الکہف آية ۷۹
اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِى الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا وَكَانَ وَرَاۤءَهُمْ مَّلِكٌ يَّأْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا
طاہر القادری:
وہ جو کشتی تھی سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی وہ دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کر دوں اور (اس کی وجہ یہ تھی کہ) ان کے آگے ایک (جابر) بادشاہ (کھڑا) تھا جو ہر (بے عیب) کشتی کو زبردستی (مالکوں سے بلامعاوضہ) چھین رہا تھا،
English Sahih:
As for the ship, it belonged to poor people working at sea. So I intended to cause defect in it as there was after them a king who seized every [good] ship by force.
1 Abul A'ala Maududi
اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی کہ دریا میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا
3 Ahmed Ali
جو کشتی تھی سو وہ محتاج لوگوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے پھر میں نے اس میں عیب کر دینا چاہا اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا
4 Ahsanul Bayan
کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا ارادہ کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے)
6 Muhammad Junagarhi
کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا اراده کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاه تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا پر کام کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ادھر ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (بے عیب) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا
9 Tafsir Jalalayn
(کہ وہ جو) کشتی تھی، غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گزارہ) کرتے تھے اور انکے سامنے کی طرف ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے
آیت نمبر 79 تا 82
بہرحال وہ کشتی چند یعنی دس غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں اس کشتی کو کرایہ پر چلا کر روزی کماتے تھے میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور اس کے آگے ایک کافر بادشاہ تھا جو ہر صحیح سالم کشتی کو غصب کرلیتا تھا غصبًا کا نصب اَنِ مصدریۃ کی بنا پر ہے جو کہ بیان نوعیت کے لئے ہے بہرحال لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے پس ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا ان دونوں پر سرکشی اور کفر سے چھا جائے گا مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ لڑکا فطرت کفر پر پیدا کیا گیا تھا اگر وہ زندہ رہتا تو یقیناً وہ اپنے والدین پر غالب آجاتا اور وہ اس سے محبت کی وجہ سے کفر میں اس کی اتباع کرتے، اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کے بدلے میں پاکیزگی صلاح وتقویٰ کے اعتبار سے اس سے بہتر اور محبت و شفقت میں اس سے بڑھ کر عطا فرمائے یُبَدِّ لَھُمَا دال کی تشدید اور تخفیف دونوں ہیں رُحْمًا میں ح کا سکون اور ضمہ دونوں ہیں بمعنی رحمت والدین کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لڑکے کے بدلے میں ایک لڑکی عطا فرمائی جس نے ایک نبی سے شادی کی تو اس سے ایک نبی پیدا ہوئے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو ہدایت نصیب فرمائی۔
