البقرہ آية ۲۲۲
وَ يَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِۙ قُلْ هُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاۤءَ فِى الْمَحِيْضِۙ وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى يَطْهُرْنَۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ
طاہر القادری:
اور آپ سے حیض (ایامِ ماہواری) کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: وہ نجاست ہے، سو تم حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہا کرو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جایا کرو، اور جب وہ خوب پاک ہو جائیں تو جس راستے سے اﷲ نے تمہیں اجازت دی ہے ان کے پاس جایا کرو، بیشک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے،
English Sahih:
And they ask you about menstruation. Say, "It is harm, so keep away from wives during menstruation. And do not approach them until they are pure. And when they have purified themselves, then come to them from where Allah has ordained for you. Indeed, Allah loves those who are constantly repentant and loves those who purify themselves."
1 Abul A'ala Maududi
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں
2 Ahmed Raza Khan
اور تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہولیں پھر جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا، بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے سھتروں کو،
3 Ahmed Ali
اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو وہ نجاست ہے پس حیض میں عورتوں سے علیحدٰہ رہو اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو لیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نےتمہیں حکم دیا ہے بے شک الله توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اوربہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو (١) اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے (٢) اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
٢٢٢۔١ بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں جس کا حکم حیض سے مختلف ہے حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مردوں کے لئے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کر سکتی ہے۔
٢٢٢۔٢ جہاں سے اجازت ہے یعنی شرم گاہ سے۔ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ تو نجاست ہے۔ سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔ اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا تم ایامِ حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں اس وقت تک ان کے نزدیک نہ جاؤ۔ پھر جب وہ طہارت کر لیں تو جدھر سے خدا نے حکم دیا ہے ان کے پاس جاؤ۔ بے شک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور طہارت کرنے والوں کو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اے پیغمبر یہ لوگ تم سے ایاّم حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ حیض ایک اذیت اور تکلیف ہے لہذا اس زمانے میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ پھر جب پاک ہوجائیں تو جس طرح سے خدا نے حکم دیا ہے اس طرح ان کے پاس جاؤ. بہ تحقیق خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو وہ تو نجاست ہے سو ایام حیض میں عورتوں سے کنا رہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر ٢٢٢ تا ٢٢٥
ترجمہ : لوگ آپ سے حیض کے (حکم) کے بارے میں پوچھتے ہیں، یعنی حیض یا حائضہ کے بارے میں کہ اس حالت میں عورتوں سے (ازدواجی) تعلق کا کیا حکم ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ حیض گندگی ہے یا محل گندگی ہے، لہٰذا عورتوں کو حالت حیض میں یعنی وطی کو یا محل حیض کو چھوڑ دو اور جماع کے لئے ان کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک صاف ہوجائیں (یَطھرن) طاء کے سکون و تشدید کے ساتھ اور ھاء کی تشدید کے ساتھ ہے اور اس میں اصل میں تاء میں ادغام ہے یعنی حیض موقوف ہونے کے بعد غسل کرلیں، پھر جب پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جانے (وطی) کی اجازت ہے اس مقام میں جہاں سے اللہ نے تم کو حالت حیض میں وطی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور وہ قُبُلْ ہے اور قُبُلْ سے غیر قُبُل (دُبُر) کی طرف