البقرہ آية ۱۱۷
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۗ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ
طاہر القادری:
وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ "تو ہو جا" پس وہ ہوجاتی ہے،
English Sahih:
Originator of the heavens and the earth. When He decrees a matter, He only says to it, "Be," and it is.
1 Abul A'ala Maududi
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو جا" اور وہ ہو جاتی ہے
2 Ahmed Raza Khan
نیا پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا وہ فورا ً ہوجاتی ہے-
3 Ahmed Ali
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو صرف یہی کہہ دیتا ہے کہ ہو جا سو وہ ہو جاتی ہے
4 Ahsanul Bayan
وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، بس وہی ہو جاتا ہے (١)
١١٧۔١ یعنی وہ اللہ تو ہے کہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا مالک ہے، ہرچیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمان کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے.
6 Muhammad Junagarhi
وه زمین اور آسمانوں کا ابتداءً پیدا کرنے واﻻ ہے، وه جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، بس وه وہیں ہوجاتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(وہی) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ زمین و آسمان کا موجد ہے اور جب کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف کن کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے
آیت نمبر ١١٧ تا ١٢١
ترجمہ : وہ آسمانوں اور زمین کا بغیر سابقہ نمونہ کے پیدا کرنے والا ہے، اور جب کسی شئی کے کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو بس اس کے لئے یہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے اور ایک قراءت میں (یکونَ ) جواب امر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، نادان (اَن پڑھ) یعنی کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے کیوں نہیں کہتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر جو نشانی ہم تجویز کریں ہمارے پاس کیوں نہیں آتی ؟ اسی طرح یعنی جیسا کہ یہ کہتے ہیں ان سے پہلے امم سابقہ کے کافروں نے بھی اپنے نبیوں سے ان کے جیسی بات کہی یعنی سرکشی اور طلب معجزات کی، کفر وعناد میں ان کے قلوب یکساں ہیں، اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے، یقین لانے والوں کے لئے تو ہم صاف صاف نشانیاں ظاہر کرچکے ہیں، جو جانتے ہیں، کہ یہ معجزات ہیں تو ان پر ایمان لے آتے ہیں، پھر ان نشانیوں کے ساتھ مزید معجزے کا مطالبہ کرنا سرکشی ہے، بلاشبہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو ہدایت کے ساتھ جنت کی خوش خبری سنانے والا بنا کر بھیجا، اس کو جس نے آپ جئ دعوت قبول کی، اور اس شخص کو دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا جس نے آپ کی دعوت قبول نہ کی، جہنمیوں یعنی کفار کے بارے میں آپ سے پرستش نہیں ہوگی کہ وہ ایمان کیوں نہیں لائے ؟ آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے اور ایک قراءت میں تُسئَلْ جزم کے ساتھ ہے نہی ہونے کی وجہ سے، اور یہود و نصاریٰ ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے، جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرینے لگیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت یعنی اسلام ہی (صحیح) راستہ ہے اور اس کے علاوہ سب گمراہی ہیں، اور قسم ہے لام قسمیہ ہے، آپ کے پاس وحی کا علم آجانے کے بعد اگر بالفرض آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی جس کی طرف وہ آپ کو دعوت دیتے ہیں، تو اللہ کے پاس آپ کا نہ کوئی ولی ہوگا جو آپ کی حفاظت کرسکے اور نہ کوئی مددگار ہوگا جو آپ کو اس سے بچا سکے جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (الذین اٰتینٰھم الکتاب) مبتداء ہے، (اور) وہ اس کو اس کے تلاوت کے حق کے ساتھ یعنی جس طرح نازل کی گئی ہے اسی طرح پڑھتے ہیں یہ جملہ حال ہے اور حقَّ مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اور خبر (اُولٰئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ہے) یہی ہیں وہ لوگ جو اس پر ایمان رکھتے ہیں (یہ آیت) اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو حبشہ سے آئی تھی اور اسلام قبول کیا، اور جو اس عطا کردہ کتاب کا منکر ہے بایں طور کہ اس میں تحریف کرتا ہے تو یہی زیاں کار ہیں، ان کے دائمی آگ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ، بَدِیْعٌ بروزن فَعِیْلٌ بمعنی مَبْدِعٌ بغیر کسی سابق نمونہ اور مادہ کے پیدا کرنے والا، بَدِیْعٔ السَّمٰوَاتِ والارض ای ھُوْ بدیع السمٰوَاتِ ” بَدِیْعٌ“ اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔
