البقرہ آية ۱۹۵
وَاَنْفِقُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَاَحْسِنُوْا ۛ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ
طاہر القادری:
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے،
English Sahih:
And spend in the way of Allah and do not throw [yourselves] with your [own] hands into destruction [by refraining]. And do good; indeed, Allah loves the doers of good.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں،
3 Ahmed Ali
اورالله کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کوپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو او رنیکی کرو بے شک الله نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو (١) اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
١٩٥۔١ اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بےشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور خدا کی راہ میں (مال و جان) خرچ کرو اور (اپنے آپ) کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور اچھا کام کرو۔ یقینا اللہ اچھے کام کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
او رراسِ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو. نیک برتاؤ کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر ١٩٥ تا ١٩٦
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو (یعنی) اس کی طاعت میں کہ وہ جہاد وغیرہ ہے اور تم جہاد میں خرچ کرنے سے بخل کرکے اور جہاد ترک کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس لئے کہ یہ (بخل و ترک) دشمن کو تم پر جری کر دے گا (باَیدی) میں باء زائدہ ہے (راہ خدا میں) خرچ وغیرہ کے ذریعہ نیکیاں کرو، اللہ تعالیٰ نیکیاں کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے یعنی ان کو اجر عطا کرتا ہے اور حج وعمرہ اللہ کے لئے پورے کرو، یعنی دونوں کو ان کے حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرو، پس اگر حج اور عمرہ سے (یعنی) ان کے پورا کرنے سے دشمن یا اسی جیسی کسی اور چیز کے ذریعہ تم کو روک دیا جائے تو جد ہدی (قربانی کا جانور) تم کو میسر ہو اور وہ بکری ہے اور اپنے سروں کا حلق نہ کراؤ یعنی حلال نہ ہوتاوقتی کہ ہدی مذکور اپنی جگہ نہ پہنچ جائے جہاں اس کا ذبح کرنا جائز ہے اور وہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک احصار کی جگہ ہے لہٰذا حلال ہونے کی نیت سے اسی جگہ (ہدی) ذبح کردی جائے اور اس مقام کے مساکین پر (گوشت) تقسیم کردیا جائے، اور حلق کرالیا جائے، اس سے حلت حاصل ہوجائے گی، مگر جو شخص تم میں مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو مثلاً جوں یا سر کا درد تو وہ حالت احرام میں حلق کرا سکتا ہے، تو اس پر فدیہ واجب ہے اور وہ تین دن کے روزے ہیں یا تین صاع کو مقامی عمومی خوراک سے چھ مسکینوں پر صدقہ کرنا ہے یا قربانی کرنا ہے یعنی بکری ذبح کرنا، اور اوتخییر کے لئے ہے اور اسی حکم میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے بغیر کسی عذر کے حلق کر الیا ہو اس لئے کہ کفارہ کے وجوب کے لئے یہ زیادہ لائق ہے یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جس نے حلق کے علاوہ کچھ اور استفادہ کیا مثلاً خوشبو لگائی یا تیل لگایا عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر کے، پھر جب تم دشمن سے مامون ہوجاؤ بایں طور کہ دشمن چلا گیا یا تھا ہی نہیں، تو جس شخص نے تم میں سے عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر احرام کی ممنوعات سے حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھ کر فائدہ اٹھایا اس کے عمرہ سے فارغ ہونے اور اس سے حلال ہونے کی وجہ سے تو اس پر جو میسر آئے قربانی واجب ہے اور وہ ایک بکری ہے کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد ذبح کرے، اور افضل یوم نحر ہے تو جس کو ہدی میسر نہ ہو، ہدی کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یا اس کی قیمت نہ ہونے کی وجہ سے تو اس پر تین روزے ہیں ایام حج میں یعنی حج کے احرام کی حالت میں، تو ضروری ہے کہ ساتویں ذی الحجہ سے پہلے (حج) کا احرام باندھے اور افضل چھٹی ذی الحجہ سے پہلے ہے یوم نحر میں حاجی کے لئے روزہ مکروہ ہے اور ایام تشریق میں امام شافعی (رح) تعالیی کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ جائز نہیں ہے اور سات روزے اس وقت جب کہ اپنے وطن واپس ہو وطن مکہ ہو یا غیر مکہ، اور کہا گیا ہے کہ جب تم ارکان حج سے فارغ ہوجاؤ اس میں غائب سے حاضر کی طرف التفات ہے یہ دس روزے پورے ہیں یہ جملہ اپنے ماقبل کی تاکید ہے قربانی یا روزوں کے وجوب کا مذکورہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو حج تمتع کرے یا یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر بار مسجد کے قریب نہ ہوں اس طرح کہ حرم سے دو مرحلوں سے کم نہ ہو، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے اور اگر دو مرحلوں سے کم ہے تو اس پر نہ دم ہے نہ روزہ اگرچہ تمتع کرے اور اھل کے ذکر کرنے میں وطن بنانے کی شرط کی طرف اشارہ ہے اور تمتع کی نیت کی، تو اس پر مذکورہ چیز (یعنی قربانی) واجب ہے اور یہ ہمارے (یعنی شوافع) کے نزدیک ہے اور تمتع کے ساتھ مذکورہ احکام میں حدیث کی وجہ سے قارن کو بھی ملا لیا گیا ہے اور قارن وہ ہے جو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھے، یا حج کو عمرہ پر داخل کر دے طواف عمرہ کرنے سے پہلے (یعنی عمرہ کا طواف شروع کرنے سے پہلے حج کا احرام باندھ لے) اور ان چیزوں میں اللہ سے ڈرتے رہو جن کا تم کو حکم دیتے ہیں اور جن سے منع کرتے ہیں اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اس کا خلاف کرنے والے کو سخت سزا دینے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ، لا تُلْقُوْا، اِلْقَاءٌ (افعال) سے صیغہ نہی جمع مذکر حاضر، تم نہ ڈالو۔
