اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں) اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرما،
English Sahih:
And indeed, I fear the successors after me, and my wife has been barren, so give me from Yourself an heir
1 Abul A'ala Maududi
مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے
2 Ahmed Raza Khan
اور مجھے اپنے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے اور میری عورت بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا دے ڈال جو میرا کام اٹھائے
3 Ahmed Ali
اور بے شک میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے ہاں سے ایک وارث عطا کر
4 Ahsanul Bayan
مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے (١) میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے (٢) وارث عطا فرما۔
٥۔١ اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز وانحراف نہ اختیار کرلیں۔ ٥۔٢ ' اپنے پاس سے ' کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
6 Muhammad Junagarhi
مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے، میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما
7 Muhammad Hussain Najafi
اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور مجھے اپنے بعد اپنے خاندان والوں سے خطرہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اب مجھے ایک ایسا ولی اور وارث عطا فرمادے
9 Tafsir Jalalayn
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي﴾ ” اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے“ یعنی مجھے خدشہ ہے کہ میری موت کے بعد بنی اسرائیل پر کون مقرر ہوگا؟ وہ تیرے دین کو اس طرح قائم نہیں کرسکیں گے جس طرح قائم کرنے کا حق ہے اور وہ تیرے بندوں کو تیری طرف دعوت نہیں دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آرہا تھا جس میں یہ لیاقت ہو کہ وہ ان کی دینی سربراہی کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ اس سے حضرت زکریا علیہ السلام کی شفقت اور خیر خواہی کا اظہار ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ آپ کو بیٹے کی طلب عام لوگوں کے مانند نہ تھی، جس میں مجرد دنیاوی مصلحتیں مقصود ہوتی ہیں۔ آپ کی طلب تو صرف دینی مصالح کی بنا پر تھی آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں دین ضائع نہ ہوجائے اور آپ کسی دوسرے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا گھرانہ مشہور دینی گھرانوں میں سے تھا اور رسالت و نبوت کا گھر شمار ہوتا تھا اور اس گھرانے سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جاتی تھی، اس لئے حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ وہ انہیں بیٹا عطا کرے جو ان کے بعد دینی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی بیوی بانجھ ہے اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں اور وہ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے ہیں اور ایسی عمر میں داخل ہوگئے ہیں کہ جس میں شہوت اور اولاد کا وجود بہت نادر ہے۔ انہوں نے عرض کی : ﴿فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا﴾ ” سو عطا کر تو مجھ کو اپنی طرف سے ایک معاون“ اور یہ ولایت، دینی ولایت ہے اور نبوت، علم اور عمل کی میراث ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur mujhay apney baad apney chachazaad bhaiyon ka andesha laga huwa hai , aur meri biwi baanjh hai , lehaza aap khaas apney paas say mujhay aik aisa waris ata ker-dijiye