تجاوز نہ کرو اور اللہ تعالیی گناہوں سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے یعنی ان کو ثواب عطا کرتا ہے اور قدر دانی کرتا ہے اور گندگیوں سے پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی حصول ولد کے لئے تمہارے واسطے بمنزلہ کھیت کے ہیں، تو تم اپنے کھیت یعنی محل کاشت میں جس طرح چاہو آؤ کھڑے ہوکر، بیٹھ کر، لیٹ کر، اور آگے کی جانب سے یا پشت کی جانب سے، اور وہ محل زراعت قُبُل ہے (یہ آیت) یہود کے اس قول کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی کہ : جس شخص نے اپنی بیوی سے اس کے قبل میں پشت کی جانب سے وطی کی تو اس کے بھینگا بچہ پیدا ہوگا، اور اپنے لئے اعمال صالحہ آگے بھیجو (یعنی اپنے مستقبل کی فکر کرو) مثلاً بوقت بسم اللہ پڑھنا وغیرہ اور اللہ سے اس کے امر و نہی میں ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ تمہیں بعد از مرگ زندہ ہونے کے بعد اس سے ملنا ہے تو وہ تمہارے اعمال کی تم کو جزاء دے گا، اور (اے نبی) مومنوں کو جو اللہ سے درتے ہیں جنت کا مثردہ سنا دو اور تم اللہ (کے نام) کو اس کی قسم کھانے کے لئے ہدف نہ بناؤ کہ اس کی قسم کثرت سے کھاؤ کہ نیکی کے اور تقوے کے اور اصلاح بین الناس کے کام نہ کرو گے اور ایسی باتوں پر قسم کھانا مکروہ ہے، اور اس قسم کی قسموں کو توڑ دینا اور کفارہ ادا کردینا سنت ہے، اس کے برخلاف نیکی کرنے کی قسم کھانا طاعت ہے خلاصہ یہ کہ مذکورہ جسے نیک کاموں کے کرنے سے باز نہ رہو جب کہ تم نے اس کے (نہ کرنے کی) قسم کھائی ہو، بلکہ وہ کام کرلو اور (قسم کا) کفارہ ادا کردو، اس لئے کہ اس (آیت) کے نزول کا سبب نیک کام سے رک جانا تھا، اور اللہ تمہاری باتوں کو سننے والا اور تمہارے احوال کا جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری لغو (بےمقصد) قسموں پر مؤاخذہ نہ کرے گا، اور وہ ایسی قسمیں ہیں جو بلا ارادہ سبقت لسانی سے تم کھالیتے ہو، جیسے لَا وَاللہ، اور بلیٰ واللہ، تو ان میں نہ گناہ ہے اور نہ کفارہ، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر تم سے ضرور مؤاخذہ کرے گا، یعنی جن قسموں کو تم نے بامقصد کھایا ہے، جب تم حانث ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں کو معاف کرنے وال ہے اور مستحق سزا کی سزا کا مؤخر کرنے کی وجہ سے بردبار ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : المَحِیْض، ظرف زمان (وقت حیض) ظرف مکان (مقام حیض) مصدر (حیض آنا، یا بمعنی حیض، وہ فاسد خون جو مخصوص زمانہ اور مخصوص حالت میں جو ان تندرست غیر حاملہ عورت کے رحم سے نکلتا ہے) ۔ (لغات القرآن) ۔ المحیض ھو الحیض، وھو مصدرٌ، یقال حاضت المرأۃ حَیْضًا ومحیضًا فھی حَائِضٌ وحَائضۃٌ۔ (فتح القدیر شرکانی)
قولہ : الحیض اومکانہ، یہ محیض کی دو تفسیروں کی طرف اشارہ ہے، الحیض کہہ کر اشارہ کردیا کہ محیض مصدر میمی ہے، اسکے معنی ہیں سیلان الدم۔ قولہ : قذرٌ او محلہ، یہ اذًی کی دو تفسیریں ہیں اول تفسیر، محیض کی اول تفسیر کے اعتبار سے ہے اور ثانی، ثانی کے اعتبار سے، اس میں لف و نشر مرتب ہے۔ قولہ : بالجماع، اس میں اشارہ ہے کہ حالت حیض میں جماع ممنوع ہے نہ کہ مطلقاً قعبان و میل ملاپ۔
قولہ : یثیبُ ویکرمُ ، یہ یحبُّ کی تفسیر باللاّزم ہے، اسلئے کہ حُبّ ، کے معنی میلان القلب کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شایان شان نہیں ہیں
قولہ : وَاتَّقُوا اللہَ اس کا عطف فأتوا حَرثکُمْ پر ہے، اور یہ اشارہ عام بعد الخاص کے قبیل سے ہے۔ قولہ : بَشِّرْ ، اس کا عطف قُلْ ھُوَ اَذًی پر ہے۔ قولہ : الَّذِیْن اتقوہُ ، المؤمنین کو اَلَّذِین اتقوا، کی قید سے مقید کرکے ایک اشکال کو دفع کیا ہے۔
اشکال : یہ ہے کہ سابق سے خطاب مؤمنین کو چل رہا ہے تو یہاں بَشّرھم کہنا کافی تھا ضمیر کافی تھی اسم ظاہر لانے میں کیا مصلحت ہے
جواب : سابق میں مخاطب مطلق مومنین تھے اور یہاں مومنین متقین مراد ہے لہٰذا ثانی غیر سابق ہیں اسی لئے اسم ظاہر کی صراحت کرنے کو ضرورت پیش آئی۔