اب رہی دیوار تو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں رہتے تھے اور اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ سونے چاندی کی قسم کا مال مدفون تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا چناچہ اس کے صلاح وتقویٰ کی وجہ سے ان کی جان ومال محفوظ رہے اس لئے آپ کے پروردگار نے چاہا کہ دونوں بچے جوان ہوجائیں یعنی کمال قوت کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں آپ کے رب کی مہربانی سے رحمۃً مفعول لہ ہے اس کا عامل اراد ہے اور میں نے یہ کام جو ماقبل میں مذکور ہوئے یعنی کشتی کو توڑنے غلام کو قتل کرنے اور دیوار کو درست کرنے کے اپنے اختیار سے نہیں کئے بلکہ منجانب اللہ الہام کے ذریعہ کئے تھے یہ ہے حقیقت ان کاموں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا اسْطَاعَ اور اِسْتَطَاعَ اَطاقَ کے معنی میں مستعمل ہے اس میں اور ماقبل میں دونوں لغتوں کا اجتماع ہے اور اَرَدت وَاَرَادَ و اَرَدْنَا میں تیرے رب نے عبارت میں تنوع اختیار کیا ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ السفینۃ (ج) سَفِیْنٌ وسَفَائِنٌ قولہ وَرَاءَھُمْ یہ اضداد میں سے ہے اس کے معنی آگے اور پیچھے کے ہیں یہ دراصل مصدر ہے اس کے معنی ہیں آڑ، حد فاصل، اضمار قد کے ساتھ جملہ حالیہ ہے قولہ غَصَبًا یاخذ کا مفعول مطلق بیان نوع کے لئے ہے یاخُذُ چونکہ غصب کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا تقدیر عبارت اس طرح ہوگی غَصَبَ غَصْبًا وراءھم کی تفسیر رجعوا اور امَامَھُم سے کر کے اشارہ کردیا کہ وراء اضداد میں سے ہے یہ دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے قولہ سفینۃ اس کی صفت صالحۃ محذوف ہے ای کلَّ سفینۃٍ صالحۃٍ حضرت ابی اور ابن عباس (رض) کی قرأت میں صالحتہ کا لفظ موجود ہے قولہ فخشینا ان یُرھِقَھُمَا ای یرھق الغلامُ اَبْوَیْہِ یقالُ رَھِقَہٗ ای غشِیَہ طغیانا، یُرھقھما کا مفعول ہے، اور کفراً کا عطف طغیاناً پر ہے رُحْمًا مصدر ہے بمعنی شفقت مہربانی (س) رحمۃً ورُحْمًا مہربان ہونا زکوٰۃ اور رُحمًا خیرًا سے تمیز واقع ہیں، خیرًا یہاں اسم تفضیل کے معنی میں نہیں ہے قولہ رحمۃ یا تو یبْلُغَا اور یستخر جا کا مفعول لہ ہے یا فعل محذوف فعلتہ کا مفعول بہ ہے قولہ اسطاعَ یسطیعُ حذف تا کے ساتھ استطاعَ یَسْتَطِیْعُ میں دوسری لغت ہے۔
تفسیر وتشریح
اماّ السفینۃ یعنی وہ کشتی جس کو توڑ دیا تھا چند نادار اور غریب آدمیوں کی تھی اور وہ کشتی جدھر جا رہی تھی اس طرف ایک ظالم کافر بادشاہ کی عملداری تھی جو ہر صحیح سالم کشتی کو غصب کرلیتا تھا اور ان غریبوں کا یہ کشتی ہی ذریعہ معاش تھی جس کے کرایہ کی آمدنی سے اپنا گذارہ کرتے تھے اگر میں اس کشتی میں سوراخ کر کے عیب دار نہ کرتا تو وہ بادشاہ اسے بھی چھین لیتا جس کی وجہ سے یہ بیچارے ذریعہ معاش سے بھی محروم ہوجاتے۔
مولانا رومی نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے :
خضر در بحر کشتی را شکبست صد درستی در شکست خضر ہست
ترجمہ : اگر خضرعلیہ السلام نے دریا میں کشتی توڑ دی تو کیا برا کیا، خضر (علیہ السلام) کے کشتی توڑنے میں سینکڑوں مصلحتیں ہیں۔ اس ظالم بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غسانی تھا اور اس کا نام جیسور تھا۔
فائدہ : مسکین اور فقیر میں کیا فرق ہے ؟ مسکین کی حالت زیادہ ابتر ہوتی ہے یا فقیر کی ؟ امام شافعی (رح) کے نزدیک فقیر، مسکین کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوتا ہے اس لئے کہ مسکین اس کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو اور اَمّا السفینۃ فکانت لمساکین سے استدلال کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے پاس کشتی ہونے کے باوجود ان کو مسکین کہا گیا ہے، امام صاحب (رح) فرماتے ہیں عرف میں مسکین فقیر کی نسبت زیادہ خستہ حال سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مسکین وہ شخص جس کے پاس کچھ نہ ہو اور فقیر وہ شخص جس کے پاس گذارہ کے قابل نہ ہو، سورة بلد آیت نمبر ١٦ میں اَوْ مِسْکِیْنًا ذا مَتْرَبَّۃٍ خاک نشین مسکین یعنی جس کے پاس بچھونا تک نہ ہو زمین پر پڑا رہتا ہو، رہا فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ سے استدلال تو اس کا، جواب یہ ہے کہ یہ نسبت ادنیٰ تعلق کی وجہ سے مجازاً ہے جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ کشتی ان کی ملک نہ تھی بلکہ کسی اور کی تھی ان کے پاس کرایہ یا رعایت پر تھی اسی وجہ سے کشتی کی نسبت ان کی طرف کردی ہے (شامی کتاب الزکوٰۃ باب المصرف) بحوالہ ہدایت القرآن۔
