الاسراء آية ۲۳
وَقَضٰى رَبُّكَ اَ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۗ اِمَّا يَـبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا
طاہر القادری:
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو،
English Sahih:
And your Lord has decreed that you worship not except Him, and to parents, good treatment. Whether one or both of them reach old age [while] with you, say not to them [so much as], "uff," and do not repel them but speak to them a noble word.
1 Abul A'ala Maududi
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو
2 Ahmed Raza Khan
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں، نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا
3 Ahmed Ali
اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو
4 Ahsanul Bayan
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا (١)
٢٣۔١ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کر دیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ' ہوں ' تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بےبس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا
6 Muhammad Junagarhi
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا
9 Tafsir Jalalayn
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا
آیت نمبر 23 تا 30
ترجمہ : اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی بندگی نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس طریقہ پر کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں (اَحْدُھما، یَبْلُغَنَّ ) کا فاعل ہے اور ایک قراءت میں یَبْلُغان ہے، (اس صورت میں) احدھما، یَبْلُغان کے الف سے بدل ہوگا، تو تم ان سے، اُف، تک نہ کہنا، (اُفٍّ ) فاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ یا تنوین اور بغیر تنوین مصدر ہے، معنی میں تَبًّا اور قُبْحًا کے ہے، (یعنی تیرا ناس ہو اور برا ہو) اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے احترام کے ساتھ نرمی سے بات کرنا، اور نرمی اور شفقت سے ان کے سامنے جھکے رہنا (یعنی) اپنی انکساری کے بازؤں کو ان کیلئے جھکائے رکھنا تیرے ان پر شفقت کی وجہ سے، اور یوں دعاء کرتے رہنا اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کے وقت میرے اوپر شفقت فرمائی فرمانبرداری سے جو کچھ تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اس کو تمہارا رب خوب جانتا ہے اگر تم صالح رہو گے یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار رہو گے تو بیشک وہ اس کی طاعت کی طرف رجوع کرنے والوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے، (یعنی) جلد بازی میں جو کچھ ان سے حقوق والدین کے بارے میں سرزد ہوگیا ہے، اس کو معاف کرنے والا ہے، بشرطیکہ ان سے دل میں نافرمانی پوشیدہ نہ ہو، اور قرابتداروں کو حسن سلوک اور صلہ رحمی سے ان کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافروں کو (ان کا حق دیتے رہنا) اور اللہ کی نافرمانی میں مال میں فضول خرچی نہ کرنا بلاشبہ بےموقع مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں، یعنی شیطانوں کے طریقہ پر ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، یعنی اس کی نعمتوں کی بہت زیادہ ناشکری کرنے والا ہے، اسی طرح فضول خرچ کرنے والے اس کے بھائی ہیں، اور اگر تجھے مذکور میں سے یعنی قرابتداروں اور ان سے جو اس کے بعد مذکور ہیں اپنے رب کی اس رحمت کی امید کی طلب میں جس کی تو امید رکھتا ہے پہلو تہی کرنی پڑے یعنی اس رزق کی طلب میں کہ جس کے حاصل ہونے کا تجھے انتظار ہے تاکہ اس میں سے ان کو دے تو ان سے نرمی اور سہولت کی بات کہہ دینا، اس طریقہ پر کہ مال حاصل ہونے کی صورت میں ان کو دینے کا وعدہ کرلینا اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن ہی سے باندھ لو یعنی نہ تو ہاتھ کو خرچ کرنے سے پوری طرح بند کرو اور نہ خرچ کیلئے پوری طرح کھول دو کہ تم ملامت زدہ ہو کر یہ اول صورت کی طرف راجع ہے اور تہی دست ہو کر بیٹھ رہو یعنی تمہارے پاس کچھ نہ رہے یہ دوسری صورت کی