الکہف آية ۹۹
وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَٮِٕذٍ يَّمُوْجُ فِىْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًا ۙ
طاہر القادری:
اور ہم اس وقت (جملہ مخلوقات یا یاجوج اور ماجوج کو) آزاد کر دیں گے وہ (تیز و تند موجوں کی طرح) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو (میدانِ حشر میں) جمع کرلیں گے،
English Sahih:
And We will leave them that day surging over each other, and [then] the Horn will be blown, and We will assemble them in [one] assembly.
1 Abul A'ala Maududi
اور اُس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور اس دن ہم انہیں چھوڑ دیں گے کہ ان کا ایک گروہ دوسرے پر ریلا (سیلاب کی طرح) آوے گا اور صُور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو اکٹھا کر لائیں گے
3 Ahmed Ali
اور ہم چھوڑدیں گے بعض ان کے اس دن بعض میں گھسیں گے اور صورمیں پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کر یں گے
4 Ahsanul Bayan
اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کرکے ہم جمع کرلیں گے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کرکے ہم جمع کر لیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم اس (قیامت کے) دن ہم اس طرح ان کو چھوڑ دیں گے کہ دریا کی لہروں کی طرح گڈمڈ ہو جائیں گے۔ اور صور پھونکا جائے گا۔ اور پھر ہم سب کو پوری طرح جمع کر دیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے انہیں اس طرح چھوڑ دیا ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں اور پھر جب شُور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک جگہ اکٹھا کرلیں گے
9 Tafsir Jalalayn
(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے
آیت نمبر 99 تا 110
ترجمہ : وقال تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم ان کے خروج کے دن ان کو آپس میں موجیں مارتے ہوئے یعنی گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے ان کی کثرت کی وجہ سے اور صور یعنی سینگ میں پھونک ماردی جائے گی بعث کے لئے اور ہم سب کو یعنی پوری مخلوق کو قیامت کے دن اکٹھا کر کے جمع کریں گے اور اس دن ہم جہنم کو ان کافروں کے روبرو پیش کریں گے جن کی آنکھوں پر یہ الکافرین سے بدل واقع ہے میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا یعنی قرآن سے غافل تھے، یہ لوگ اندھے ہیں قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے اور وہ سن ہی نہیں سکتے تھے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض و عداوت کی وجہ سے ان کی باتوں کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے تو پھر ایمان لانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟ تو کیا یہ کافر یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ وہ مجھ کو چھوڑ کر میرے بندوں کو یعنی میرے فرشتوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) کو کارساز یعنی رب بنالیں گے، اولیاء، یتخذوا کا مفعول ثانی ہے اور حَسِبَ کا مفعول ثانی محذوف ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کیا یہ کافر اتخاذ مذکور کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات مجھے غضبناک نہیں کرے گی ؟ اور یہ کہ میں اس بات پر ان کو سزا نہ دوں گا ؟ ہرگز ایسا نہ ہوگا، ہم نے تو ان کافروں اور دوسرے کافروں کی ضیافت کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے، جس طرح دنیا میں مہمانوں کے لئے مہمان خانے تیار کئے جاتے ہیں آپ ان سے دریافت کیجئے کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل نقصان میں ہیں ؟ اعمالاً تمیز ہے ممیّز کے مطابق ہے، اور نقصان اٹھانے والوں کو اپنے قول الذین ضَلَّ سَعْیُھم فی الحیوٰۃ الدنیا سے بیان کیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی کری کرائی محنت دنیا میں بیکار ہوگئی اور ضَلَّ سَعْیُھُمْ سے مراد بَطَلَ عَمَلُھُمْ ہے حال یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں ایسے اعمال کر رہے ہیں کہ جن کا ان کو اجر دیا جائے گا، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں یعنی قرآن وغیرہ کے دلائل توحید کا اور اس کے حضور پیشی یعنی بعث و حساب ثواب و عقاب کا انکار کیا چناچہ ان کے تمام اعمال