قولہ : عُرْضَۃً نشانہ، ہدف، آڑ، ہتھکنڈہ ” لَاتَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لاَیْمَانِکُمْ “ (اللہ کو اپنی قسموں کے لئے آڑ نہ بناؤ) اس صورت میں عُرضۃٌ کے معنی آڑ، یا بہانے کے ہیں دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مطلب نکالنے کے لئے بات بات پر قسمیں نہ کھاؤ، اس لئے کہ اس طریقہ پر اللہ کا باعزت نام تمہاری قسموں کا نشانہ بن جائے گا، اس تفسیر کی صورت میں، عُرضَۃ، کا ترجمہ، ہتھکنڈہ، نشانہ کے ہوں گے، مطلب یہ کہ آیت شریفہ میں دونوں مطلبوں کی گنجائش ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : نُصُبًا، یہ نَصَبٌ کی جمع ہے بمعنی منصوب، نصب کی ہوئی چیز، ہدف، نشانہ، ای المنصوب للرماۃ، تیر اندازوں کے لئے بطور نشانہ کسی چیز کو گاڑ دینا، کہا جاتا ہے جَعَلتُہٗ عُرضۃً للبیع، میں نے اس کو فروخت کے لئے پیش کیا۔
قولہ : لِأنَّ سبب نزولھا، یہ اَن لا تَبَرُّوا وتَتَّقُوْا، کے حاصل معنی کا بیان ہے بعض نے کہا ہے کہ لا، محذوف نہ ماننا بہتر ہے۔
قولہ : الکائن، اس میں اشارہ ہے کہ ظرف یعنی فی اَیْمَانِکم، الکائن مقدر کے متعلق ہو کر اللغو کی صفت ہے۔
قولہ : اِذَا حَنِثْتُمْ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا دفعیہ ہے۔
اعتراض : یہ ہے کہ قسم بالذات موجب للمؤاخذۃ نہیں ہے لہٰذا مطلقاً یمین پر مؤاخذہ کا حکم لگانے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک اگرچہ یمین ہی موجب کفارہ ہے مگر احناف کے نزدیک حانث ہونا موجب کفارہ ہے یعنی احناف کے نزدیک یمین موجب کفارہ نہیں ہے بلکہ حانث ہوجانا موجب کفارہ ہے۔
تفسیر و تشریح
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ، یہود کا یہ دستور تھا کہ عورت جب حائضہ ہوجاتی تھی تو اس کو گھر سے نکال دیتے تھے اور الگ کسی کونے یا گوشہ میں رہنے پر مجبور کرتے تھے اور اس کے ساتھ کھانا پینا بالکل بند کردیتے تھے، ہنود کا بھی یہی طریقہ تھا کہ حائضہ عورت کے برتن اور بستر الگ کردیتے تھے، غرضیکہ حالت حیض میں اس سے معاشرت بالکل منقطع کردی جاتی تھی، اس کو جانور سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا اس کے برخلاف نصاری کا یہ حال تھا کہ وہ حالت حیض میں بھی جماع کو جائز سمجھتے تھے، یہ دونوں جماعتیں افراط وتفریط میں مبتلا تھیں۔ ابوالدّ خدا ح اور بعض دیگر صحابہ (رض) کی ایک جماعت نے حالت حیض میں عورت سے جماع کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
قَدْ اخرجَ مسلم واھل المسنن وغیرھم عن انس أن الیھود کانوا اذا حاضت المرأۃ اخرجوھا من البیتِ ولم یواکلوھا ولم یشاربوھا ولم یجامعوھا فی البیوت، فسئل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن ذلک فانزل اللہ ” ویَسْئلونک عن المحیض “ (الآیۃ) فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جامعوھُنَّ فی البیوت واصنعوا کل شئ اِلا النکاح۔
مسلم اور اہل سنن وغیرہم نے حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہود کا یہ دستور تھا کہ جب عورت حائضہ ہوجاتی تھی تو اس کو گھر سے باہر کردیتے تھے اور اس کے ساتھ کھانا پینا بند کردیتے تھے اور اس کے ساتھ مجامعت ترک کردیتے تھے، غرضیکہ اس کے ساتھ بودوباش ختم کردیتے تھے، اور صحابہ نے حالت حیض میں عورت کے ساتھ معاشرت و مجامعت کے بارے میں سوال کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ جماع کے علاوہ کوئی چیز منع نہیں ہے، ہندوستان میں بھی چند صدیوں قبل تک یہی طریقہ رہا ہے بستر برتن وغیرہ سب الگ کر دئیے جاتے تھے، خصوصاً اونچی ذات سمجھے جانے والی قوموں میں زمانہ قریب تک یہی صورت حال رہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور بہت سے معاملات ان کے طور و طریقے یہود کے طور و طریقوں کے مطابق رہے ہیں، مال کی حرص، موت کا خوف، اپنے سے نیچے سمجھے جانے والی قوموں کو مذہبی کتابیں پڑھنے کا حق نہ ہونا، قلت تعداد کے باوجود اقتدار پر قابض رہنا، سود کو محبوب ترین ذریعہ آمدنی سمجھنا اور خود کو ہی اقتدار کا مستحق سمجھنا ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہنود کا نسلی تعلق یہود ہی سے ہے۔
قرآن مجید نے حالت حیض میں جماع کے مسئلہ کو استعارہ کے طور پر بیان کیا ہے جیسا کہ قرآن کی عادت ہے کہ اس قسم کے مسائل استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے، اسی کو ” ولا تقربوھن “ سے بیان کیا ہے، یعنی ان سے الگ رہو ان کے قریب نہ جاؤ کے الفاظ استعمال کئے ہیں، مگر ان کا مطلب یہ نہیں کہ حائضہ عورت کے ساتھ بستر پر بیٹھنے یا ایک جگہ کھانے پینے سے بھی احتراز کیا جائے اور بالکل اچھوت بنا کر رکھ دیا جائے جیسا کہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی توضیح فرما دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت حیض میں صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے، باقی تمام تعلقات بدستور برقرار رکھے جائیں
