الکہف آية ۴۵
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۤءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۤءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ مُّقْتَدِرًا
طاہر القادری:
اور آپ انہیں دنیوی زندگی کی مثال (بھی) بیان کیجئے (جو) اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے اتارا تو اس کے باعث زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا پھر وہ سوکھی گھاس کا چورا بن گیا جسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں، اور اﷲ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے،
English Sahih:
And present to them the example of the life of this world, [its being] like rain which We send down from the sky, and the vegetation of the earth mingles with it and [then] it becomes dry remnants, scattered by the winds. And Allah is ever, over all things, Perfect in Ability.
1 Abul A'ala Maududi
اور اے نبیؐ! اِنہیں حیات دنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے
3 Ahmed Ali
اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں۔ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے (١)۔
٤٥۔١ اس آیت میں دنیا کی بےثباتی اور ناپائداری کو کھیتی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی میں لگے پودوں اور درختوں پر جب آسمان سے بارش برستی ہے تو پانی سے ملکر کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، پودے اور درخت حیات نو سے شاداب ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کھیتی سوکھ جاتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا فصل پک جانے کے سبب تو پھر ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ ہوا کا ایک جھونکا کبھی اسے دائیں اور کبھی بائیں جانب جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ہوا کے ایک جھونکے یا اس پانی کے بلبلے یا کھیتی ہی کی طرح ہے، جو اپنی چند روزہ بہار دکھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور یہ سارے تصرفات اس ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو ایک ہے اور ہرچیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالٰی نے دنیا کی مثال قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان فرمائی ہے۔ (مثلًا (وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ ۭ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ) 10۔یونس;25)، (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ) 39۔ الزمر;21) وغیرہا من الآیات)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور خدا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اس سے زمین کا سبزه ملا جلا (نکلا) ہے، پھر آخر کار وه چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور آپ ان لوگوں کے سامنے زندگانئ دنیا کی (ایک اور) مثال پیش کریں کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا تو اس سے زمین کی نباتات مل گئی (اور خوب پھلی پھولی) پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انہیں زندگانی دنیا کی مثال اس پانی کی بتائیے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا تو زمین کی روئیدگی اس سے مل جل گئی پھر آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑادیتی ہیں اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں اور خدا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
آیت نمبر 45 تا 46
ترجمہ : آپ اپنی قوم کے لئے دنیوی زندگی کی مثال بیان کیجئے، مَثَلَ (اِضرب بمعنی صیَّر) کا مفعول اول ہے کماءٍ مفعول ثانی ہے
(دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے) جیسے ہم نے بادلوں سے پانی برسایا اس (پانی) کی وجہ سے زمین کا سبزہ (آپس) میں اس پانی برسنے کی وجہ سے گتھ گیا اور سبزہ پانی کی وجہ سے رل مل گیا اور سرسبز وبارونق ہوگیا پھر وہ سبزہ سوکھ کر ایسا چورا چورا ہوگیا کہ اس کے ذرّے متفرق ہوگئے جن کو ہوا اڑائے پھرتی ہے یعنی ریزہ ریزہ کر کے ہوا اس کو اڑائے پھرتی ہے حتی کہ اس کا نام ونشان مٹا دیا، مطلب یہ ہے کہ آپ دنیا کو ایسے خوشنما سبزے سے تشبیہ دیجئے جو آخر کار خشک ہو کر چورا ہوگیا ہو اور پھر ہوا نے اس کو منتشر کردیا ہو اور ایک قرأت میں الریاح کے بجائے الریح ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونق ہے دنیا میں ان دونوں سے زینت حاصل کی جاتی ہے اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ ہیں وہ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں اور بعض حضرات نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا اضافہ کیا ہے یہ اعمال تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی یعنی جس چیز کی انسان آس اور امید رکھتا ہے، اللہ کے پاس ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