حبط (باطل) ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کے لئے ذرا بھی وزن قائم نہ کریں گے یعنی ہم ان کے اعمال کی ذرا بھی قدرو قیمت نہیں کریں گے یہ یعنی وہ امور جن کا ذکر کیا گیا ہے بطلان عمل وغیرہ ذلک یعنی حبط اعمال وغیرہ جن کا ذکر ہوا، اور جزاءھم جملہ مستانفہ ہے ان کے کفر کرنے کی وجہ سے ان کی جزاء جہنم ہے اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا یعنی ان کا مذاق بنایا بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے اللہ کے علم میں جنت الفردوس کی ضیافت مہمانی ہے اور جنت الفردوس جنت کے بیچ میں سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور جنات الفردوس میں اضافت بیانیہ ہے اس جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہاں سے کسی اور جگہ کے لئے انتقال مکانی کی خواہش نہ کریں گے آپ فرما دیجئے اگر سمندر یعنی اس کا پانی روشنائی بن جائے جس سے لکھا جاتا ہے میرے رب کے کلمات کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے گو ہم اسی جیسا سمندر اس کی مدد میں لے آئیں تو بھی ختم ہوجائیں ینفد تا اور یاء کے ساتھ ہے یعنی اس سمندر میں اضافہ کردیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے وہ سمندر ختم ہوجائیں اور میرے رب کے کلمات ختم نہ ہوں اور مدادًا تمییز کی بناء پر منصوب ہے آپ فرما دیجئے کہ میں تو تمہارے جیسا ہی انسان ہوں آدمی ہوں البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے یہ کہ تم سب کا معبود صرف ایک معبود ہے أنَّ جس پر ما کافہ داخل ہے وہ اپنی مصدریت پر باقی ہے آیت کے معنی یہ ہیں کہ میری طرف وحدانیت الٰہ کی وحی کی جاتی ہے لہٰذا جو اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو امیدوار ہو بعث اور جزاء کے ذریعہ تو اس کو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے بایں طور کہ عبادت میں ریا کاری نہ کرے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قال تعالیٰ اس جملہ سے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ ذوالقرنین کا کلام پورا ہوگیا اور اب وترکنا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام شروع ہو رہا ہے قولہ یَومَئِذٍ کی تفسیر یوم خروجھم سے کر کے تعیین مراد کی طرف اشارہ کیا ہے، اس لئے کہ بعض مفسرین نے یومئذٍ سے وہ دن مراد لیا ہے جس دن ان کا راستہ بند کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ آپس میں لڑنے بھڑنے لگے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یومئذ کی تفسیر یوم خروجھم سے کر کے اپنے مختار مذہب کی طرف اشارہ کردیا اگرچہ محققین کے نزدیک راجح معنی اول ہیں قولہ یموجُ (ن) موجاً لہریں مارنا، موجوں کا اٹھنا نفخ فی الصور کی تفسیر ای القرن للبعث سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ یہاں نفخہ ثانیہ مراد ہے اس لئے کہ نفخہ اولیٰ تو کائنات کو فنا کرنے کے لئے ہوگا فجمعنا میں فا تعقیبیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے قولہ غطاء اس کے معنی اگرچہ سرپوش کے ہیں مگر یہاں مرادی معنی غفلت کے ہیں عرضنا کی تفسیر قرّبْنا سے کرنے کا مقصد عرضنا کے صلہ میں لام کو درست قرار دینا ہے ورنہ تو عرضنا کا صلہ علیٰ آتا ہے کانوا کا عطف کانت پر ہے پھر جملہ ہو کر الکافرون کی صفت ہے الذین کفروا حسِبَ کا فاعل ہے اَفَحَسِبَ پر ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فا عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ أ کفروا فَحَسِبُوْا اور یہ استفہام توبیخی ہے قولہ اَنْ یتخذوا حسِبَ کا مفعول بہ قائم مقام دو مفعولوں کے ہے عبادی یتخذوا کا مفعول اول ہے اور اولیاء مفعول ثانی ہے اور من دونی، عبادی سے حال ہے حَسِبَ کا مفعول ثانی محذوف بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ شارح کا خیال ہے قولہ اعمالاً تمییز ہے، جمع یا تو مشاکلت کے طور پر ہے یا انواع اعمال کا خیال کرتے ہوئے جمع لائی گئی ہے حالانکہ تمییز میں اصل افراد ہے قولہ الذین مع صلہ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھم الذین یہ جملہ مستانفہ ہے اور مَن ھم ؟ کے جواب میں واقع ہے الَّذِیْنَ ، الاخسرینَ کی صفت، بدل، اور عطف بیان بھی ہوسکتا ہے وھم یحسبون جملہ ضَلَّ کے فاعل سے حال ہے قولہ ذٰلک، ذلک کے بعد ای الامر الذی ذکرت الخ کا اضافہ کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ذلک الامر مبتداء محذوف کی خبر ہے، اور دوسرا مقصد ذلک کے مشار الیہ کو متعین کرنا ہے قولہ ذلک جزاء ھم میں ترکیب کے اعتبار سے چار احتمال ہیں (١) ذلک مبتدا محذوف الامر کی خبر ای الامر ذلک اور جزاءھم مستقل جملہ ہے (٢) ذلک مبتداء اول اور جزاءھم مبتداء ثانی اور جھنم اس کی خبر، مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر خبر مبتداء اول کی اور عائد محذوف ہے ای جزاءھم بہ۔ (٣) ذلک مبتداء مبدل منہ اور جزاءھم اس کا بدل یا عطف بیان بدل مبدل منہ یامبین بیان سے مل کر مبتداء اور جہنم اس کی خبر (٤) ذلک مبتداء جذاءھم مبدل منہ اور جہنم اس کا بدل یا بیان، جملہ ہو کر مبتداء کی خبر قولہ نُزُلاً کانت کی خبر ہے اور اگر لھُمْ خبر مقدم ہو تو نزلاً حال ہوگا خالدین حال مقدرہ ہے لا یبغون دوسرا حال ہے حِوَلاً حول سے اسم مصدر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا قولہ لکلمات الیہ ہے مَدَدًا تمییز ہے بمعنی زیادتی، اضافہ، اِنَّما میں ما کافہ ہے جس نے اِنَّ کے عمل کو لفظوں میں روک دیا ہے، دونوں مل کر کلمہ حصر ہوگیا ہے، دونوں کا معنوی عمل باقی ہے اِنَّ کا عمل جملہ کی تاکید ہے اور اَنَّ جملہ کی تاکید کے ساتھ مابعد کو مفرد کی تاویل میں بھی کرتا ہے، ابن ہشام نحوی (متوفی ٧٦١ ھ) مغنی اللبیب ص ٥٩ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ أنَّ اِنَّ کی فرع ہے اور اسی وجہ سے زمخشری کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اَنّما اِنّما کی طرح مفید حصر ہے اور مذکورہ دونوں کلمات حضرت مذکورہ آیت میں جمع ہوگئے ہیں پہلا کلمہ صفت کو موصوف پر حصر کرنے کے لئے ہے اور دوسرا برعکس ہے اِنَّما اَنَا بَشَرٌ مثلکُمْ میں مخاطبین جیسی بشریت (صفت) مقصور ہے اور اَنَا موصوف مقصود علیہ ہے، بس اب جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میں تو بس تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں اللہ کی ساری باتیں نہیں جانتا جیسا کہ تم نہیں جانتے ہو، صرف وہی باتیں جانتا ہوں جو میری طرف بذریعہ وحی بھیجی جاتی ہیں، اور دوسرے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق میں صرف وحدانیت کی صفت ہے تعدد کی صفت نہیں جیسا کہ مشرکین کا خیال ہے مثلکم، بشر کی صفت ہے اور انما الھکم بتاویل مفرد ہو کر یوحیٰ کا نائب فاعل ہے لِیَعْمَلْ امر غائب کا صیغہ ہے قولہ ولقاءِہٖ ای بالبعثِ والحسابِ والثوابِ مفسر علام نے لقاءہ کی تفسیر مذکورہ کلمات سے کر کے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ لقاء کے معنی وصول اور اتصال کے ہیں اور یہ معنی خدا کے لئے محال ہیں اس لئے کہ وصول واتصال جسمانیات کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے لہٰذا مفسر علام نے لقاء کی تفسیر بالبعثِ والحساب وغیرہ کلمات سے کردی قولہ لا نجعل لھُمْ قدرًا سے فلا نقیم لھم وزناً کی تفسیر کر کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ دوسری آیت میں سب کے اعمال کے وزن کرنے کا ذکر ہے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں وزن نہ کرنے سے مراد ان کے اعمال کی قدرو قیمت نہ کرنا ہے، اسی اعتراض کو دفع کرنے کے لئے بعض حضرات نے وزناً کے بعد نافعاً محذوف مانی ہے یعنی وزن تو ہوگا مگر نافع نہ ہوگا قولہ وابتدأ کا اضافہ کر کے مفسر علام نے اشارہ کیا ہے کہ یہ جملہ مستانفہ ہے یعنی جزاءھم مبتداء اور جہنم اس کی خبر اس کا عکس بھی درست ہے، قولہ مَھْذوّاً ، ھُذ ُ وًا کی تفسیر مُھْذُوَّ اسے کر کے اشارہ کردیا کہ مصدر اسم مفعول کے معنی میں ہے قولہ فی علم اللہ کے اضافہ سے اس سوال کا جواب مقصود ہے کہ جنت میں دخول زمانہ مستقبل میں ہوگا، یہاں کانت ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دخول جنت ہوچکا ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی اور واقعی دخول تو زمانہ مستقبل ہی میں ہوگا مگر علم ازلی کے اعتبار سے ان کا دخول ہوچکا قولہ ماءہ سے اشارہ ہے کہ مضاف محذوف ہے قولہ لَنفدَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ لَوْ شرطیہ ہے اور اس کا جواب لَنَفِدَ ہے قولہ لَمْ تفرغ کے اضافہ سے بھی ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے سوال یہ ہے کہ مذکورہ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کلماتِ رب بھی ختم ہوجائیں گے اگرچہ وہ سمندروں کے ختم ہونے کے بعد ہی ختم ہوں، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قبل بمعنی غیر ہے۔
