البقرہ آية ۲۱۱
سَلْ بَنِىْۤ اِسْرَآءِيْلَ كَمْ اٰتَيْنٰهُمْ مِّنْ اٰيَةٍۢ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۤءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
طاہر القادری:
آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں عطا کی تھیں، اور جو شخص اﷲ کی نعمت کو اپنے پاس آجانے کے بعد بدل ڈالے تو بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے،
English Sahih:
Ask the Children of Israel how many a sign of evidence We have given them. And whoever exchanges the favor of Allah [for disbelief] after it has come to him – then indeed, Allah is severe in penalty.
1 Abul A'ala Maududi
بنی اسرائیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے اُنہیں دکھائی ہیں (اور پھر یہ بھی انہیں سے پوچھ لو کہ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اُسے اللہ کیسی سخت سزادیتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے کتنی روشن نشانیاں انہیں دیں اور جو اللہ کی آئی ہوئی نعمت کو بدل دے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،
3 Ahmed Ali
بنی اسرائیل سے پوچھیئے کہ ہم نے انہیں کتنی روشن دلیلیں دیں اور جو الله کی نعمت کو بدل دیتا ہے بعد اس کے کہ وہ اس کے پاس آ چکی ہو تو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں (١) اور جو شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) (٢) کہ اللہ تعالٰی بھی سخت عذابوں والا ہے۔
٢١١۔١ مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلوا کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالٰی کی قدرت اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔
٢١١۔٢ نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمد) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی نشانیاں دیں۔ اور جو شخص خدا کی نعمت کو اپنے پاس آنے کے بعد بدل دے تو خدا سخت عذاب کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وه جان لے) کہ اللہ تعالیٰ بھی سخت عذابوں واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) بنو اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو انبیاء کے ذریعے کس قدر کھلی ہوئی نشانیاں عنایت کیں اور جو (شخص و قوم) خدا کی نعمت کو اس کے پاس آجانے کے بعد بدل ڈالے (اسے برائی میں صرف کرے) تو خدا سخت عذاب والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ذرا بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے انہیں کس قدر نعمتیں عطا کی ہیں---- او رجو شخص بھی نعمتوں کے آجانے کے بعد انہیں تبدیل کردے گا وہ یاد رکھے کہ خدا کاعذاب بہت شدید ہوتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی نشانیاں دیں اور جو شخص خدا کی نعمت کو اپنے پاس آنے کے بعد بدل دے تو خدا سخت عذاب کرنے والا ہے
آیت نمبر ٢١١ تا ٢١٤
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل سے لا جواب کرنے کے لئے پوچھو تو، کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا کیں ! مثلاً دریا کا دولخت ہوجانا، اور مَنْ و سَلْوٰی کا نازل کرنا، مگر انہوں نے ان نشانیوں (نعمتوں) کا بدلہ ناشکری سے دیا کَمْ استفہامیہ ہے جو سَلْ ، کو مفعول ثانی (آتَیْنٰھُمْ ) میں عمل کرنے سے مانع ہے اور کَمْ آتَیْنَا کا مفعول ثانی ہے اور مُمَیّز ہے اور مِن آیَۃٍ اس کی تمیز ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بدلتا ہے کفر کے ساتھ یعنی ان نعمتوں کو جو اسے بطور انعام نشانیوں کی شکل میں عطا فرمائیں۔ (اور وہ آیات نعمت اس لئے ہیں) کہ وہ سبب ہدایت ہیں تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے کافروں یعنی اہل مکہ کے لئے دنیا کی زندگی کو آراستگی کے ساتھ جس کو انہوں نے محبوب سمجھ لیا ہے خوب مزین کردیا ہے اور یہ لوگ ایمان والوں کا ان کے فقر کی وجہ سے مذاق اڑاتے ہیں جیسا کہ عمار، اور بلال، اور صہیب، یعنی ان کا استہزاء کرتے ہیں ان پر مالی برتری جتاتے ہیں حالن کہ وہ لوگ جو شرک سے بچے اور وہ یہی (فقراء) ہیں قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہوں گے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے یعنی آخرت یا دنیا میں رزق وسیع عطا کرتا ہے اس طریقہ پر کہ جن لوگوں کا مذاق اڑایا گیا ان کو ان کے ماموں کا ان کی گردنوں کا مالک بنا دے گا (دراصل) لوگ ایمان والی ایک ہی امت تھے بعد میں مختلف ہوگئے اس طریقہ پر کہ بعض ایمان لائے اور بعض نے انکار کردیا، بعد اس کے کہ ان کے پاس توحید کی واضح دلیلیں آچکی تھیں اور من بعد کا تعلق اختلف سے ہے اور مِن، اور اس کا مابعد معنی کے اعتبار سے استثناء پر مقدم ہے اور یہ سب کچھ محض آپسی کفر وعناد کی وجہ سے کیا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی جس میں انہوں نے اختلاف کیا اپنی مشئیت سے رہبری کی اور اللہ جس کی ہدایت چاہتا ہے صراط مستقیم راہ حق کی ہدایت کرتا ہے اور اس مشقت کے بارے میں کہ جو مسلمانوں کو پہنچی (آئندہ) آیت نازل ہوئی، کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو حالات تم سے پہلے ایمان والوں پر آئے تھے، لہٰذا تم اسی طرح صبر کرو جس طرح انہوں نے کیا، ان کو شدید احتیاج پیش آئی اور مرض لاحق ہوئے، مَسَّتْھُمْ جملہ مستانفہ اپنے ماقبل کا بیان ہے مختلف قسم کی آزمائشوں سے ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ اس وقت کا رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے نصرت میں تاخیر اور ان پر انتہائی شدت کی وجہ سے کہہ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے (یقولُ ) نصب اور رفع کے ساتھ ہے، تو ان کو اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا ہے سنو اللہ کی نصرت کی آمد قریب ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سَلْ ، تو سوال کر، (ف) سے امر واحد مذکر حاضر سَلْ کی اصل اِسْئَلْ تھی ہمزہ ثانیہ کی حرکت نقل کرکے اپنے ماقبل سین کو دیدی اور ہمزہ کو تخفیفاً حذف کردیا، ہمزہ وصل چونکہ ضرورۃ لایا گیا تھا ضرورت نہ رہنے کی وجہ سے ساقط ہوگیا سَلْ ہوگیا خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے۔
قولہ : تبکیتًا (تفعیل) لاجواب کرنا، خاموش کرنا، شرمندہ کرنا اور یہ استفہام برائے توبیخ ہے نہ کہ استفہام برائے سوال۔
قولہ : مُعَلِّقَۃٌ لِسَلْ مِنَ المفعول الثانی، یعنی کَم، استفہامیہ سَلْ کو مفعول ثانی میں عمل کرنے سے مانع ہے اور خود قائم مقام مفعول ثانی کے ہے تاکہ اس کی صدارت کلام باقی رہے۔
سوال : سَلْ متعدی بیک مفعول ہے اس کو دوسرے مفعول کی ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر سَلْ کو مفعول ثانی میں عمل سے روکنے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : سوال چونکہ سبب علم ہوتا ہے اور عَلِمَ افعال قلوب میں سے ہونے کی وجہ سے متعدی بدو مفعول ہے چونکہ سوال سبب ہے علم کا اور علم اس کا مسبب ہے اور بعض اوقات سبب مسبب کے قائم مقام ہوتا ہے لہٰذا یہاں بھی سَئَلَ قائم مقام عَلِمَ کے ہونے کی وجہ سے متعدی بدو مفعول ہوگیا۔
ترکیب : سَلْ فعل امر ضمیر اَنْتَ اس کا فاعل بنی اسرائیل سَلْ کا مفعول اول ہے کَمْ استفہامیہ ممیز، ھُمْ اٰتَیْنَا، کا مفعول اول مِنْ آیَۃٍ تمیز کَمْ مُمیَّزْ اپنی تمیز سے مل کر اٰتینا، کا مفعول ثانی مقدم ہے اٰتَیْنا، اپنے فاعل اور دونوں مفعولوں سے مل کر جملہ ہو کر قائما ہوا سَلْ کے مفعول ثانی کا سَلْ اپنے فاعل اور مفعول اور قائم مقام مفعول سے مل کر جملہ انشائیہ ہوا۔
سوال : سَلْ ، دو مفعولوں کا تقاضہ کرتا ہے ایک ان میں سے مسئول عنہ ہوتا ہے اور دوسرا مسئول، یہاں مسئول بنی اسرائیل ہے، مسئول عنہ کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ مسئول عنہ کے بغیر سوال کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
جواب : جس طرح مفعول ثانی سے مسئول عنہ سمجھا جاتا ہے قائم مقام مفعول سے بھی مسئول عنہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا کَمْ اٰتَیْنَاھم جو کہ سَلْ کے مفعول ثانی کے قائم مقام ہے، سے بھی مسئول عنہ مفہوم ہو رہا ہے لہٰذا مسئول عنہ کو مستقلاً ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