قولہ : وَاِذَا قَضٰی، اَرادَ مفسر علام نے قضٰی کی تفسیر اَرَادَ سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال : قَضٰی کے معنی اتمام شئی کے ہیں خواہ قولاً ہو، جیسے وَقَضٰی رَبُّکَ یا فعلاً جیسے فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ اور اتمام شئی کے بعد اس کے لئے کن کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، بلکہ درست بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس سے تحصیل حاصل لازم آتا ہے، جو کہ ممنوع ہے اور مکوِّن واحد کے لئے وہ کون یا کہئے کہ موجود واحد کے لئے دو وجودوں کا ہونا لازم آتا ہے، اس لئے کہ مخاطب بننے کے لئے موجود ہونا ضروری ہے ورنہ تو معدم کو خطاب لازم آئے گا جو جائز نہیں ہے اور دوسرا کن کہنے کے بعد موجود ہوگا ورنہ تو امر بےکار ہوگا۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ قضٰی بمعنی اَرَادَ ہے مجازاً ۔
سوال : فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی معدوم کو وجود میں لانے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے کن کہہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ معدوم موجود ہوجاتا ہے، اس سے معدوم کو مخاطب کرنا لازم آتا ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ کے ارادہ ہی سے وہ معدوم موجود کے حکم میں ہوجاتا ہے، لہٰذا خطاب کرنا درست ہے، نیز کُن فیکونُ سے مقصد سرعت ہے نہ کہ ایجاد۔
قولہ : فھو یکون اس جملہ کے اضافہ کا فائدہ ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال : مضارع جب فاء کے بعد واقع ہو اور اس کے ماقبل امر یا نہی ہو تو اس پر نصب واجب ہے حالانکہ یہاں فیکونُ پر رفع ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : حذف مبتداء کی وجہ سے یہ جملہ اسمیہ ہے تقدیر عبارت فَھُوَ یکونُ ہے، جملہ اسمیہ ہو کر جواب امر ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ فیکونُ جملہ مستانفہ ہے اور ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے، اور ایک قراءت میں فیکون نصب کے ساتھ بھی ہے اس صورت میں فاء سببیہ کے بعد اَن مقدر ماننا ہوگا۔
قولہ : اَی کفار مکۃ۔
سوال : اَلَّذِینَ لَا یَعْلَمُوْنَ کی تفسیر کفار مکہ سے درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ سورت مدنی ہے۔
جواب : بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ پوری سورت مدنی ہے مگر یہ آیت مکی ہے، مگر یہ جواب بعید ہے۔
دوسرا جواب : یہ ہوسکتا ہے کہ مذکورہ سوال کفار مکہ نے یہود مدینہ کی معرفت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہو۔
قولہ : فی قراءۃ بجزم تَسْئَل نھیًا یعنی ایک قراءت میں لاتُسْئَلُ کے بجائے لَا تَسْئَلْ ہے یعنی آپ جہنمیوں کے بارے میں کچھ نہ پوچھئے ان کا بہت برا حال ہوگا۔
قولہ : وَحَقَّ نُصِبَ عَلی المصدریۃ حَقَّ ، تلَاوتِہٖ مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، تقدیر عبارت اس طرح ہے ہتلونَہٗ تلاوَۃً حقًّا صفت کو مقد کرکے موصوف کی طرف اضافت کردی گئی ہے۔
تفسیر و تشریح
بَدِیْعُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ اللہ وہی ذات ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کی مالک ہے، ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمانوں اور زمین کو بغیر کسی مادہ اور نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے، علاوہ ازیں اس کو جو کام کرنا ہوتا ہے اس کے لئے کُنْ کہہ دیتا ہے وہ چیز فوراً موجود ہوجاتی ہے، ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ؟
10 Tafsir as-Saadi
پھر فرمایا : ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ ﴿ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾” وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے“ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh aasmano aur zameen ka mojid hai , aur jab woh kissi baat ka faisla kerta hai to uss kay baaray mein bus itna kehta hai kay : hoja chunacheh woh hojati hai .