دوسرا واقعہ لڑکے کو قتل کرنے کا ہے حضرت خضر (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرشت اور جبلت کے اعتبار سے کافر تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے والدین کے لئے فتنہ بنے گا، والدین اپنی طبعی محبت کی وجہ سے بےدینی میں بھی اس کا ساتھ دیں گے، اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو قتل کردیا، اور یہ قتل اس کے والدین کے حق میں رحمت اور ان کے دین کی حفاظت کا ذریعہ بن گیا اور طبعی طور پر ان کو جو صدمہ پہنچا تھا حق تعالیٰ نے اس کی تلافی ایسی اولاد سے کردی جو پاکیزگی میں مقتول لڑکے سے بہتر تھی اور ماں باپ پر شفقت اور مہربانی میں بڑھ کر تھی، کہتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک لڑکی گی جو ایک نبی سے منسوب ہوئی اور ایک نبی اس سے پیدا ہوئے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو ہدایت دی۔ (فوائد عثمانی) بعض حضرات نے کہا ہے کہ اب صالح بلا واسطہ اب تھا اور بعض نے کہا کہ اب ساتویں پشت میں دادا تھا کہتے ہیں کہ اس کا نام کاشحا اور اس کی والدہ کا نام دنیا تھا، اس واقعہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اصول کا تقویٰ فروع کے لئے نافع ہوتا ہے۔ (صاوی)
فائدہ : یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں :
پہلا سوال : یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ لڑکا بڑا ہو کر کافر ہوگا اور اپنے والدین کو بھی گمراہ کرے گا تو پھر علم الٰہی کے مطابق ایسا ہونا ضروری تھا اس لئے کہ علم الٰہی کے خلاف کوئی چیز نہیں ہوسکتی پھر وہ کیسے قتل کیا گیا اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف یہ واقعہ کیونکر رونما ہوا ؟
دوسرا سوال : یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو اس کے والدین کو ایمان پر قائم رکھنا مقصود تھا اور اسی وجہ سے حکمت الہٰیہ مقتضی ہوئی کہ پیش آنے والی رکاوٹ کو دور کردیا جائے اور خضر (علیہ السلام) کو حکم دے کر اس لڑکے کو قتل کرا دیا تو اس سے بہتر تو یہ تھا کہ اس لڑکے کو پیدا ہی نہ کرتے یا کرتے تو اس کو کافر نہ ہونے دیتے یا جہاں لاکھوں کافر دنیا میں موجود ہیں اس کے والدین کو ہی کافر بن جانے دیتے دونوں سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں :
سوال اول کا جواب : یہ کہ علم ہمیشہ معلوم کے تابع ہوتا ہے نہ کہ معلوم علم کے، مثلاً کسی شخص نے دارالعلوم دیو بند کی مسجد رشید دیکھی، مسجد کو دیکھ کر اس کو ایک علم حاصل ہوا تو یہ علم معلوم یعنی مسجد کے تابع ہوگا یعنی جیسی مسجد ہے ویسا ہی اس کو علم حاصل ہوا ہے اور علم واقعہ کے مطابق ہے اور اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں مسجد رشید کی خیالی صورت بنا لے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ واقعی مسجد رشید کے مطابق ہو کیونکہ معلوم کبھی بھی علم کے تابع نہیں ہوتا بلکہ اس علم ہی کو خلاف واقعہ کہا جائے گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ علم الٰہی اور علم مخلوق میں یہ فرق تو بہرحال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم حضوری ہے یعنی معلوم کے وجود کا محتاج نہیں اور بندوں کا علم کسبی ہے یعنی معلومات کے وجود کا محتاج ہے، اگرچہ وہ وجود وجود ذہنی ہی کیوں نہ ہو مگر جہاں تک تبعیت کا تعلق ہے دونوں کا معاملہ یکساں ہے، لہٰذا سائل کی یہ تعبیر ہی صحیح نہیں ہے کہ اس لڑکے کا علم الٰہی کے مطابق کافر ہونا ضروری تھا یہ تعبیر تو اس وقت صحیح ہوسکتی تھی کہ جب معلوم علم کے تابع ہوتا بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ازل سے جانتے ہیں کیونکہ اس کا علم حضوری ہے معلومات کے وجود سے پہلے بھی اس کو معلومات کا علم حاصل ہے مگر ازل میں اللہ تعالیٰ کے جاننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ویسا ہی ہوجائے کیونکہ معلوم علم کے تابع نہیں ہوتا ہاں یہ بات ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں وہی بات جانے جو ہونے والی ہے کیونکہ اس کا علم خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا ورنہ صفت علم میں کذب (خلاف واقعہ) لازم آئے گا جو محال ہے۔
