الکہف آية ۲۷
وَاتْلُ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ۗ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۗ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
طاہر القادری:
اور آپ وہ (کلام) پڑھ کر سنائیں جو آپ کے رب کی کتاب میں سے آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے، اس کے کلام کو کوئی بدلنے والا نہیں اور آپ اس کے سوا ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے،
English Sahih:
And recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book of your Lord. There is no changer of His words, and never will you find in other than Him a refuge.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے
2 Ahmed Raza Khan
اور تلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب تمہیں وحی ہوئی اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور ہرگز تم اس کے سوا پناہ نہ پاؤ گے،
3 Ahmed Ali
اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا
4 Ahsanul Bayan
تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا رہ (١) اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ پائے گا (٢)۔
٢٧۔١ ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔
٢٧۔٢ یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے
6 Muhammad Junagarhi
تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا ره، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے واﻻ نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناه کی جگہ نہ پائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) آپ کے پروردگار کی طرف کتاب (قرآن) کے ذریعہ سے جو وحی کی گئی ہے۔ اسے پڑھ سنائیں۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور آپ اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو کچھ کتاب پروردگار سے وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچایا گیا ہے آپ اسی کی تلاوت کریں کہ کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا ٹھکانا بھی نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو اسکی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے
آیت نمبر 27 تا 31
ترجمہ : اور آپ کے پاس جو آپ کے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ آئی ہے آپ اس کو تلاوت کیا کیجئے، اس کی باتوں کو کوئی نہیں بدل سکتا، اور آپ خدا کے سوا کہیں جائے پناہ نہ پائیں گے، اور آپ خود کو ان لوگوں کے ساتھ پابند مقید رکھا کیجئے جو صبح وشام (ہمہ وقت) اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادت کا مقصد محض اپنے رب کی خوشنودی ہے ان کی دنیوی کوئی غرض نہیں ہے، اور وہ فقراء ہیں، اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں (توجہ) ان سے ہٹنے نہ پائیں عین بول کر صاحب عین مراد ہے اور ایسے شخص کا کہنا نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے یعنی قرآن سے، اور وہ عینیہ بن حصن اور اس کے ساتھ ہیں اور وہ شرک میں اپنی نفسانی خواہشات پر چلتا ہے اور اس کا یہ حال حد سے گذر گیا ہے یعنی حد سے تجاوز کر گیا ہے اور آپ اس سے اور اس کے ساتھیوں سے (صاف صاف) کہہ دیجئے کہ یہ قرآن تمہارے رب کی جانب سے حق ہے سو جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کافر رہے، بلاشبہ ہم نے ظالموں کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس آگ کی قناتیں اس کو گھیرے ہوئے ہوں گی، وہ قناتیں کہ جن کے ذریعہ احاطہ کیا جائے گا اور اگر وہ (پیاس کی شدت) سے فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی کہ جو تیل کی تلچھٹ کے مانند ہوگا وہ پانی جب ان کے چہروں کے قریب کیا جائے گا تو اپنی حرارت کی وجہ سے چہروں کو بھون ڈالے گا اور کیا ہی برا پانی ہے وہ اور وہ آگ بھی کیا ہی بری آرام کی جگہ ہوگی مُرْتَفَقًا تمییز ہے جو فاعل سے منقول ہوئی ہے، ای قَبُحَ مُرْتَفَقُھا یعنی اس کا آرام نہایت ہی برا ہے اور یہ قول جنت کے بارے میں آنے والے قول حَسُنَتْ مُرْتَفَقَا کے بالمقابل لایا گیا ہے ورنہ تو آگ میں کونسا آرام ہے ؟ بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو ایسے نیک عمل کرنے والوں کا ہم اجر ضائع نہ کریں گے جملہ یعنی (اِنَّا لاَ نُضِیْعُ الخ) اِنَّ الَّذِیْنَ امنُوْا کی خبر ہے اور جملہ خبریہ میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے اور اصل عبارت اَجْرُھُمْ ہے یعنی ہم ان کو اجر عطا فرمائیں گے ایسا اجر کہ وہ مذکورہ آراموں کو شامل ہوگا ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے قیام کرنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے کہا گیا ہے کہ من زائدہ ہے اور بعض مفسرین نے من کو تبعیضیہ کہا ہے، اَسَاوِرُ اَسْوِرَۃٌکی جمع ہے اور اَسْوِرَۃٌ سِوَارٌ کی جمع ہے، یعنی اساورُ سِوَارٌ کی جمع الجمع ہے، اور ریشم کا باریک سبز رنگ کا لباس اور موٹے ریشم کا لباس پہنیں گے، اور سورة رحمٰن کی آیت میں بطائنھا من استبرق ہے (یعنی ان کا استر موٹے ریشم کا ہوگا) اور وہاں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اَرَائِک اَرِیْکَۃٌ کی جمع ہے سریر کو اریکۃ اس وقت کہتے ہیں جب وہ حجلہ میں ہو اور حجلہ اس مکان کو کہتے ہیں جس کو دلہن کے لئے کپڑوں اور پردوں وغیرہ سے آراستہ کیا جاتا ہے جنت کیا ہی اچھا صلہ ہے اور کیا آرام دہ جگہ ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ واتل کو تلاوت کر (ن) تلاوۃٌ تلاوت کرنا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ تِلْوٌ سے مشتق ہو اس کے معنی اتباع کرنا پیچھے پیچھے چلنا مِن الکتاب من بیانیہ ہے ما موصولہ کا بیان ہے مُلْتحدًا (اسم ظرف، مصدر میمی ہے) (افتعال) پناہ گاہ یا پناہ لینا، قولہ مِنْ کتاب رَبِّکَ ، مَا اُوحِیَ اِلَیْکَ کا بیان ہے قولہ لا تَعْدُ واحد مؤنث غائب حرف نہی کی وجہ سے آخر سے حرف علت واؤ ساقط ہوگیا (ن) عَدْوًا کسی چیز سے تجاوز کرنا، دوڑنا، عیْناکَ ، لا تَعْدُ کا فاعل ہے اور جملہ تُریدُ الخ عیناکَ کے کاف مضاف الیہ سے حال ہے اگر مضاف الیہ سے حال واقع ہونا درست ہے، یا اس لئے کہ عین سے صاحب عین مراد ہے، لہٰذا فعل کی اسناد اگرچہ بظاہر مضاف الیہ کی طرف ہے مگر حقیقت میں مضاف ہی کی طرف ہے فُرُطًا (ن) حد سے تجاوز کرنا فَرَطَ فی الامر کوتاہی کرنا، قولہ الحق یہ مبتداء محذوف ھٰذا القرآن کی خبر ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے اور الحق فعل محذوف کا فاعل بھی ہوسکتا ہے ای جاء الحق ، مِنْ رَّبِّکُمْ یا تو الحقّ سے حال ہے ای کا ئتاً من رَّبِّکم یا ھذا القرآن مبتداء محذوف کی خبر ثانی ہے ای کائن من رَّبکم اِنَّا اَعْتَدْنَا یہ لف ونشر غیر مرتب ہے یعنی اِنَّ اَعْتدنَا کا تعلق وَمَنْ شاءَ فلیکفر سے ہے اور اِنَّ الذین آمنوا کا تعلق فمن شاء فلیومن سے ہے اَحَاطَ بِھِمْ سرادقُھَا، نارًا کی صفت ہے، سرَادق کی جمع سَرَادِقات ہے سرادق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہو، خواہ چہار دیواری ہو یا شامیانہ اور قناتیں قولہ یَسْتَغِیْثُوْا مصدر اغاثۃ ً مدد طلب کرنا یَسْتَغِیْثُوْا اصل میں یَسْتَغْوِثُوْا تھا، واؤ کا کسرہ ماقبل کو دے دیا گیا، اور واؤ کو ی سے بدل دیا یَسْتَغِیْثُوْا ہوگیا قولہ اَلمُھلُ (اسم) تلچھٹ، پیپ، کچلہو جملہ یشوِی، ماء کی صفت بھی ہوسکتا ہے اور المھل سے حال بھی، عَکر گاد، تلچھٹ الشراب بئس کا فاعل ہے اور مخصوص بالذم محذوف ہے اور وہ ھُوَ ہے جس کا مرجع مستغاث بہ ہے، مُرْتفقًا نسبت سے تمییز ہے جو کہ فاعل سے منقول ہے ای قَبُحَ مُرْتَفَقُھَا المرتفق ظرف مکان، آرام کی جگہ، دوزخیوں کے لئے اس کا استعمال استہزاءً ہوا ہے یا مشاکلت کے طور پر بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ جنتیوں کے لئے حَسُنَتْ مُرتفقاً فرمایا گیا ہے قولہ اِنَّا، اِنَّ حرف مشبہ بالفعل اس کے اندر ضمیر وہ اس کا اسم لا نضیع اجر مَنْ اَحْسَنَ عَمَلاً جملہ ہو کر اِنَّ اپنے اسم وخبر سے مل کر خبر ہوئی اِنَّ اول کی، اِنَّ اول اپنے اسم وخبر سے ملکر جملہ اسمیہ خبریہ ہوا اُولٰئکَ لھُمْ جنّٰتُ عدنٍ لھُمْ خبر مقدم ہے اور جنت عدن مبتداء مؤخر ہے پھر جملہ ہو کر اُوْلٰئکَ مبتدا کی خبر ہے قولہ مِن اَسَاوِرَ من ابتدائیہ ہے یا مفعول بہ پر زائدہ ہے اور مِنْ ذھبٍ میں من بیانیہ ہے اور کائنۃ یا مصنوعۃ کے متعلق ہو کر اَسَاوِرَ کی صفت ہے اَسَاوِرُ سوار کی جمع ہے بمعنی کنگن متکئین فعل محذوف یجلسون کی ضمیر سے حال ہے فی الحجلۃ کائنًا کے متعلق ہو کر السریر سے حال ہے۔
تفسیر وتشریح
اور آپ کا کام صرف اس قدر ہے کہ آپ کے پاس جو آپ کے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ آتی ہے وہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیا کیجئے، آپ کا فرض منصبی صرف اتنا ہی ہے آپ اپنے فرض منصبی کے انجام دہی میں مشغول رہئے، آپ اس فکر میں نہ پڑئیے کہ دنیا کے بڑے لوگ اگر اسلام کی مخالفت کرتے رہے تو دین کو ترقی کس طرح ہوگی ؟ کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرما لیا ہے، اس کے وعدوں کو بدلا نہیں جاسکتا یعنی اگر پوری دنیا بھی مل کر اللہ کو وعدہ پورا کرنے سے روکنا چاہے تو روک نہیں سکتی اور اگر آپ نے ان بڑے لوگوں کی دل جوئی اس طرح کی کہ جس سے احکام الٰہی ترک ہوجائیں تو پھر آپ خدا کے سوا کسی کو پناہ گاہ نہ پائیں گے اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احکام شرعیہ کا ترک بدلائل شرعیہ محال ہے مگر مبالغۃً اور تاکیداً بفرض محال یہ کہا گیا ہے۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقراء صحابہ کی رعایت رکھنے اور ان ہی کے ساتھ بود وباش رکھنے اور خود کو ان کے ساتھ پابند رکھنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
شان نزول : اس آیت کے شان نزول میں مختلف واقعات مذکور ہیں ممکن ہے کہ سب ہی واقعات نزول کا سبب ہوئے ہوں، سورة انعام میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقراء مومنین کو اپنے پاس سے جدا کرنے کی ممانعت مذکور ہے کما قال اللہ تعالیٰ (ولا تطرد الذین یدعُوْنَ ربھم)
پہلا واقعہ : بغوی نے نقل کیا ہے کہ مکہ کا رئیس عینیہ بن حِصْن فزاری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کے پاس چند فقراء صحابہ بیٹھے ہوئے تھے ان کا لباس خستہ اور ہیئت فقیرانہ تھی عینیہ نے کہا کہ ہمیں آپ کے پاس آنے اور آپ کی بات سننے سے یہی لوگ مانع ہیں ایسے خستہ حال لوگوں کے پاس ہم نہیں بیٹھ سکتے آپ ان کو اپنی مجلس سے ہٹا دیں یا کم از کم ہمارے لئے علیحدہ مجلس رکھیں۔
دوسرا واقعہ : ابن مردویہ نے بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ امیہ بن خلف جمحی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ مشورہ دیا کہ غریب فقیر شکستہ حال مسلمانوں کو آپ اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ قریش کے سرداروں کو ساتھ لگائیں اگر یہ لوگ آپ کا دین قبول کرلیں گے تو دین کو ترقی ہوگی اس طرح کے واقعات پر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ آیت نازل ہوئی، جس میں ان لوگوں کے مشورہ کو قبول کرنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے اور صرف یہی نہیں کہ ان فقراء کو اپنی مجلس سے ہٹانے سے منع فرمایا گیا ہے بلکہ یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ باندھ کر رکھیں، مطلب یہ ہے کہ خصوصی توجہات کے ذریعہ آپ ان فقراء کے ساتھ وابستہ رہئے، معاملات میں انہی سے مشورہ لیں اور انہی کی امداد و اعانت سے کام کریں، اور اس کی وجہ اور حکمت ان الفاظ سے بتلا دی گئی ہے کہ یہ لوگ صبح وشام یعنی ہرحال میں اللہ کو پکارتے اور اسی کا ذکر کرتے ہیں ان کا جو عمل ہے وہ خالص اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہے اور یہ سب حالات وہ ہیں کہ جو اللہ کی امداد اور نصرت کو کھینچ کر لاتے ہیں اور رؤ سا قریش کا مشورہ قبول نہ کیجئے اس لئے کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل ہیں اور ان کے سب کام نفسانی خواہشات کے تابع ہیں اور یہ حالات اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصرت سے ان کو دور کرنے والے ہیں۔