تفسیر وتشریح
وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْ مَئِذٍ یَمُوْجُ فِی بَعْضٍ الخ یومئذ سے اگرچہ دیگر مفسرین نے یوم السد مراد لیا ہے، مگر چونکہ مفسر (رح) نے قرب قیامت سے یوم خروج مراد لیا ہے، لہٰذا اسی کے مطابق تشریح کی جاتی ہے۔
بعضہم کی ضمیر میں بظاہر راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یا جوج ماجوج کی طرف راجع ہے اور اس آیت میں جو ان کا حال بیان ہوا ہے وہ اس دن کی حالت کا بیان ہے جس روز ان کا راستہ کھلے گا ان کی کثرت کا یہ عالم ہوگا کہ وہ جلد بازی میں پہاڑوں کی بلندیوں سے اتریں گے اور کثرت تعداد اور جلد بازی کی وجہ سے ایک دوسرے پر چڑھتے ہوئے معلوم ہوں گے جس طرح مضطرب اور طلاطم موجیں ایک دوسرے پر چھڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور جمعنٰھم میں ھم ضمیر عام مخلوق جن وانس کی طرف راجع ہے مطلب یہ ہے کہ میدان حشر میں تمام مکلف مخلوق خواہ جن ہوں یا انس سب کو جمع کیا جائے گا، اور صور سے مراد نفخہ ثانیہ ہے، اور اس دن جہنم کو ان کافروں کے روبرو پیش کیا جائے گا جن کی آنکھوں اور کانوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ دنیا میں اللہ کی یاد سے غافل رہے تھے اور ان کے کان اللہ کی باتوں سے بہرے تھے۔
مذکورہ آیات کے متعلق امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری (رح) کی تحقیق : علامہ کی رائے میں وَتَرَکْنَا بَعْضَھم یَوْمَئِذٍ یموجُ فِی بعضٍ میں اللہ تعالیٰ جو حالت یاجوج ماجوج کی بیان فرمائی ہے وہ قرب قیامت ان کے خروج کی نہیں ہے بلکہ یہ اس حالت کا بیان ہے جو ان کا راستہ بند کرنے کے بعد ہوئی یعنی جب ان کا راستہ مسدود ہوگیا تو وہ قومیں آپس ہی میں جنگ وپیکار میں مشغول ہوگئیں اور ان کی کثرت کا یہ حال تھا کہ جب ان کی باہم جنگ ہوتی تھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سمندر موجیں مار رہا ہو، مذکورہ آیات کا سد سکندری کی شکست وریخت نیز قرب قیامت میں ان کے خروج سے کوئی تعلق نہیں ہے علامہ نے اپنی کتاب عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ (علیہ السلام) ص ٢٠١ پر جو تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :
یہ بات سمجھ لیتی چاہیے کہ ھٰذا رَحمۃ مِن رَّبِی فاذا جاءَ وعدُ رَبِّ جَعَلَہٗ دَکّاءَ وَکَان وَعْدُ رَبِّ حَقًّا ذوالقرنین کا اپنا قول ہے اور کوئی قرینہ سیاق وسباق میں ایسا موجود نہیں ہے جس سے دیوار کے ٹوٹنے کو علامات قیامت شمار کیا جائے اور شاید ذوالقرنین کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ اشراط قیامت میں خروج یا جوج وماجوج بھی ہے انہوں نے وَعْدُ رَبِّی سے صرف اس کا کسی وقت میں ٹوٹ پھوٹ جانا مراد لیا ہے پس اس صورت میں اَرادَ باری تعالیٰ وترکنا بَعْضھم یومئذ یموج فی بعض استمراری تجددی پر دلالت کرتا ہے یعنی برابر ایسا ہوتا رہے گا کہ ان میں سے بعض قبائل بعض پر حملہ آور ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کا وقت آجائے گا، ہاں البتہ وہ ارشاد جو سورة انبیاء میں وارد ہوا ہے حَتّٰی اذا فُتِحَتْ یاجُوجُ وماجوج وھُمْ مِن کُلِّ حَدَبٍ ینسلون تو یہ بات بلاشتہ علامات قیامت میں سے ہے مگر اس میں دیوار کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے، یعنی سورة الانبیاء میں فتح سے عروج وخروج مراد ہے دیوار کا ٹوٹنا یا جوج وماجوج کا نکلنا مراد نہیں ہے اس لئے کہ اس آیت میں دیوار کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ (ہدایت القرآن)
ابن خلدون کی رائے : مشہور مؤرخ ابن خلدو نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں اقلیم سادس کی بحث میں یا جوج وماجوج اور سد ذوالقرنین اور ان کے محل ومقام کے متعلق جغرافیائی تحقیق اس طرح بیان فرمائی ہے :
|" ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں مغرب کی جانب ترکوں کے وہ قبائل آباد ہیں جو قنجاق اور چرکس کہلاتے ہیں اور مشرق کی جانب یاجوج وماجوج کی آبادیاں ہیں اور ان دونوں کے درمیان کوہ قاف فاصل ہے جس کا ذکر گذشتہ سطور میں ہوچکا ہے کہ وہ بحر محیط سے شروع ہوتا ہے جو چوتھی اقلیم کے مشرق میں واقع ہے اور اس کے ساتھ شمال کی جانب اقلیم کے آخر تک چلا گیا ہے اور پھر بحر محیط سے جدا ہو کر شمال مغرب میں ہوتا ہوا یعنی مغرب کی جانب جھکتا ہوا پانچویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہوجاتا ہے یہاں سے وہ پھر اپنی پہلی سمت کو مڑ جاتا ہے حتی کہ ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہوجاتا ہے اور یہاں پہنچ کر جنوب سے شمال مغرب کو ہوتا ہوا گیا ہے اور اسی سلسلہ کوہ کے درمیان سد سکندری ہے اور ساتویں اقلیم کے نویں حصہ کے وسط میں سد سکندری جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں واقع ہے اور جس کی اطلاع قرآن نے بھی دی ہے اور عبداللہ بن خردازبہ نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں واثق باللہ خلیفہ عباسی کا وہ خواب نقل کیا ہے جس میں اس نے یہ دیکھا تھا کہ سد کھل گئی ہے، چناچہ وہ گھبرا کر اٹھا اور دریافت حال کے لئے سلام ترجمان کو روانہ کیا اس نے واپس آکر اسی سد کے حالات اور اوصاف بیان کئے |"۔ (مقدمہ ابن خلدون ص ٧٩، بحوالہ معارف القرآن )
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے اپنی کتاب عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ (علیہ السلام) میں یا جوج وماجوج اور سد ذوالقرنین کا حال اگرچہ ضمنی طور پر فرمایا ہے مگر جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ تحقیق ودرایت کے اعلیٰ معیار پر ہے آپ نے فرمایا کہ مفسد اور وحشی انسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لئے زمین پر ایک نہیں بہت سی جگہوں پر دیواریں بنائی گئی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں بنائی ہیں، ان میں سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوار چین ہے، جس کا طول ابو حیان اندلسی نے جو کہ دربار ایران کا شاہی مؤرخ ہے نے بارہ سو میل بتایا ہے اور یہ کہ اس کا بانی فغفور بادشاہ چین ہے اور اس کی بنانے کی تاریخ ہبوط آدم (علیہ السلام) کے تین ہزار چار سو ساٹھ سال بعد بتلائی جاتی ہے اور فرمایا کہ اسی طرح کی متعدد دیواریں مختلف مقامات پر بنائی گئی ہیں۔
حضرت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سہواری نے اپنی کتاب قصص القرآن میں حضرت علامہ کشمیری کے بیان کی توضیح بڑی تفصیل سے کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
“ یاجوج وماجوج کی تاخت و تاراج اور شر و فساد کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ایک طرف کا کیشیا کے نیچے بسنے والے ان کے ظلم وستم کا شکار رہتے تو دوسری جانب تبت چین کے باشندے بھی ہر وقت ان کی زد میں تھے، انہی یا جوج وماجوج شروفساد سے بچنے کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر متعدد سد کی تعمیر کی گئی، ان میں سب سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوار چین ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، دوسری سدوسط ایشیا میں بخارا اور ترمذ کے قریب واقع ہے اور اس کے جائے وقوع کا نام دربند ہے، یہ سد مشہور مغل بادشاہ تیمور لنگ کے زمانہ میں موجود تھی اور شاہ روم کے خاص ہمنشین سیلابر جرجرمنی نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور اندلس کے بادشاہ کسٹیل کے قاصد کلافچو نے بھی اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے یہ ١١٠٣ ء میں اپنے بادشاہ کا سفیر ہو کر جب تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس جگہ سے گذرا ہے، لکھتا ہے باب الحدید کی سد موصل کے اس راستہ پر ہے جو سمرقند اور ہندوستان کے درمیان ہے ”۔ (از تفسیر جواہر القرآن طنطاوی ص ١٩٨/ج ٩، بحوالہ معارف القرآن
تیسری سدروسی علاقہ داغستان میں واقع ہے یہ بھی دربند اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے، یعقوب حموی نے معجم البلدان میں اور ادریسی نے جغرافیہ میں اور بستانی نے دائرۃ المعارف میں اس کے حالات بڑی تفصیل سے لکھے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے : ” داغستان میں در بند ایک روسی شہر ہے یہ شہر بحر خزر (کا سپین) کے غربی کنارے پر واقع ہے اس کا عرض البلد ٤٣.٣ شمالاً اور طول البلد ٤٨.١٥ شرقاً ہے اور اس کو در بند نو شیرواں بھی کہتے ہیں اور باب الابواب کے نام سے بھی بہت مشہور ہے “۔
