الکہف آية ۲۱
وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَـعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا ۚ اِذْ يَتَـنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوْا ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًـا ۗ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْۗ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَـنَـتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا
طاہر القادری:
اور اس طرح ہم نے ان (کے حال) پر ان لوگوں کو (جو چند صدیاں بعد کے تھے) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے اور یہ (بھی) کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جب وہ (بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے (جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک عمارت (بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)،
English Sahih:
And similarly, We caused them to be found that they [who found them] would know that the promise of Allah is truth and that of the Hour there is no doubt. [That was] when they disputed among themselves about their affair and [then] said, "Construct over them a structure. Their Lord is most knowing about them." Said those who prevailed in the matter, "We will surely take [for ourselves] over them a masjid."
1 Abul A'ala Maududi
اِس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا "اِن پر ایک دیوار چن دو، ان کا رب ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے" مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا " ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے"
2 Ahmed Raza Khan
اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی کہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں، جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ، ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے
3 Ahmed Ali
اور اسی طرح ہم نے ان کی خبر ظاہر کر دی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ الله کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں جبکہ لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے پھر کہا ان پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ان کا حال خوب جانتا ہے ان لوگوں نے کہا جو اپنے معاملے میں غالب آ گئے تھے کہ ہم ان پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے
4 Ahsanul Bayan
ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر (١) دیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک و شبہ نہیں (٢) جبکہ وہ اپنے امر میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے (٣) کہنے لگے ان کے غار پر ایک عمارت بنالو (٤) اور ان کا رب ہی ان کے حال کا زیادہ عالم ہے (٥) جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنالیں گے (٦)
٢١۔١ یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس ' کل ' کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر)
٢١۔٢ یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔
٢١۔٣ اذ یا تو ظرف ہے اعثرنا کا، یعنی ہم نے انہیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
٢١۔٤ یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جاکر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انہیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنا دی جائے۔
٢١۔٥ جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔
٢١۔٦ یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔ اللہ تعالٰی بہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے) اس میں کچھ شک نہیں۔ اس وقت لوگ ان کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے۔ جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاه کر دیا کہ وه جان لیں کہ اللہ کا وعده بالکل سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ جب کہ وه اپنے امر میں آپس میں اختلاف کر رہے تھے کہنے لگے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنا لو۔ ان کا رب ہی ان کے حال کا زیاده عالم ہے۔ جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وه کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنالیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان پر مطلع کیا تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچھا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ (بستی والے) لوگ ان (اصحافِ کہف) کے معاملہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے (کہ کیا کیا جائے؟) تو (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان پر (یعنی غار پر) ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے جب یہ لوگ آپس میں ان کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے اور یہ طے کررہے تھے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے-خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے) اس میں کچھ بھی شک نہیں۔ اس وقت لوگ انکے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنادو ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے۔