طرف راجع ہے، بیشک تیرا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق میں فراخی کردیتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگی کردیتا ہے بیشک وہ اپنے بندوں (کی حالت) سے بخوبی دانا و بینا ہے، یعنی ان کے باطن اور ظاہر سے بخوبی باخبر ہے، ان کی مصلحت کے مقتضیٰ کے مطابق ان کو رزق عطا کرتا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بِأنْ ، اس تقدیر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان مصدریہ ہے اس صورت میں لا نافیہ ہوگا اور تعبدون عِبَادۃٌ، کے معنی میں ہے، یعنی تیرے رب نے یہ بات تاکیداً فرمائی ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ، أنْ ، مفسرہ ہو اس لئے کہ قضیٰ ، قالَ کے معنی میں ہے اس صورت میں \& لا \& ناہیہ ہوگا۔
قولہ : یَبْلُغَنَّ واحد مذکر غائب مضارع بانون ثقیلہ۔ قولہ : وَأن تحسنوا یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : أن تحسِنوا مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : بالوالدین جار مجرور ہو کر احسانًا مؤخر کے متعلق نہیں ہوسکتے اس لئے کہ مصدر کا متعلق مقدم نہیں ہوا کرتا، اس لئے مجبوراً ان تحسنوا، مقدر ماننا پڑا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر أن تحسنوا، مقدر نہ مانا جائے تو بالوالدین کا عطف کا تعبدوا پر ہوگا یہ عطف جملہ اسمیہ علی جملہ فعلیہ ہوگا جو کہ درست نہیں ہے اور جب أن تحسنوا مقدر مان لیا تو عطف جملہ فعلیہ علی الجملۃ الفعلیہ ہوگیا۔
قولہ : عندک ای فی کفالتکَ وحرزک۔
قولہ : فاعل یعنی اَحدُھما فاعل ہے اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے یَبْلُغَنَّ میں فاعل کی ضمیر مستتر نہیں ہے کہ تکرار فاعل کا اعتراض واقع ہو بلکہ احدھما فاعل ہے۔
قولہ : فاحدھما بدل من الفِہٖ ، یہ دوسری قراءت کی ترکیب کی طرف اشارہ ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک قراءت میں یَبْلُغَنَّ ، کے بجائے یَبْلُغَانّ ہے، اس صورت میں تکرار فاعل کا اعتراض ضرور واقع ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ یَبْلغانّ میں الف فاعل کا ہے اور احَدُھما اس سے بدل ہے نہ کہ یبلغانِّ کا فاعل، لہٰذا اس قراءت کی صورت میں بھی تکرار فاعل کا اعتراض نہ ہوگا۔
قولہ : ألن لھما جانبک الخ یعنی جناح سے مجازاً جانب کا ارادہ کیا ہے اور یہ ذکر خاص اور ارادۂ عام کے قبیل سے ہے۔
قولہ : الذلیل، اس میں اشارہ ہے کہ جناح کی اضافت، الذّل کی جانب بیانیہ ہے۔
قولہ : ای لرقتکَ اس میں اشارہ ہے کہ مِن الرحمۃِ میں مِن اجل کے لئے ہے۔
قولہ : رَحمانی اس اضافہ کا مقصد تشبیہ کو درست کرنا ہے۔ قولہ : وھم لا یضمرون الخ یہ جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : فی غیر طاعۃ اللہ تعالیٰ ، اس میں اشارہ ہے کہ کارخیر میں اگر افراط کے ساتھ بھی خرچ کیا جائے تو بھی فضول خرچی میں شمار نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
والدین کے حقوق و احترام : وقضی ربک۔۔۔۔ احسانا، اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے، گویا توحید اور ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ، اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی ضروری ہے احادیث میں اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ” ہاں “ کے بجائے، ” ہوں “ تک کہنے اور ڈانٹنے جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ بڑھاپے میں والدین کمزور بےبس اور لاچار ہوجاتے ہیں، جبکہ اولاد جو ان اور وسائل معاش پر قابض و متصرف ہوتی ہے علاوہ ازیں جوانی کے دیوانی جذبات اور بڑھاپے کی سردوگرم چشیدہ تجربات میں تصادم ہوتا ہے، ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، تاہم اللہ کے یہاں شاد کام اور سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا، ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ شخص خاک میں مل گیا جس نے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی، ایک دوسری حدیث میں فرمایا، جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
