Skip to main content

قَالَ اَ لَمْ اَ قُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِىَ صَبْرًا

He said
قَالَ
کہا
"Did not
أَلَمْ
کیا نہیں
I say
أَقُل
میں نے کہا تھا
to you
لَّكَ
تجھ کو
that you
إِنَّكَ
بیشک تو
never
لَن
ہرگز نہیں
will be able
تَسْتَطِيعَ
تو استطاعت رکھتا
with me
مَعِىَ
میرے ساتھ
(to have) patience?"
صَبْرًا
صبر کی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اُس نے کہا " میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟"

English Sahih:

[Al-Khidhr] said, "Did I not tell you that with me you would never be able to have patience?"

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اُس نے کہا " میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

کہا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہرسکیں گے

احمد علی Ahmed Ali

کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

وہ کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

وه کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراه ره کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

خضر (ع) نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بندہ صالح نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

موسیٰ (علیہ السلام) کی بےصبری۔
حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہہ فرمائی۔ اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا، یقینا آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آجاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا۔