تقرب بغیر اللہ) کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال کی طریقہ میں اختلاف ہے باقی تفصیل سورة مائدہ میں ” وَمَا ذبح علی النصب “ کے تحت ملا حظہ فرمائیں
10 Tafsir as-Saadi
﴿يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا﴾ ” جس دن آئے گا ہر نفس جھگڑا کرتا ہوا اپنی طرف سے“ یعنی ہر شخص)نفسی نفسی( پکارے گا اور اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا، پس اس روز بندہ ذرہ بھر نیکی کے حصول کا بھی محتاج ہوگا۔ ﴿وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ﴾ ” اور پورا ملے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا“ یعنی نیک یا بد جو بھی عمل کیا ہوگا ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ ” اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے۔“ یعنی ان کے گناہوں میں اضافہ کیا جائے گا نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی۔ ﴿فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾(یس: 36؍ 54) ” آج کسی جان پر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسی ہی جزا دی جائے گی جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
yeh sabb kuch uss din hoga jab her shaks apney difaa ki baaten kerta huwa aaye ga , aur her her shaks ko uss kay saray aemal ka poora poora badla diya jaye ga , aur logon per koi zulm nahi hoga .