خلاصہ جواب یہ ہے کہ ازل میں اللہ تعالیٰ کے علم میں صرف یہی بات نہیں تھی کہ وہ لڑکا بڑا ہو کر کافر ہوگا اور اس کے
والدین اس کے فتنہ میں مبتلا ہوں گے بلکہ علم الٰہی میں پوری تفصیل موجود تھی کہ اگر وہ لڑکا بالغ ہوتا تو کافر ہوتا اور اپنے والدین کے لئے خطرہ بنتا مگر چونکہ وہ سن بلوغ سے پہلے ہی مرجائے گا اس لئے نہ وہ کافر ہوگا اور نہ اس کے والدین اس کے فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ یہ درحقیقت تقدیر کا مسئلہ ہے تقدیر کا حاصل یہ ہے کہ بندے جو نیک وبدکام کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ازل سے جانتے ہیں مگر اس جاننے سے انسان ویسا کرنے پر مجبور نہیں ہوجاتا اس لئے کہ معلوم علم کے تابع نہیں ہوتا بلکہ بندہ اپنے ارادہ اور مرضی سے جو نیک وبد کرنے و الا ہے ان کو اللہ تعالیٰ ازل سے جانتا ہے اور یہ جاننا مطابق واقعہ ہے کیونکہ علم معلوم ہی سے ماخوذ ہوتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ وہی جانتا ہے جو ہونے والا ہے اگر اس کے خلاف ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا علم واقعہ کے مطابق نہیں تھا۔ (تعالی اللہ عن ذٰلک علوًا کبیرًا) اس مضمون کی تعبیر اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ تقدیر کے معنی ہیں پلاننگ کرنا، اللہ تعالیٰ نے ازل میں کائنات کے لئے جو اندازہ مقرر کیا ہے اس میں انسان کے لئے ایک جزوی اختیار رکھنے والی مخلوق ہونا طے کیا گیا ہے، لہٰذا انسان اپنی مرضی سے جو کام کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ ازل سے جانتے ہیں، اس کے برخلاف نہیں جانتے، علم الٰہی کے خلاف ہوسکنے یا نہ ہوسکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسرے سوال کا جواب : یہ ہے کہ تکوینیات کے بارے میں انسان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے، حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس سے تو پردہ اٹھایا کہ اس لڑکے کو مار ڈالنے میں یہ حکمت تھی مگر یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ اس کو پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی مثلاً انسان کے بدن میں کئی جگہ بال اگتے ہیں ناخون بڑھتے ہیں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان کو صاف کیا جائے اور یہ نظافت کا تقاضہ ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کو کاٹنا ضروری ہے تو آخر اللہ تعالیٰ ان بالوں کو پیدا ہی کیوں فرماتے ہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ اس کی حکمت اللہ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نہیں جانتے البتہ ہم اجمالاً یہ بات جانتے ہیں کہ ان بالوں کو پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے اسی طرح اس لڑکے کے پیدا کرنے میں کوئی مصلحت ضرور ہوگی جو ہم نہیں جانتے، خضر (علیہ السلام) نے بھی اس راز سر بستہ کو نہیں کھولا، اس لئے عقل انسانی کے لئے بجز اعتراف عجز و قصور کے کوئی راہ نہیں، ہمیں تو بس یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں جو چیزیں بظاہر خراب مہلک اور بری مضر اور نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں ان میں بھی مجموعہ عالم کے لحاظ سے بیشمار فوائد ہیں۔ (ہدایت القرآن)