چوتھی سد اسی باب الابواب سے مغرب کی جانب کا کیشیا کے بہت بلند حصوں میں ہے جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ درہ داریال کے نام سے مشہور ہے اس جگہ پر چوتھی سد جو تفقازیا جبل قوقاۃ یا کوہ قاف کی سد کہلاتی ہے، بستانی نے اس کے متعلق لکھا ہے اور اسی کے قریب ایک اور سد ہے جو غربی جانب بڑھتی چلی گئی ہے غالبًا اس کو ابل فارس نے شمالی بربروں سے حفاظت کی خاطر بنایا ہوگا کیونکہ اس کے بانی کا صحیح حال معلوم نہیں ہوسکا بعض نے اس کی نسبت سکندر کی جانب کردی ہے اور بعض نے کسریٰ اور نوشیرواں کی طرف اور یاقوت کہتا ہے کہ تانبا پگھلا کر اس سے تعمیر کی گئی ہے۔ (دائرۃ المعارف ٥٦١ معجم البلدان جلد ٩/٨) ۔
چونکہ دیواریں شمال ہی میں ہیں اور ایک ہی ضرورت کے لئے بنائی گئی ہیں اس لئے ان میں سد ذوالقرنین کونسی ہے اس کے متعین کرنے میں اشکالات پیش آئے ہیں اور بڑا اختلاط ان آخری سدوں کے بارے میں پیش آیا ہے کیونکہ دونوں مقامات کا نام بھی دربند ہے اور دونوں جگہ سد بھی موجود ہے مذکورۃ الصدر چار سدوں میں سے دیوار چین جو سب سے زیادہ بڑی اور سب سے زیادہ مشہور ہے اور قدیم ہے اس کے متعلق تو سد سکندر ہونے کا کوئی قائل نہیں اور بجائے شمال کے مشرق اقصیٰ میں ہے اور قرآن کریم کے اشارہ سے اس کا شمال میں ہونا ظاہر ہے اب معاملہ باقی تین دیواروں کا رہ گیا جو شمال میں ہیں ان میں سے عام طور پر مؤرخین مسعودی، اصطخری، حموی وغیرہ اس دیوار کو سد سکندری بتاتے ہیں جو داغستان یا کا کیشیا کے علاقہ باب الابواب کے دربند میں بحر حزر پر واقع ہے، بخارا اور ترمذ کے دربند اور اس کی دیوار کو جن مؤرخین نے سد سکندری کہا ہے وہ غالبًا لفظ در بند باب الابواب میں یا اس سے اوپر جبل القفقاز یا کوہ کاف کی بلندی پر ہے اور ان دونوں جگہوں پر سد کا ہونا مؤرخین کے نزدیک ثابت ہے
ان دونوں میں سے حضرت العلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے عقیدۃ الاسلام ص ٢٩٧ میں کوہ قاف کی سد کو ترجیح دی ہے کہ یہ سد ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ہے۔
سد ذوالقرنین اس وقت تک باقی ہے، اور قیامت تک رہے گی، یا وہ ٹوٹ چکی ؟ آج کل تاریخ وجغرافیہ کے ماہرین اہل یورپ، اس وقت ان شمالی دیواروں میں سے کسی کا موجود ہونا تسلیم نہیں کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہے اس بنا پر بعض اہل اسلام مؤرخین نے بھی لکھنا شروع کردیا ہے کہ یا جوج ماجوج جن کے خروج کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے وہ ہوچکا ہے، بعض نے چھٹی صدی ہجری میں طوفان بن کر اٹھنے والی قوم تاتار ہی کو اس کا مصداق قرار دیا ہے، بعض نے اس زمانہ میں دنیا پر غالب آجانے والی قوموں روس اور چین اور یورپ کو یاجوج ماجوج کہہ کر اس معاملہ کو ختم کردیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے اور احادیث صحیحہ کے انکار کے بغیر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس خروج یاجوج ماجوج کو قرآن کریم نے بطور علامت قیامت بیان کیا ہے اور جس کے متعلق صحیح مسلم کی حدیث نو اس بن سمعان وغیرہ میں اس کی تصریح ہے کہ یہ واقعہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور قتل دجال کے بعد پیش آئے گا اور خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ اب تک نہیں ہوا۔ البتہ یہ بات قرآن کی نص صریح کے خلاف نہیں ہے کہ سد ذوالقرنین اس وقت ٹوٹ چکی ہو اور یا جوج وماجوج کی بعض قومیں اس طرف آچکی ہوں بشرطیکہ اس کو تسلیم کیا جائے کہ ان کا آخری اور بڑا ہلہ جو پوری انسانی آبادی کو تباہ کرنے والا ثابت ہوگا وہ ابھی تک نہیں ہوا بلکہ قیامت کی ان بڑی علامات کے بعد ہوگا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے یعنی خروج دجال اور نزول عیسیٰ (علیہ السلام) ۔
علامہ کشمیری (رح) کی تحقیق اس معاملہ میں یہ ہے کہ اہل یورپ کا یہ کہنا تو کوئی وزن نہیں رکھتا کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے ہمیں کہیں اس دیوار کا پتہ نہیں لگا کیونکہ اول تو خود انہی لوگوں کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ سیاحت اور تحقیق انتہائی معراج پر پہنچنے کے باوجود آج بھی بہت سے جنگل اور دریا اور جزیرے ایسے باقی ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوسکا، دوسرے یہ احتمال بعید نہیں کہ اب وہ دیوار موجود ہونے کے باوجود پہاڑوں کے گرنے اور باہم مل جانے کے سبب ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کرچکی ہو لیکن کوئی نص قطعی اس کے بھی منافی نہیں کہ قیامت سے پہلے یہ سدّ ٹوٹ جائے یا کسی دور دراز کے طویل راستہ سے یاجوج ماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آسکیں۔
