Skip to main content

وَ تَحْسَبُهُمْ اَيْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌ ۖ وَنُـقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ ۗ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا

And you (would) think them
وَتَحْسَبُهُمْ
اور تم سمجھتے ان کو
awake
أَيْقَاظًا
کہ جاگ رہے ہیں/ جاگتے
while they
وَهُمْ
حالانکہ وہ
(were) asleep
رُقُودٌۚ
سوئے ہوئے تھے
And We turned them to
وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ
اور ہم الٹا پلٹا رہے تھے ان کو
the right and to
ٱلْيَمِينِ وَذَاتَ
دائیں جانب
the left
ٱلشِّمَالِۖ
اور بائیں جانب
while their dog
وَكَلْبُهُم
اور ان کا کتا
stretched
بَٰسِطٌ
پھیلائے ہوئے تھا
his two forelegs
ذِرَاعَيْهِ
دونوں ہاتھ اپنے
at the entrance
بِٱلْوَصِيدِۚ
دہلیز پر
If
لَوِ
اگر
you had looked
ٱطَّلَعْتَ
تم جھانکتے
at them
عَلَيْهِمْ
ان پر
you (would) have surely turned back
لَوَلَّيْتَ
البتہ پیٹھ پھیر لیتے
from them
مِنْهُمْ
ان سے
(in) flight
فِرَارًا
بھاگتے ہوئے
and surely you would have been filled
وَلَمُلِئْتَ
اور البتہ تم بھر دیئے جاتے
by them
مِنْهُمْ
ان سے
(with) terror
رُعْبًا
رعب/خوف کی وجہ سے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی

English Sahih:

And you would think them awake, while they were asleep. And We turned them to the right and to the left, while their dog stretched his forelegs at the entrance. If you had looked at them, you would have turned from them in flight and been filled by them with terror.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور تم انھیں جاگتا سمجھو اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر اے سننے! والے اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے

احمد علی Ahmed Ali

اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے (١) خود ہم انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے (٢) ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی (٣)۔

١٨۔١ ایقاظ، یقظ کی جمع اور رقود راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔
١٨۔٢ تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔
١٨۔٣ یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔ اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے تھے۔ اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور ان سے دہشت میں آجاتے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

آپ خیال کرتے کہ وه بیدار ہیں، حاﻻنکہ وه سوئے ہوئے تھے، خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دﻻیا کرتے تھے، ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلواتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اور تمہارے دل میں دہشت سما جائے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور تمہارا خیال ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ عالهِ خواب میں ہیں اورہم انہیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوارہے ہیں اور ان کا کتا ّڈیوڑھی پر دونوں ہاتھ پھیلائے ڈٹا ہوا ہے اگر تم ان کی کیفیت پر مطلع ہوجاتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ نکلتے اورتمہارے دل میں دہشت سما جاتی

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور (اے سننے والے!) تو انہیں (دیکھے تو) بیدار خیال کرے گا حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم (وقفوں کے ساتھ) انہیں دائیں جانب اور بائیں جانب کروٹیں بدلاتے رہتے ہیں، اور ان کا کتا (ان کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے، اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لیتا تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا اور تیرے دل میں ان کی دہشت بھر جاتی،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ایک آنکھ بند ایک کھلی
یہ سو رہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے، ایک کھلی ہوتی ہے پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے چناچہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
ینام باحدی مقلتیہ ویتقی
باخری الرزایا فہو یقطان نائم
جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لئے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھاجائے، کروٹیں گل نہ جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہریدار کے بازو زمین پر ٹکاتے ہوئے بیٹھا ہوا ہے دروازے کے باہر اس لئے ہے کہ جس گھر میں کتا تصویر جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے۔ جیسے کہ ایک حسن حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آگئی ہے۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئے نا اس کتے کی کتنی شان ہوگئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے۔ ان کے ساتھ ہجرت میں تھے۔ ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ واللہ اعلم۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنفر تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام مہموت تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے، حضرت حواجدہ میں ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے بےدلیل زبان کھولنا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا یہ اس لئے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنالیں کوئی جرات کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الہی متقضی ہے باآرام سوتے رہیں۔ جو انہیں دیکھتا ہے مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لئے محال ہے۔