البقرہ آية ۲۴۳
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِۖ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْاۗ ثُمَّ اَحْيَاھُمْۗ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰـكِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْکُرُوْنَ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے، تو اﷲ نے انہیں حکم دیا: مر جاؤ (سو وہ مرگئے)، پھر انہیں زندہ فرما دیا، بیشک اﷲ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے،
English Sahih:
Have you not considered those who left their homes in many thousands, fearing death? Allah said to them, "Die"; then He restored them to life. And Allah is the possessor of bounty for the people, but most of the people do not show gratitude.
1 Abul A'ala Maududi
تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں
3 Ahmed Ali
کیا تم نے ان لوگو ں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالٰی نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا (١) بیشک اللہ تعالٰی لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
٢٤٣۔١ یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالٰی نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالٰی نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جا سکتے دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالٰی ہی کی ذات ہے تیسرا یہ کہ اللہ تعالٰی دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کر دیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز وفرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے۔ تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ۔ پھر ان کو زندہ بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زنده کردیا بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل واﻻ ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ خدا نے ان سے کہا: مر جاؤ (پس وہ سب کے سب مر گئے) پھر انہیں زندہ کیا۔ بے شک خدا لوگوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میںاپنے گھروں سے نکل پڑے موت کے خوف سے اور خدا نے انہیںموت کا حکم دے دیا اور پھر زندہ کردیا کہ خدا لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکریہ نہیں ادا کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ بھی کردیا کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
آیت نمبر ٢٤٣ تا ٢٤٨
ترجمہ : کیا تم کو ان کے بارے میں معلوم نہیں استفہام تعجب دلانے اور مابعد کو سننے کا شوق دلانے کے لئے ہے یعنی تم کو اس کا علم نہیں ہے جو ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، ان کی تعداد چار ہزار، یا آٹھ ہزار، یا بارہ ہزار یا تیس ہزار یا چالیس ہزار یا ستر ہزار تھی، (حَذَرَ الْمَوْتِ ) خَرَجوا کا مفعول لہ ہے، وہ بنی اسرائیل کی ایک قوم تھی کہ جن کے شہروں میں طاعون پھوٹ پڑا تھا، تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو اللہ نے ان کو حکم دیا مرجاؤ تو سب کے سب مرگئے، پھر آٹھ یوم یا اس سے زیادہ کے بعد ان کے نبی حز قیل (علیہ السلام) کی دعاء سے (اللہ تعالیٰ نے) ان کو زندہ کردیا، حاء مہملہ اور قاف کے کسرہ کے ساتھ اور زاء کے سکون کے ساتھ، تو وہ لوگ ایک زمانہ تک زندہ رہے لیکن ان کے (جسم پر) مردنی کا اثر (زردی) وغیرہ نمایاں تھی، اور جو لباس بھی پہنتے تھے وہ کفن کے مانند ہوجاتا تھا، اور یہ صورت حال ان کی نسل میں مدتوں باقی رہی، بلاشبہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل والا ہے، اور اسی میں سے ان لوگوں کو زندہ کرنا ہے لیکن اکثر لوگ نا شکرے ہیں اور وہ کفار ہیں، اور مقصد ان لوگوں کا قصہ ذکر کرنے سے مومنین کی جہاد پر ہمت افزائی ہے، اور اسی وجہ سے اس پر ” وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ “ کا عطف کیا گیا ہے اور جہاد کرو اللہ کے راستہ میں یعنی اس کے دین کو سربلند کرنے کے لئے، اور خوب یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو خوب سننے والا اور تمہارے احوال کا جاننے والا ہے تو وہ تم کو اس کئ جزاء دے گا، اور ایسا کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسن دے ؟ اپنے مال کو اس کے راستے میں خرث کرکے، اس طریقہ پر کہ مال کو اللہ کے راستہ میں خوش دلی سے خرچ کرے، پس اللہ اس کو خوب بڑھا چڑھا کر عطا فرمانے والا ہے دس گنے سے لے کر سات سو گنے سے زیادہ تک جیسا کہ عنقریب آتا ہے اور ایک قراءت میں تشدید کے ساتھ ہے اور اللہ جس کو چاہے آزمائش کے طور پر رزق کو روک کر تنگ کرتا ہے اور جس کی چاہے بطور امتحان روزی وسیع کرتا ہے اور آخرت میں بعث کے ذریعہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزاء دے گا کیا تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا ؟ یعنی کیا تم کو ان کے قصہ اور خبر کا علم نہیں ہوا، جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے جو کہ شمویل تھے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اس کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں تاکہ اس کے ذریعہ ہماری بات پختہ ہوجائے اور اس کی طرف رجوع کریں ان کے نبی نے ان سے کہا کہیں ایسا تو نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو ؟ عَسیْتُمْ ، میں سین کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ (اَلَّا تُقَاتِلُوْا) عسٰی کی خبر ہے اور استفہام متوقع تقریر و تثبیت کے لئے ہے کہنے لگے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں قتال نہ کریں حالانکہ ہم کو ہمارے گھروں سے نکالا گیا اور ہمارے بچوں سے جدا کیا گیا ان کے قتل و قید ہونے کی وجہ سے، اور یہ معاملہ ان کے ساتھ قوم جالوت نے کیا تھا، مطلب یہ کہ ہمیں اس کی معیت میں قتال کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، اور قتال کا مقتضیٰ موجود ہے پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو ان میں ایک سے ایک قلیل تعداد کے سوا سب پیٹھ پھیر گئے اور بزدلی دکھا گئے، اور یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے طالوت کی معیت میں نہر عبور کی تھی جیسا کہ عنقریب آتا ہے، اللہ تعالیٰ ظالموں کو جانتے ہیں تو ان کو سزا دیں گے چناچہ نبی (شمویل نے) اللہ تعالیٰ سے ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے درخواست قبول فرمالی، اور طالوت کو بادشاہ مقرر کردیا، تو ان سے ان کے نبی (شمویل) نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہارا بادشاہ طالوت کو بنادیا ہے تو کہنے لگے اس کی ہمارے اوپر بادشاہت کیسے ہوگی اس سے تو یم زیادہ حقدار ہیں بادشاہت کے اس لئے کہ وہ (ایک تو) شاہی خاندان سے نہیں ہے اور نہ خاندان نبوت سے ہے اور وہ دباغ (چرم ساز) یا چرواہے تھے، اور اس کو تو مالی خوشحالی بھی نہیں دی گئی کہ جس کے ذریعہ نظام سلطنت کو قائم کرسکے، تو نبی نے اس سے کہا (سنو) اللہ نے اسی کو تمہارا بادشاہ منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور بدنی برتری بھی عطا فرمائی ہے اور اس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل میں بڑا عالم اور جسمانی طور پر نہایت جمیل اور مکمل تھا، (بات یہ ہے) کہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک اس کو عطا کردیتا ہے اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا فضل بڑا وسیع ہے اور اس سے بخوبی واقف ہے کہ کون اس کا اہل ہے ؟