وَاَمّا الجدار فکان اب تیسرے اور آخری واقعہ کی حقیقت سنئے ارشاد ہے، دیوار کے واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے رہتے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے، ان کا باپ بڑا نیک اور صالح شخص تھا تو تیرے رب کی مرضی یہ تھی کہ دونوں یتیم بچے جوان ہوجائیں اور اپنا خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں، میں نے اپنی رائے و اجتہاد سے کوئی کام نہیں کیا، یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی۔
حضرت ابو الدرداء (رض) سے مروی ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونے چاندی کا ذخیرہ تھا ( رواہ الترمذی والحاکم) جو ان کو ان کے باپ سے میراث میں پہنچا تھا، اگر دیوار گر جاتی تو وہ دفینہ ظاہر ہوجاتا اور بدنیت لوگ اس کو لے جاتے بچوں کا باپ چونکہ نیک آدمی تھا اس لئے اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کے مال کو اس کی اولاد کے لئے محفوظ رکھا اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے ذریعہ دیوار کی مرمت کرادی جس کی وجہ سے مال محفوظ ہوگیا اور یہ سب رحمت خداوندی تھی اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا دیوار کو درست کرنا یہ بامر خداوندی تھا، اور جو کام امر خداوندی سے کرنا ضروری ہو اس پر اجرت لینا درست نہیں، یہیں سے یہ ضابطہ بنا ہے کہ طاعت مقصودہ پر اجرت لینا باطل ہے، یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم کو صبر نہ ہوسکا، لہٰذا الوداع۔۔۔
فائدہ : دنیا میں ہر کام خواہ اچھا ہو یا برا اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہوتا ہے خیر وشر سب اسی کی مخلوق ہے مگر ادب کا تقاضا یہ ہے کہ شر اور حقیر و ذلیل چیزوں کی تخلیق کی نسبت اس کی طرف نہ کی جائے مثلاً یوں نہ کہا جائے، اے خالق الشریا اے خالق البعوضہ والذباب چناچہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے جب کشتی توڑنے کا ذکر کیا تو چونکہ وہ کام بظاہر ایک برا کام تھا اس لئے اس کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف کی اور اردت فرمایا اسی طرح لڑکے کو قتل کرنے اور اس کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دینے کا ذکر کیا تو اس کا قتل چونکہ برائی تھی اور بہتر اولاد دینا ایک بھلائی تھی اس لئے امر مشترک ہونے کی وجہ سے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا تاکہ جتنا بظاہر شر ہے وہ اپنی طرف اور جو خیر ہے وہ اللہ کی طرف منسوب ہوجائے اور تیسرے واقعہ میں دیوار کو درست کر کے یتیموں کا مال محفوظ کردینا سراسر خیر ہی خیر تھا، اس لئے اس کی پوری نسبت اللہ کی طرف کرتے ہوئے فاراد ربک فرمایا۔ (معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
﴿أَمَّا السَّفِينَةُ﴾یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا ﴿فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ ﴾ ” وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے“ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ ﴿فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا﴾ ” تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر“ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہٰذا اگر کشتی صحیح اسلم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کرلیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کردیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہوجائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jahan tak kashti ka talluq hai woh kuch gharib aadmiyon ki thi jo darya mein mazdoori kertay thay , mein ney chaha kay uss mein koi aeb peda kerdun , ( kiyonkay ) unn kay aagay aik badshah tha jo her ( achi ) kashti ko zabardasti cheen ker rakh liya kerta tha .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت۔
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کردیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس راز کا علم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے، واللہ اعلم۔