ایک سوال : یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ مشورہ تو قابل عمل تھا کہ ان کے لئے ایک مجلس الگ کردی جاتی مگر اس طرح کی تقسیم میں سرکش مالداروں کا ایک خاص قسم کا اعزاز تھا جس سے غریب مسلمانوں کی دل شکنی ہوسکتی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو گوارہ نہ فرمایا اور اصول دعوت و تبلیغ یہی قرار دیا کہ اس میں کسی کا کوئی امتیاز نہ ہونا چاہیے۔
وقل الحق من ربکم فمن شاء الخ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ حق آچکا ہے اور اللہ کی حجت نام ہوچکی ہے اب لوگوں کی مرضی ہے کہ مانیں یا نہ مانیں اللہ تعالیٰ کو کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی کوئی پرواہ نہیں جو کچھ نفع و نقصان ہوگا لوگوں کا خود اپنا ہوگا، ارشاد فرمایا اب جس کا دل چاہے مان لے اور جس کا دل چاہے انکار کرے یہ تخییر نہیں ہے بلکہ تہدید ہے یعنی اب جو نہ مانے گا وہ سن لے ہم نے ظالموں کے لئے آتش دوزخ تیار کر رکھی ہے اس کی ہولناکی، خدا کی پناہ ! اور اگر لوگ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی ایسے پانی سے فریاد رسی کی جائے گی جو (صورۃً ) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہے، جو ان منہ بھون ڈالے گا، یعنی جہنم میں جب گرمی کی شدت سے دوزخیوں کو پیاس لگے گی اور وہ فریاد کریں گے اور پانی پانی چلائیں گے تب تیل کی تلچھٹ یا پگھلی ہوئی دھات یا پیپ کی طرح کا پانی دیا جائے گا جو اس قدر گرم ہوگا کہ منہ کو بھون ڈالے گا، کیا برا مشروب ہے اور کیسی بری آرام گاہ ہے ؟
اِنَّ الذین آمنوا بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے بیشک ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہ کریں گے جو عمل کے اعتبار سے اچھے ہیں یعنی ان کی ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہ کی جائے گی بلکہ ہم ان کے ہر اس عمل کا ثواب عطا کریں گے جو ثواب کے لائق ہوگا ایسے ہی لوگوں کے لئے دائمی جنت ہے، قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ جب مشرکین وکافرین کے لئے عذاب کا ذکر کرتا ہے تو وہی تقابل کے طور پر مومنین و مخلصین کے اجرو ثواب کا بھی ذکر کرتا ہے اسی لئے فریقین کی جزاء و سزاء کا ذکر کیا ہے یُحَلَّوْنَ فیھا اس آیت میں جنتی مردوں کو بھی سونے کے کنگن پہنانے کا ذکر ہے اس پر سوال ہوسکتا ہے کہ مردوں کے لئے زیور پہننا نہ زیبا ہے اور نہ زینت، جواب، جمال وزینت عرف و علاقہ کے تابع ہے، ایک علاقہ میں جو چیز جمال وزینت سمجھی جاتی ہے دو سرے علاقوں میں بسا اوقات قابل نفرت قرار دی جاتی ہے جنت میں مردوں کے لئے بھی زیور اور ریشمی کپڑے جمال وزینت قرار دئیے جائیں گے دنیا میں شریعت کا قانون یہ ہے کہ مردوں کے لئے سونے کا کوئی زیور یہاں تک کہ انگوٹھی اور گھڑی کی چین بھی جائز نہیں ہے، اسی طرح ریشمی کپڑے بھی جہاد کے علاوہ جائز نہیں ہیں، ہاں البتہ ساڑھے چار گرام تک چاندی کی انگوٹھی جائز ہے اللہ تعالیٰ نے زیورات کے لئے یُحَلَّوْنَ مجہول صیغہ اور کپڑوں کے لئے یلبسون معروف کا صیغہ استعمال فرمایا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر عادت یہی ہے کہ زیور دوسرے پہناتے ہیں اور لباس آدمی خود پہنتا ہے وہ وہاں مسہریوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے یعنی نہایت عزت اور احترام کے ساتھ مسہریوں پر گاؤ تکیے لگائے بیٹھے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے، کیسا اچھا صلہ ہے اور کیسی اچھی آرام گاہ ہے، اللہ تعالیٰ ہر مومن کو یہ نعمتیں نصیب فرمائے۔ (آمین)
