البقرہ آية ۱۶۸
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِى الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ۖ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِۗ اِنَّهٗ لَـكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ
طاہر القادری:
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،
English Sahih:
O mankind, eat from whatever is on earth [that is] lawful and good and do not follow the footsteps of Satan. Indeed, he is to you a clear enemy.
1 Abul A'ala Maududi
لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،
3 Ahmed Ali
اے لوگو ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال پاکیزہ ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے
4 Ahsanul Bayan
لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
١٦٨۔١ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کر لیتے تھے، جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کر دیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کر دیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا باب الصفات التی یعرف بھافی الدنیا اھل الجنۃ واھل النار
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
6 Muhammad Junagarhi
لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزه چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راه پر نہ چلو، وه تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے انسانو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ بلاشبہ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے
9 Tafsir Jalalayn
لوگو ! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
آیت نمبر ١٦٨ تا ١٧٣
ترجمہ : اور (یہ آیت) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے سوائب وغیرہ (بتوں کے نام پر آزاد کئے ہوئے جانور) کو حرام کرلیا تھا، لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ (پیو) طَیّبًا، حَلَالًا کی صفت مؤکدہ ہے، یا بمعنی مُتَلَذَّذًا ہے، (یعنی مرغوب و پسندیدہ) اور شیطان کے نقش قدم پر (یعنی طریقہ) پر نہ چلو یعنی اس کے آراستہ راستہ پر، وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے یعنی اس کی عداوت بالکل واضح ہے وہ تمہیں صرف گناہ اور فحش یعنی شرعا قبیح بات کا حکم کرتا ہے اور اس بات کا حکم کرتا ہے کہ تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہو جن کو تم نہیں جانتے یعنی جو چیزیں حرام نہیں کی گئیں ان کو حرام کرنا وغیرہ اور جب کافروں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو توحید اور پاکیزہ چیزوں کی حلت نازل کی ہے اس کی اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں نہیں بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء (و اجداد) کو پایا ہے اور بتوں کی بندگی ہے اور وہ سوائب و بحائر کو حرام کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا یہ ان کی اتباع کریں گے ؟ اگرچہ ان آباء (و اجداد) دین کے معاملہ میں کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ حق کی طرف راہ یافتہ ہوں، اور ہمزہ انکار کے لئے ہے، اور کافروں کی مثال اور ان لوگوں کی جو ان کو ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اس شخص کے جیسی ہے جو اس کو آواز دیتا ہے جو ہانک پکار کے سوا کچھ نہ سنتا ہو یعنی آواز کو کہ جس کے معنی نہ سمجھتا ہو، مطلب یہ کہ (یہ کافر) نصیحت سننے اور اس پر غور کرنے میں جانوروں کے مانند ہیں جو اپنے چروا ہے کی آواز تو سنتے ہیں مگر اس کو سمجھتے نہیں ہیں، وہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں جو نصیحت کو نہیں سمجھتے، اے ایمان والو ! جو حلال چیزیں ہم نے تم کو دے رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ پیو، اور جو چیزیں تمہارے لئے حلال کی ہیں ان پر اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو، اور جو چیزیں تمہارے لئے حرام کی گئی ہیں (ان میں ایک) مردار ہے یعنی اس کا کھانا حرام ہے، اس لئے کہ گفتگو کھانے ہی کے بارے میں ہے، اور اسی طرح اس کے بعد مذکور (چیزوں کا کھانا بھی حرام ہے) اور مردار وہ ہے جو شرعی طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو، اور بحکم حدیث مردار میں گوشت کا وہ ٹکڑا بھی شامل کرلیا گیا ہے جو زندہ اجانور سے کاٹ لیا گیا ہو، اور مردار سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے اور بہتا خون ہے جیسا کہ سورة انعام میں ہے، اور خنزیر کا گوشت (حرام کیا گیا ہے) اور (حرمت کے لئے) گوشت کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے کہ (کھانے) میں مقصود اعظم ہے دوسری چیزیں (مثلاً رگ، پٹھے وغیرہ) اس کے تابع ہیں، اور وہ جانور (بھی حرام ہے) جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو یعنی غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو (اھْلال) آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں، اور مشرکین ذبح کے وقت اپنے معبودوں کے نام بآواز بلند پکارتے تھے، سو اگر کوئی مجبور ہوجائے یعنی ضرورت نے اس کو مذکورہ چیزوں میں سے کھانے پر مجبور کردیا ہو درآنحالیکہ وہ باغی نہ ہو یعنی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرنے والا نہ ہو اور نہ رہزنی وغیرہ کے ذریعہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والا ہو، تو ایسے شخص کے لئے ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلاشبہ اللہ بخشنے والا ہے اپنے دوستوں پر مہربان ہے اپنے اطاعت گزاروں پر کہ اس کو اس معاملہ میں وسعت (سہولت) دیدی اور باغی اور ظالم اس حکم سے خارج ہوگئے اور (باغی اور ظالم) کے ساتھ ہر وہ شخص شامل ہے جو سفر معصیت کر رہا ہو، جیسے بھاگا ہوا غلام، اور ظالمانہ طور پر مال وصول کرنے والا۔ ایسے لوگوں کے لئے مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کا کھانا حالال نہیں ہے، جب تک کہ توبہ نہ کرلیں، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مذہب ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یٰایُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا اس آیت کے مخاطب مکہ کے مشرکین ہیں، سورة کے مدنی ہونے کی وجہ سے اور سورت کا نزول اگرچہ مدنی ہے لیکن نزول مدنی ہو اور خطاب اہل مکہ ہو اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ قولہ : حالٌ یعنی حلَالًا، مِمَّا فی الارْضِ سے حال ہے، کلُوا کا مفعول بہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اس لئے کہ اس صورت میں مِمّا فِی الارضِ ، حلَالًا سے صفت کی تقدیم موصوف پر اور حال کی تقدیم ذوالحال پر خلاف ظاہر ہے، گو بعض حضرات نے حَلاَلاً کو کُلُوا کا مفعول بہ بھی قرار دیا ہے، اور مِمّا فی الارض کو حلَالًا سے حال مقدم قرار دیا ہے، ذوالحال کے نکرہ ہونے کی وجہ سے حال مقدم کردیا گیا۔ قولہ : السَّوائب یہ سائبَۃٌ کی جمع ہے، اس اونٹنی کو کہتے ہیں جا کسی بت وغیرہ کے نام پر چھوڑ دیا جائے اور تعظیمًا اس سے کسی قسم کا استفادہ نہ کیا جائے۔ قولہ : ونحوھا نحو سے بَحَائر مراد ہیں، بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کو غیر اللہ کے نام پر آزاد کردیا ہو اور علامت کے طور پر اس کے کان چیر دئیے گئے ہوں۔ قولہ : طیّبًا، صفۃ مؤکدہ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : جب حلالاً سے شرعاً پاکیزہ چیز مراد ہے تو پھر اس کے بعد طیباً کو ذکر کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ اس لئے کہ جو چیز شرعاً حلال ہوتی ہے وہ پاک ہی ہوتی ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ طیبًا صفت مؤکدہ ہے نہ کہ احترازیہ۔
قولہ : او مُستَلَذًّا مفعول کے صیغہ کے ساتھ جو چیز مرغوب اور پسندیدہ ہو، اس صورت میں طیبًا صفت مقیدہ ہوگی، جس سے ناپسندیدہ مثلا کڑوی اور بدمزاہ اشیاء خارج ہوجائیں گے، مُسْتَلَذًّا صفت مخصصہ اس صورت میں ہوگی جب کہ اَو کے ساتھ ہو اور بعض نسخوں میں ومستلَذًّا واؤ کے ساتھ ہے، اس صورت میں طیبا صفت مؤکدہ ہوگی یعنی نفس مومن کو مرغوب شئی۔ قولہ : ای تزیینَہٗ اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے، اور تزئین سے شیطانی وسوسے مراد ہیں۔ قولہ : یامرکم بالسُّوء یہ اِنّہٗ لکم عدوّ مُبین کے لئے علت کے مانند ہے، یعنی وہ تمہارا دشمن اس لئے ہے کہ وہ تم کو بری اور فحش باتوں کا حکم کرتا ہے، السُّوء ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس سے خدا ناراض ہو خواہ وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، اور اَلْفَحْشَاء سے مراد کبیرہ گناہ ہیں، گویا یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے، مگر مفسر علام کے کلام سے دونوں میں تساوی مستفاد ہو رہی ہے۔ قولہ : مِن تحریم مَالَم یُحرَمْ الخ یہ مالاتعلمُونَ میں ما کا بیان ہے۔ قولہ : أیَتَّبِعُوْنَھُمَ اس میں اشارہ ہے کہ ہمزہ فعل مقدر پر داخل ہے اور وَلَوْ کَانَ فعل مقدر کے مفعول سے حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أیتَّبِعُونَھم فی حال فرضھم غیر عاقلین ولا مھتَدِین ہمزہ انکار تعجب کے لئے ہے، مفسر علام نے أیَتَّبعونَھم میں ہمزہ کے بعد فعل مقدر مان کر ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
سوال : اَوَلَوْ کَانَ میں لَو شرطیہ ہے، لہٰذا اس کے لئے جواب شرط کا ہونا ضروری ہے حالانکہ یہاں جواب شرط موجود نہیں ہے۔ جواب : لَو پر جو داؤ داخل ہے وہ حالیہ ہے لہٰذا لَوْ کو اس صورت میں جواب کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ شرط تب ہی حال واقع ہوتی ہے جب اس سے شرطیت کے معنی سلب کر لئے جاتے ہیں، اس لئے کہ جملہ مقدمہ محذوفی کی صورت میں لَوْ میں معنی شرطیت باقی نہیں رہتے۔ لہٰذا اس کو جواب کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ (ترویح الارواح) قولہ : صفۃ یعنی مثل بمعنی صفت ہے نہ کہ بمعنی مشابہ، یہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ میں کاف تشبیہ کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ مثل کے ذکر کے بعد کاف تشبیہ بلا وجہ تکرار ہے جواب : پہلے مثل کے معنی تشبیہ کے نہیں ہیں، بلکہ اس کے معنی صفت کے ہیں، لہٰذا اب کوئی تکرار نہیں۔ قولہ : النعق والنعیق، صوت الراعی بالغنم، چرواہے کی بکریوں کو ہانک۔ قولہ : وَمَنْ یَدْعُوھم الی الھُدٰی اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کو جواب ہے۔ سوال : آیت میں کفار کو ناعق (چروا ہے) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس لئے کہ آیت کا ترجمہ یہ ہے، اور کافروں کی مثال اس ناعق داعی (ہدایت کی طرف بلانے والے رسول یا مسلمان ہیں) اور کفار منعوق، مدعو (مثل بہائم) ہیں۔ جواب : یہاں معطوف محذوف ہے اور وہ مَنْ یَدْعُوھم اِلَی الھُدٰی ہے، لہٰذا کفار اور ان کے داعی کو، چروا ہے اور بہائم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، یعنی کفار اور ان کے داعی مشبہ ہیں اور بہائم اور ان کا چرواہا مشبہ بہ ہیں، گویا کہ یہ تشبیہ مرکب بالمرکب ہے، جس میں ایک مجموعہ کو دوسرے مجموعے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔
سوال : اگر اَلَّذِیْنَ کفرُوا سے پہلے مضاف محذوف مان لیا جائے جیسا کہ قاضی وغیرہ نے مضاف محذوف مانا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، مَثلُ داعِی الَّذِینَ کَفَرُوْا کمَثَلِ الَّذِیْ ینعِقُ اب مطلب یہ ہوگا، کہ داعی کی مثال ناعق (چروا ہے) جیسی ہے یعنی داعی کو ناعق سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جواب : مطلب تو صحیح ہوجاتا ہے مگر اس صورت میں تشبیہ داعی (مسلمان یا رسول) کی حالت کو بیان کرنے کے لئے ہوگی نہ کہ مدعو کی حالت کو بیان کرنے کے لئے حالانکہ مقصود دونوں کی حالت کو بیان کرنا ہے اور اہم مدعو (کفار) کی حالت کو بیان کرنا ہے، جیسا کہ خود مفسر علام نے اس بات کی طرف اپنے قول ھم فی سماع الموعظۃ الخ سے اشارہ کیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے تفسیر مظہری جلد اول : ص ١٦٧ کی طرف رجوع کریں) ۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : یٰآیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ یہ آیت ثقیف اور خزاعہ اور عامر ابن صعصعہ اور بنی مدلج کے بارے میں نازل ہوئی تھی، کہ ان لوگوں نے اپنے اوپر حرث، انعام، البحیرہ اور سائبہ اور الحام اور وسیلہ کو حرام کرلیا تھا۔ (مظہری) ۔ ونزلت فی قوم حرموا علیٰ انفسھم رفیع الاطعمۃ والملابس یعنی مذکورہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ جنہوں نے اپنے اوپر عمدہ کھانا اور اچھا لباس حرام کرلیا تھا، (روح البیان) سبب نزول اگرچہ خاص بھی ہو لیکن اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان کے دام فریب میں آکر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام نہ کرو جس طرح مشرکین کہ بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو حرام کرلیتے تھے، لَاتَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ میں اتباع شیطان سے منع کیا جا رہا ہے کہ خواہش اور نفس شیطانی کے اغواء سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ سمجھو، اور زمین (دنیا) میں حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں استعمال کرو اور اغواء شیطانی کے شکار نہ ہو کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے لگو اس لئے کہ شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے وہ ہمیشہ بدی اور فحش کا ہی حکم کرتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انہیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں ﴿حَلَالًا﴾ کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔ ﴿طَيِّبًا﴾” پاکیزہ“ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔ (یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔)
اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
(١) مُحْرَّم لِذَاتِہ ، یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔
(2) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے ﴿ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾ ” شیطان کے قدم“ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور ديگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمہیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے، تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey logo ! zameen mein jo halal pakeezah cheezen hain woh khao , aur shetan kay naqsh-e-qadam per naa chalo . yaqeen jano kay woh tumharay liye aik khula dushman hai
12 Tafsir Ibn Kathir
روزی دینے والا کون ؟
اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لئے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لئے حلال کردیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کردیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے کھڑے ہو کر کہا حضور میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے، آپ نے فرمایا اے سعد پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، جیسے اور جگہ فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو اسکی اور اس کے دوستوں کی تو یہ عین چاہت ہے کہ لوگوں کو عذاب میں جھونکیں اور جگہ فرمایا آیت (اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) 18 ۔ الکہف :50) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو ؟ حالانکہ حقیقتا وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لئے برا بدلہ ہے آیت (خطوات الشیطان) سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے جس میں شیطان کا بہکاوا شامل ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو ؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کرچکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھالو، ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ (رض) کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا، عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ ، حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا، لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