البقرہ آية ۱۲۴
وَاِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ۗ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۗ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۗ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظّٰلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا، انہوں نے عرض کیا: (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا: (ہاں! مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا،
English Sahih:
And [mention, O Muhammad], when Abraham was tried by his Lord with words [i.e., commands] and he fulfilled them. [Allah] said, "Indeed, I will make you a leader for the people." [Abraham] said, "And of my descendants?" [Allah] said, "My covenant does not include the wrongdoers."
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیمؑ نے عرض کیا: "اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟" اس نے جواب دیا: "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا-
3 Ahmed Ali
اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا کہا اور میری اولاد میں سے بھی فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا
4 Ahsanul Bayan
جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا (١) اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے میری اولاد کو (٢) فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔
١٢٤۔ ١ کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔
٢٤۔٢ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کر دیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے ۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں ، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ( من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم ۔ (جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) ۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کے لیے نہیں ہوا کرتا
6 Muhammad Junagarhi
جب ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے; اور میری اوﻻد کو، فرمایا میرا وعده ﻇالموں سے نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیھ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت? ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے خدا نے کہا میں تم لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار ! ) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کیلئے نہیں ہوا کرتا
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش :
وَاِذِابْتَلٰی اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمَاتٍ (الآیۃ) قرآن میں مختلف مقامات پر ان تمام آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے، جن سے گزر کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوع انسان کا امام بنادیا جائے، جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا اس وقت سے لے کر دم واپسیں تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی، دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان محبت کرتا ہے ان میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں جن سے آدمی ڈرتا ہے ان میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو۔
حسن نے کہا : حضرت ابراہیم کو سات چیزوں کے ذریعہ آزمایا گیا (١) کواکب (٢) قمر (٣) شمس (٤) ہجرت (٥) ذبح ولد (٦) ختنہ (٧) نمرود کی آگ، اور بعض حضرات نے تیس کی تعداد کرائی ہے۔ (مظہری) یہ وہ تمام آزمائشیں ہیں جن سے حضرت ابراہیم گزارے گئے اور آپ ہر آزمائش میں کامیاب و کامران رہے، جس کے صلہ میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چناچہ مسلمان ہی نہیں یہودی اور عیسائی حتی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوامانی جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اعلانِ امامت :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جن آزمائشوں سے گزارے گئے اور آپ ہر آزمائش میں کامیاب و کامران رہے جس کے صلہ میں امام الناس کے منصب پر فائز کیے گئے، ارشاد ہوا اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواہش ظاہر کرتے ہوئے فرمایا : وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ یعنی مری ذریت میں بھی یہ منصب عطا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خواہش کو قبول فرمایا، جس کا ذکر سورة عنکبوت آیت ٢٧، میں اس طرح فرمایا : وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں رکھ دی، اس کے ساتھ ہی خبردار کردیا کہ میرا یہ وعدہ ظالموں سے نہیں ہے، اس سے اس امر کی وضاحت ہوگئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی اونچی شان اور عند اللہ اتنی قدرومنزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں سے جو نا خلف اور ظالم و مشرک ہوں گے ان سے میرا کوئی وعدہ نہیں ہے، اور یہ بتادیا کہ اگر ایمان اور عمل صالح نہیں ہے تو پیغمبر زادگی اور پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الہٰی میں کوئی حیثیت نہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مَنْ بَطَأَ عَمَلُہٗ لَمْ یَسْرَعْ بِہٖ نَسَبُہ (صحیح مسلم) جس کو اس کے عمل نے پیچھے چھوڑ دیا اس کو اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک بزرگ اور قابل صد احترام ہیں بلکہ یہود اور نصاریٰ حتی کہ مشرکین عرب کے نزدیک بھی جلیل القدر ہیں، تورات میں آپ کا نام ابراہام اور ابراہیم آیا ہے، سریانی زبان میں ابراہیم کے معنی مہربان باپ کے ہیں جیسے عربی میں ابٌ رحیمٌ کہا جاتا ہے، تورات کی روایت کے مطابق آپ اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس پشتوں کا فاصلہ ہے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی گیارہویں پشت میں تھے، لیکن خود تورات کے شارحین کا خیال بعض قوی قرائن کی بناء پر یہ ہے کہ تورات میں نسب نامہ کی کچھ پشتیں چھوٹ گئی ہیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سن ولادت :