یہود اور بعض دیگر قوموں کا اس معاملہ میں تشدد : بعض قوموں میں عورتیں اپنے حیض کے زمانہ میں نہ دوسروں کے ساتھ کچھ کھاپی سکتی ہیں نہ لیٹ بیٹھ سکتی ہیں، بعض قوموں میں اس زمانہ میں عورت کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا ناپاک سمجھا جاتا ہے، اور بعض مشرک قوموں میں یہ دستور ہے کہ اس زمانہ میں عورت کو میلے کچیلے کپڑے پہنا کر گھر کے ایک گوشہ میں اچھوت بنا کر بٹھا دیا جاتا ہے، غرضیکہ دوسری قوموں نے عام طور پر اس طبعی ناپاکی سے متعلق بہت مبالغہ آمیز تخیل قائم کرلیا ہے، شریعت اسلامی میں اس قسم کے کوئی امتناعی احکام موجود نہیں ہیں۔
حالت حیض میں توریت کا قانون : مشرک قوموں نے اس بات میں جو سختیاں روا رکھی ہیں ان سے قطع نظر خود محرف تورات کے قانون کا تشدد بھی اس باب میں اپنی مثال ہے، عورت ایام ماہواری کے زمانہ میں خود ہی ناپاک نہیں ہوتی بلکہ جو شخص یا جو چیز بھی اس سے چھو جاتی ہے وہ بھی ناپاک ہوجاتی ہے اور سلسلہ در سلسلہ یہ ناپاکی متعدی ہوتی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں۔ جو کوئی اسے چھوئے گا شام تک نجس رہے گا، اور جو کوئی اس کے بستر کو چھوئے وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک ہے اور جو کوئی اس چیز کو جس پر وہ بیٹھی ہے چھوئے، اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے نہائے اور شام تک ناپاک رہے، اگر مرد اس کے ساتھ سوتا ہے اور اس کی نجاست اس پر ہے تو وہ رات دن ناپاک رہے گا اور ہر ایک بستر جس پر مرد سوئے گا ناپاک ہوجائے گا۔ (احبار : ٢٤، ١٩، ١٥) (ماجدی)
مسئلہ : اگر حیض پورے دس دن گزرنے پر موقوف ہو تو بغیر غسل کئے بھی صحبت درست ہے۔
مسئلہ : اگر دس دن سے پہلے حیض موقوف ہوجائے مگر عادت کے موافق موقوف ہوتا صحبت جب درست ہوتی ہے کہ عورت یا تو غسل کرے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے، اور اگر دس دن سے پہلے موقوف ہو اور ابھی عادت کے دن پورے نہیں ہوئے مثلاً سات دن کی عادت تھی اور حیض چھ ہی دن میں موقوف ہوگیا تو ایام عادت کے گزرے بغیر صحبت درست نہیں ہے۔
مسئلہ : اگر غلبہ شہوت سے حالت حیض میں صحبت ہوگئی تو خوب توبہ و استغفار کرنا واجب ہے اور اگر کچھ صدقہ و خیرات بھی کر دے تو بہتر ہے۔
مسئلہ : پیچھے کے راستہ میں اپنی بیوی سے بھی صحبت حرام ہے بعض شیعہ حضرات اپنی بیوی سے وطی فی الدبر کو جائز ٹھہراتے ہیں جو بالکل غلط ہے اور اَنّٰی شئتُمْ میں انّٰی بمعنی اَیْنَ لے کر استدلال کرتے ہیں حالانکہ حَرثَکُمْ ، اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں اَنّٰی بمعنی کَیْفَ ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ حیض کے بارے میں اہل ایمان کے اس سوال سے آگاہ فرماتا ہے کہ آیا ایام حیض کے شروع ہونے کے بعد عورت سے اسی طرح اختلاط رکھا جائے جس طرح ایام حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض ایک نجاست ہے۔ جب حیض ایک نجاست ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نجاست سے روک کر اس کی حدود مقرر کر دے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾” پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔“ یعنی مقام حیض سے دور رہو اور اس سے مراد شرم گاہ میں مجامعت ہے اور اس مجامعت کے حرام ہنے پر اجماع ہے اور حیض کے دوران مجامعت سے دور رہنے کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شرم گاہ میں مجامعت کے سوا عورت کے ساتھ اختلاط اور اس کو ہاتھ سے چھونا جائز ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿َلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرنا۔“ عورت کے ساتھ ایسے اختلاط کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو فرج کے قریب یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان ہو۔ اس قسم کے اختلاط کو ترک کردینا چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی کسی بیوی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے ازار پہننے کا حکم دیتے ت
ب اس کے ساتھ اختلاط کرتے۔
[صحيح بخاري، الحيض، باب مباشرة الحائض، حديث: 302]
