پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے،
English Sahih:
And if he has divorced her [for the third time], then she is not lawful to him afterward until [after] she marries a husband other than him. And if he [i.e., the latter husband] divorces her [or dies], there is no blame upon them [i.e., the woman and her former husband] for returning to each other if they think that they can keep [within] the limits of Allah. These are the limits of Allah, which He makes clear to a people who know [i.e.,understand].
1 Abul A'ala Maududi
پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنہیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے،
3 Ahmed Ali
پھر اگر اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں رجوع کر لیں اگر ان کا گمان غالب ہو کہ وہ الله کی حدیں قائم سکیں گے اور یہ الله کی حدیں ہیں وہ انہیں کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، (١) بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالٰی کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔
اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کر لے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی۔ ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اورعورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وه بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناه نہیں بشرطیکہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وه جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔
7 Muhammad Hussain Najafi
اب اگر (تیسری بار) طلاق (بائن) دے تو اس کے بعد (یہ عورت) اس مرد کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرے۔ اب جب کہ وہ (دوسرا شوہر) اسے طلاق دے دے اور ان دونوں سابقہ میاں بیوی کا خیال ہو کہ وہ حدودِ الٰہیہ کو برقرار رکھ سکیں گے تو ان کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں (دوبارہ) شادی کر لیں۔ یہ خدا کی مقرر کردہ حدیں ہیں جنہیں وہ صاحبانِ علم کے لئے واضح طور پر بیان کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کرلیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہٰیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہٰیہ ہیں جنہیں خدا صاحبانِ علم واطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کررہا ہے
9 Tafsir Jalalayn
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ (الآیۃ) اگر مرد نے تیسری طلاق دیدی تو اب نکاح جدید سے بھی حلال نہ ہوگی جب تک کہ دوسرے مرد سے وطی حلال نہ کرے، حلالہ کے بعد اگر یہ خیال کریں کہ آئندہ حقوق اللہ کی حفاظت کریں گے تو ان کے لئے نکاح جائز ہے، اِنْ ظنّا شرط نکاح نہیں ہے شرط اولویت ہے۔ مسئلہ : جب تک شوہر ثانی مباشرت نہ کرے عورت شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی، اور یہ قید خود قرآن سے مفہوم ہوتی ہے حَتّٰی تَنْکِحَ رَوْجًا غَیْرَہٗ ، نکاح کے لغوی معنی وطی کے ہیں اور نکاح عرفی زوجًا غیرہ سے مفہوم ہے ورنہ تو شوہر سے عقد نکاح کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ امرأۃ رفاعہ کی حدیث مشہور ہے جس سے کتاب اللہ پر زیادتی درست ہے امرّۃ رفاعہ کا واقعہ معروف ہے۔ مسئلہ : تحلیل کے لئے نفس جماع کافی ہے حالت حیض میں ہو یا طہر میں، انزال ہونا نہ ہو، زوج مراہق ہو یا بالغ۔ مسئلہ : اس شرط پر نکاح کرنا کہ وطی کے بعد طلاق دیدی جائے گی، تاکہ زوج اول پر عورت حلال ہوجائے، گناہ ہے، ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ لَعَنَ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المحلل والمحلل لہٗ حلال کرنے اور کرانے والے دونوں پر آپ نے لعنت فرمائی، احناف کے نزدیک نکاح جائز اور گناہ لازم ہوگا، اور شوافع کے نزدیک ایسا نکاح درست ہی نہ ہوگا۔ (خلاصۃ التفاسیر) وَلَا تَتَّخِذْوْآ آیٰتِ اللہِ ھُزُوًا، اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو دل لگی اور ٹھٹھا نہ بناؤ، خوب سوچ سمجھ کر عمل کیا کرو اور اللہ کی نعمتوں کو نہ بھولو، اور کتاب و حکمت پر نازل کی گئی ہے یہ بہت عظیم نعمتیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ تم کو نصیحت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی ہزار ہا نعمتیں ہیں خود ہدایت اور قرآن اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود محمود اپنی جگہ عظیم نعمتیں ہیں اور عورتوں کو حلال کردینا بھی بذات خود نعمت ہے حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ ” الدنیا حسنۃ “ سے عورت صالحہ مراد ہے، عبد اللہ بن عمر نے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خیر مَتَاع الدنیا اَلْمَرأۃ الصالحۃ “۔ فائدہ : آیات کا تمسخر دو طریقہ سے ہوتا ہے (اول) صراحۃً (دوم) ایسی بات کرنا جس سے احکام الہیٰ سے بےپرواہی اور اس کی کم وقعتی یا بےوقعتی ظاہر ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ فَاِنْ طَلَّقَھَا ﴾” پھر اگر (تیسری) طلاق دے دے۔“ : ﴿ فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۭ ﴾” تو اب اس کے لئے حلال نہیں وہ عورت اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔“ یعنی وہ عورت دوسرے خاوند سے صحیح نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری بھی کرے، اس لئے کہ اہل علم کے اجماع کے مطابق نکاح شرع اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں عقد اور مجامعت نہ ہو۔ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ نکاح ثانی رغبت سے کیا گیا ہو۔ اگر یہ نکاح پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے کی نیت سے کیا گیا ہو تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور نہ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہی ہوگی نہ اس سے اس کی ہم بستری ہی مفید ہے، کیونکہ وہ اس کا خاوند ہی نہیں ہے۔ اگر اس مطلقہ سے کوئی دوسرا شخص نکاح کرلیتا ہے اور اس سے جماع بھی کرتا ہے پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور اس مطلقہ کی عدت پوری ہوجاتی ہے : ﴿ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَآ﴾ ” تو نہیں ہے گناہ ان دونوں پر“ یعنی پہلے خاوند اور اس بیوی پر : ﴿ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ ﴾” یہ کہ وہ دونوں رجوع کرلیں“ یعنی وہ ایک دوسرے سے رجوع کر کے اپنے نکاح کی تجدید کرلیں یہ آیت باہمی رضا مندی پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ تراجع کی اضافت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ مگر ان کے آپس کے رجوع میں یہ یقین شرط ہے ﴿ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ﴾” کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے“ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور وہ اس طرح کہ دونوں اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہوں جن کی وجہ سے ان میں جدائی پیدا ہوئی اور یہ عزم کریں کہ وہ اپنے ان رویوں کو بدل کر اچھی معاشرت اختیار کریں گے۔ تب ان کے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ ان کو گمان غالب ہے کہ ان کے گزشتہ رویئے باقی رہیں گے اور ان کی بری معاشرت زائل نہیں ہوگی، تو پھر ان پر گناہ ہوگا، اس لئے کہ تمام معاملات میں اگر وہ اللہ کے حکم کو قائم نہیں کریں گے اور اس کی اطاعت کے راستے پر نہیں چلیں گے، تو ان کے لئے (دوبارہ باہم نکاح کرنے کا) یہ اقدام جائز ہی نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، خاص طور پر چھوٹے یا بڑے عہدے کو قبول کرتے وقت، تو اسے اپنے آپ میں غور کرنا چاہئے۔ اگر اسے ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کا پورا یقین ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو قبول کرلینا چاہئے ورنہ پیچھے ہٹ جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے احکام کو بیان فرمایا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ۭ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ کی حدیں ہیں“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے شرائع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور ان کو واضح کیا﴿ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ ” وہ اسے جاننے والے لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے“ کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پھر دوسروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی جس فضیلت کا بیان ہے، وہ مخفی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود کی توضیح و تبیین کو ان کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس آیت میں وہی لوگ مقصود اور مراد ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ ان حدود کی معرفت اور ان میں تفقہ حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir agar shohar ( teesri ) talaq deydey to woh ( mutlaqa aurat ) uss kay liye uss waqt tak halal nahi hogi jab tak woh kissi aur shohar say nikah naa keray , haan agar woh ( doosra shohar bhi ) ussay talaq deydey to unn dono per koi gunah nahi kay woh aik doosray kay paas ( naya nikah ker kay ) dobara wapis aajayen , ba-shartey-kay unhen yeh ghalib gumaan ho kay abb woh Allah ki hudood qaeem rakhen gay . aur yeh sabb Allah ki hudood hain jo woh unn logon kay liye wazeh ker raha hai jo samajh rakhtay hon .