10 Tafsir as-Saadi
تلاوت سے مراد اتباع کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو وحی بھیجی ہے اس کے معانی کی معرفت اور ان کا فہم حاصل کر کے، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور اس کے اوامر نواہی کی تعمیل کر کے اس کی اتباع کیجیے کیونکہ یہ بہت ہی جلیل القدر کتاب ہے جس کی باتوں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، ان کلمات کے صدق و عدل اور حسن میں ہر غایت و انتہا سے بڑھ جانے کی وجہ سے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا : ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ﴾ (الانعام 6؍115)” آپ کے رب کی بات صدق و عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔“ پس اپنے کمال کی وجہ سے ان باتوں میں تغیر و تبدل محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے کلمات ناقص ہوتے تو ان میں تغیر و تبدل واقع ہوسکتا۔ اس میں قرآن کریم کی عظمت کا اظہار ہے اور اسی ضمن میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب ہے۔ ﴿ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴾ ” اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے۔“ یعنی آپ کے رب کے سوا آپ کو کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملے گا جہاں آپ چھپ سکیں، نہ پناہ گاہ ملے گی جہاں پناہ لے سکیں۔ پس جب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ تمام امور میں وہی ملجاو ماویٰ ہے تو یہ بات بھی متعین ہوگئی کہ وہی الٰہ ہے خوشحالی اور بدحالی میں اسی کی طرف رغبت کی جائے، لوگ اپنے تمام احوال میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنے تمام مطالب میں اسی سے سوال کیا جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) tum per tumharay perwerdigar ki taraf say wahi kay zariye jo kitab bheji gaee hai , ussay parh ker suna-do . koi nahi hai jo uss ki baaton ko badal sakay , aur ussay chorr ker tumhen hergiz koi panah ki jagah nahi mil sakti .
12 Tafsir Ibn Kathir
تلاوت و تبلیغ
اللہ کریم اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے، نہ ادھر ادھر کرسکے، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 85) 28 ۔ القصص :85) یعنی اللہ تعالیٰ تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا۔ اور آیت میں ہے ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52) 6 ۔ الانعام :52) یعنی صبح شام یاد الہٰی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52) 6 ۔ الانعام :52) اتری۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے وہ خاموش ہوگئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس (رض) فرماتے ہیں واللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ غلام فرمائے ہیں۔ بزار میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ایک صاحب سورة کہف کی قرأت کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہوگئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الہٰی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورة حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورة کہف کی۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا، جنکے بال بکھرے ہوئے تھے، کھالیں خشک تھیں، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں، جو عبادت سے دور ہیں، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا، ان کی نعمتیں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88) 15 ۔ الحجر :88) ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے۔