آپ کا سن ولادت سرچارلس مارٹن محقق اثریات کی جدید تحقیق کے مطابق ٢١٦٠ ق م ہے، اور عمر شریف تورات کے بیان کے مطبق ٧٥ سال ہے اس حساب سے آپ کا سال وفات ١٩٨٥ ق م ٹھہرتا ہے، والد کا نام تارخ تھا، عربی زبان میں اس کا تلفظ آزر ہے، قرآن میں بھی آزر استعمال ہوا ہے، قدیم زبانوں میں نام کا تلفظ چونکہ مختلف طریقہ سے ہوتا تھا اس لئے نام میں اختلاف ہے، مسلمانوں کے لئے قرآنی نام آزر کافی ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن :
آپ کا آبائی وطن بابل یا کلدانیہ ہے (انگریزی تلفظ کا لڈیا ہے) جدید جغرافیہ میں اسی کو عراق کہتے ہیں، جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اس کا نام تورات میں اُر (UR) آیا ہے، مدتوں سے یہ شہر نقشہ سے غائب تھا اب کھدائی کے بعد ازسرنو نمودار ہوا ہے، کھدائی کے کام کی داغ بیل ١٨٩٤ ء ہی میں پڑگئی تھی ١٩٩٢ ء میں برطانیہ اور امریکہ کے ماہرین اثریات کی ایک مشترکہ تحقیق مہم برٹش میوزیم اور پنسیلوینیا یونیورسٹی کے زیر اہتمام عراق روانہ ہوئی اور کھدائی کا کام پورے سات سال جاری رہا، رفتہ رفتہ پورا شہر نمودار ہوگیا اور عراق سرکار کے محکمہ آثار قدیمہ نے عجائب خانہ کے حکم میں شامل کرکے ان کھنڈرات کو محفوظ کردیا ہے، یہ شہر خلیج فارس کے دہانہ فرات اور عراق کے پایہ تخت بغداد کے تقریباً درمیانی مسافت پر ہے۔ (تفسیر ماجدی ملخصا)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ جن کی امامت و جلالت تمام گروہوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اہل کتاب کے تمام گروہ ان کی پیشوائی کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی طرح مشرکین مکہ بھی ان کو پیشوا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند باتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا یعنی چند اوامرونواہی میں جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو امتحان اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ جھوٹا شخص جو ابتلاء و امتحان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا، ایسے شخص سے علیحدہ ہوجائے جو سچا ہے تاکہ سچے شخص کے درجات بلند ہوں، اس کی قدر و قیمت زیادہ ہو، اس کے اعمال صاف ستھرے ہوں اور وہ اس آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔
اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل ترین مقام پر فائزہیں۔ جن امور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا تھا وہ بدرجہ اتم اس آزمائش میں پورے اترے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سعی کی قدر کی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے (اپنے نیک بندوں کی مساعی کا) قدر دان ہے۔ فرمایا :﴿ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ﴾” میں تجھ کو لوگوں کا امام بناؤں گا“ یعنی وہ زندگی کے لائحہ عمل میں تیری پیروی کریں گے اور ابدی سعادت کی منزل تک پہنچنے کے لیے تیرے پیچھے چلیں گے۔ تجھے ہمیشہ مدح و ثنا حاصل رہے گی اور بے پایاں اجر عطا ہوگا اور ہر شخص تیری عظمت کا قائل ہوگا۔ اللہ کی قسم ! یہ افضل ترین درجہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کرتے ہیں اور ایک ایسا بلند مقام ہے کہ اصحاب اعمال اس تک پہنچنے کے لیے بڑی جدوجہد کرتے ہیں اور وہ کامل ترین حالت ہے جو صرف اولوالعزم انبیاء و مرسلین، ان کے پیروکار صدیقین اور اللہ تعالیٰ اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔
جب ابراہیم علیہ السلام اس مقام بلند کو پا کر خوش ہوئے تو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے بھی اس مقام کی درخواست کی تاکہ ان کے اور ان کے اولاد کے درجات بلند ہوں اور یہ دعا بھی ان کی امامت، اللہ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اور چاہت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد میں اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والوں کی کثرت ہو۔ پس کیا خوب عظمت ہے ان اعلیٰ مقاصد اور مقامات بلند کی۔
اللہ رحیم اور لطف وکرم کے مالک نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اس رکاوٹ سے ان کو باخبر کردیا جو اس مقام کے حصول کے راستے میں حائل ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾” میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“ یعنی اہل ظلم دین میں امامت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اس کو نقصان پہنچایا اور اس کی بے قدری کی، کیونکہ ظلم اس مقام کے منافی ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں تک پہنچنے کا ذریعہ صبر و یقین ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس رتبے کا مالک ایمان اعمال صالحہ، اخلاق جمیلہ، خصائل حمیدہ، محبت نامہ اور خشیت و انابت میں عظمت کا حامل ہو۔ پس ظلم کا اس مقام سے کیا تعلق؟
آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو ظالم نہیں وہ اس امامت کے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے مگر وہاں تک پہنچانے والے اسباب استعمال کر کے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( woh waqt yaad karo ) jab Ibrahim ko unn kay perwerdigar ney kaee baaton say aazmaya , aur unhon ney woh sari baaten poori ken , Allah ney ( unn say ) kaha : mein tumhen tamam insanon ka peshwa bananey wala hun . Ibrahim ney poocha : aur meri aulad mein say-? Allah ney farmaya : mera ( yeh ) ehad zalimon ko shamil nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
امام توحید
اس آیت میں خلیل اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم (علیہ السلام) کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ دین حنیف پر اسوہ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ اور آپ کے اصحاب ؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت (وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) 53 ۔ النجم :37) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16 ۔ النحل :120) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام بنایا تھا پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے اور جگہ ارشاد ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم (علیہما السلام) کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے۔ آیت (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) 6 ۔ الانعام :115) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج، مونچھوں کو کم کرنا، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مسواک کرنا، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا، ناخن کاٹنا، زیر ناف کے بال کاٹنا، ختنہ کرانا، بغل کے بال کاٹنا، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجا کرنا، جمعہ کے دن غسل کرنا، طواف کرنا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا، رمی جمار کرنا، طواف افاضہ کرنا۔
مکمل اسلام
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورة برائت میں ہے آیت (التائبون العابدون) سے مومنین تک یعنی توبہ کرنا عبادت کرنا حمد کرنا اللہ کی راہ میں پھرنا رکوع کرنا سجدہ کرنا بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ایمان لانا دس کا بیان " قد افلاح " کے شروع سے یحافظون تک ہے اور سورة معارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیرلینا زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، شرمگاہ کی حفاظت کرنا، امانت داری کرنا، وعدہ وفائی کرنا، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا اور دس کا بیان سورة احزاب میں آیت (اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا) 33 ۔ الاحزاب :35) تک ہے یعنی اسلام لانا، ایمان رکھنا، قرآن پڑھنا، سچ بولنا، صبر کرنا، عاجزی کرنا، خیرات دینا، روزہ رکھنا، بدکاری سے بچنا، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمٰن (علیہ السلام) بجا لائے۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ حضرت محمد صلعم کو آپ کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو ؟ تو آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں عزوجل نے پوری کردیں اور یہ سب نعمتیں آپ کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے حضرت ابراہیم ہی ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے ؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر۔ سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے، سب سے پہلے قاصد، بھیجنے والے، سب سے پہلے تلوار چلانے والے، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجا کرنے والے، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم کی سنت ہے مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کردیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی واللہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی دینا، ناخن لینا، پر یان دھونی، بغل کے بال لینا، زیر ناف کے بال لینا، استنجا کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی۔ صحین میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا، موئے (بال) زہار لینا، مونچھیں کم کرنا، ناخن لینا، بغل کے بال لینا ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو وفا کرنے والا اس لئے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت (فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17 وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18 يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ 19ۧ) 30 ۔ الروم :17) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بےبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کردی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورة عنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کردیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت (وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا) 29 ۔ العنکبوت :27) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ ہی کی اولاد میں ہوئی دعا (صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین) یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گی، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لی ہے عہد سے مراد امر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت (وَمِنْ ذُرِّيَّـتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ) 37 ۔ الصافات :113) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت
صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہوگی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی۔