اور بیوی سے دور رہنے اور حیض کی وجہ سے قریب نہ جانے کی حد ﴿حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں“ مقرر فرمائی ہے۔ یعنی جب حیض کا خون منقطع ہوجائے تو وہ مانع زائل ہوجاتا ہے جو جریان حیض کے وقت موجود تھا۔ اس کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ (١)خون کا منقطع ہونا۔ (٢) خون کے منقطع ہونے کے بعد غسل کرنا۔ جب خون منقطع ہوجاتا ہے تو پہلی شرط زائل ہوجاتی ہے اور دوسری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَاِذَا تَطَہَّرْنَ﴾” پس جب وہ (حیض سے) پاک ہوجائیں“ یعنی غسل کرلیں ﴿ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ۭ﴾” پس تم آؤ ان عورتوں کو، جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے“ قبل یعنی سامنے سے جماع کرو اور دبر سے اجتناب کرو۔ کیونکہ قبل (شرم گاہ) ہی کھیتی کا محل و مقام ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ عورت پر غسل فرض ہے اور غسل کی صحت کے لئے خون کا منقطع ہونا شرط ہے اور چونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور نجاستوں سے ان کی حفاظت ہے اس لئے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ﴾” اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ﴿’ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ آیت کریمہ حدث اور نجاست سے حسی طہارت کو شامل ہے۔ پس اس آیت سے طہارت کی مطلق مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو طہارت کی صفت سے متصف ہو۔ اس لئے مطلق طہارت صحت نماز، صحت طواف اور مصحف شریف کو چھونے کے لئے شرط ہے۔ یہ آیت کریمہ معنوی طہارت یعنی اخلاق رذیلہ، صفات قبیحہ اور افعال خسیسہ جیسی معنوی نجاستوں سے طہارت کو بھی شامل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur log aap say haiz kay baaray mein poochtay hain . aap keh dijiye kay woh gandagi hai lehaza haiz ki halat mein aurton say alag raho , aur jab tak woh pak naa hojayen unn say qurbat ( yani jamaa ) naa kero . haan jab woh pak hojayen to unn kay paas ussi tareeqay say jao jiss tarah Allah ney tumhen hukum diya hai . beyshak Allah unn logon say mohabbat kerta hai jo uss ki taraf kasrat say rujoo keren aur unn say mohabbat kerta hai jo khoob pak saaf rahen .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایام حیض اور جماع سے متعلقہ مسائل :
حضرت انس فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہوگیا یہاں تک کہ اور صحابہ نے خیال کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر ناراض ہوگئے۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا۔ (مسلم) پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لئے کہ اور سب حلال ہے۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے، احادیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہمند باندھے ہوئے ہوتی تھیں (ابو داؤد) حضرت عمارہ کی پھوپھی صاحبہ حضرت عائشہ صدیقہ سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے ؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تشریف لائے، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہوگئے، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آگئی، آپ کو جاڑا لگنے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ، میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو حیض سے ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے، میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیند آگئی۔ حضرت مسروق ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علی اھلہ حضرت عائشہ نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی، آپ نے کہا ام المومنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے، جو پوچھنا ہو پوچھ، کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے ؟ فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے۔ (ابن جریر) اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت ام المومنین کا یہ قول مروی ہے، حضرت ابن عباس مجاہد حسن اور عکرمہ کا فتویٰ بھی یہی ہے، مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے میں حیض سے ہوتی تھی، میں ہڈی چوستی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی، ابو داؤد میں روایت ہے کہ میرے حیض کے شروع دنوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کپڑا کہیں سے خراب ہوجاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے۔ ہاں ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آجاتی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہوجاؤں۔ تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے، حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں (بخاری) اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل (ابوداؤد وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔ حضرت عائشہ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت شریح کا مذہب بھی یہی ہے۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لئے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے۔ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چناچہ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے۔ ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار۔ مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار، دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے۔ امام شافعی کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔ جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے۔ یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہوجائے پھر نزدیکی حلال ہے۔ حضرت امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے۔ حضرت میمونہ اور حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر میں سوتی، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس زندگی سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے۔ اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہوجانے کے بعد ان کے پاس آؤ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کرلینے کے بعد ان سے جماع کرو۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے، اس کی دلیل آیت (فائتوھن) ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں، علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم کا جواب بہت گراں ہے، بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہوچکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر " حکم " ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیتی تھی ویسی ہی اب ہوجائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا، جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ) 9 ۔ التوبہ :5) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو۔ اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت (ۭوَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا) 5 ۔ المائدہ :2) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو، اور جگہ ہے آیت (فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 62 ۔ الجمعہ :10) یعنی جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ۔ ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کردیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں۔ غزالی وغیرہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے۔ یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رک جائے، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کرلے، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کرلے۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آسکتا ہے۔ ہاں امام ابوحنیفہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہوگیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے، گو اس نے غسل نہ کیا ہو، واللہ اعلم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ (یطھرون) کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور (تطھرون) سے مراد غسل کرنا ہے۔ حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت مقاتل بن حیات، حضرت لیث بن سعد وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں، پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد وغیرہ بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے، اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ صحابہ اور تابعین سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لئے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے۔ اس کا مفصل بیان بھی آتا ہے انشاء اللہ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں اس لئے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