البقرہ آية ۱۱
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِۙ قَالُوْاۤ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں،
English Sahih:
And when it is said to them, "Do not cause corruption on the earth," they say, "We are but reformers."
1 Abul A'ala Maududi
جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں،
3 Ahmed Ali
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
nil
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
آیت نمبر ١١
ترجمہ : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ : کفر کے ذریعہ اور ایمان میں رکاوٹ ڈال کر زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں، اور وہ جس طریقہ پر ہیں فساد نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا، خبردار درحقیقت یہی لوگ مفسد ہیں اَلَا تنبیہ کے لئے ہے مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ : لوگوں (یعنی صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم بیوقوفوں (یعنی) جاہلوں کی طرف ایمان لے آئیں ؟ یعنی ہم ایسا نہ کریں گے، خبردار حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، لیکن اس کو وہ سمجھتے نہیں ہیں اور جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں (اِذَا لَقُوْا) اس کی اصل، لَقِیُوْا، تھی، ضمہ کو یا پر ثقیل سمجھتے ہوئے حذف کردیا، پھر یاء، واؤ کے ساتھ التقاء ساکنین کی وجہ سے ساقط ہوگئی، تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور جب تنہائی میں اپنے شیاطین سرداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں دین میں ہم تمہارے ساتھ ہیں اظہار ایمان کرکے، ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں، اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے (یعنی) ان کے ساتھ استہزاء کا معاملہ کر رہا ہے اور وہ ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دے رہا ہے، ان کے حد سے تجاوز کرنے کی بنا پر کفر کی وجہ سے حال یہ ہے کہ وہ حیرانی میں بھٹک رہے ہیں، (یَعْمَھُوْنَ ) کی ضمیر سے حال ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بِالْکُفْرِ : باء سببیہ ہے، اَلکُفر، معطوف علیہ اَلتَّعوِیْقِ ، اپنے متعلق عن الایمان سے مل کر معطوف، تَعْوِیْق، (تفعیل) روکنا، باز رکھنا، کسی کام میں روڑے اٹکانا، ای تعویق الغیر عن الایمان۔
قولہ : اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ : یہ جملہ حصر مبتداء فی الخبر کے قبیل سے ہے، یعنی ہم اصلاح ہی کرتے ہیں اصلاح کے علاوہ ہمارا دوسرا کوئی کام نہیں ہے منافقین نے اپنے اس قول کو، اِنَّما، کلہ حصر کے ذریعہ اور جملہ اسمیہ کے ذریعہ جو کہ مفید دوام و استمرار ہے، مؤکد کیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا جواب ایسے جملے سے دیا ہے، جو چارتا کیدوں سے مؤکد ہے اور وہ الا اِنِّھُمْ ھُمْ الْمُفْسِدُوْنَ ، (١) اَلَا، حرف تنبیہ، (٢) اِنَّ ، (٣) تعریف خبر بالالف واللام (ای المفسدون) ۔
قولہ : اصحابُ النبی، اَلنَّاسُ کی تفسیر اصحاب النبی سے کرکے اشارہ کردیا کہ : الناس میں الف لام عہد کا ہے۔
قولہ : لَقُوْا مفسر علام نے اس کی پوری تعلیل نہیں فرمائی، پوری تعلیل اس طرح ہے، لَقُوْا اصل میں لَقِیُوْا تھا، ضمہ یاء پر دشوار سمجھ کر تخفیفاً گرادیا اب یاء اور واؤ میں التقاء ساکنین ہوا، یاء اور واؤ میں سے، یاء ساقط ہوگی، واؤ کی مناسبت سے قاف کے کسرہ کو ضمہ سے بدل دیا، لَقُوْا ہوگیا۔
قولہ : خَلَوْا مِنْھُمْ ، مفسر علام نے مِنْھُمْ مقدر مان کر اس طرف اشارہ کردیا کہ خَلَوْا، کا متعلق محذوف ہے، اور خَلَوا، کی تفسیر رَجعُوْا سے کرکے اشارہ کردیا کہ خَلَوا، رَجَعُوْا کے معنی کو متضمن ہے، تاکہ اس کا صلہ اِلیٰ لانا صحیح ہوجائے، خَلَوا، اصل میں خَلَوُوْا تھا، اول واؤ، لام کلمہ ہے اور ثانی علامت اعراب ہے پہلا واؤ متحرک اس کا ماقبل مفتوح لہٰذا واؤ الف سے بدل گیا، التقاء ساکنین ہوا، الف اور واؤ ثانیہ میں، الف گرگیا، اور حذف الف کی علامت کے طور پر فتحہ باقی رہ گیا، خَلَوْا، ہوگیا۔