کماءٍ میں کاف بمعنی مثل ہے اور اضرب کا مفعول ثانی ہے اور مَثَل الحیوۃ الدنیا مفعول اول ہے اور اضرب معنی میں صیّر کے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کماءٍ ھی مبتداء محذوف کی خبر ہو، اور انزلناہ جملہ ہو کر ماء کی صفت ہو قولہ الھشیم (ض) ھشْمًا ریزہ ریزہ کرنا ھَشِیْمٌ بمعنی مَھْشّوم رَوِی (س) رِوًا تروتازہ ہونا، خوش منظر ہونا وتَفَرَّقَہ میں عطف تفسیری ہے شَبِّہ فعل امر ہے اس کا فاعل اپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں زینۃ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، جس میں واحد تثنیہ جمع سب برابر ہیں اسی وجہ سے زینَۃ، المال اور البنون دونوں کی خبر واقع ہوئی ہے۔
اِضْرب کی تفسیر صَیِّرْ سے کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اضرب کا استعمال جب مثل کے ساتھ ہوتا ہے تو متعدی بدو مفعول ہوتا ہے اس مثال میں دنیوی زندگی کی ابتداء اور انتہاء کو بارش میں اگنے والی گھاس کے آغاز اور انجام سے تشبیہ دی گئی ہے قولہ المال والبنون ایسا قیاس ہے کہ جس کا کبریٰ اور نتیجہ محذوف ہے قیاس کی ترتیب یہ ہے : المال والبنون زینۃ الحیوٰۃ الدنیا، وکل ما ھُوَ زینتھا فھو ھالک فالمال والبنون ھالکان پھر کہا جائے گا، کل ما ھُوَ ھالک لا یُفَتخر بہ، فالمال والبنون لا یفتخر بھما۔
قولہ الباقیات صفت ہے اور اس کا موصوف محذوف ہے اور وہ الکلمات یا الاعمال ہے خیرٌ اسم تفصیل ہے مگر اپنے حقیقی معنی میں مستعمل نہیں ہے شارح نے بسبب النزول کہہ کر اشارہ کردیا کہ بہٖ میں با سببیہ ہے قولہ اِمْتَزَجَ الماء سے اختلطَ کی دوسری تفسیر کی طرف اشارہ ہے اور امتزاج چونکہ جانبین سے ہوتا ہے لہٰذا امتزاج کی نسبت پانی کے بجائے نبات کی طرف کرنا درست ہے، اگرچہ عرف اور استعمال اس کا عکس ہے عرف اور لغت میں با کثیر غیر طاری پر داخل ہوتی ہے جیسا کہ امتزجَ الماء باللبن پانی دودھ میں مل گیا، نہ کہ دودھ پانی میں مل گیا، اور یہاں کثیر طاری پر باداخل ہے، یہ پانی کی کثرت میں مبالغہ کرنے کے لئے ہے اگر دودھ کم اور پانی زیادہ ہو تو کہیں گے امتزج اللبن بالماء دودھ پانی میں مل گیا، اسی طرح مذکورہ مثال میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پانی اتنا زیادہ ہے کہ گویا وہ ہی اصل ہے قولہ اَمَلاً امَلاً کی تفسیر ما یاملہ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اَمَلاً مصدر بمعنی اسم مفعول مال کے معنی میں ہے
تفسیر تشریح
پہلی مثال میں دنیوی زندگی اور اس کے سامان کی ناپائیداری ایک شخصی اور جزوی مثال سے بیان فرمائی تھی اس میں بھی یہی مضمون، عام اور کلی مثال سے واضح فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے کہ آپ سرکشان قریش سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرمائیے کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا ہو پھر اس پانی سے زمینی بناتات خوب گنجان ہوگئی ہوں اور چند ہی دن کے بعد خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے کہ اس کو ہوا اڑائے پھرتی ہو بس یہی حال دنیا کا ہے کہ آج بڑی شاداب اور خوشنما معلوم ہوتی ہے کل اس کا نام ونشان بھی نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ جب چاہیں ایجاد کریں اور جب چاہیں فنا کریں اور جب پوری دنیا کا یہ حال ہے تو مال اور اولاد بھی جو کہ دنیا کا ایک جز ہے دنیوی زندگی کی ایک رونق ہے ان دونوں کے ذریعہ دنیا میں زینت حاصل کی جاتی ہے اس لئے یہ بھی سریع الزوال ہے اور اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں اور وہ اعمال سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں، اور بعض حضرات نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا بھی اضافہ کیا ہے وہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی بہتر اور امید کے اعتبار سے بھی بہتر ہے یعنی اعمال صالحہ سے جو امیدیں وابستہ ہوئی ہیں وہ آخرت میں ضرور پوری ہوں گی اور اس کی امید سے بھی ثواب زیادہ ملے گا بخلاف متاع دنیا کے کہ اس سے دنیا میں بھی انسانی امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور آخرت میں تو کوئی سوال ہی نہیں۔