آیت نمبر 21 تا 26
ترجمہ : اور ہم نے اسی جس طرح کہ ان کو بیدار کیا، ان کے حالات پر ان کی قوم کو اور مومنین کو مطلع کردیا تاکہ ان کی قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا بعث بعد الموت کا وعدہ حق ہے، اس طریقہ پر کہ جو ذات اصحاب کہف کو ایک طویل زمانہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے اِذ، اَعْثَرنَا کا معمول ہے اور جبکہ مومنین اور کفار آپس میں ان نوجوانوں کے لئے (یاد گار کے طور) عمارت کے بنانے میں اختلاف کر رہے تھے، چناچہ کفار نے کہا ان کے اردگرد کوئی یادگاری عمارت بنادو کہ جو ان کو مستور کر دے ان کا رب ان کے احوال سے خوب واقف ہے (آخر کار) ان لوگوں نے جواب نوجوانوں کے معاملہ میں غالب رہے اور وہ مومنین تھے کہ کہا ہم تو ان کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائیں گے تاکہ اس میں نماز پڑھی جائے، چناچہ غار کے دہانے پر مسجد بنوا دی گئی، نوجوانوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف کرنے والوں کا قصہ جب آپ کے زمانہ میں (لوگوں) کو سنایا جائے گا تو ان میں سے بعض لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور بعض کہیں گے پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ دونوں قول نجران کے نصاریٰ کے ہیں اور یہ لوگ بلا تحقیق اٹکل سے ہانک رہے تھے (یعنی) ان کے بارے میں اندازے سے کہہ رہے ہیں اور رجماً بالغیب کا تعلق مذکورہ دونوں قولوں سے ہے، اور رجماً کا نصب مفعول لہ ہونے کی وجہ سے ہے ای نَظُنُّھُمْ لذٰلِکَ اور مومن کہیں گے ساتھ تھے آٹھواں ان کا کتا تھا جملہ مبتداء اور خبر سے مل کر واؤ کی زیادتی کے ساتھ سبعۃ کی (بلا لحاظ تاکید) صفت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واؤ زائدہ ہے تاکیدی معنی کے ساتھ، صفت کے موصوف کے ساتھ لاحق ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اول دونوں قولوں کا رجم بالغیب کے ساتھ متصف ہونا نہ کہ تیسرے کا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تیسرا قول ہی پسندیدہ اور صحیح ہے (تاکیدًا اَوْ دلالۃً میں اَوْ بمعنی مع ہے) آپ فرما دیجئے کہ میرا رب ان کی تعداد کو بخوبی جانتا ہے اور ان کی صحیح تعداد بہت کم لوگ جانتے ہیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا میں ان کم لوگوں میں سے ہوں اور فرمایا کہ وہ سات ہیں لہٰذا آپ اس معاملہ میں بجز سرسری بحث کے زیادہ بحث نہ کیجئے جو آپ پر نازل کی گئی ہے اور آپ اصحاب کہف کے معاملہ میں ان میں سے کسی سے یعنی اہل مکہ نے اصحاف کہف کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا اس کے بارے میں کل جواب دوں گا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انشاء اللہ نہیں کہا تھا تو اس بارے میں آئندہ آیات نازل ہوئیں اور آپ کسی کام کی نسبت ہرگز یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو کل کر دوں گا یعنی زمانہ آئندہ میں کسی بھی کام کے بارے میں (نہ کہا کریں کہ کل کردوں گا) مگر یہ کہ آپ انشاء اللہ کہہ لیا کریں یعنی انشاء اللہ کہتے ہوئے اللہ کی مشیت کو شامل فرما لیا کریں اور اگر آپ انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو آپ اپنے رب کو یعنی اس کی مشیت کو یاد کرلیا کریں اس طریقہ پر کہ وعدہ کو مشیت سے معلق کردیا کریں اور نسیان کے بعد یہ انشاء اللہ کہہ لینا اس کے بروقت (انشاء اللہ) کہنے کے مانند ہوگا، حضرت حسن وغیرہ نے فرمایا کہ یہ اس وقت صحیح ہوگا کہ (قائل) اسی مجلس میں موجود ہو (یعنی مجلس نہ بدلی ہو) اور آپ کہہ دیں کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا پروردگار اس سے بھی زیادہ (نبوت پر دلالت کرنے والی) دلیل کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا، یعنی اصحاب کہف کی خبر سے بھی زیادہ میری نبوت پر دلالت کرنے والی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا کر (بھی) دیا اور وہ لوگ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے، مأۃٍ تنوین کے ساتھ ہے سنین ثلاث مأۃٍکا بیان ہے اور یہ تین سو سال اہل کتاب کے نزدیک شمسی حساب سے ہیں اور تین سو نوسال قمری حساب سے ہیں آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قیام کی مدت کو خوب جانتا ہے یعنی ان لوگوں سے جو ان کی تعداد میں اختلاف کر رہے ہیں، اس کا ذکر سابق میں ہوچکا ہے اسی کو آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ راز معلوم ہیں وہ ان مغیبات کے علم کو کیسا کچھ دیکھنے والا اور کیا کچھ جاننے والا ہے اَبْصِرْبِہٖ ای باللہِ (بہ میں با فاعل پر داخل ہے) یہ صیغہ تعجب ہے اور اَسمِع بہ بھی صیغہ تعجب ہے اور معنی میں ما ابصرہ اور ما اسمعہ کے ہے اور ان دونوں صیغوں کا استعمال باری تعالیٰ کے لئے بطور مجاز ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سمع وبصر (یعنی علم ازلی) سے کوئی بات بات پوشیدہ نہیں ہے اور لوگوں کے لئے یعنی اھل الارض والسماء کے لئے اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے اس لئے کہ وہ شریک سے مستغنی ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ اَعْثَرْنَا اِعْثَارًا (افعال) واقف کرنا، مطلع کرنا قولہ قومَھُم والمومنون یہ اَعْثرنا کا مفعول بہ محذوف ہے قولہ لِیَعلَمُوْا اعثَرْنَا کے متعلق ہے وان السَّاعۃَ کا عطف، اَنَّ وَعَدَ اللہ پر ہے قولہ یَسْترھم جملہ ہو کر بنیاناً کی صفت ہے ثلثۃ ھُمْ مبتداء محذوف کی خبر ہے، کما اشارہ الیہ الشارح وقولھم رابِعُھُمْ کلبُھُمْ مبتداء خبر سے مل کر ثلٰثۃ کی صفت ہے ایسی ہی ترکیب بعد میں آنے والے دونوں جملوں میں ہوگی، قولہ رجمًا بالغیب یَرْمُوْنَ کا مفعول مطلق ہے ای یَرْمُوْنَ رَمْیًا حال بھی ہوسکتا ہے ای راجمین بالغیب قولہ رابِعْھُمْ کلبھم حال ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے ای حال کون کلبھم جاعِلھُمْ اربعۃً بانضمامہٖ الیھم و ثَامِنُھُمْ واؤ زائدہ ہے تاکیدی معنی کا لحاظ کئے بغیر، یا تاکیدی معنی کا لحاظ کرتے ہوئے، یعنی اتصاف موصوف بالصفت کی تاکید کے لئے یعنی دلالت کے لئے ہے، اس لئے کہ موصوف جب صفت کے ساتھ متصف ہوگا تو موصوف کا وجود لازمی ہوگا کیونکہ صفت موصوف کے بغیر موجود نہیں ہوسکتی، مطلب یہ ہوا کہ اصحاب کہف کتے کے ساتھ مل کر آٹھ ہوگئے یعنی وہ سات تھے کتا آٹھواں ہوا قولہ اَوْ دلالۃً میں او عاطفہ تفسیریہ (بمعنی) ای ہے، یعنی تاکید بمعنی دلالۃً ہے تا کید یعنی دلالۃ علی الصوق الصفۃ بالموصوف پر دلالت کرنے کے لئے (لہٰذا یہ دو قول ہوئے) قولہ ربی اعلم بہ یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے قولہ فی الدلالۃ، اَقْرَبُ سے متعلق ہے رَشَدًا، لَیَھْدِیَنِ کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہے اور اقرَبُ سے تمیز واقع ہونا بھی صحیح ہے ای لِاَقرَبَ ھدایَۃ مِن ھٰذا مأۃ کی تمیز عام طور پر مفرد مجرور ہوتی ہے ایک قرأۃ میں ماۃ سنین اضافت کے ساتھ ہے اس صورت میں سنین، مأۃ کی تمیز ہوگی اور جمع محل میں مفرد کے ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول بالأخسرین اعمالاً میں۔
تفسیر تشریح
ان آیات پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہو رہا ہے ان آیات میں پانچ باتیں بتائی گئی ہیں جو اختصار کے ساتھ حسب ذیل ہیں
ملاحظہ فرمائیں :
(١) عرصہ دراز کے بعد اصحاب کہف کے بیدار ہونے میں اور لوگوں کو ان کا حال معلوم ہونے میں کیا حکمت تھی ؟
(٢) لوگوں میں اصحاب کہف کے بارے میں بعض باتوں میں اختلاف رونما ہوا ایک فریق غار پر ایک یادگاری عمارت بنانا چاہتا تھا اور دوسرا مسجد، دوسرا فریق غالب آیا اور مسجد تعمیر کردی۔
(٣) اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اختلاف رونما ہوا، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ذکر کر کے صحیح تعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(٤) آخر میں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اصحاب کہف کا جس قدر واقعہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے اسی پر اکتفا کیا جائے، مزید بحث نہ کی جائے، نیز اس سلسلہ میں دوسروں سے قطعاً معلومات حاصل نہ کی جائیں اور اگر ان کی کوئی بات آئندہ بتانے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ لیا جائے۔
(٥) اصحاب کہف کتنی مدت تک سوتے رہے ؟
وکذٰلکَ اَعْثرنا علیھم یعنی جس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے اصحاب کہف کو سالہا سال سلایا اور بیدار کیا اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حالات سے مطلع بھی کردیا۔
اصحاب کہف کو سالہا سال تک سلانے اور پھر بیدار کرنے میں حکمت کیا تھی ؟
اصحاب کہف کا راز اہل شہر پر اس لئے منکشف کیا گیا تھا کہ ان کا عقیدہ آخرت مضبوط ہو اور یقین آجائے کہ مرنے کے بعد قیامت کے روز سب کو دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
اصحاب کہف کا بیدار ہونا : تفسیر قرطبی میں اس کا مختصر قصہ اس طرح لکھا ہے : جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف شہر سے نکلے تھے اس کا نام دقیانوس تھا اور ظالم اور مشرک تھا وہ مرچکا تھا اور اس پر صدیاں گذر گئیں تھیں اور جس زمانہ میں اصحاب کہف بیدار ہوئے تھے شہر پر اہل حق کا قبضہ تھا اور ان کا بادشاہ ایک نیک صالح آدمی تھا جس کا نام بیدوسیس تھا (مظہری) قیامت کے بارے میں اور مردوں کو زندہ ہونے کے بارے میں شدید اختلاف چل رہا تھا ایک فرقہ اس بات کا قطعاً منکر تھا کہ جسم کے گلنے سڑنے اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہوجائے گا، بادشاہ ان گمراہ لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند تھا کہ کس طرح ان کے شکوک و شبہات دور کئے جائیں جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ التجا کی کہ خدایا آپ ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ درست ہوجائے اور یہ راہ راست پر آجائیں۔
اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اصحاب کہف بیدار ہوئے، بیدار ہونے کے بعد ان میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ہم کتنی مدت سوئے ہیں ؟ کوئی کہتا تھا کہ ایک دن سوئے ہوں گے دوسرا کہنا کہ ایک دن سے بھی کم سوئے ہوں گے، بحث نے جب طول پکڑا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا اس فضول بحث کو چھوڑو اور کام کی بات کرو بھوک لگ رہی ہے لہٰذا کچھ کھانے پینے کی بات کرو، چناچہ انہوں نے اپنے ایک شخص کو جس کا نام تملیخا بتایا جاتا ہے بازار میں کھانا لانے کے لئے بھیج دیا، اور یہ تاکید کردی کہ ہو شیاری اور بیدار مغزی سے کام لے، اور کسی کو ہماری خبر نہ ہونے دے اور اس بات کا بھی خیال رکھے کہ کھانا حلال اور پاکیزہ ہو اس لئے کہ اہل شہر کی اکثریت بت پرستوں کی ہے ایسا نہ ہو کہ غیر شرعی طور پر ذبح کیا ہو، چناچہ تملیخا نے ایک دکان سے کھانا خرید کر تین سو سال پہلے کا سکہ نکال کر دکاندار کو دیا تو دکاندار حیران رہ گیا کہ یہ سکہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ بازار کے دیگر دکانداروں کو بھی دکھلایا سب نے یہ کہا کہ اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے، اس شخص نے انکار کیا کہ مجھے کوئی خزانہ نہیں ملا بلکہ یہ روپیہ میرا ہے، بات بڑھ گئی بازار والوں نے اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کردیا، یہ بادشاہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ نیک صالح اور اللہ والا تھا اور اس نے سلطنت کے خزانہ میں وہ تختی بھی دیکھی تھی کہ جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے فرار ہونے کا واقعہ لکھا ہوا تھا بادشاہ نے اس تختی کی روشنی میں حالات کی تحقیق کی تو اس کو اطمینان ہوگیا کہ یہ انہی لوگوں میں سے ہے، بادشاہ نے کہا میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے لوگوں سے ملا دے جو قیانوس کے زمانہ میں اپنے ایمان بچا کر بھاگے تھے، بادشاہ اس سے بہت خوش ہوا اور کہا شاید اللہ تعالیٰ نے میری دعاء قبول فرما لی ہے، اور اس شخص سے کہا کہ ہم کو اس غار پر لے چلو جہاں سے تم آئے ہو، بادشاہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ غار پر پہنچا اور جب غار قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں میں جا کر اپنے ساتھیوں کو حقیقت حال سے باخبر کر دوں تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں، اس کے بعد روایات میں اختلاف ہے، ایک روایت میں یہ ہے کہ تملیخا نے غار میں جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے کہ اب بادشاہ مسلمان ہے اور قوم بھی مسلمان ہے وہ سب ملاقات کے لئے آئے ہیں، اصحاب کہف اس خبر سے بہت خوش ہوئے اور بادشاہ کا استقبال کیا پھر وہ اپنے غار میں واپس چلے گئے، اکثر روایات میں یہ ہے کہ جس وقت اس ساتھی نے غار میں پہنچ کر باقی حضرات کو یہ پورا واقعہ سنایا اسی وقت سب کی وفات ہوگئی بادشاہ سے ملاقات نہ ہوسکی، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ملاقات کے بعد اصحاب کہف نے بادشاہ اور اہل شہر سے کہا اب ہم آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے اسی وقت اللہ نے ان کو وفات دے دی، واللہ اعلم بالصواب۔ (قرطبی بحوالہ معارف القرآن ملخصًا)
بہر حال جب اہل شہر کے سامنے قدرت الٰہی کا یہ عجیب واقعہ ظاہر ہوگیا تو سب کو یقین ہوگیا کہ جس ذات کی قدرت میں یہ داخل ہے کہ تین سو سال تک انسانوں کو بغیر غذا اور دیگر سامان زندگی کے زندہ رکھ سکتا ہے اور طویل عرصہ تک سلانے کے بعد پھر صحیح سالم قوی اور تندرست اٹھا سکتا ہے تو اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کو مع اجسام کے زندہ کر دے، اس واقعہ سے ان کے انکار کا سبب دور ہوگیا کہ حشر اجساد کو مستبعد اور خارج از قدرت سمجھتے تھے اب معلوم ہوا کہ مالک الملکوت کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کرنا خود جہالت ہے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا لِیَعْلَمُوْا أنَّ وَعْدَ اللہِ حق وَأنَّ السَّاعَۃَ لاَ رَیْبَ فیہِ ۔
اس واقعہ کے بعد شہر والے اصحاب کہف کی بزرگی اور تقدس کے قائل ہوگئے تھے، اب ان میں اس بات میں اختلاف ہوا کہ ان کی یادگار کے طور پر غار پر کیا بنایا جائے ؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ غار کے پاس کوئی یادگاری عمارت تعمیر کردی جائے کہ جو لوگوں کے لئے تفریح گاہ بھی ہو اور ان بزرگوں کے لئے یادگار بھی، اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک مسجد تعمیر کردی جائے تاکہ زائرین کے لئے سہولت ہو اور ان اہل اللہ کو اجر بھی پہنچے۔
مسئلہ : اگر کسی نیک آدمی کی قبر پر زائرین بکثرت آتے ہوں تو ان کے قیام اور نماز نیز دیگر سہولتوں کے لئے قریب میں مسجد بنانا جائز ہے بشرطیکہ وقف قبرستان میں نہ بنائی جائے اور جن احادیث میں انبیاء کی قبروں پر مسجد بنانے پر لعنت آئی ہے ان سے مراد خود قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہے جو بالاتفاق شرک اور حرام ہے۔
مسئلہ : کسی مسجد کے پاس یا کسی مکان میں میں کسی کی تدفین جائز نہیں مردوں کی تدفین قبرستانوں ہی میں ہونی چاہیے، حدیث شریف میں ہے صَلُوْا فِی بُیُوْتِکُمْ ولاَ تَتَّخِذ ُ وْھَا قبُوْرًا (ترمذی شریف، ج ١، ص ٦٠) یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھو، ان کو قبریں نہ بناؤ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین جو مکان میں ہوئی یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔
اصحاب کہف کی تعداد کیا تھی ؟