بڑھاپے میں خدمت کی زیادہ تاکید کی وجہ یہ ہے کہ بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے جس کی وجہ سے اہل خانہ بھی اکتا جاتے ہیں بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بوڑھے والدین کی خدمت گذاری اور فرمانبرداری سے جی نہ ہارے، قرآن نے تنبیہ کی ہے کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کجا، ان کے مقابلہ میں ہوں بھی مت کرو بلکہ بات کرتے وقت ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھو، ابن مسیب نے فرمایا، اس طرح بات کرو کہ جیسے ایک خطا وار غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے، غرضیکہ والدین نے جس طرح تیری ناتوانی کے وقت تیری تربیت و نگہداشت میں خون پسینہ ایک کردیا اور اپنی مقدور بھر تیری راحت و حفاظت کی فکر کی، ہر آفت و مصیبت سے تجھے بچانے کی کوشش کرتے رہے، آج ان کی ضعیفی کا وقت آیا ہے جو کچھ تیری قدرت میں ہے ان کی خدمت اور تعظیم کر، اس کے باوجود تو ان کی خدمت کا حق ادا نہیں کرسکتا، پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کیلئے اپنے باز و پھیلا کر پست کردیتا ہے، تو تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح رحمت و شفقت کا برتاؤ کر اور ان کے اسی طرح کفالت کو جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کفالت کی، اور ان کے مرنے کے بعد ان کیلئے دعاء مغفرت کرتا رہ، اور یہ سب کچھ اخلاص اور نیک نیتی سے ہونا چاہیے نہ کہ ریا کاری اور دکھاوے کیلئے، اگر فی الواقع تم اخلاص کے ساتھ ان کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف کر دے گا۔
وآت ذا۔۔ الخ، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب رشتہ داروں، مسکینوں اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کرکے ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے، اسلئے کہ یہ ان پر احسان نہیں بلکہ وہ یہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر ضرورتمندوں اور رشتہ داروں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہ کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا معلوم ہوا کہ یہ حق کی ادائیگی ہے نہ کہ کسی پر احسان۔
مال میں فضول خرچی منع ہے : مال خدا کی بڑی نعمت ہے اس سے عبادت میں دلجمی حاصل ہوتی ہے اسی سے بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملتا ہے اس کو بےجا اڑانا ناشکری ہے جو شیطان کے اغواء و تحریک سے واقع ہوتی ہے اور انسان اس طرح ناشکری کرکے شیطان کا بھائی یعنی اس کا پیروکار بن جاتا ہے۔ فضول خرچی کو قرآن مجید نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے ایک ” تبذیر “ اور دوسرے ” اسراف “ تبذیر کی ممانعت تو اس آیت میں مذکور ہے اور اسراف کی ممانعت ولا تسرفوا سے بیان فرمائی ہے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں یعنی بےموقع اور بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر و اسراف کہا جاتا ہے، اور بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بےموقع اور بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر و اسراف کہا جاتا ہے، اور بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بےموقع خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنے کا جائز موقع ہو مگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے اس کو اسراف کہتے ہیں اسلئے تبذیر بہ نسبت اسراف کے شدید تر ہے اور اس کے مرتکب کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
امام تفسیر حضرت مجاہد (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنا تمام مال راہ حق میں خرچ کر دے تو وہ تبذیر نہیں، اور باطل کیلئے اگر ایک مد (آدھ سیر) بھی خرچ کرے تو یہ تبذیر ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ غیر حق میں بےموقع خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے۔
بدرجہ مجبوری معذرت کا طریقہ : واما تعرضن عنھم الخ یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے جس کے دور ہونے اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے اگر تجھے غریبوں، رشتہ داروں، مسکینوں، اور ضرورتمندوں سے اعتراض کرنا پڑے یعنی اظہار معذرت کرنی پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی پیار و محبت کے لہجے نرمی اور خوش اسلوبی سے جواب دینا چاہیے نہ کہ ترش روئی اور بد اخلاقی کے ساتھ۔