سوال : اِلقَاءٌ متعدی بنفسہ ہے حالانکہ یہاں اِلیٰ کے ساتھ تعدیہ کیا گیا ہے۔ جواب : اِلْقَاء انتہاء کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا تعدیہ بالیٰ جائز ہے۔
قولہ : تَھْلُکَۃ، (ض) یہ خلاف قیاس نادر مصادر میں سے ہے، ہلاکت میں ڈالنا، قاموس میں لام مثلث کے ساتھ لکھا ہے اَلتَّھْلُکَۃُ چونکہ مصادر نادرہ میں سے ہے، اس لئے اَلْھَلَاک، مصدر مشہور ہے اس کی وضاحت کردی۔
قولہ : بِالطَّفْقَۃِ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے، اَحْسِنُوْا، تفضلُوا کے معنی میں ہے جو کہ متعدی بالباء ہوتا ہے۔
قولہ : بالنفقۃ، کو ماسبق سے مربوط کرنے کے لئے لایا گیا ہے اس لئے تَھْلُکَۃ، کی تفسیر اِمْسَاک عن النفقۃ سے کی ہے تو یہاں احسان کی تفسیر انفاق فی سبیل اللہ سے کرنا ہی مناسب ہے تاکہ دونوں میں ربط پیدا ہوجائے۔
قولہ : ای یُثِیْبُھُمْ ، یُحِبّ کی تفسیر یثیب سے تفسیر باللاّزم ہے اس لئے کہ حبٌ کے معنی میلان القلب کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں متصور نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ رحمت کی تفسیر احسان سے کرتے ہیں ورنہ تو رحمت کے معنی رقۃ القلب کے ہیں جو ذات باری میں متصور نہیں ہے۔ قولہ : اَدَّوْھُمَا، اس سے حج وعمرہ دونوں کے وجوب کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک دونوں واجب ہیں اور اگر لفظ اتمُّوْا، کا ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ شروع کرنے کے بعد ان کو پورا کرنا واجب ہے اس لئے کہ احناف کے نزدیک نفلی عبادت شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے۔
قولہ : بِعَدُوِّ یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے قول کے مطابق ہے اس لئے کہ ان حضرات کے یہاں احصار دشمن ہی کے ذریعہ صحیح ہے بخلاف احناف کے کہ دشمن کے علاوہ مرض وغیرہ سے بھی احصار درست ہے۔
قولہ : عَلَیْکم اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ فَمَا استَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ، جواب شرط ہے حالانکہ یہ جملہ تامہ نہیں ہے اور جواب شرط کے لئے جملہ ہونا شرط ہے۔ جواب : عَلَیْکم، محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مَا مبتداء کی خبر محذوف ہے تاکہ مبتداء اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر شرط کی جزاء واقع ہو سکے تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلَیْکُمْ مَا اسْتَیْسَرْتُمْ ۔
قولہ : فَفِدْیَۃٌ، فِدْیَۃ، مبتداء ہے اور عَلَیْہِ اس کی خبر محذوف ہے۔ قولہ : مِنْ صِیَام یہ محذوف سے متعلق ہو کر فدیۃٌ کی صفت ہے ای فِدْیَۃٌ من صیام۔
قولہ : باَنْ ذَھَبَ اَوْلَمْ یکن اس عبارت کے اضافہ کا مقصد، اَمِنْتُمْ کے دونوں معنی کی طرف اشارہ کرنا ہے أمِنْتُمْ ، یا تو اَمَنَۃٌ سے مشتق ہے اس کے معنی زوال خوف کے ہیں یا امَنٌ سے مشتق ہے اس کے معنی اَمَن یعنی ضد الخوف کے ہیں اگر اَمِنْتُمْ کو الْاَمَنَۃ، سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے فَاِذَا زَالَ عَنْکم خوف العدوّ ، تو اس صورت میں اس شخص کا حکم کہ جس کا احصار زائل ہوگیا ہو عبارۃ النص کے طور پر ثابت ہوگا اور اسی سے اس شخص کا حکم جو پہلے ہی سے مامون ہو دلالت النص کے طور سے مفہوم ہوگا، اور اگر أمِنْتُمْ ، اَلْاَمَن سے مشتق ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ جب تم امن و اطمینان میں ہو۔ (ترویح الارواح)
قولہ ؛ نُسُکٍ یہ نَسِیْک کی جمع ہے بمعنی قربانی، اور نُسُکٍ ، مصدر بھی ہے قربانی کرنا۔ قولہ : فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الھَدْیِ ، فاء رابطہ ہے جواب شرط کے لئے مَا، اسم موصولہ مبتداء اس کی خبر محذوف، ای فعلَیْہ مَا اسْتَیْسَرَ ، اِسْتَیْسَرَ صلہ، جملہ ہو کر جواب شرط۔
قولہ : بان لَمْ یکونوا علی مرحَلَتَیْنِ مِنَ الحرم عند الشافعی ( (رح) تعالیٰ ) اس عبارت کا مقصد متمتع پر وجوب قربانی اور عدم وجوب قربانی کی دونوں صورتوں کو بیان کرنا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متمتع اگر آفاقی ہو تو اس پر دم تمتع واجب ہے اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک آفاقی وہ ہے جو حرم سے کم از کم دو مرحلوں کی مسافت کا باشندہ ہو اور جو اس سے کم مسافت کا باشندہ ہو وہ ان کے نزدیک حضری ہے تو اس پر دم تمتع واجب نہیں ہے اور جب دم واجب نہیں تو اس کا نائب یعنی روزہ بھی واجب نہیں۔