سیقولون ثلٰثۃ رابعھم کلبھم اصحاب کہف کی تعداد میں اختلاف کرنے والوں میں دو احتمال ہیں، اول یہ کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کا اختلاف اصحاب کہف کے زمانہ میں ان کے نام ونسب کے بارے میں ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے (کمافی البحر) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سیقولون کی ضمیر نصاریٰ نجران کی طرف راجع ہو جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کیا یعنی تین کا عدد بتایا، اور دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا اس نے دو سرا قول یعنی پانچ ہونا بتایا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول یعنی سات ہونا اختیار کیا، بعض حضرات جن میں مفسر علام بھی شامل ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا اور پہلے دونوں نصاریٰ نجران کے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اور قرآن کریم کے اشارہ سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (بحر محیط)
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں ان کم لوگوں میں سے ہوں کہ جن کو اصحاب کہف کی صحیح تعداد معلوم ہے، اصحاب کہف ساتھ تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دونوں قول رجماً بالغیب فرما کر رد کر دئیے ہیں اور تیسرے قول کی تردید نہیں فرمائی۔ وثامنھم کلبھم قرآن کریم نے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں تین قول نقل کئے ہیں، تین، پانچ، سات، اور ہر ایک کے بعد کتے کو شمار کیا گیا ہے لیکن پہلے دو قول میں ان کی تعداد اور کتے کے شمار میں واؤ عاطفہ نہیں لایا گیا، ثلثۃ رابعھم کلبھم، خمسۃ سادسھم کلبھم یہ دونوں قول بلا واؤ عاطفہ کے آئے ہیں اور تیسرا قول سبعۃ وثامنھم قلبھم واؤ کے ساتھ لایا گیا ہے، اس کی وجہ حضرات مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ عرب کے لوگوں میں عدد کی پہلی گرہ سات کی ہوتی تھی، سات کے بعد جو عدد آئے وہ الگ شمار ہوتا تھا، قرآن کریم میں بھی اس کا استعمال جگہ ہوا، کما فی قولہ تعالیٰ وفتحت ابوابھا وقولہ تعالیٰ ثیبات وابکارا، جیسا کہ آج کل نو کا عدد اس کے قائم مقام ہے کہ جب تک اکائی ہے اور دس سے دہائی شروع ہوتی ہے گویا کہ یہ دونوں الگ الگ عدد ہیں اس لئے تین سے سات تک واؤ عاطفہ کے ساتھ الگ کر کے بتلاتے تھے اور اسی لئے اس واؤ کو واؤ ثمان کا لقب دیا تھا یہ واؤ محض زائدہ بھی ہوسکتا ہے اور زائدہ مع التاکید بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ یہ واؤ الصاق موصوف بالصفت اور تاکید پر دلالت کرتا ہے بایں طور کہ جب کسی موصوف کو یقین کے ساتھ متصف بالصفت کیا جائے تو موصوف کا وجود یقینی ہوگا اس لئے کہ صفت موصوف کے بغیر موجود نہیں ہوسکتی ثامنھم یہ سبعۃ کی صفت ہے یعنی وہ سات کہ جن کو آٹھ کرنے والا کتا ہے یعنی اصحاب کہف سات ہیں اور ان کو آٹھ کرنے والا کتا ہے، ثامنھم کلبھم واؤ کے ساتھ مستقل جملہ کی صورت میں ذکر کرنا یہ عزم اور پختگی کو ظاہر کرتا ہے یعنی آٹھواں کتا ہونا یقینی ہے تو اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اصحاب کہف سات تھے، مفسر کے قول وَقِیلَ تاکیدًا اَوْ دلالۃً علیٰ لصُوقِ الصفۃِ بالموصوفِ میں اَوْ عاطفہ تفسیریہ ہے یعنی معطوف علیہ اور معطوف کا مفہوم ایک ہی ہے۔
اصحاب کہف کے اسماء : کسی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام صحیح صحیح ثابت نہیں ہیں تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ ہیں : (١) مُکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیْخَا (٣) مَرْطُوْنَسْ (٤) سَنُوْنَسْ (٥) سَارِیْنُوتَسْ (٦) ذُو نَوَاس (٧) کَعَسْطَطْیُوْنَس۔
اسماء اصحاب کہف بعض حضرات نے یہ بتائے ہیں، جیسا کہ صاوی و حاشیہ علی الجلالین میں مذکور ہیں :
(١) مَکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیخَا (٣) مَرْطونَسْ (٤) نَیْنُوْنَسْ (٥) سَارْبُولَسْ (٦) ذُونواس (٧) فَلْیَسْتطیُونَسْ ، یہ آخری شخص چرواہا تھا جو کہ راستہ سے ساتھ ہوگیا تھا اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جس کا نام قطمیر بتایا گیا ہے، نیشا پوری نے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالہ سے حاشیہ جلالین پر اصحاب کہف کے نو فوائد درج کئے ہیں نیز حاشیہ صاوی پر بھی درج ہیں طلب وہرب (بھاگنے) کے لئے آگ بجھانے کے لئے، اگر کسی کاغذ وغیرہ پر لکھ کر آگ میں ڈال دیا جائے تو اللہ کے حکم سے وہ آگ بجھ جائے گی، بچوں کے رونے کے لئے اور تیسرے دن کے بخار کے لئے اور درد سر کے لئے دائیں بازو پر باندھیں، اور ام صبیان اور دریائی یا خشکی کے سفر اور مال و پھلوں کی حفاظت کے لئے اور ترقی ذہن کے لئے اور قتل سے نجات کے لئے حاشیہ جلالین پر استعمال کی مندرجہ ذیل ترکیب لکھی ہے، بچہ کے رونے کے لئے تکیہ کے نیچے رکھا جائے اور کھیتی کی حفاظت کے لئے کسی کاغذ وغیرہ پر لکھ کر کھیت کے درمیان کسی اونچی لکڑی پر آویزاں کردیا جائے، شدید درد، تیسرے دن کے بخار سر کے درد اور حاکم یا سلاطین کے پاس جانے کے وقت دائیں ران پر باندھا جائے اور عسر ولادت کے لئے بائیں رات پر باندھا جائے۔