قولہ : ومُمَیِّزُھَا مِنْ آیَۃٍ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : کم استفہامیہ کی تمیز پر مِنْ کا استعمال نہیں ہوتا اور نحو کی کتابوں میں کہیں مذکور نہیں۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ کم استفہامیہ کی تمیز پر مِن کا دخول اس وقت منع ہے کہ جب ممیز وتمیز کے درمیان فصل نہ ہو، لیکن اگر ممیز اور تمیز کے درمیان فعل متعدی کا فصل ہو جیسا کہ یہاں اٰتَیْنَا، کا فصل ہے، تو مِنْ کا لانا واجب ہے اور اس جواب کی وجہ مفعول اور تمیز کے درمیان فرق کرنا ہے، اگر تمیز پر مِنْ نہ ہوتا تو اس امر میں التباس ہوجاتا کہ آیۃٍ ، آتِیْنَا کا مفعول ہے، کم استفہامیہ کی تمیز ہے ؟
قولہ : لِانَّھَا سَبَبُ الھِدَایَہ، اس شبہ کا جواب ہے کہ آیات کو نعمت کیوں کہا گیا ہے ؟ جواب آیات چونکہ سبب ہدایت ہیں اور ہدایت سب سے بڑی نعمت ہے، سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے۔
قولہ : کُفْراً ، کُفْرًا، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ یُبَدِّلُ کا مفعول ثانی محذوف ہے۔ قولہ : شدید العقاب لَہٗ ۔
سوال : لہٗ کو مقدر ماننے کی کیا ضرورت ہے۔ جواب : مَنْ یُبدِّلْ نَعْمَۃَ اللہ، مبتداء ہے اور فاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ العِقَابِ جملہ ہو کر مبتداء کی خبر ہے حالانکہ خبر جب جملہ ہوتی ہے تو اس میں ایک عائد کا ہونا ضروری ہے، لَہٗ ، مقدر مان کر عائد محذوف کی طف اشارہ کردیا۔
قولہ : وَھُمْ یَسْخَرُوْنَ ۔ سوال : ھُمْ ، کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : واؤ حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ اور واؤ حالیہ کا جملہ اسمیہ ہونا ضروری ہے اسی لئے، ھُمْ کا اضافہ کیا ہے۔
سوال : واؤ کو عاطفہ ماننے میں کیا قباحت ہے اگر واؤ کو عاطفہ مان لیا جائے تو ھُمْ ، محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
جواب : واؤ کو عاطفہ ماننے کی صورت میں یَسْخر، مضارع کا زُیِّنَ ماضی پر عطف لازم آئے گا جو کہ کلام فصیح میں مستحسن نہیں ہے۔
قولہ : وَھَیَ وَمَا بَعْدَھَا مقدم عَلَی الاستثناء معنی، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک مشہور سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال : ایک حرف استثناء کے ذریعہ متعدد کا استثناء درست نہیں ہے، اور یہاں یہی صورت ہے اس لئے کہ : وَمَا اختُلِفَ فیہ مستثنیٰ منہ ہے اور اِلَّا الَّذِیْن اوتوہ مستثنیٰ اول ہے اور مِنْ بَعْدِ مَا جائَتْھُمْ مستثنیٰ ثانی ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت ہوگا جب مِن بعد الخ کو اُوْتُوْہُ ، کے متعلق کیا جائے جیسا کہ قریب ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے مگر مِن بعد کا تعلق اختلفَ سے ہے جس کی وجہ سے مِنْ بَعْدِ الخ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتوہ پر مقدم ہے لہٰذا، مِن بعد، مستثنیٰ میں نہیں بلکہ مستثنیٰ منہ میں داخل ہے اسی جواب کی طرف مفسر علام نے مِنْ بعدِ الخ متعلقۃ بِاُخْتلِف کہہ کر اشارہ کیا ہے۔
قولہ : معنیً ، اس لفظ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مِنْ بَعْدِ مَا جَاء تْھُمْ الخ لفظوں کے اعتبار سے اگرچہ مؤخر ہے مگر معنی کے اعتبار سے مقدم ہے۔ قولہ : بَغْیًا، یا تو مفعول یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : بَیْنَھُمْ ، بَغْیًا، کی صفت ہے یا حال ہے۔
قولہ : ای قال۔ سوال : مفسر علام نے یقول ، کی تفسیر قَالَ سے کی ہے اس کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اس کا مقصد یقول کی دونوں قراءتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے، اس لئے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب حتّٰی، کے بعد مستقبل بمعنی ماضی ہوتا ہے تو اس میں رفع ونصب دونوں جائز ہوتے ہے یہاں یہی صورت ہے اس لئے نافع (رح) تعالیٰ نے رفع اور دیگر حضرات نے نصب پڑھا ہے، حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ ، اصل میں قال الرسول ہے حکایت حال ماضیہ کے طور پر ماضی کو مضارع سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ” مَرضَ فلانٌ حتّٰی لا یَرجونَہٗ “ فلاں شخص بیمار ہوگیا اس کے بچنے کی امید نہیں ہے۔
