اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں،
English Sahih:
[But] Allah mocks them and prolongs them in their transgression [while] they wander blindly.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔
3 Ahmed Ali
الله ان سے ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنی گمراہی میں حیران رہیں
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی بھی ان سے مذاق کرتا ہے (١) اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔
ف۱ اللہ تعالٰی بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورۃ حدید کی آیت (يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ) 57۔ الحدید;13) میں وضاحت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
خود اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور انہیں ڈھیل دے رہا ہے اور وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹک رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حالانکہ خدا خود ان کو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیںسرکشی میں ڈھیل دیئے ہوئے ہے جو انہیں نظر بھی نہیں آرہی ہے
9 Tafsir Jalalayn
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں اَللہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ : اللہ بھی انسان سے مذاق کرتا ہے، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ : وہ جس طرح مسلمانوں کے ساتھ استہزاء اور استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں، اللہ بھی ان سے ایسا معاملہ کرتا ہے انہیں ذلت و ادبار میں مبتلا کرتا ہے، اسی کو مشاکلت کے طور پر استہزاء سے تعبیر کردیا گیا ہے یہ زبان کا ایک اسلوب ہے، حقیقۃً استہزاء نہیں بلکہ ان کے فعل استہزاء کی سزا ہے، جس کو استہزاء سے تعبیر کردیا گیا جیسے : ” وَجَزٰؤُا سَیِّئَۃٍسَیِّئَۃٌ مِّثْلُھا “ (الشوریٰ آیت ٤٠) میں برائی کے بدلہ کو برائی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز عمل ہے۔ ذات باری کی طرف تمسخر کا انتساب قدیم صحیفوں میں : قدیم صحیفوں میں ذات باری کی جانب ہنسی اور تمسخر کا انتساب برابر موجود ہے، تو ایک خداوند ان پر ہنسے گا، تو ساری قوموں کو مسخرہ بنا دے گا۔ (زبور ٨، ٨٩) میں تمہاری پریشانیوں پر ہنسوں گا، اور جب تم پر دہشت غالب ہوگی، تو ٹھٹھے ماروں گا۔ (امثال، ٢٦: ١) وَیَمُوُّھُمْ فِیْ طُغْیٰنِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ، اَلْمَدُّ ، اَلزّیادۃ، یونس بن حبیب نے کہا ہے کہ مَدٌّ کا استعمال شر میں اور اَمَدَّ کا استعمال خیر میں ہوتا ہے جیسے : ” وَاَمْدَدْنَاکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ ۔ وَاَمْدَدْناھُمْ بِفَاکِھَۃٍ وَّلَحْمٍ “ اللہ تعالیٰ کا قوم وَیَمُدُّھم فِی طُغْیَانِھِمْ ، خود ” اَللہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ “ کی تفسیر ہے، یعنی ان کی افتاد طبع کے مطابق اللہ ان کو مزید مہلت اور ڈھیل دیتا ہے، تاکہ سرکشی اور طغیان مکمل ہو کر مکمل سزا کے مستحق ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون تکوینی کے مطابق مخلوق کو جو آزادی دی ہے، اس میں وہ خواہ مخواہ دست اندازی نہیں کرتا، سانپ کو کاٹنے کی، زہر کو ہلاک کرنے کی، آگ کو جلانے کی آزادی اور اجازت اسی قانون تکوینی کے مطابق ہے۔ یَعْمَھُوْنَ ، عَمْہٌ، اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ انسان کو راستہ سجھائی نہ دے اور وہ اندھوں کے مانند ادھر ادھر ٹٹولتا پھرے، اَلْعَمْہ التردد فِی الضلال والتحیر فی منازعۃ (تاج) العمیٰ فی العین وَالعَمہ فی القلب۔ (قرطبی) ایک شبہ کا ازالہ : حدیث و فقہ کا یہ مشہور مقولہ کہ ” اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا جاسکتا “ اس کا مطلب آیت مذکورہ ” آمِنوا کما آمَن الناس “ کی روشنی میں یہ متعین ہوگیا کہ اہل قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی کے منکر نہیں ورنہ منافقین بھی تو مسلمانوں کی طرح اہل قبلہ تھے، مگر ان کا اہل قبلہ ہونا اس بنائ پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام (رض) کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا، نیز قادیانی کا اہل قبلہ ہونا اس بنا پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام (رض) کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا، حتیٰ کہ بعض ہنود بھی اہل قبلہ ہیں تو کیا یہ سب جماعتیں مسلمین مخلصین میں شامل ہیں ؟ (معارف مخلصا وتصریفا)
10 Tafsir as-Saadi
﴿اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ ” اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کا یہ استہزان کے اس استہزا کی جزا ہے جو وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہے کہ وہ ان کے بدبختی کے اعمال اور خبیث احوال کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کردیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان پر مسلط نہیں کیا اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہوگا کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انہیں ظاہری روشنی عطا کرے گا۔ جب اہل ایمان اس روشنی میں چلیں گے تو منافقین کی روشنی بجھ جائے گی۔ وہ روشنی کے بجھ جانے کے بعد تاریکی میں متحیر کھڑے رہ جائیں گے۔ پس امید کے بعد مایوسی کتنی بری چیز ہے۔ ﴿يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ (لحدید :17؍58) ” وہ منافق اہل ایمان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ! اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہ تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم ہمارے بارے میں کسی برے وقت کے منتظر رہے اور تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا۔ “ ﴿وَيَمُدُّهُمْ﴾یعنی اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرتا ہے ﴿فِي طُغْيَانِهِمْ ﴾ یعنی ان کے فسق و فجور اور کفر میں ﴿ يَعْمَهُونَ ﴾ یعنی وہ حیران و سرگرداں ہیں، یہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت احوال کو منکشاف کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
Allah unn say mazaq ( ka moamla ) kerta hai aur unhen aesi dheel deta hai kay woh apni sarkashi mein bhataktay rahen