فلا تمار اِلا مراء ظاھر الخ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور امت کو ان دونوں جملوں سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سر سری گفتگو کر کے بات ختم کردیا جائے اپنے دعویٰ کے اثبات اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے اور وقت کو ضائع نہ کیا جائے، اس لئے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، اس سے باہم تلخی پیدا ہونے کا بھی خطر ہے، دوسرے جملہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعہ قصہ اصحاب کہف کی جتنی معلومات آپ کو دے دی گئی ہیں ان پر قناعت فرمائیں کہ وہ بالکل کافی ہیں زائد کی تحقیق اول لوگوں سے سوال وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں۔
قولہ تعالیٰ ولا تقولن لشائ الخ ای لِاَجل شئ تعذم علیہ فیما یستقبل من الزمان، فعبّر۔۔۔۔ لاجل شئ کے اضافہ کا مقصد یہ ہے کہ کہیں مخاطب غدًا سے محض غد ہی نہ سمجھ لے جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ بعد الغد کے لئے بغیر انشاء اللہ کے کہہ سکتا ہے، لاجل شئ کا مطلب ہے لمدت شئ فی المستقبل۔
اگر لوگ آپ سے کوئی بات قابل جواب دریافت کریں اور آپ جواب کا وعدہ فرمائیں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ اس کے ہم معنی کوئی لفظ ضرور ملا لیا کریں اور وعدہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر کام میں اس کا لحاظ رکھئے، اور آئندہ ایسا ہو جیسا اس واقعہ میں پیش آیا کہ آپ سے لوگوں نے روح اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے بغیر انشاء اللہ کے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ کرلیا پھر پندرہ روز تک وحی نازل نہیں ہوئی اور آپ کو بڑا غم ہوا، اس ہدایت اور تنبیہ کے ساتھ لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی نازل ہوا۔ (کذا فی الباب عن ابن عباس (رض)
اور اگر آپ اتفاقاً انشاء اللہ کہنا بھول جائیں پھر کبھی یاد آئے تو اسی وقت انشاء اللہ کہہ کر اپنے رب کو یاد کرلیا کیجئے، اور ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھ کو نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے اس واقعہ سے بھی نزدیک (واضح تر) بات بتلا دے، مطلب یہ ہے کہ تم نے میری نبوت کا امتحان لینے کے لئے اصحاب کہف وغیرہ کے قصے دریافت کئے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے بتلا کر تمہارا اطمینان کردیا مگر اصل بات یہ ہے کہ ان قصوں کے سوال و جواب اثبات نبوت کے لئے کوئی بہت بڑی دلیل نہیں ہوسکتی یہ کام تو غیر نبی بھی جو تاریخ عالم سے بخوبی واقف ہو کرسکتا ہے، مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے اثبات کے لئے اس سے بڑے اور قطعی دلائل اور معجزات عطا فرمائے ہیں جن میں سب سے بڑی دلیل خود قرآن ہے جس کی ایک آیت کی بھی ساری دنیا مل کے نقل نہ اتار سکی، اس کے علاوہ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کے وہ واقعات بذریعہ وحی مجھے بتلا دئیے گئے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی بہ نسبت واقعہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین زیادہ بعید ہیں اور ان کا علم بھی کسی کو بجز وحی کے ممکن نہیں، خلاصہ یہ کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین زیادہ بعید ہیں اور ان کا علم بھی کسی کو بجز وحی کے ممکن نہیں، خلاصہ یہ کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو سب سے زیادہ عجیب سمجھ کر اسی کو امتحان نبوت کے طور پیش کیا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب چیزوں کے علوم عطا فرمائے ہیں، اور جیسا اختلاف اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں ہے ایسا ہی اختلاف ان کے سونے کی مدت میں بھی ہے ہم اس میں صحیح بات بتلاتے ہیں :
اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت : وَلَبِثُوْا فِی کھفِھِمْ ثَلٰثَ مأۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا اصحاب کہف غار میں تین سال مزید براں نو سال رہے، قرآن کے ظاہر نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے تین سو سال سونے کی مدت کا بیان حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، ابن کثیر نے اسی کو جمہور سلف وخلف کا قول قرار دیا ہے، مگر حضرت ابو قتادہ وغیرہ سے اس میں ایک دوسرا قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ تین سو نوسال کا قول بھی انہیں اختلاف کرنے والوں میں سے بعض کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول صرف وہ ہے جو بعد میں فرمایا یعنی (اَللہُ اعلم بِمَا لَبِثُوْا) مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں پہلے میں حقیقت واقعہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے مدت کا بیان آگیا تو اب اس کو تسلیم کرنا لازم ہے وہی جاننے والا ہے محض تخمینوں اور اندازوں سے اس کی مخالفت بےعقلی ہے۔