قولہ : مَیتٰی یاتی نصر اللہ، متٰی، ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے اور خبر مقدم ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے اور نصر اللہ مبتداء مؤخر ہے مفسر علام نے یأتی، فعل محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ نصر اللہ فعل محذوف کا فاعل ہے۔
تفسیر و تشریح
سابقہ آیات میں فرمایا گیا تھا کہ دلائل واضحہ آجانے کے بعد حق کی مخالفت کرنا موجب سزا ہے سَلْ بَبِیْ اِسْرَآئِیْلَ (الآیۃ) اس آیت میں مذکورہ دعوے کی دلیل بیان فرمائی گئی ہے کہ جس طرح بعض بنی اسرائیل کو ایسی ہی مخالفت پر سزا دی گئی ہر مخالفت کرنے والے کو ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ آپ علماء بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے ان کو یعنی ان کے نزرگوں کو کتنی واضح دلیلیں دی تھیں مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ ان سے ہدایت حاصل کرتے الٹی گمراہی پر کمر باندھ لی مثلا تورات ملی، چاہیے تو یہ تھا کہ اس کو قبول کرتے، مگر انکار کیا آخر کوہ طور گرانے کی ان کو دھمکی دی گئی، اور مثلاً کوہ طور پر حق تعالیٰ کا کلام سنا، چاہیے تھا کہ سر آنکھوں پر رکھتے، مگر شبہات نکالے اور اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھنے کی ضد کی، آخر آسمانی بجلی کے ذریعہ ہلاک کر دئیے گئے اور مثلاً دریا میں شگاف ڈال کر فرعون سے نجات دی، احسان ماننے کے بجائے گائے کی پوجا شروع کردی، جس کی وجہ سے سزائے قتل دی گئی اور مثلاً مَنَّ وَسَلْویٰ نازل ہوا، شکر کرنا چاہیے تھا مگر ناشکری کی اور ذخیرہ کرنے لگے تو وہ سڑنے لگا اور جب اس سے نفرت ظاہر کی تو موقوف ہوگیا، اور مثلاً ان میں انبیاء (علیہم السلام) کا سلسلہ جاری کیا غنیمت سمجھتے، ان کو قتل کرنا شروع کردیا اس کی سزا یہ ملی کہ حکومت و سلطنت چھین کر ذلت و خواری مسلط کردی گئی۔ مِنْ آیَۃٍ بَیِّنَۃٍ کھلی ہوئی نشانیوں سے کیا مراد ہے ؟ بعض حضرات مفسرین نے کہا ہے آپ کی وہ صفات اور نشانیاں مراد ہیں جو انبیاء بنی اسرائیلی کو بتائی گئی تھیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ آیات تِسْع مراد ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی تھیں۔
نِعْمَۃَ اللہِ ، سے کیا مراد ہے ؟ طبری نے کہا کہ اسلام مراد ہے مگر ظاہر یہ ہے کہ ہر قسم کی نعمت مراد ہے خواہ دنیوی ہوں یا اخروی، روحانی ہوں یا جسمانی، ظاہری ہوں یا باطنی، خواہ ادنی ہوں یا اعلیٰ بہرحال تمام نعمتیں قابل قدر اور لائق شکر گزاری ہیں چہ جائیکہ بنی اسرائیل کو بڑی بڑی دنیوی و اخروی نعمتوں سے مدتوں سرفراز رکھا، اور کتاب و نبوت کی مشعل دے کر دنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا تھا، مگر انہوں نے دنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیا لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہوا ہے اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مل سکتا ہے تو وہ یہی قوم ہے اسی لئے اس قوم کی سرکشی اور تمرد کو بیان کرکے ان کے جیسے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔
نَعْمَۃَ اللہِ کی وسعت دینی اور دنیوی ہر قسم کی نعمتوں کو شامل ہے اور یہاں ہر قسم کی نعمت کو مسخ و تبدیل کرنے کے عذاب شدید کی وعید ہے، اب نعمت اگر دینی ہے مثلاًٍکتاب الہٰی یا ظہور انبیاء تو اس میں تحریک تا انکار پر عذاب اخروی کا وقوع ظاہر ہی ہے، لیکن نعمت اگر محض دنیوی ہے مثلٍاً دولت، صحت، سلطنت تو اس کے بےجا استعمال کا خمیازہ، بیماری، ناکامی، افلاس، بغاوت، انتشار، بدامنی، غلامی، ذلت وغیرہ کی شکل میں اٹھانا بھی مشاہدہ کی چیزیں ہیں۔