قولہ : فی ذکر الأھل الخ اس عبات کا مقصد لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَمِ کی تشریح ہے مطلب یہ ہے کہ دم تمتع ساقط ہونے کیلئے مقیم شرعی ہونا ضروری ہے اگر کسی شخص نے قبل اشھر الحرم مکہ میں قیام تو کیا ہے مگر وطن نہیں بنایا یعنی پندرہ دن قیام کا ارادہ نہیں کیا تو اس شخص سے دم تمتع ساقط نہیں ہوگا، اس لئے کہ اقامت شرعی کی نیت کے بغیر وہ آفاقی ہی شمار ہوگا اور آفاقی پر دم تمتع واجب ہوتا ہے۔
تفسیر و تشریح
مالی ہنگامی ضرورت : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبیْلِ اللہِ ، اس آیت سے فقہاء نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی بعض حقوق مالیہ فرص ہیں مگر وہ ہنگامی (ایمرجنسی) اور قتی ضرورت کے لئے ہیں دائمی نہیں نہ ان کے لئے کوئی مقدار متعقین ہے بلکہ جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور جب ضرورت نہ ہو تو کچھ فرض نہیں، جہاد کا خرچ اسی ہنگامی ضرورت میں شامل ہے۔ ترک جہاد قومی ہلاکت ہے وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ، لفظی معنی تو ظاہر ہیں، کہ اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اب رہی یہ بات کہ ہلاکت میں نہ ڈالنے سے یہاں کیا مراد ہے اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں امام جصاص رازی (رح) تعالیٰ نے فرمایا ان میں کوئی تضاد نہیں سب ہی مراد ہوسکتے ہیں۔
حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے فرمایا : کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم اس کی تفسیر بخوبی جانتے ہیں، بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوت عطا فرما دی تو ہم میں یہ گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے ؟ ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال اور جائیداد کی خبر گیری کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ؟ جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترک جہاد ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ ترک جہاد مسلمانوں کی قومی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے اس لئے حضرت ابو ایوب (رض) انصاری نے اپنی پوری عمر جہاد میں صرف کردی، یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جہاد کرتے ہوئے ٥٢ ھ میں شہادت حاصل کی موصوف کی قبر آج بھی قسطنطنیہ میں زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کی قبر کے پاس ایک مسجد بھی تعمیر کردی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازب (رض) نے فرمایا : کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت و مغفرت سے مایوس ہوجانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچوں کے حقوق ضائع ہوجائیں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ایسا اسراف جائز نہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا : ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جب کہ یہ اندازہ ہو کہ ہم دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، خود ہلاک ہوجائیں گے ایسی صورت میں اقدام قتال اس آیت کی بناء پر منع ہے۔
وَاَحْسِنُوْآ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ، اس جملہ میں ہر کام کو اچھا کرنے کی ترغیب ہے اور کام کو اچھا کرنا جس کو قرآن میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے دو طرح سے ایک عبادت میں اور دوسرے معاملات و معاشرت میں، عبادت میں احسان کی تفسیر حدیث جبرئیل (علیہ السلام) میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ اس طرح عبادت کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ اعتقاد تو لازم ہی ہے کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اور معاملات و معاشرت میں احسان کی تفسیر مسند احمد میں بروایت حضرت معاذ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ تم سب لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جس چیز کو تم اپنے لئے ناپسند کرو دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرو۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد ہے کہ مال کو ان راستوں میں خرچ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں اور یہ بھلائی کے تمام راستے ہیں جیسے مساکین، قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنا اور ان لوگوں پر خرچ کرنا جن پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ان راستوں میں سب سے بڑا اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والا، فی سبیل اللہ یعنی جہاد کی راہ میں خرچ کرنا ہے، کیونکہ اس راہ میں خرچ کرنا جہاد بالمال کے زمرے میں آتا ہے اور مالی جہاد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح بدنی جہاد فرض ہے۔ مالی جہاد میں عظیم مصالح پنہاں ہیں۔ مالی جہاد سے اہل ایمان کو تقویت پہنچتی ہے، شرک اور اہل شرک کمزور ہوتے ہیں اور اقامت دین اور اس کی سربلندی میں مدد ملتی ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ کا درخت مالی اعانت کے تنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، جہاد کے لئے مالی اخراجات وہی حیثیت رکھتے ہیں جو بدن کے لیے روح، پس اس کے بغیر جہاد کا جاری رہنا ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے گریز درحقیقت جہاد کا ابطال، دشمنوں کا تسلط اور ان کی اسلام دشمنی میں اضافہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ﴾ ” اپنے ہاتھوں (جان) کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ اس حکم کی علت کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا دو امور کی طرف راجع ہے۔