قولہ : یَعْمَھُوْنَ مضارع مذکر غائب (ف، س) وہ سرگرداں پھرتے ہیں، وہ متحیر پھرتے ہیں، یَعْمَھُوْنَ ، یا تو یَمُوُّھُمْ ، کی ضمیر ھم یا طُغْیَانِھِمْ کی ضمیر ھم، سے حال ہے، اس کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ یَعْمھُون مذکورہ ضمیر کی صفت نہیں ہے، اس لئے کہ ضمیر موصوف واقع نہیں ہوتی۔
اللغۃ والبلاغۃ
الطُّغیان، مصدر طَغٰی، طُغْیانًا، بضم الطاء وکسرھا، ولام طغٰی قیل یاء وقیل : واؤ، ومعناھا، مجاوزۃ الحدِّ ۔ المخالفۃ بین جملۃ مستھزؤن وجملۃ یسْتھزئی لأنَّ ھزء اللہ تعالیٰ بِھِمْ متجددٌ وقتًا بعد وقتٍ وحَالًا بعد حالٍ بوقعِھم فی مناھات الحیرۃ والارتباکِ زیادۃ فی التنکیل بھِمْ
المشاکلۃ۔۔۔۔۔ اللہ یَسْتَھْزئُ بِھِم۔۔۔۔۔ فقد ثَبَت اَنَّ الْاِسْتِھزَاءَ ضرب من اللعب واللھو وھما لایلیقان باللہ تعالیٰ وَھُوَ مَنزَّۃٌ عَنْھُمَا، ولکنہ سُمِّیَ جزاءُ الاستھزاء استھزاءً ، فھِیَ مشاکلۃ لفظیۃ لا اَقَلَّ ولا اکثر
تفسیر و تشریح
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَاتُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ : (الآیۃ) فساد کا لفظ اردو کی بہ نسبت عربی زبان میں کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے اور ہر قسم کی برائیوں اور بدعنوانیوں کو حاوی ہے۔
اَلْفَسَاد خروج الشئ عَنِ الاعتدال وَیُضَادّہٗ الصلاح (راغب)
کفر و معصیت سے زمین میں فساد بدامنی اور بےاطمینانی پھیلتی ہے اور اطاعت الہیٰ سے امن و اطمینان اور سکون ملتا ہے، ہر دور کے دین بیزار اور منافقوں کا یہی کردار رہا ہے کہ : پھیلاتے تو ہیں فساد اور دعویٰ کرتے ہیں ترقی اور اصلاح کا، اشاعت تو کرتے ہیں منکرات کی اور اظہار کرتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا، حدود الہیٰ کو پامال کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں دین الہیٰ کی پاسبانی کا، گویا کہ شراب کی بوتل پر شربت کا لیبل لگاتے ہیں۔
مدینہ کے منافقوں کا بھی یہی حال تھا، جب کوئی ان سے یہ کہتا کہ اپنے نفاق کے ذریعہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ بڑے زور دار انداز میں کہتے ہیں : ” اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ “ یعنی فساد سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں ہمارا کام تو صرف اصلاح کرنا ہے قرآن ان کے دعوے کی بڑے بلیغ انداز میں بڑی تاکید کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہتا ہے : ” اَلَا اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلَکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ “ سنو ! یہ مفسد ہی ہیں، مگر ان کو مفسد ہونے کا احساس تک نہیں ہے، ان کی عقلیں اس حد تک مسخ ہوگئی ہیں کہ فساد کو اصلاح سمجھے ہوئے ہیں۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ جن کو ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ فتنہ و فساد ہیں جیسے قتل، غارت گری، چوری، رہزنی، ظلم و زیادتی، اغواء اور فریب کاری وغیرہ ہر سمجھددار آدمی ان کو شر و فساد سمجھتا ہے اور ہر شریف آدمی ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ظاہری سطح کے اعتبار سے کوئی فتنہ و فساد نہیں ہوتیں مگر ان کی وجہ سے انسان کے اخلاق برباد ہوجاتے ہیں اور انسان کی اخلاقی گراوٹ پر قسم کے فتنہ و فساد کے دروازے کھول دیتی ہے، ان منافقین کا بھی یہی حال تھا، کہ چوری ڈاکازنی، بدکاری وغیرہ سے بچتے اور ان کو معیوب سمجھتے تھے اسی لئے بڑی تاکید کے ساتھ اپنے مفسد ہونے کا انکار کرتے تھے۔
جب انسان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی انسانیت کھو بیٹھتا ہے، تو پھر اس فساد کا علاج نہ حکومت اور محکموں سے ہوسکتا ہے اور نہ قانون سے اس لئے انسانیت کے محسن اعظم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز فرمائی کہ : انسان کو صحیح معنی میں انسان بنادیں، تو پھر عالم کا فساد اور بگاڑ خودبخود ختم ہوجائے گا، نہ حفاظتی عملے کی زیادہ ضرورت رہے گی اور نہ عدالت کے اس پھیلاؤ کی اور جب تک دنیا کے جس حصہ میں آپ کی تعلیمات پر عمل ہوتا رہا، دنیا نے وہ امن سکون دیکھا کہ جس کی نظیر نہ کبھی پہلے دیکھی گئی اور نہ ان تعلیمات کو چھوڑنے کے بعد اس کی توقع۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کی روح اللہ تعالیٰ کا خوف اور روز قیامت کے حساب و کتاب کی فکر ہے، اس کے بغیر نہ کوئی قانون اور نہ کوئی دستور جرائم سے باز رکھتا ہے اور نہ کوئی مدرسہ اور نہ محکمہ، آج کی دنیا میں جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار کی باگ ڈور ہے، وہ جرائم کے انسداد کے لئے نئے سے نئے قانون اور انتظام تو سوچتے ہیں، مگر قانون اور انتظام کی روح یعنی خوف خدا سے نہ صرف غفلت برتتے ہیں، بلکہ ان کو فنا کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہی سامنے آتا ہے۔ ؎
