الکہف آية ۳۲
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ۗ
طاہر القادری:
اور آپ ان سے ان دو شخصوں کی مثال بیان کریں جن میں سے ایک کے لئے ہم نے انگور کے دو باغات بنائے اور ہم نے ان دونوں کو تمام اَطراف سے کھجور کے درختوں کے ساتھ ڈھانپ دیا اور ہم نے ان کے درمیان (سرسبز و شاداب) کھیتیاں اگا دیں،
English Sahih:
And present to them an example of two men: We granted to one of them two gardens of grapevines, and We bordered them with palm trees and placed between them [fields of] crops.
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ! اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو دو شخص تھے ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور اُن کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی
2 Ahmed Raza Khan
اور ان کے سامنے دو مردوں کا حال بیان کرو کہ ان میں ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیے اور ان کو کھجوروں سے ڈھانپ لیا اور ان کے بیچ میں کھیتی رکھی
3 Ahmed Ali
اور انہیں دو شحصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد اگر کھجوریں لگائیں اوران دونو ں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی
4 Ahsanul Bayan
اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے (١) جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا (٢) اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی (٣)۔
٣٢۔١ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے؟ اللہ تعالٰی نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔
٣٣۔٢ جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔
٣٢۔٣ یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
6 Muhammad Junagarhi
اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)!) ان لوگوں کے سامنے ان دو شخصوں کی مثال پیش کریں کہ ہم نے ان میں سے ایک کو انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور انہیں کھجور کے درختوں سے گھیر رکھا تھا۔ اور ان کے درمیان کھیتی اگا دی تھی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان کفار کے لئے ان دو انسانوں کی مثال بیان کردیجئے جن میں سے ایک کے لئے ہم نے انگور کے دو باغ قرار دیئے اور انہیں کھجوروں سے گھیر دیا اور ان کے درمیان زراعت بھی قرار دے دی
9 Tafsir Jalalayn
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
آیت نمبر 32 تا 38
ترجمہ : اور حال بیان کیجئے ان کافروں اور مومنوں کے لئے ان دو شخصوں کا رجلین مثلاً سے بدل ہے رجُلَین اور اس کا مابعد مثلاً کی تفسیر ہے ان دو میں سے ایک کو جو کافر تھا انگور کے دو باغ دئیے تھے اور ہم نے دونوں باغوں کا کھجوروں کے درختوں کے ذریعہ احاطہ کردیا تھا اور ان کے بیچ بیچ میں کھیتی بھی اگائی تھی جس کے ذریعہ غذا حاصل کی جاتی تھی دونوں باغ اپنا پورا پھل دیتے تھے اس میں بالکل کمی نہیں کرتے تھے کِلتَا لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے (مگر معنی کے اعتبار سے) تثنیہ پر دلالت کرتا ہے اور کلتا مبتدا ہے اور آتت اس کی خبر ہے اور ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان نہریں جاری کر رکھی تھیں اور اس شخص کے لئے دو باغوں کے علاوہ اور بھی اموال تھے ثمَر ثا اور میم دونوں کے فتحہ کے ساتھ اور دونوں کے ضمہ کے ساتھ ثُمُرٌ اور اول کے ضمہ اور ثانی کے سکون کے ساتھ ثُمْرً اور ثَمَرٌ ثَمَرَۃٌ کی جمع ہے جیسے شَجَرٌ شَجَرَۃٌ کی جمع ہے اور خُشُبٌ خَشَبَۃٌ کی جمع ہے اور بُدنٌ بَدَنۃٌ کی جمع ہے (تینوں میں مفرد ایک ہی وزن پر ہے البتہ تینوں کی جمع مختلف ہے) (ایک روز) اس کافر نے اپنے مومن ساتھی سے فخریہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور افراد خاندان میں بھی اور اپنے ساتھ کو گھماتا ہوا اور باغ کے پھلوں کو دکھاتا ہوا ساتھ لے کر اپنے باغ میں داخل ہوا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا تھا کفر کے ذریعہ، اور اس موقع پر جَنَّتَیہِ نہیں کہا یا تو اس لئے کہ جنت سے مراد روضہ ہے (جو کہ دونوں باغوں پر مشتمل ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے ایک باغ ہی دکھانے پر اکتفاء کیا تھا اور کہنے لگا میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت آئے گی اور اگر تیرے خیال کے مطابق ( قیامت آبھی گئی) اور میں اپنے رب کے پاس پہنچا دیا گیا تو ضرور اس باغ سے بھی بہتر جگہ مجھے ملے گی اس کے (مومن) ساتھی نے اس کی (ان کفریہ) باتوں کے جواب میں کہا کہ کیا تو اس ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھ کو مٹی سے پیدا کیا ؟ اس لئے کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے پھر تجھ کو نطفہ منی سے پیدا کیا اور پھر تجھ کو صحیح سالم یعنی (تجھ کو معتدل الاعضاء) مرد بنایا لکِنَّا اس کی اصل لکِنْ اَنَا تھی ہمزہ کی حرکت نون کو دے دی اور ہمزہ کو حذف کردیا پھر نون کو نون میں ادغام کردیا ھُوَ ضمیر شان ہے اس کے بعد کا جملہ اس کی تفسیر کر رہا ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں کہتا ہوں (یعنی عقیدہ رکھتا ہوں) کہ میرا رب تو اللہ ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