(١) اس امر کو ترک کردینا جس کا حکم بندے کو دیا گیا جبکہ اس امر کو ترک کرنا بدن یا روح کی ہلاکت کا یا ہلاکت کے قریب کرنے کا موجب ہو۔
(٢) ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو بدن یا روح کی ہلاکت کا سبب ہو۔ اس کے تحت بہت سے امور آتےہیں:
(١) اللہ تعالیٰ کے راستے میں بدنی یا مالی جہاد ترک کرد ینا، جو دشمن کے تسلط کا باعث بنتا ہے۔
(٢) انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا، مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہوجانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے تحت آتے ہیں۔
(٣) توبہ سے مایوس ہو کر گناہوں پر قائم رہنا۔
(٤) ان فرائض کو ترک کرنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور جن کے ترک کرنے میں روح اور دین کی ہلاکت ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا احسان کی ایک قسم ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر احسان کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾” اور احسان کرو، یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“ اس آیت کے معنی میں ہر قسم کا احسان شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی صفت اور شرط وغیرہ سے مقید نہیں کیا۔ پس اس میں مالی احسان بھی شامل ہے۔ اپنے جاہ و منصب کی بنیاد پر (کسی حق دار کی) سفارش کرنے کا احسان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور علم نافع کی تعلیم بھی احسان میں داخل ہے۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی تکالیف کو دور کرنا، ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازوں کے ساتھ جانا، ان کے بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا، کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اور کسی ایسے شخص کے لئے کام کردینا جسے کام نہ آتا ہو۔ یہ تمام امور اس احسان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس احسان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت احسن طریقے سے کرنا بھی داخل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَراهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَراهُ فإنَّه يَراكَ﴾” احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تب وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘،[صحيح بخاري، الإيمان، باب سؤال جبريل......الخ، حديث: 50]
جو کوئی ان صفات سے متصف ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ﴾(یونس: 26؍10) ” جنہوں نے نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے (اور مزید برآں) اور بھی۔“ اللہ تعالیٰ کی معیت اسے حاصل رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اس کی راہنمائی کرتا ہے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
اور جب اللہ روزے اور جہاد کے احکام کا ذکر فرما چکا، تو اب حج کے احکام کا ذکر فرماتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah kay raastay mein maal kharch kero , aur apney aap ko khud apney haathon halakat mein naa daalo , aur naiki ikhtiyar kero . beyshak Allah naiki kernay walon say mohabbat kerta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حق جہاد کیا ہے ؟
حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے حضرت ابو ایوب (رض) نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو ! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا لڑائی ختم ہوگئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہوجانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے (ابوداود، ترمذی، نسائی وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب (رض) سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کردیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا ؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے آیت (فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 4 ۔ النسآء :84) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (ابن مردویہ وغیرہ) ترمذی کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چناچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے، حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہوجانا یہ ہلاک ہونا ہے اور حضرات مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہوجائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہوجانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مرجاؤ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں۔