ایک سوال : یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم بیان مدت میں پہلے تین سو سال بیان کئے اس کے بعد فرمایا ان تین سو پر نو اور زیادہ ہوگئے عام دستور کے مطابق پہلے ہی تین سو نو نہیں فرمایا، اس کا جواب حضرات مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہود و نصاریٰ میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس حساب سے تین سو سال ہی ہوئے ہیں اور اسلام میں قمری سال کا ہے اور قمری حساب سے ایک سال میں دس دن اور ہر تین سال میں ایک ماہ اور ہر چھتیس سال میں ایک سال کا اضافہ ہوجاتا ہے، اس حساب سے ہر سال میں تقریباً تین سال کا اضافہ ہوجاتا ہے، اس حساب سے تین سو سال شمسی کے تقریباً ٣٠٩ سال قمری ہوں گے، یہ حساب تقریبی ہے یعنی کسر کو ترک کردیا گیا ہے اس لئے کہ بڑی گنتی میں عام طور پر کسر کو چھوڑ دیتے ہیں، شمسی اور قمری حسابوں میں امتیاز بتانے کے لئے تعبیر کا مذکورہ عنوان اختیار کیا گیا ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرت علی تھانوی نے بیان القرآن میں تفسیر حقانی کے حوالہ سے اصحاب کہف کا مقام اور مقام کی تاریخی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ یہ ظالم بادشاہ کہ جس کے خوف سے بھاگ کر اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی تھی اس کا زمانہ ٢٥٠ ء تھا پھر تین سو سال تک یہ لوگ سوتے رہے تو مجموعہ ٥٥٠ ء ہوگیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت مبارک ٥٧٠ ء میں ہوئی اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے بیس سال پہلے ان کے بیدار ہونے کا یہ واقعہ پیش آیا اور تفسیر حقانی میں بھی ان کا نام شہر افسوس یا طرسوس کو قرار دیا ہے جو ایشائے کو چک میں واقع ہے اب بھی اس کھنڈرات موجود ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اصحاب کہف کے احوال سے مطلع کیا اور یہ اطلاع یوں ہوئی (واللہ اعلم) کہ اصحاب کہف جب اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ خود اپنے آپ کو اور ان کے معاملے کو چھپائے رکھے۔
مگر اللہ تعالیٰ ایک ایسا معاملہ چاہتا تھا جس میں لوگوں کی بھلائی اور ان کے لیے زیادہ اجر تھا۔ انہوں نے اصحاب کہف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اس بات کی نشانی کا عینی مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کا وعدہ سچا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس کا آنا بعید نہیں۔ اس سے پہلے وہ اس امر میں اختلاف کیا کرتے تھے۔ بعض لوگ قیامت اور جزائے اعمال کو مانتے تھے اور بعض اس کا انکار کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو اہل ایمان کے لیے ان کے یقین و بصیرت میں اضافے اور منکرین کے خلاف حجت و برہان کا باعث بنایا اور اس تمام قضیے کا اجر اصحاب کہف کو حاصل ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو تشہیر بخشی، ان کی قدرو منزلت بلند کی یہاں تک کہ ان لوگوں کی بھی عظمت بیان کی جو ان کے احوال پر مطلع ہوئے۔ ﴿ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ﴾ ” پس نہوں نے کہا، بناؤ ان پر ایک عمارت۔“ اللہ تعالیٰ ان کے حال و مآل کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ وہ لوگ جو ان کے معاملے میں اختیار رکھتے تھے، یعنی اصحاب اقتدار وہ کہنے لگے : ﴿ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴾ ” ہم بنائیں گے ان کی جگہ پر ایک مسجد“، یعنی ہم اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس مسجد کی وجہ سے ان کے حالات و واقعات کو یاد رکھیں گے۔ مگر یہ حالت ممنوع اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے۔
[صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور، حديث: 1230]
یہاں اس کا ذکر کرنا اس کے مذموم نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ آیات کا سیاق اصحاب کہف کی شان اور ان کی مدح و ثنا کے بارے میں ہے، یعنی اصحاب کہف کے بارے میں اطلاع پاکر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ ان پر ایک مسجدتعمیر کر دو۔ کہاں تو اصحاب کہف کو اپنی قوم سے شدید خوف اور اپنے بارے میں اطلاع ہونے کا ڈر تھا اور کہاں یہ حالت تھی جو آپ کے سامنے ہے۔
﴿1﴾ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے فرار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
﴿2﴾ جو کوئی عافیت کی خواہش رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا کرتا ہے۔
﴿3﴾ جو اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پناہ دیتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا دیتا ہے۔
﴿4﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر ذلت اٹھاتا ہے انجام کار اسے بہت زیادہ عزت نصیب ہوتی ہے اور اسے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا عِندَ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ﴾ (آل عمران :3؍198)” جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکو کار لوگوں کے لیے بہت بہتر ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aur yun hum ney unn ki khabar logon tak phoncha di , takay woh yaqeen say jaan len kay Allah ka wada sacha hai , neez yeh kay qayamat ki gharri aaney wali hai , uss mein koi shak nahi . ( phir woh waqt bhi aaya ) jab log unn kay baaray mein aapas mein jhagarr rahey thay , chunacheh kuch logon ney kaha kay inn per aik imarat bana do . inn ka rab hi inn kay moamlay ko behtar janta hai . ( aakhir kaar ) jinn logon ko unn kay moamlaat per ghalba hasil tha unhon ney kaha kay : hum to inn kay oopper aik masjid zaroor banayen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
دوبارہ جینے کی حجت
ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کردیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی، جسم کا اعادہ نہ ہوگا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کردی ہے اور عینی دلیل دے دی۔ مذکور ہے کہ جب ان میں سے ایک صاحب دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں سارا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے، بستیاں بدل چکی تھیں، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن گزار ہے یہاں انقلاب زمانہ اور کا اور ہوچکا ہے جیسے کسی نے کہا ہے۔
اما الدیار فانہا کدیارہم
واری رجال الحی غیر رجالہ
گھر گو انہیں جیسے ہیں لیکن قبیلے کے لوگ اور ہی ہیں اس نے دیکھا کہ نہ تو شہر کوئی چیز اپنے حال پر ہے، نہ شہر کا کوئی بھی رہنے والا جان پہچان کا ہے نہ یہ کسی کو جانیں نہ انہیں اور کوئی پہچانے۔ تمام عام خاص اور ہی ہیں۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا۔ دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں۔ یہ دفعتا ہو کیا گیا ؟ ہرچند سوچتا تھا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ آخر خیال کرنے لگا کہ شاید میں مجنوں ہوگیا ہوں یا میرے حواس ٹھکانے نہیں رہے یا مجھے کوئی مرض لگ گیا ہے یا میں خواب میں ہوں۔ لیکن فورا ہی یہ خیالات ہٹ گئے مگر کسی بات پر تسلی نہ ہوسکی اس لئے ارادہ کرلیا کہ مجھے سودا لے کر اس شہر کو جلد چھوڑ دینا چاہئے۔ ایک دکان پر جا کر اسے دام دئیے اور سودا کھانے پینے کا طلب کیا۔ اس نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تر تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیا ہے کب کا ہے ؟ کسی زمانے کا ہے ؟ اس نے دوسرے کو دیا اس سے کسی اور نے دیکھنے کو مانگ لیا الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ہر زبان سے یہی نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے، اس میں سے یہ لایا ہے اس سے پوچھو یہ کہاں کا ہے ؟ کون ہے ؟ یہ سکہ کہاں سے پایا ؟ چناچہ لوگوں نے اسے گھیر لیا مجمع لگا کر کھڑے ہوگئے اور اوپر تلے ٹیڑھے ترچھے سوالات شروع کر دئے۔ اس نے کہا میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں، کل شام کو میں یہاں سے گیا ہوں، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے۔ اب تو سب نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا اس سے سوالات ہوئے اس نے تمام حال کہہ سنایا اب ایک طرف بادشاہ اور دوسرے سب لوگ متحیر ایک طرف سے خود ششدر و حیران۔ آخر سب لوگ ان کے ساتھ ہوئے۔ اچھا ہمیں اپنے اور ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو ۔ یہ انہیں لے کر چلے غار کے پاس پہنچ کر کہا تم ذرا ٹھیرو میں پہلے انہیں جا کر خبر کر دوں۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بیخبر ی کے پردے ڈال دئے۔ انہیں نہ معلو ہوسکا کہ وہ کہاں گیا ؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کرلیا۔ ایک روایت یہ بھی آئی ہے کہ یہ لوگ مع بادشاہ کے گئے، ان سے ملے، سلام علیک ہوئی، بغلگیر ہوئے، یہ بادشاہ خود مسلمان تھا۔ اس کا نام تندوسیس تھا، اصحاب کہف ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور محبت و انسیت سے ملے جلے، باتیں کیں، پھر واپس جا کر اپنی اپنی جگہ لیٹے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کرلیا، رحمہم اللہ اجمعین واللہ اعلم۔
کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) حبیب بن مسلمہ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے، وہاں انہوں نے روم کے شہروں میں ایک غار دیکھا، جس میں ہڈیاں تھیں، لوگوں نے کہا یہ ہڈیاں اصحاب کہف کی ہیں، آپ نے فرمایا تین سو سال گزر چکے کہ ان کی ہڈیاں کھوکھلی ہو کر مٹی ہوگئیں (ابن جریر) پس فرماتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں انوکھی طرز پر سلایا اور بالکل انوکھے طور پر جگایا، اسی طرح بالکل نرالے طرز پر اہل شہر کو ان کے حالات سے مطلع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کے وعدوں کی حقانیت کا علم ہوجائے اور قیامت کے ہونے میں اور اس کے برحق ہونے میں انہیں کوئی شک نہ رہے۔ اس وقت وہ آپس میں سخت مختلف تھے، لڑ جھگڑ رہے تھے، بعض قیامت کے قائل تھے، بعض منکر تھے، پس اصحاب کہف کا ظہور منکروں پر حجت اور ماننے والوں کے لئے دلیل بن گیا۔ اب اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان کے غار کا منہ بند کردیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جنہیں سرداری حاصل تھی انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنالیں گے امام ابن جریر ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا۔ واللہ اعلم۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسکے قائل کلمہ گو تھے، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا ؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اولیا کی قبروں کو مسجدیں بنالیں جو انہوں نے کیا اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے۔ اسی لئے امیرالمومنین حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب حضرت دانیال کی قبر عراق میں پائی تو حکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کردیا جائے اور جو رقعہ ملا ہے جس میں بعض لڑائیوں وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کردیا جائے۔