اس سدّ ذوالقرنین کے تا قیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال تو قرآن کریم کے اس لفظ سے کیا جاتا ہے کہ فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبّی جَعَلَہ دَکَّاءَ یعنی ذوالقرنین کا یہ قول کہ جب میرے رب کا وعدہ آپہنچے گا (یعنی خروج یاجوج ماجوج کا وقت آئے گا) تو اللہ تعالیٰ اس آہنی دیوار کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کردیں گے اس آیت میں وَعْدُ رَبِّی کا مفہوم ان حضرات نے قیامت کو قرار دیا ہے حالانکہ قرآن کے الفاظ اس بارے میں قطعی نہیں ہیں کیونکہ وعد ربی کا صریح مفہوم تو یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کا جو انتظام ذوالقرنین نے کیا تھا یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی طرح موجود رہے جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ ان کا راستہ کھل جائے تو یہ دیوار منہدم اور مسمار ہوجائے گی اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بالکل قیامت کے متصل ہو چناچہ تمام حضرات مفسرین وَعْدُ رَبِّی کے مفہوم میں دونوں احتمال ذکر کرتے ہیں، تفسیر بحر محیط میں ہے “ وَالوَعْدُ یَحٌتَمِلُ اَنْ یُّرَادَ بِہٖ یَوْمُ القِیَامَۃ وَاَنْ یُّرَادَ بِہٖ وَقتُ خُرُوْجِ یاجوجَ وما جوجَ ”
قُلْ اِنَّمَا اَن ابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ انَّمَا اِلھکُمْ اِلہ وَّاحِدٌ فَمَنْ شَآءَ (الیٰ ) وَلاَ یُشْرِکُ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا۔
آپ فرما دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں (البتہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پس جو شخص اپنے پروردگار کی ملاقات کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کے ساتھ عباد میں کسی کو شریک نہ کرے یعنی میں صاف اعلان کرتا ہوں کہ میں تمام انسانوں کی طرح ایک انسان ہوں کوئی فرشتہ یا غیبی مخلوق نہیں ہوں اور نہ خدائی صفت کا حامل ہوں اگر تمہارے سوالوں کا جواب میں نے حسب وعدہ دوسرے دن نہ دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جو کچھ بتاتا ہوں وحی سے بتاتا ہوں اور وحی میرے اختیار کی چیز نہیں ہے اور میرے پاس سب سے اہم وحی یہ آئی ہے کہ تمہارا معبود تو ایک ہی معبود ہے وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بےہمتا ہے تعداد اور شرکت کا اس کی بارگاہ میں کوئی گذر نہیں ہے آخرت کی کامیابی خالص توحید اور عمل صالح پر موقوف ہے پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا خواہشمند ہے اسے چاہیے کہ عمل صالح اختیار کرے اور عبادتوں کو شائبہ شرک سے بھی بچائے۔
فائدہ : اس آیت میں صراحت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بشر ہیں۔ یعنی اپنی نوع کے اعتبار سے انسان ہیں، اور وہ بھی تم ہی جیسے یعنی ماہیت اور لوازم ماہیت میں آپ بھی جملہ انسانوں کی طرح ہیں البتہ اوصاف و کمالات میں آپ کا کوئی ثانی اور مثیل نہیں ہے، اس لئے آپ کا بشر ہونا آپ کے لئے طرہ افتخار ہے جیسا عبدیت آپ کا سب سے اشرف وصف ہے بلکہ آپ کے بشر ہونے پر خود بشریت رشک ملائکہ ہے لہٰذا جو شخص رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو بشر اور انسان نہیں مانتا اور تاویل صاف انکار کرتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی صریح نص کا منکر ہے۔
فائدہ : سیرت کی بعض کتابوں میں جو لکھا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ نہیں تھا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے یہ بات بھی صحیح نہیں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ تھا اور آپ پر دھوپ بھی پڑتی تھی، مسند احمد کی ایک روایت سے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے سایہ ہونا ثابت ہے یہ روایت مسند احمد بن حنبل میں تین جگہ آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے : حجۃ الوداع کے سفر میں حضرت صفیہ (رض) علیہ کی سواری ہلاک ہوگئی آپ نے حضرت زینت (رح) سے فرمایا تمہارے پاس ایک سواری زائد ہے صفیہ کو دے دو ، انہوں نے انکار کردیا اور ان کے منہ سے حضرت صفیہ کے لئے ایک سخت بات نکل گئی آپ حضرت زینب سے ناراض ہوگئے اور تقریباً تین ماہ ان کے پاس تشریف نہیں لے گئے تاآنکہ وہ مایوس ہوگئیں، جب ماہ ربیع الاول شروع ہوگیا تو آپ حضرت زینب کے پاس تشریف لائے تو حضرت زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور دل میں سوچنے لگیں کہ یہ کسی آدمی کا سایہ معلوم ہوتا ہے اور نبی کریم تو میرے پاس تشریف لاتے نہیں پھر یہ سایہ کس کا ہوسکتا ہے ؟ وہ یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکان میں داخل ہوئے الخ۔