ضَرَبَ کا استعمال جب مثل کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کے دو مفعول ہوتے ہیں، یہاں ایک مفعول مثلاً ہے اور دوسرا رَجُلَیْنِ دونوں مفعول درحقیقت ایک ہی ہیں اور رجلین حذف مضاف کے ساتھ مثلاً سے بدل بھی ہوسکتا اَیْ مثلاً مثل الرجلین قولہ من اَعْنَابٍ میں من بیانیہ ہے، ما فی الجنتین مبین ہے مِن اعنابٍ بیان ہے قولہ حَفَفْنَا حَفَّ سے ماضی جمع متکلم (ن) حفًّا گھیرنا کلتا چونکہ لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے اٰتَتْ کو مفرد لائے ہیں اور خلالھُمَا خبر ہے معنی کے اعتبار سے تثنیہ لائی گئی ہے کلتا الجنتینِ مرکب ہو کر مبتداء ہے اور جملہ اٰتَتْ خبر قولہ ثَمَرٌ سے باغات کے علاوہ دیگر اموال مراد ہیں خواہ وہ نقود کی شکل میں ہوں یا مویشیوں کی شکل میں قولہ یحاورُ (مفاعلۃ) مُحَاوَرَۃٌ وحِوَارًا گفتگو کرنا، جواب دینا، یُحَاوِرُ کی تفسیر یُفَاخِرُ سے قرینہ مقام کی وجہ سے ہے، قولہ مالاً ونفرًا یہ نسبت سے تمیز ہیں، قولہ اثمارَھا بعض نسخوں میں اثمارھا کے بجائے آثارھا ہے بمعنی رونق وشادابی قولہ أن تَبِیْدَ بتاویل مصدر ہو کر اَظنّ کا مفعول ہے قولہ سَوَّاکَ تسوِیۃ برابر کرنا، متناسب الاعضاء بنانا، یہ سَوَّیٰ جَعَلَ اور صَیَّرَ کے معنی میں ہے، جعل کا مفعول اول اور رجلاً مفعول ثانی ہے، لٰکِنَّا اصل میں لکن اَنا تھا، اَنَا کے ہمزہ کو خلاف قیاس حذف کر کے نون کا نون میں ادغام کردیا گیا ہے قولہ لٰکِنَّا میں لکن غیر عامل ہے، اس کے اندر ضمیر مبتداء اول ہے اور ھُوَ مبتداء ثانی ہے اور اللہ مبتدا ثالث ہے، رَبِّی خبر ہے۔
تفسیر وتشریح
مذکورہ آیات میں جن دو شخصوں کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں شخص فرضی ہیں اور بطور تمثیل ان کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حقیقی اور واقعی ہیں، جو حضرات واقعی ہونے کے قائل ہیں ان کے درمیان ان کی تعیین میں اختلاف ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے دو بھائی تھے اور بعض کا قول ہے کہ وہ دونوں مکہ کے مخزومی قبیلہ کے دو بھائی تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ عبد الاسود تھا اور وہ مومن تھا اور دوسرا اسود ابن عبد الاسود تھا یہ کافر تھا اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ وہی دو شخص ہیں کہ جن کا ذکر سورة الصافات میں اللہ تعالیٰ کے قول قال قائل منھم انی کان لی قرین میں ہے، مذکورہ دونوں بھائیوں کے واقعہ کو ذکر کرنے کا مقصد دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی پائیداری کو بیان کرنا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دو شخصوں کا جن کے درمیان دوستی یا قرابت کا تعلق تھا، بیان کیجئے عطاء خراسانی کے بیان کے مطابق ان کا قصہ اس طرح تھا، دو شریک یا دو بھائی تھے ان میں سے ایک مومن اور دوسرا کافر تھا ان دونوں کے پاس آٹھ ہزار دینار مشترکہ تھے بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان کے والد کے ترکہ سے آٹھ ہزار دینار ان کے حصہ میں آئے تھے، چار چار ہزار دونوں نے تقسیم کر لئے تھے ان میں سے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی جب مومن بھائی کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار کی زمین خریدی ہے اور میں تجھ سے ہزار دینار کے بدلے جنت میں زمین خریدتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں صرف کر دئیے، پھر کافر بھائی نے شادی کی اور اس پر اس نے ہزار دینار خرچ کئے جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار صرف کر کے ایک عورت سے شادی کی ہے میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض جنت کی حور سے شادی کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے ہزار دینار راہ خدا میں خرچ کر دئیے پھر اس کے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کے عوض کچھ غلام اور گھریلو سامان خریدا جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض تجھ سے جنت میں خدام اور سامانِ راحت خریدتا ہوں یہ کہ کر اس نے ایک ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ کر دئیے اب اس کے پاس کچھ باقی نہ رہا اور شدید حاجت مند ہوگیا، اس نے سوچا اگر میں اپنے بھائی کے پاس جاؤں اور اس سے اپنی حاجت کا سوال کروں تو وہ ضرور میری مدد کرے گا، چناچہ وہ ایک روز اس راستہ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سے اس کے بھائی کی آمدورفت تھی جب اس کا بھائی بڑی شان و شوکت کے ساتھ وہاں سے گذرا تو اپنے اس غریب مومن بھائی کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا فلاں ؟ اس نے کہا ہاں، اس نے حالت دیکھ کر کہا تیرا یہ کیا حال ہے ؟ تو مومن بھائی نے جواب دیا مجھے حاجت شدیدہ پیش آگئی ہے مدد کے لئے تیرے پاس آیا ہوں، کافر بھائی نے معلوم کیا تیرا وہ مال کیا ہوا جو تیرے حصہ میں آیا تھا ؟ تو اس مومن بھائی نے پوری صورت حال بیان کی تو اس کے کافر بھائی نے کہا میں کچھ نہ دوں گا تو تو بڑا سخی ہے پھر کافر بھائی نے مومن بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے باغوں میں گھمایا تو ان کے بارے میں آیت واضرب لھم مثلاً نازل ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کردیجیے ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے دوسرا وہ جو ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا نا شکر گزار ہے اور ان دونوں سے جس قسم کے اقوال و افعال صادر ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر انہیں جو دنیاوی اور اخروی عذاب اور ثواب حاصل ہوگا، تاکہ یہ لوگ ان دونوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں اور انہیں جو عذاب یا ثواب حاصل ہوا اس سے نصیحت پکڑیں۔ ان دونوں آدمیوں کی متعین طور پر معرفت حاصل کرنے اور یہ معلوم کرنے میں کہ وہ کس زمانے اور کون سی جگہ کے لوگ ہیں؟ کوئی فائدہ نہیں۔ فائدہ اور نتیجہ صرف ان کے واقعہ کو بیان کرنے میں ہے۔ ان کے قصہ کے علاوہ دیگر امور میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ پس ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا سپاسی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو باغ عطا کیے، یعنی انگوروں کے دو خوبصورت باغ ﴿ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ﴾ ” اور ان دونوں کے گرد کھجوروں کے درخت تھے“ یعنی ان باغات میں ہر قسم کے پھل تھے خاص طور پر انگور اور کھجور کے درخت جو سب سے افضل درخت ہیں۔ باغ کے وسط میں انگور کی بیلیں تھیں کھجور کے درختوں نے اس کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اس طرح وہ بہت خوبصورت نظر آتا تھا انگور کی بیلوں اور کھجور کے درختوں کو بکثرت ہوا اور سورج کی وافر روشنی حاصل ہوتی تھی، ہوا اور روشنی پھل کی تکمیل اور اس کے پکنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درختوں کے درمیان کھیتی کاشت کی ہوئی تھی۔ پس ان کے لیے اس کے سوا کچھ باقی نہ تھا کہ ان سے کہا جاتا کہ ان دونوں باغوں کے پھل کیسے ہیں؟ کیا ان کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی موجود ہے؟
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) inn logon kay samney unn do aadmiyon ki misal paish kero . jinn mein say aik ko hum ney angooron kay do baagh dey rakhay thay , aur unn ko khujoor kay darakhton say ghera huwa tha , aur unn dono baaghon kay darmiyan kheti lagai hoi thi .
12 Tafsir Ibn Kathir
فخر و غرور
چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا، انگوروں کے باغ، اردگرد کھجوروں کے درخت، درمیان میں کھیتی، درخت پھلدار، بیلیں ہری، کھیتی سرسبز، پھل پھول بھر پور، کسی قسم کا نقصان نہیں ادھر ادھر نہریں جاری تھیں۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود، مالدار شخص۔ اس کی دوسری قرأت ثمر بھی ہے یہ جمع ہے ثمرۃ کی جیسے خشبہ کی جمع خشب۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں، عزت و اولاد میں، جاہ و حشم میں، نوکر چاکر میں، تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر اکڑ انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں، یہ پھلدار درخت، یہ جاری نہریں، یہ سرسبز بیلیں، کبھی فنا ہوجائیں۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی بےایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی۔ اسی لئے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں۔ اور اگر بالفرض آئی تھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پیارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَــلْحُسْنٰى 50) 41 ۔ فصلت :50) اگر میں لوٹایا گیا تو وہاں میرے لئے اور اچھائی ہوگئی۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77ۭ ) 19 ۔ مریم :77) یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو تو کر رہا ہے ہماری آیتوں سے کفر اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بہی بکثرت مال و اولاد ملے گی، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ۔