شان نزول : مذکورہ آیت کے شان نزول میں ابن زید کی روایت یہ ہے کہ کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کا سوال کیا کرتے تھے، اور آپ کو معلوم تھا کہ اگر ان کو دیا جائے تو فساد میں خرچ کریں گے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دینے سے انکار فرما دیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معارف، قرطبی) مسند سعید بن منصور میں بروایت صابا بن حکم مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ کپڑا آیا تھا آپ نے اس کو مستحقین میں تقسیم فرما دیا اس کے بعد کچھ اور لوگ آئے جبکہ آپ سارا کپڑاتقسیم فرما چکے تھے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
خرچ کرنے میں راہ اعتدال کی ہدایت : ولا تجعل۔۔۔ الخ یعنی نہ تو اس قدر بخیلی کرے کہ لوگ ” کنجوس مکھی چوس “ کہنے لگیں اور نہ اتنا دے کہ خود محتاج اور دوسروں کا دست نگر ہو کر بیٹھ رہے غرضیکہ ہر معاملہ میں اعتدال اور توسط ملحوظ رکھنا چاہیے، حدیث شریف میں ہے، ” مَا عَال مَنْ اِقْتَصَدَ “ جس نے میانہ روی اختیار کی محتاج نہیں ہوا۔ اس آیت میں مخاطب براہ راست آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور آپ کے واسطے سے پوری امت مخاطب ہے اور مقصود اقتصاد کی ایسی تعلیم ہے کہ جو دوسروں کی امداد میں حائل بھی نہ ہو اور خود اپنے لئے بھی زحمت و مصیبت نہ بنے، اس آیت کے شان نزول میں ابن مردویہ نے بروایت حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور بغوی نے بروایت حضرت جابر (رض) ایک واقعہ نقل کیا ہے۔
واقعہ : واقعہ یہ ہے کہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ میری والدہ نے آپ سے ایک کرتے کا سوال کیا ہے، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کرتے کے علاوہ کوئی کرتہ نہیں تھا جو آپ کے بدن مبارک پر تھا، آپ نے لڑکے سے کہا پھر کسی وقت آؤ کہ جب ہمارے پاس اتنی وسعت ہو کہ تمہاری والدہ کا سوال پورا کرسکیں لڑکا گیا اور واپس آیا اور کہا میری والدی کہتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدن مبارک پر جو کپڑا ہے وہی عنایت فرما دیں، آپ نے کرتہ اتار کر اس لڑکے کے حوالہ کردیا آپ ننگے بدن رہ گئے، نماز کا وقت آگیا، حضرت بلال نے اذان دی مگر آپ باہر تشریف نہ لائے تو لوگوں کو فکر ہوئی، بعض لوگ اندر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتہ کے بغیر ننگے بدن بیٹھے ہوئے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
فائدۂ جلیلہ : لا تجعل من اللہ الٰھاً آخر سے فتلقٰی فی جھنم ملومًا مدحوراً ، تک (25) احکام بیان کئے گئے جن کو بالترتیب لکھا جاتا ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک سے منع کرنے کے بعد توحید کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ ﴾ ’’آپ کے رب نے (دینی) فیصلہ کردیا، اور شرعی حکم دے دیا ہے۔ ﴿ أَلَّا تَعْبُدُوا﴾ ’’کہ تم عبادت نہ کرو۔‘‘ یعنی زمین اور آسمان کے رہنے والوں، زندوں یا مردوں میں سے کسی کی عبادت نہ کرو۔ ﴿ إِلَّا إِيَّاهُ﴾ ’’ مگر صرف اس کی‘‘ کیونکہ وہ واحد اور یکتا، فرد اور بے نیاز ہے۔ جو ہر صفت کمال کا مالک ہے۔ اس کی ہر صفت کامل ترین ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی اس کی کسی صفت میں کسی بھی پہلو سے مشابہت نہیں کرسکتی وہ منعم ہے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے وہی نوازتا ہے وہی تمام تکالیف کو دور کرتا ہے، وہ خالق، رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ ان تمام اوصاف میں منفرد اور یکتا ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی اوصاف میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے حقوق کو قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ یعنی قول و فعل، ہر لحاظ سے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ والدین ہی بندے کے وجود میں آنے کا سبب ہیں، وہ اولاد کے لئے محبت رکھتے ہیں، اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اولاد کو قریب رکھتے ہیں، یہ امور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے حق کی تاکید اور ان کے ساتھ بھلائی کے وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔
﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا﴾ ’’اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو، ان میں سے ایک یا دونوں‘‘ یعنی جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں جس میں ان کے قوی کمزور پڑجاتے ہیں اور وہ نرمی اور حسن سلوک کے معروف طریقے سے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ﴾ ’’تو تو ان کو ہوں بھی نہ کہہ‘‘ یہ اذیت کا ادنیٰ مرتبہ ہے اس کے ذریعے سے اذیت کی دیگر انواع پر تنبیہ کی ہے۔ معنیٰ یہ ہے کہ ان کو ادنیٰ اذیت بھی نہ پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا تَنْهَرْهُمَا ﴾ ’’اور نہ ان کو جھڑکو‘‘ اور نہ ان سے سخت کلامی کرو۔ ﴿وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾ ،، اور کہہ ان سے بات ادب کی،، ان کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرو جن کو وہ پسند کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ نہایت ادب اور مہربانی سے پیش آؤ۔ انتہائی نرمی اور اچھے پیرائے میں بات کرو جس سے ان کے دل لذت محسوس کریں اور ان کو اطمینان حاصل ہو۔ یہ حسن سلوک احوال و عادات اور زمانے کے اختلاف کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur tumharay perwerdigar ney yeh hukum diya hai kay uss kay siwa kissi ki ibadat naa kero , aur walaiden kay sath acha sulook kero . agar walaiden mein say koi aik ya dono tumharay paas burhapay ko phonch jayen to unhen uff tak naa kaho , aur naa unhen jhirko , balkay unn say izzat kay sath baat kiya kero ,
12 Tafsir Ibn Kathir
اٹل فیصلے محکم حکم
یہاں قضی معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الہٰی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے۔ ابی ابن کعب، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرأت میں قضی کے بدلے وصی ہے۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14) 31 ۔ لقمان :14) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ۔ خصوصا ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو، اپنا ہاتھ ان کی طرف بےادبی سے نہ بڑھانا، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا، ان کی رضا مندی کے کام کرنا، دکھ نہ دینا، ستانا نہیں، ان کے سامنے تواضع، عاجزی، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا۔ خصوصا دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہوگئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے پاس تیرا ذرک ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو۔ کہئے آمین چناچہ میں نے کہا آمین کہی۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔ آمین کہئے چناچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بےنیاز ہوگیا اس کے لئے یقینا جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہوگا۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے الخ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بدعا ہے۔ ایک روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الہٰی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بدعا کرنا منقول ہے۔ ایک انصاری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک
\0\01 ان کے جنازے کی نماز
\0\02 ان کے لئے دعا و استغفار
\0\03 ان کے وعدوں کو پورا کرنا
\0\04 ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو۔
یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کرسکتا ہے (ابوداؤد ابن ماجہ) ایک شخص نے آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی دہرایا (نسائی ابن ماجہ وغیرہ) فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تماری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا (ابن ماجہ مسند احمد) فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ (مسند احمد) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ ایک اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں۔ واللہ اعلم۔