اس حدیث سے صراحتاً معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ تھا اور وہ زمین پر پڑتا بھی تھا۔
فائدہ : آخری آیت میں جس شرک کی ممانعت فرمائی گئی ہے وہ عام ہے خواہ شرک جلی ہو یا خفی، شرک جلی وہ ہے جو مشرکین کیا کرتے تھے اور شرک خفی ریاونمود کا نام ہے اور جس طرح شرک جلی سے عمل باطل ہوجاتا ہے ریا کاری بھی عمل کو خراب کردیتی ہے کوئی عمل جو دنیوی غرض کے لئے کیا گیا ہو اور شہرت وجاہ اس سے مطلوب ہو اور لوگوں کو سنانے اور دکھانے کے لئے کیا گیا ہو وہ مقبول نہیں ایسا عمل آخرت میں وبال جان بن جائے گا، یہ مضمون بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے۔
فائدہ : اخلاص اور ریا کے اعتبار سے عمل کے چار درجہ ہیں :
(١) از ابتداء تا انتہا عمل خالص اللہ کے لئے ہو اور عمل پورا ہونے کے بعد بھی اس کا کسی کو پتہ نہ چلے، یہ نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے قیامت کے روز جبکہ عرش کے سایہ کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا ایسے مخلص کو اللہ تعالیٰ سیاہ عطا فرمائیں گے۔
(٢) از ابتداء تا انتہاء محض ریا اور نمود کے لئے ہو ایسا عمل بےفائدہ اور ضائع بلکہ وبال جان ہوگا، حدیث شریف میں ایسے تین
آدمیوں کا حال بیان کیا گیا ہے جن کو قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ سنایا جائے گا ایک شہید دوسرا قاری تیسرا بڑا دولت مند تفصیل مسلم شریف اور ترمذی میں دیکھئے۔
(٣) عمل شروع تو اخلاص سے ہوا ہو مگر پورا ہونے سے پہلے اس میں ریا ونمود شامل ہوگیا یہ ریا بھی عمل کو ضائع کردیتی ہے۔
(٤) پورا عمل از اول تا آخر اخلاص پر مبنی ہو اور عمل پورا ہونے کے بعد نہ اس نے ظاہر کیا ہو اور نہ اس کی خواہش کی ہو مگر کسی وجہ سے خودبخود اس کے عمل کی شہرت ہوگئی اور لوگ تعریف کرنے لگے اور اس کو وہ تعریف اچھی معلوم ہونے لگی یہ بات عمل کے لئے مضر نہیں۔
تمت سورة الکھف بعونہ تعالیٰ
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ﴾ ”اور چھوڑ دیں گے ہم ان کے بعض کو اس دن ایک دوسرے میں گھستے“ اس میں یہ احتمال ہے کہ ضمیر یاجوج و ماجوج کی طرف لوٹتی ہو۔ جب وہ اپنے علاقوں سے نکل کر لوگوں پر حملہ آور ہوں گے تو اپنی کثرت اور تمام زمین پر پھیل جانے اور اس کو بھر دینے کی وجہ سے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے گتھم ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ﴾ (الانبیاء : 21 ؍96) ” یہاں تک کہ یا جوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ بلند جگہ سے اتر پڑیں گے۔“ اور یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر خلائق کی طرف لوٹتی ہو یہ کہ لوگ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے وہ بہت زیادہ ہوں گے اور اضطراب، ہول اور زلزلوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکم پیل کر رہے ہوں گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ : ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِينَ عَرْضًا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا﴾ یعنی جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو اللہ تعالیٰ تمام ارواح کو جسموں میں واپس لوٹا دے گا۔ پھر تمام اولین و آخرین، کفار اور مومنین کو اکٹھا کر کے میدان قیامت میں جمع کرے گا، تاکہ ان سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے، ان کا محاسبہ کیا جائے اور ان کے اعمال کی جزا دی جائے پس کفار کو، ان کے کفر کے مطابق، جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں وہ ابدل الآباد تک رہیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss din hum unn ki yeh halat kerden gay kay woh mojon ki tarah aik doosray say takra rahey hon gay , aur soor phoonka jaye ga toh hum sabb ko aik sath jama kerlen gay .