مذکورہ آیت آج کس قدر امت کے حسب حال اور کسی درجہ مطابق ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ کی عطا کی ہوئی ہر دینی و دنیوی نعمت کے ساتھ آج ہمارا کیا معاملہ ہے ؟ کس نعمت کا ہم حق ادا کر رہے ہیں ؟ کون سے نعمت ایسی ہے کہ جس کی روح ہم نے نہیں بدل ڈالی ؟ ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے حج، ہماری عبادتیں روح و مغز سے یکسر خالی محض ڈھانچے رہ گئے ہیں، اخلاق و اتحاد کی دولت ہم نے الگ برباد کر ڈالی نتیجہ جو نکلا سب کی آنکھوں کے سامنے ہے، ایران، پاکستان، ترکستان، عراق، انڈونیشا غرضیکہ تمام مسلم ممالک کا آج جو عبرت انگیز حشر ہو رہا ہے ان سب کی تہ میں بھی خدائی دینی و دنیوی نعمتوں کی ناقدری کو دخل ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍۢ بَیِّنَۃٍ ۭ﴾ ” بنی اسرائیل سے پوچھیں، کتنی ہی واضح نشانیاں ہم نے ان کو دیں؟“ ایسی آیتیں جو حق اور رسولوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں، انہوں نے ان آیات کو پہچان لیا اور ان کی حقانیت کا انہیں یقین بھی ہوگیا مگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر نہ بجا لائے جو اس نعمت کا تقاضا ہے، بلکہ انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو کفران نعمت سے بدل ڈالا۔ پس وہ اس بات کے مستحق بن گئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے اور ان کو اپنے ثواب سے محروم رکھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفران نعمت کو ” نعمت کی تبدیلی“ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کوئی دینی یا دنیاوی نعمت عطا کرتا ہے اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا اور اس کے واجبات کو ادا نہیں کرتا تو یہ نعمت اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے اور اس کے پاس سے چلی جاتی ہے اور کفر اور معاصی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح گویا کفر، نعمت کا بدل ہوگیا اور جو کوئی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو وہ نعمت نہ صرف ہمیشہ برقرار رہتی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس نعمت میں اضافہ کردیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bani Israel say poocho hum ney unn ko kitni sari khuli nishaniyan di then ! aur jiss shaks kay paas Allah ki naimat aa-chuki ho , phir woh uss ko badal daalay , to ( ussay yaad rakhna chahiye kay ) Allah ka azab bara sakht hai
12 Tafsir Ibn Kathir
احسان فراموش اسرائیل اور ترغیب صدقات
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہ ہاتھوں لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لئے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ جن سے میرا خود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر آرے رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے ؟ یہی خبر کفار و قریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابرہیم :28) کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے، بلکہ ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ حقیق نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آجائے گی۔ دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دے دے جسے چاہے بےحساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا، آپ نے حضرت بلال سے فرمایا راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو، قرآن میں ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ) 34 ۔ سبأ :39) تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا، صحیح حدیث میں ہے ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ و برباد کر۔ ایک اور حدیث میں ہے انسان کہتا رہتا میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہوچکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہوگیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لئے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو۔