بیشک جو لوگ کتابِ (تورات کی ان آیتوں) کو جو اﷲ نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، وہ لوگ سوائے اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے کے کچھ نہیں کھاتے اور اﷲ قیامت کے روز ان سے کلام تک نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے،
English Sahih:
Indeed, they who conceal what Allah has sent down of the Book and exchange it for a small price – those consume not into their bellies except the Fire. And Allah will not speak to them on the Day of Resurrection, nor will He purify them. And they will have a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو چھپاتے ہیں اللہ کی کتاب اور اسکے بدلے ذلیل قیمت لیتےہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہ کرے گا اور نہ انہیں ستھرا کرے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے،
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ الله کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے اور اس کے بدلے میں تھوڑا سا مول لیتے ہیں یہ لوگ اپنے پیٹوں میں نہیں کھاتے مگر آگ اور الله ان سے قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
بیشک جو لوگ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں قیامت کے دن اللہ تعلیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ (خدا) کی کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن نہ کلام کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا۔اور ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بالتحقیق جو لوگ کتابِ خدا میں سے ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو خدا نے نازل کی ہیں اور ان کے عوض تھوڑی سی قیمت وصول کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ بھی نہیں بھر رہے ہیں قیامت کے دن وہ توجہ ربانی سے اس قدر محروم ہوں گے کہ خدائے تعالیٰ ان سے بات تک نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی انہیں (گناہوں کی کثافت سے) پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو حُھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز هقیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ (خدا کی) کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن کلام نہ کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے آیت نمبر ١٧٤ تا ١٧٦ ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس کتاب (تورات) کو جو اللہ نے نازل کی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات پر مشتمل ہے (اور چھپانے والے) یہود ہیں اور اس کے عوض دنیوی قلیل قیمت لیتے ہیں اور چھپانے کے بدلے اپنے عوام سے قلیل ثمن وصول کرتے ہیں، اور اس ثمن قلیل کے فوت ہونے کے اندیشہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو ظاہر نہیں کرتے، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹوں میں محض آگ بھر رہے ہیں، اس لئے کہ دوزخ انکا انجام ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان پر غضبنا کی کی وجہ سے ان سے کلام نہ کرے گا، اور نہ ان کو گناہوں کی گندگی سے پاک کرے گا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور وہ آگ ہے الیمٌ بمعنی مولِمٌ ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے یعنی دنیا میں ہدایت کے بجائے گمراہی لے لی ہے، اور عذاب کو مغفرت کے عوض لیا ہے (یعنی) وہ مغفرت جو ان کے لیے تیار کی گئی تھی اگر وہ کتمان نہ کرتے، تو یہ لوگ کس قدر آگ پر صبر کرنے والے ہیں (یعنی) کس قدر سخت ہے ان کا صبر، اور لاپرواہی سے ان کے موجبات نار جہنم کے ارتکاب کرنے پر مسلمانوں کو تعجب دلانا ہے ورنہ انہیں صبر کیسا ؟ اور یہ آگ کا کھانا اور اس کا مابعد اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب (تورات) کو حق کے ساتھ نازل کیا (بالحق) نَزَلَ کے متعلق ہے، تو اس میں انہوں نے اختلاف کیا، اس طریقہ پر کہ کچھ حصہ کا انکار کردیا اس کو چھپا کر اور جب لوگوں نے کتاب میں مذکور طریقہ پر اختلاف کیا بلاشبہ وہ یہود ہیں، اور کہا گیا ہے کہ قرآن میں اختلاف کرنے والے مشرکین ہیں، اسی طریقہ پر کہ ان میں سے بعض نے کہا (قرآن) شعر ہے اور بعض نے کہا جا دو ہے، اور بعض نے کہا کہانت ہے، بلاشبہ یہ لوگ اختلاف میں (حق سے) بہت دور ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِنَ الْکِتَابِ یہ ضمیر محذوف سے حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے مَا اَنزَلَہٗ اللہ کائناً مِنَ الکِتَابِ ۔ قولہ : مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ ، فِی بُطُونِھم کے اضافہ کا مقصد احتمال مجاز کو دفع کرنا ہے، اس لئے کہ اکل مجازاً غضب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کہا جاتا ہے، اَکَلَ فلانٌ أرضی فلاں شخص میری زمین کھا گیا، یعنی غصب کرلی، جیسا کہ طَآئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ میں بھی یَطِیرُ بجَنَاحَیہِ کا اضافہ احتمال مجاز کو دفع کرنے کے لئے ہے، اگر اکل نار سے جہنم میں اکل نار مراد ہے تو نار کے حقیقی معنی مراد ہوں گی یعنی درحقیقت آگ کھائیں گے اور اگر دنیا میں اکل نار مراد ہو مجازا نار مراد ہوگی یعنی سبب نار مراد ہوگا، اس لئے کہ رشوت کا مال نار جہنم کا سبب ہوگا، اور اگر نار سے بالقوہ نار مراد ہو تو دنیا میں بھی نار کے حقیقی معنی مراد ہوسکتے ہیں جیسا کہ ماچس بالقوہ آگ ہوتی ہے، مفسر علام نے لِانَّھَا مَآلھُم کا اضافہ کرکے معنی مجازی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ قولہ : فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ یہ صیغہ تعجب ہے ای مَا اَصْبَرَھم علیٰ اعْمَال اھلِ النارِ اور تعجب سے مراد تعجب یعنی تعجب میں ڈالنا ہے، اور تعجب بندوں کی نسبت سے ہے اس لئے کہ تعجب کا منشا سبب سے ناواقفیت ہے، تعجب کہتے ہیں انفعال النفس مما خفِیَ سَبَبُہٗ تعجب نام ہے نفس کا ایسی ثیز سے منفعل ہونے کا جس کا سبب مخفی ہو اور یہ شان باری کے لئے محال ہے اور بعض حضرات نے مَآ اَصْبَرَھُمْ میں ما کو استفہامیہ برائے توبیخ کہا ہے : اَی اَیُّ شئٍ اَصْبَرھم علی عمل النارِ ۔ (فتح القدیر ملخصا) تفسیر و تشریح شان نزول : اَنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتَابِ یہ آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو احکام تورات کو اور خاص طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو عوام سے چھپاتے تھے بلکہ ان صفات کے خلاف ظاہر کرتے تھے اور عوام سے بدئیے تحفے وصول کرتے تھے علماء کا خیال تھا کہ آخری نبی ان ہی میں سے ہوگا، مگر جب بنی اسراعیل میں آگیا تو حسد اور بقاء ریاست اور ہدایا و تحائف کے لالچ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو جو تورات میں مذکور تھیں چھپالیا۔ وَقَدْ اَخْرَجَ ابن جریر عن عکرمۃ فی قولہ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ ) قَالَ : نَزَلَتْ فِی یھود واَخْرَجَ ابن جریر عن السدّی قال : کَتَمُوا اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاَخَذُوْا علیہ طَمْعًا قلیلاً فھو الثمن القلیل۔ فی لباب النقول اَخْرَجَ الثعلبی من طریق الثعلبی عن ابی صالح عن ابن عباس (رض) ما، قال : نَزَلَتْ ھذہ الآیۃ فی رؤساء الیھود وعلمائِھم کانوا یصیبونَ من سفلتھن الھدایا والفضل و کانوا یرْجُونَ اَن یکونَ النبی المبعوث منھم فَلَمَّا بعَثَ اللہُ محمداً (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من غیرھم خافوا ذھاب ما کلتھم وزَوال ریاستھم فعَمَدُوا الی صفۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فغیّروھَا ثم اَخْرَجُوھا الیھم وقالوا ھذہ نعت النبی الذی یخرج فی آخر الزمان لا یشبہ نعمت ھذا النبی، فانزل اللہ اِنّ الذینَ یکتُمُونَ مَا انزل اللہ من الکتاب۔ (حاشیہ بیان القرآن) آیت مذکورہ کا شان نزول اگرچہ خاص واقعہ ہے مگر اعتبار عموما الفاظ کا ہوگا، مطلب یہ ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص کتمان حق کرے گا اور دین فرشی کرے گا تو وہ بھی اسی وعید کا مستحق ہوگا، خلاصہ یہ کہ عوام میں جتنے غلط توہمات اور رسم و رواج جنم لیتے ہیں، ان کی ذمہ داری ان علماء پر ہے جن کے پاس کتاب الٰہی کا علم ہے مگر وہ عوام تک اس علم کو نہیں پہنچاتے اور جب لوگوں میں جہالت کی وجہ سے غلط رسم و رواج پھیلنے لگتے ہیں تو یہ علماء سوء اس وقت بھی گونگے کا گڑ کھائے ہوئے خاموش بیٹھے رہتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے اپنا فائدہ اسی میں سمجھتے ہیں کہ صحیح احکام پر پردہ ہی پڑا رہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے جو علم اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور لوگوں پر اس علم کو واضح کرنے اور اس کو نہ چھپانے کا اہل علم سے وعدہ لیا۔ اس علم کو جو لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں ان کو سخت وعید سنائی ہے۔ پس جو لوگ اس علم کے عوض دنیاوی مال و متاع سمیٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیتے ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ﴾ ” یہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں“ کیونکہ یہ قیمت جو انہوں نے (آیات الٰہی کے عوض) کمائی ہے یہ انہیں بدترین اور انتہائی حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ﴾” اور قیامت کے دن اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوگا اور ان سے منہ پھیر لے گا۔ پس یہ چیز ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ښ﴾ ” اور نہ ان کو پاک کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اخلاق رذیلہ سے پاک نہیں کرے گا اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے نہیں ہوں گے جو مدح، رضائے الٰہی اور جزا کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے پاک نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے عدم تزکیہ کے اسباب اختیار کیے۔ تزکیہ کا سبب سے بڑا سبب کتاب اللہ پر عمل کرنا، اس کو راہنما بنانا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے۔ پس انہوں نے کتاب اللہ کو دور پھینک دیا، اس سے روگردانی کی، ہدایت کو چھوڑ کر گمرایہ اور مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کیا۔ پس یہ لوگ جہنم ہی کے قابل ہیں۔ یہ جہنم کی آگ پر کیسے صبر کریں گے اور اس کی آگ کو کیسے برداشت کرسکیں گے؟
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay jo log Allah ki nazil ki hoi kitab ko chupatay hain aur uss kay badlay thori si qeemat wasool kerletay hain , woh apney pet mein aag kay siwa kuch nahi bhar rahey . qayamat kay din Allah unn say kalam bhi nahi keray ga , aur naa unn ko pak keray ga , aur unn kay liye dardnak azab hai
12 Tafsir Ibn Kathir
بدترین لوگ یعنی جو یہودی نبی کی صفات کی آیتوں کو جو توراۃ میں ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بعلے اپنی آؤ بھگت عرب سے کراتے ہیں اور عوام سے تحفے اور نقدی سمیٹتے رہتے ہیں وہ اس گھٹیا دنیا کے بدلے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں، انہیں ڈرلگا ہوا ہے کہ اگر حضور کی نبوت کی سچائی اور آپ کے دعوے کی تصدیق کی آیتیں (جو توراۃ میں ہیں) لوگوں پر ظاہر ہوگئیں تو لوگ آپ کے ماتحت ہوجائیں گے اور انہیں چھوڑ دیں گے اس خوف سے وہ ہدایت و مغفرت کو چھوڑ بیٹھے اور ضلالت و عذاب پر خوش ہوں گئے اس باعث دنیا اور آخرت کی بربادی ان پر نازل ہوئی، آخرت کی رسوائی تو ظاہر ہے لیکن دنیا میں بھی لوگوں پر ان کا مکر کھل گیا، وقتًا فوقتاً وہ آیتیں جنہیں یہ بدترین علماء چھپاتے رہتے تھے ظاہر ہوتی رہیں، علاوہ ازیں خود حضرت کے معجزات اور آپ کی پاکیزہ عادت نے لوگوں کو آپ کی تصدیق پر آمادہ کردیا اور ان کی وہ جماعت جس کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈرنے انہیں کلام اللہ چھپانے پر آمادہ کیا تھا بلآخر ہاتھ سے جاتی رہیں ان لوگوں نے حضور سے بیعت کرلی ایمان لے آئے اور آپ کے ساتھ مل کر ان حق کے چھپانے والوں کی جانیں لیں اور ان سے باقاعدہ جہاد کیا، قرآن کریم میں ان کی حقائق چھپانے والی حرکتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا، اور فرمایا ہے کہ جو مال تم کماتے ہو اللہ کی باتوں کو چھپا کر، قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو یتیموں کا مال ظلم سے ہڑپ کرلیں۔ ان کے لئے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں اور قیامت کے دن بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔ پھر فرمایا ان سے تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت بھی نہیں کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ المناک عذابوں میں مبتلا کرئے گا۔ اس لئے کہ ان کے اس کرتوت کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور اب ان پر سے نظر رحمت ہٹ گئی ہے اور یہ ستائش اور تعریف کے قابل نہیں رہے بلکہ سزایاب ہوں گے اور وہاں تلملاتے رہیں گے۔ حدیث شریف میں ہے تین قسم کے لوگوں سے اللہ بات چیت نہ کرئے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب میں زانی بڈھا، جھوٹا بادشاہ، متکبر فقیر فرمایا کہ ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی انہیں چاہئے تھا کہ توراۃ میں جو خبریں حضور کی نسبت تھیں انہیں ان پڑھوں تک پہنچاتے لیکن اس کے بدلے انہوں نے انہیں چھپالیا اور خود بھی آپ کے ساتھ کفر کیا اور آپ کی تکذیب کی، ان کے اظہار پر جو نعتیں اور رحمتیں انہیں ملنے والی تھیں ان کے بدلے زحمتیں اور عذاب اپنے سر لے لئے۔ پھر فرماتا ہے انہیں وہ دردناک اور حیرت انگیز عذاب ہوں گے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے اور یہ بھی معنی ہیں کہ انہیں آگ کے عذاب کی برداشت پر کس چیز نے آمادہ کیا جو یہ اللہ کی نافرمانیوں میں مشغول ہوگئے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے مستحق اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اللہ کی باتوں کی ہنسی کھیل سمجھا اور جو کتاب اللہ حق کو ظاہر کرنے اور باطل کا نابود کرنے کے لئے اتری تھی انہیں نے اس کی مخالفت کی ظاہر کرنے کی باتیں چھپائیں اور اللہ کے نبی سے دشمنی کی آپ کی صفتوں کو ظاہر نہ کیا فی الواقع اس کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے والے دور کی گمراہی میں جاپڑے۔