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کھلے طور پر علی الاعلان فساد برپا کرنے والے چوروں اور غارتگروں کا علاج سہل ہے، مگر انسانیت فراموشوں بلکہ انسانیت فروشوں کا علاج نہایت مشکل ہے، اس لئے کہ ان کا فساد ہمیشہ برنگ اصلاح ہوت ا ہے، یہ لوگ کوئی دل چسپ اور دلفریب اسکیم بھی سامنے رکھ لیتے ہیں، اور بعض اغراض فاسدہ کو اصلاح کا رنگ دیگر ” اِنّما نحن مصلحون “ کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں، جیسا کہ موجود دور میں انسداد دہشت گردی کا خوبصورت اور دلفریب اور دل نشین نعرہ لگا کر پوری دنیا کو آتش کدہ بنادیا ہے۔
منافقوں اور ریاکروں سے انجیل کا طرز خطان : تم پر افسوس ہے کہ تم سفیدی پھری قبروں کے مانند ہو، جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں، مگر اندر مردوں کی ہڈیاں اور ہر طرح کی نجاست بھری ہے (متیٰ ٣٧: ٤٣، ماجدی)
جو منافقت برتتا ہے، وہ غضب (خداوندی) دنیا میں لاتا ہے، اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور جو بچے ابھی رحم مادر میں ہیں وہ تک ان پر لعنت کرتے ہیں اور اس کی جگہ جہنم ہے۔ (ایوی مینس تالمود، ص : ١٠٧، ماجدی)
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قانون شریعت کے علاوہ کسی دین جاہلی پر قائم رہنا، اس کے طور طریقوں کی اشاعت کرنا فساد فی الارض کے مترادف ہے امن عالم اور نظام اقوام جب ہی قائم رہ سکتا ہے جب عمل قانون شریعت پر رہے، اس راہ سے انحراف بلکہ سر موتجاوز کرنا بھی دنیا کو بدنظمی، ابتری، بےحیائی، قتل و غارتگری، کشت و خون، ظلم تشدد، خیانت و بد عہدی اور ہر قسم کی طبقاتی کشمکش کو دعوت دینا ہے، چناچہ دنیا عملاً اس کا بارہا تجربہ کرچکی ہے اور اس وقت بھی کر رہی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انہوں نے دو باتوں کو اکٹھا کردیا۔ (١) فساد فی الارض کا ارتکاب (2) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انہوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آجانے کی زیادہ امید ہے۔
چونکہ ان کے قول ﴿إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ ” بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انہی پر پلٹ دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unn say kaha jata hai kay tum zameen mein fasad naa machao to woh kehtay hain kay hum to islaah kernay walay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
سینہ زور چور
حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اور صحابہ (رض) سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔ حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔ مطلب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔ قرن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت (وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭاِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ) 8 ۔ الانفال :73) یعنی کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دے اور جگہ فرمایا اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہوجائے یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔ پھر فرمایا منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہوجاتے اور ظاہر باطن یکساں کرلیتے تب تو دنیا کے امن وامان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پالیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کل ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے " ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ " لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