فائدہ : اس آیت میں مال اور اولاد کو دنیوی زندگی کی زیب وزینت کہا گیا ہے یہ حکم فی نفسہ محض مال اور اولاد ہونے کے اعتبار سے ہے لیکن اگر انہی کو خدا پرستی اور دین طلبی کا ذریعہ بنا لیا جائے اور ان سے طاعت الٰہی اور خدمت دین کا کام لیا جائے تو یہی مال واولاد مقصود اور مطلوب بن جاتے ہیں اور ان کا شمار بھی باقیات الصالحات میں ہونے لگتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ موقوف ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں کہ ان کے ثواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے : (١) صدقہ جاریہ (٢) وہ علم کہ جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو (٣) نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے (رواہ مسلم) تفسیر قرطبی میں عبید کا قول نقل کیا گیا ہے کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں وہ اپنے والدین کے لئے سب سے بڑا ذخیرہ ہیں اور دلیل میں حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو جہنم میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے چلانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے لگیں کہ یا اللہ انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا ہے اور ہماری پرورش میں بڑی محنت اٹھائی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی سے اصلاً اور ان لوگوں سے تبعاً فرماتا ہے جو آپ کے بعد آپ کے قائم مقام ہیں کہ لوگوں کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کردیجیے تاکہ وہ اس زندگی کا اچھی طرح تصور کرلیں اور اس کے ظاہر و باطن کی معرفت حاصل کرلیں۔ پس وہ دنیاوی زندگی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے درمیان تقابل کریں اور ان میں جو ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اسے ترجیح دیں۔ اس دنیاوی زندگی کی مثال بارش کی سی ہے جو آسمان سے زمین پر برستی ہے جس سے زمین کی روئیدگی بہت گھنی ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگ آتی ہیں۔ پس اس وقت کہ جب اس کی خوبصورتی اور سجاوٹ دیکھنے والوں کو خوش کن لگتی ہے، لوگ اس سے فرحت حاصل کرتے ہیں اور زمین کا یہ حسن غافل لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے کہ اچانک نباتات بھس بن کر رہ جاتی ہیں اور ہوائیں اسے اڑائے لے جاتی ہیں۔ پس وہ تروتازہ، خوبصورت اور خوش منظر روئیدگی ختم ہوجاتی ہے، زمین چٹیل میدان بن جاتی ہے جہاں خاک اڑتی ہے جس سے نظریں دور ہٹ جاتی ہیں اور دل وحشت محسوس کرتے ہیں۔
دنیا کی زندگی کا بھی یہی حال ہے دنیا کی زندگی میں مگن شخص کو اپنا شباب بہت اچھا لگتا ہے، وہ اس زندگی میں اپنے ساتھیوں اور ہم جولیوں سے آگے نکل جاتا ہے، اس کے درہم و دنیار کے حصول میں لگا رہتا ہے، اس کی لذت سے خوب حظ اٹھاتا ہے، ہر وقت اس کی شہوات کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ زندگی بھر اس دنیا کی لذتیں اور شہوتیں زائل نہ ہوں گی۔۔۔ کہ اچانک موت اسے آلیتی ہے یا اس کا مال تلف ہوجاتا ہے۔ خوشیاں اس سے روٹھ جاتی ہیں، اس کی لذتیں اس سے چھن جاتی ہیں، اس کا قلب مصائب و آلام سے وحشت کھاتا ہے، اس کی جوانی، اس کی طاقت اور اس کا مال سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ نیک یا برے اعمال کے ساتھ اکیلا باقی رہ جاتا ہے۔
یہی وہ حال ہے کہ جب ظالم کو اس کی حقیقت کا علم ہوگا تو اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔ وہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں واپس بھیجا جائے، اس لئے نہیں کہ وہ ان شہوات کو پورا کرے جو نامکمل رہ گئی تھیں بلکہ اس لئے کہ اس سے غفلت میں جو کو تاہیاں صادر ہوئیں تو بہ و استغفار اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تلافی کرسکے، لہٰذا عقل مند اور پختہ ارادے والا شخص، جسے توفیق سے نوازا گیا ہو، اپنے آپ پر یہی حالت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے : ’’فرض کرلو کہ تم مر چکے ہو“ اور موت ایک یقینی امر ہے۔ پس مذکورہ دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت کو تو اختیار کرتا ہے؟ اس دنیا کی زیب و زینت سے دھوکہ کھانا، اس سے اس طرح فائدہ اٹھانا جس طرح چراگاہ میں مویشی چرتے ہیں یا ایسی جنت کے حصول کی خاطر عمل کرنا جس کے پھل ہمیشہ رہنے والے اس کے سائے بہت گھنے ہیں۔ وہاں وہ سب کچھ ہوگا جو دل چاہے گا اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔
پس یہی وہ حالت ہے جس کے ذریعے سے یہ معرفت حاصل ہوتی کہ بندے کو توفیق الٰہی سے نوازا گیا ہے یا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ اسے نفع حاصل ہوا ہے یا خسارہ؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ انسان کے لئے جو کچھ باقی رہ جاتا اور جو اسے فائدہ اور خوشی دیتا ہے وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں اور وہ واجب اور مستحب نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہیں مثلاً: حقوق اللہ، حقوق العباد، نماز، زکوٰۃ، صدقہ، حج، عمرہ، تسبیح، تحمید، تہلیل، قراءت قرآن، طلب علم، نیکی کا حکم دینا برائی سے روکنا، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، بیویوں کے حقوق پورے کرنا، غلاموں اور جانوروں کے حقوق کا احترام کرنا اور مخلوق کے ساتھ ہر لحاظ سے اچھا سلوک کرنا، یہ تمام باقی رہنے والی نیکیاں ہیں یہی وہ نیکیاں ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ان کا اجر و ثواب باقی رہتا ہے اور ابد الآباد تک بڑھتا ہے۔ ان کے اجر و ثواب اور نفع کی ضرورت کے وقت امید کی جاسکتی ہے۔
پس یہی وہ کام ہیں کہ سبقت کرنے والوں کو ان کی طرف سبقت کرنی چاہئے، عمل کرنے والوں کو انہی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے اور جدوجہد کرنے والوں کو ان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کے حال اور اس کے اضمحلال کی مثال دی تو اس کی دو قسمیں بیان کیں :
(1) دنیاوی زندگی کی زیب و زینت، جس سے انسان بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر بغیر کسی فائدے کے یہ دنیا زائل ہوجاتی ہے اور اس کا نقصان انسان کی طرف لوٹتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کا نقصان اس کے لئے لازم ہوجاتا ہے۔ یہ مال اور بیٹے ہیں۔
(2) دوسری قسم وہ ہے جو انسان ک ےلیے ہمیشہ باقی رہتی ہے اور وہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur inn logon say dunyawi zindagi ki yeh misal bhi biyan kerdo kay woh aesi hai jaisay hum ney aasman say paani barsaya , to uss say zameen ka sabza khoob ghana hogaya , phir woh aisa reza reza huwa kay ussay hawayen urra ley jati hain . aur Allah her cheez per mukammal qudrat rakhta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حیات و موت کا نقشہ
دنیا اپنے زوال، فنا، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتا ہے اور ہزارہا پودے لہلہانے لگتے ہیں، تروتازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز سے ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہوجاتے ہیں، اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں۔ اس حالت پر اللہ قادر تھا وہ اس حالت پر بھی قادر ہے۔ عموما دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورة حدید کی آیت ( اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ 24) 10 ۔ یونس :24) میں اور جیسے سورة زمر کی آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ 27) 35 ۔ فاطر :27) میں۔ جیسے سورة حدید کی آیت ( اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ 20) 57 ۔ الحدید :20) میں صحیح حدیث میں بھی ہے۔ دنیا سبز رنگ میٹھی ہے الخ پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں جیسے فرمایا ہے آیت (زین للناس حب الشھوات) الخ انسان کے لئے خواہشوں کی محبت مثلا عورتیں بیٹے خزانے وغیرہ مزین کردی گئی ہیں۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ 15) 64 ۔ التغابن :15) تمہارے مال تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے۔ مثلا پانچوں وقت کی نمازیں اور دعا (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔
اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ اور الحمد اللہ اور اللہ اکبر اور لا حول ولا قوتہ الا باللہ العلی عظیم) ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو موذن پہنچا آپ نے پانی منگوایا ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا، آپ نے وضو کر کے فرمایاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشا تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشا سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں اب اے عثمان (رض) آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا دعا (سبحان اللہ والحمد اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) ۔ حضرت سعید بن مسیب (رح) فرماتے ہیں باقیات صالحات یہ ہیں دعا (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) ۔ حضرت سعید بن مسیب (رح) نے اپنے شاگرد عمارہ (رح) سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ۔ آپ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا سنو وہ پانچ کلمے ہیں دعا (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) ۔ حضرت ابن عمر (رض) سے سوال ہوا تو آپ نے بجز الحمد للہ کے اور چار کلمات بتلائے۔ حضرت مجاہد (رح) بجز لا حول کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں۔ حسن (رح) اور قتادۃ (رح) بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں۔ ابن جریر (رح) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دعا (سبحان اللہ والحمد للہ والا لاہ الا اللہ واللہ اکبر) یہ ہیں باقیات صالحات۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باقیات صالحات کی کثرت کرو پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا تکبیر تہلیل تسبیح اور الحمد للہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ (احمد) سالم بن عبداللہ کے مولی عبداللہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سالم (رح) نے محمد بن کعب قریظی (رح) کے پاس کسی کام کے لئے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم سے کہہ دینا کہ فلان قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں۔ مجھے ان سے کچھ کام ہے چناچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم نے پوچھا کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا دعا (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور سبحان اللہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ) ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو حضرت محمد بن کعب نے فرمایا کیا تمہیں اس کلمے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے۔ کہا سنو میں نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے سنا ہے انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر حضرت ابراہیم کو دیکھا، آپ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ آپ اپنی امت سے فرما دیجئے کہ وہ جنت میں اپنے لئے کچھ باغات لگا لیں اس کی مٹی پاک ہے، اس کی زمین کشادہ ہے۔ میں نے پوچھا وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ بکثرت پڑھیں۔ مسند احمد میں نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ ایک رات عشا کی نماز کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر آپ نے فرمایا میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ لوگو سن رکھو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ مسند میں ہے آپ نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بیحد وزنی ہیں لا الہ اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لئے صبر کرے۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے وہ قطعا جنتی ہے۔ اللہ پر، قیامت کے دن پر، جنت دوزخ پر، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس (رض) ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا واقعی میں نے غلطی کی سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لئے لگام بن جائے، بجز اس ایک کلمے کے پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو۔ دعا (اللہم انی اسالک الثبات فی الامر والعزیمتہ علی الرشد واسالک شکر نعمتک واسالک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسالک لساناصادقا واسالک من خیر ما تعلم واعوذ بک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب) یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو بیشک غیب داں صرف تو ہی ہے۔ حضرت سعید بن جنادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا، پہاڑ پر چڑھا، پھر اترا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا، اسلام قبول کیا، آپ نے مجھے سورة قل ھو اللہ احد اور سورة اذا زلزلت سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ دعا (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) ۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔ اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے وضو کرے کلی کرے پھر سو سو بار سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ تبارک اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ واستغفر اللہ و صلی اللہ علی رسول اللہ ہے اور روزہ نماز حج صدقہ غلاموں کی آزادی جہاد صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ملتا رہتا ہے۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے حضرت عبدالرحمن (رح) فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں۔ امام ابن جریر (رح) بھی اسے مختار بتلاتے ہیں۔