12 Tafsir Ibn Kathir
پھر ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے کے بعد تیسری بھی دے دے تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح ہو، ہم بستری ہو، پھر وہ مرجائے یا طلاق دے دے۔ پس اگر نکاح کے مثلاً لونڈی بنا کر وطی بھی کرلے تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح گو نکاح باقاعدہ ہو لیکن اس دوسرے خاوند نے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں۔ اکثر فقہاء میں مشہور ہے کہ حضرت سعید بن مسیب مجرم (صرف) و عقد کے حلال کہتے ہیں گو میل نہ ہوا ہو، لیکن یہ بات ان سے ثابت نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے، تو کیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں، جب تک کہ یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں (مسند احمد ابن ماجہ وغیرہ) اس روایت کے راوی حضرت ابن عمر سے خود امام بن مسیب ہیں، پس کیسے ممکن ہے کہ وہ روایت بھی کریں اور پھر مخالفت بھی کریں اور پھر وہ بھی بلادلیل۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ عورت رخصت ہو کر جاتی ہے، ایک مکان میں میاں بیوی جاتے ہیں، پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن آپس میں صحبت نہیں ہوتی، جب بھی یہی حکم ہے۔ خود آپ کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوا، آپ سے پوچھا گیا مگر آپ نے پہلے خاوند کی اجازت نہ دی (بخاری مسلم) ایک روایت میں ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی صاحب تمیمہ بنت وہب کو جب انہوں نے آخری تیسری طلاق دے دی تو ان کا نکاح حضرت عبدالرحمن بن زیبر سے ہوا لیکن یہ شکایت لے کر دربار رسالت مآب میں آئیں اور کہا وہ عورت کے مطلب کے نہیں، مجھے اجازت ہو کہ میں اگلے خاوند کے گھر چلی جاؤں۔ آپ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمہاری کسی اور خاوند سے مجامعت نہ ہو، ان احادیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہیں (فصل) یہ یاد رہے کہ مقصود دوسرے خاوند سے یہ ہے کہ خود اسے رغبت ہو اور ہمیشہ بیوی بنا کر رکھنے کا خواہش مند ہو، کیونکہ نکاح سے مقصود یہی ہے، یہ نہیں کہ اگلے خاوند کیلئے محض حلال ہوجائے اور بس، بلکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرط ہے کہ یہ مجامعت بھی مباح اور جائز طریق پر ہو مثلاً عورت روزے سے نہ ہو، احرام کی حالت میں نہ ہو، اعتکاف کی حالت میں نہ ہو، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو، اسی طرح خاوند بھی روزے سے نہ ہو، محرم یا معتکف نہ ہو، اگر طرفین میں سے کسی کی یہ حالت ہو اور پھر چاہے وطی بھی ہوجائے پھر بھی پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر دوسرا خاوند ذمی ہو تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہ ہوگی کیونکہ امام صاحب کے نزدیک کفار کے آپس کے نکاح باطل ہیں۔ امام حسن بصری تو یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ انزال بھی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کہ وہ تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھے، اور اگر یہی حدیث ان کے پیش نظر ہوجائے تو چاہئے کہ عورت کی طرف سے یہ بھی یہ شرط معتبر ہو لیکن حدیث کے لفظ عسیلہ سے منی مراد نہیں، یہ یاد رہے، کیونکہ مسند احمد اور نسائی میں حدیث ہے کہ " عسیلہ " سے مراد جماع ہے۔ اگر دوسرے خاوند کا ارادہ اس سے نکاح سے یہ ہے کہ یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے تو ایسے لوگوں کی مذمت بلکہ ملعون ہونے کی تصریح احادیث میں آچکی ہے، مسند احمد میں ہے گودنے والی، گدوانے والی، بال ملانے والی، ملوانے والی عورتیں ملعون، حلال کرنے والی اور جس کیلئے حلالہ کیا جاتا ہے ان پر بھی اللہ کی پھٹکار ہے۔ سود خور اور سود کھلانے والے بھی لعنتی ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں صحابہ کا عمل اسی پر ہے۔ عمر، عثمان اور ابن عمر کا یہی مذہب تابعین فقہاء بھی یہی کہتے ہیں، علی ابن مسعود اور ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے اور روایت میں ہے کہ بیاج کی گواہی دینے والوں اور اس کے لکھنے پر بھی لعنت ہے۔ زکوٰۃ کے نہ دینے والوں اور لینے میں زیادتی کرنے والوں پر بھی لعنت ہے، ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی بننے والے پر بھی پھٹکار ہے نوحہ کرنا بھی ممنوع ہے، ایک حدیث میں ہے میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ادھار لیا ہوا سانڈ کون سا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ فرمایا جو " حلالہ کرے " یعنی طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو اپنے لئے ایسا کرائے وہ بھی ملعون ہے (ابن ماجہ) ایک روایت میں ہے کہ ایسے نکاح کی بابت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ نکاح ہی نہیں جس میں مقصود اور ہو اور ظاہر اور ہو، جس میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق اور ہنسی ہو، نکاح صرف وہی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو، مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی، اس کے بعد اس کے بھائی نے بغیر اپنے بھائی کے کہے ازخود اس سے اس ارادے سے نکاح کرلیا کہ یہ میرے بھائی کیلئے حلال ہوجائے، تو آیا نہ نکاح صحیح ہوگیا۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں، ہم تو اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے۔ نکاح وہی ہے جس میں رغبت ہو، اس حدیث کے پچھے جملے نے گو اسے موقوف سے حکم میں مرفوع کردیا، بلکہ ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے ایسے نکاح میں تفریق کردی، اسی طرح حضرت علی اور حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے صحابہ کرام سے بھی یہی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ اگر دوسرا خاوند نکاح اور وطی کے بعد طلاق دے تو پہلے خاوند پر پھر اسی عورت سے نکاح کرلینے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ یہ اچھی طرح گزر اوقات کرلیں اور یہ بھی جان لیں کہ وہ دوسرا نکاح صرف دھوکہ اور مکروفریب کا نہ تھا بلکہ حقیقت تھی۔ یہ ہیں احکام شرعی جنہیں علم والوں کیلئے اللہ نے واضح کردیا، آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو یا ایک طلاق دے دی، پھر چھوڑے رہا یہاں تک کہ وہ عدت سے نکل گئی، پھر اس نے دوسرے سے گھر بسا لیا، اس سے ہم بستری بھی ہوئی، پھر اس نے بھی طلاق دے دی اور اس کی عدت ختم ہوچکی، پھر اگلے خاوند نے اس سے نکاح کرلی تو اسے تین میں سے جو طلاقیں یعنی ایک یا دو جو باقی ہیں صرف انہی کا اختیار رہے گا یا پہلے کی طرح طلاقیں گنتی سے ساقط ہوجائیں گی اور اسے از سر نو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہوجائے گا، پہلا مذہب تو ہے امام مالک امام شافعی اور امام احمد کا اور صحابہ کی ایک جماعت کا، دوسرا مذہب ہے امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اس طرح تیسری طلاق ہو، گنتی میں نہیں آئی تو پہلی دوسری کیا آئے گی، واللہ اعلم۔