(خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے،
English Sahih:
[Al-Khidhr] said, "Did I not tell you that with me you would never be able to have patience?"
1 Abul A'ala Maududi
اُس نے کہا " میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟"
2 Ahmed Raza Khan
کہا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہرسکیں گے
3 Ahmed Ali
کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا
4 Ahsanul Bayan
وہ کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے
6 Muhammad Junagarhi
وه کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراه ره کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے
7 Muhammad Hussain Najafi
خضر (ع) نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بندہ صالح نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(خضر) نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟
10 Tafsir as-Saadi
پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض ان کے نسیان کا نتیجہ تھا۔ دوسری مرتبہ اعتراض نسیان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کاسبب عدم صبر تھا، اس لئے حضرت خضر علیہ السلام نے عتاب کرتے ہوئے اور ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا : ﴿ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴾ ”کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے“
11 Mufti Taqi Usmani
unhon ney kaha : kiya mein ney aap say nahi kaha tha kay aap meray sath rehney per sabar nahi ker-saken gay-?
12 Tafsir Ibn Kathir
موسیٰ (علیہ السلام) کی بےصبری۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہہ فرمائی۔ اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا، یقینا آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آجاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا۔