جب (بنی اسرائیل نے) شمویل نبی سے اس کی بادشاہت کی نشانی طلب کی تو فرمایا اس کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں انبیاء کی تصویریں ہیں جس کو اللہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) پر نازل فرمایا تھا اور وہ صندوق ان کی نسل میں باقی رہا، اس کے بعد ان پر قوم عمالقہ غالب آگئی اور اس صندوق کو چھین لیا اور وہ اسی صندوق کے ذریعہ اپنے دشمن پر فتح حاصل کیا کرتے تھے، اور قتال کے موقع پر اس کو آگے رکھتے تھے اور اس سے سکون حاصل کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں تمہارے قلوب کے لے طمانینت ہے، تمہارے رب جانب سے، اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے یعنی جس کو انہوں نے چھوڑا تھا، اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نعلین شریفین تھے، اور آپ کا عصاء تھا اور ہارون (علیہ السلام) کا عمامہ تھا، اور ایک قفیز مَنّ ، تھا جو کہ ان پر (آسمان) سے نازل ہوتا تھا، اور تورات کے کچھ اجزاء تھے، جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، تحملہ، یَاتِیْکم کے فاعل سے حال ہے بلاشبہ اس میں تمہارے لئے اس کی بادشاہت کی نشانی ہے اگر تم کو یقین ہو چناچہ فرشتوں نے اس کو آسمان اور زمین کے درمیان اٹھایا اور یہ لوگ اسے دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ اس کو طالوت کے پاس رکھ دیا لہٰذا سب نے اس کی بادشاہت کا اقرار کرلیا اور جہاد کی طرف سبقت کی چناچہ انہوں نے ان کے نوجوانوں میں سے ستر ہزار کو منتخب کیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَیْ لَمْ یَنْتَہِ ۔ سوال : رؤیت علمیہ کا صلہ اِلیٰ نہیں آتا، رؤیت علمیہ متعدی بدومفعول ہوتی ہے حالانکہ اَلَمْ تَرَاِلَ الَّذِیْنَ خَرَجُوْا، میں رؤیت قلبی مقرد ہے اور اس کے صلہ میں اِلیٰ واقع ہے۔ جواب : رؤیت علمیہ ہی مراد ہے مگر ؛ انتہاء کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا الیٰ صلہ لانا درست ہے اور اسی وجہ سے یہاں یہ متعدی بدو مفعول نہیں ہے مفسر علام نے، لَمْ ینتَہِ ، کہہ کر اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : طاعون، طاعون ایک مہلک وبائی مرض ہے جس میں گلٹی نکلتی ہے خاص طور پر بخل میں اس مرض میں چند ہی روز میں انسان مرجاتا ہے بلادھم، بلاد سے مراد شہر یا قریہ ہے جو واسط کے علاقہ میں تھا اور اس کا نام ذ اور دان تھا۔
قولہ : قفَمَاتوا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے، ثُمَّ اَحْیَاھم کا عطف فَمَاتُوا، مقدر پر ہے، جس کا مقام متقاضی ہے اس لئے کہ اِحْیَاء کے لئے اول موت ضروری ہے ثُمَّ ، کے ذریعہ عطف کرکے اشارہ کردیا کہ مرنے کے کافی دن کے بعد ان کو زندہ کیا گیا۔
قولہ : حزقیل، حزقیل (علیہ السلام) کو ذوالکفل بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تیسرے خلیفہ ہیں۔
قولہ : مِنْہُ ، ای من الفضل۔ قولہ : اَلَّا تُقاتلُوا، خبرُ عَسَیٰ ۔
ترکیب : عَسَیتُم، حرف ترجی فعل ماضی، اس کے اندر ضمیر جو اس کا اسم ہے اِنْ حرف شرط، کُتِبَ عَلَیْکم القِتَالُ ، جملہ ہو کر شرط، فلا تبادرون الی القتال جواب شرط محذوف، شرط جزاء سے مل کر عسیٰ کے اسم و خبر کے درمیان جملہ معترضہ، اَلَّا تُقَاتِلُوا، عسیٰ ، کی خبر عَسَیْتُمْ اپنے اسم و خبر سے مل کر قَالَ ، کا مقولہ۔ قولہ : رُضاض، بالضم تورات کے اجزاء ٹکڑے۔
تفسیر و تشریح
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ ، (الآیۃ) عربی زبان میں یہ طرش خطاب ایسے موقع پر آتا ہے کہ جب مخاطب کو کسی بڑے اہم اور معروف واقعہ کے طرف توجہ دلانی مقصود ہوتی ہے، اور رویت سے ہمیشہ رویت بچشم سر ہی مراد نہیں ہوتی، بلکہ کبھی غور و فکر اور تامل و تخیل بھی مراد ہوتا ہے، اور جب اس فعل کا صلہ اِلٰی آتا ہے تو کوئی اہم نتیجہ نکالنا مقصود ہوتا ہے، اس قسم کی رویت کو رویت قلبی کہا جاتا ہے واِذَا عُدِّیَ رأیت بالیٰ اقتضٰی معنی النظر المؤدی الی الاعتبار (راغب) اور کبھی اس کلام سے اظہار تعجب بھی ہوتا ہے، ھذا کلم جریٰ مجری المثل فی معنی العجیب۔ (کشاف) مذکورہ تین آیتوں میں ایک عجیب انداز میں اللہ تعالیٰ نے راہ حق میں جانی و مالی قربانی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، اور ان احکام و ہدایت سے پہلے تاریخ عالم کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ موت وحیات تقدیر الہیٰ کے تابع ہے جنگ و جہاد میں جانا موت کا سبب نہیں اور بزدلی سے جان چرانا موت سے بچنے کا ذریعہ نہیں تفسیر ابن کثیر میں سلف صحابہ اور تابعین کے حوالہ سے اس واقعہ کی تشریح یہ بیان کی گئی ہے۔
واقعہ کی تفصیل : بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایک شہر میں یا بستی میں رہتی تھی، عاصم (رح) تعالیٰ کے قول کے مطابق یہ لوگ واسط کے قریب ایک فرسخ کے مسافت پر ذ اور ان کے رہنے والے تھے ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے راجح یہ ہے کہ یہ دس ہزار کے قریب تھے ابن عباس کے قول کے مطابق چار ہزار تھے، اچانک ان کی بستی میں طاعون پھوٹ پڑا چناچہ موت کے خوف سے بستی سے نقل ہو کردو پہاڑوں کے درمیان ایک واسیع میدان میں مقیم ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ موت سے کسی کو فراز نہیں دو فرشتے بھیجے جو اس میدان کے کناروں پر آکھڑے ہوئے ایک بالائی کنارے پر اور دوسرا زیریں کنارے پر، ان دونوں نے اللہ کے حکم سے کہا ” مُوْتُوا “ فرشتوں کا یہ کہنا تھا کہ سب کے سب مرگئے، اور جب تک اللہ نے چاہا یہ مردہ پڑے رہے ایک زامنہ کے بعد بنی اسرائیل کے پیغمبر جن کا نام حذقیل بتایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان کو ان لوگوں کا واقعہ بتایا، حضرت حزقیل (علیہ السلام) نے ان کے لئے زندہ کرنے کی دعا کی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ کردیا۔
بنی اسرائیل کے بادشاہ نے جہاد کا حکم دیا تھا، لوگ عذر کرنے لگے کہ جہاں آپ ہم کو لے جاتے ہیں وہاں تو طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے جب تک وبا ختم نہ ہوگی ہم نہ جا ہیں گے، اس واقعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ موت کا وقت مقرر ہے نہ ایک لمحہ آگے ہوسکتا ہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتا ہے اس لئے یہ حرکت فضول بھی ہے اور اللہ کی ناراضگی کا سبب بھی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے ہزاروں برس پہلے کا ہے اس کو دیکھنے کا آپ کو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا لہٰذا اَلَمْ تَرَ ، کا مطلب ہے اَلَمْ تعلم۔
مسئلہ : جہاں طاعون وغیرہ دیگر متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہو تو اس خیال سے کہ یہاں سے بھاگ کر بچ جائیں گے، بھاگنا درست نہیں ہے، البتہ ضرورۃً جانے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے اسی حدیث کی وجہ سے سفر شام سے وبا کی خبر سن کر مراجعت فرمائی تھی۔
حضرت فاروق اعظم (رض) کے واقعہ مراجعت کی تفصیل : تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ ملک شام کا قصد فرمایا شام کی سرحد پر تبوک کے قریب ایک مقام، سَرَغ ہے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک شام میں سخت طاعون پھیلا ہوا ہے یہ طاعون ملک شام کی تاریخ میں ایک سانحہ تھا یہ طاعون عمواس کے نام کی بستی سے شروع ہوا تھا جو بیت المقدس کے قریب ہے، پھر پورے ملک میں پھیل گیا، اس میں ہزار ہا انسان جن میں بہت سے صحابہ وتابعین بھی تھے شہید ہوگئے عمر فاروق (رض) نے جب طاعون کی شدت کی خبر سنی تو اسی مقام پر ٹھہر کر صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا کہ ہمیں اس وقت ملک شام جانا چاہیے یا واپس ہونا مناسب ہے اس وقت جتنے حضرات مشورہ میں شریک تھے، ان میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق کوئی حکم سنا ہو، بعد میں عبد الرحمن بن عوف نے اطلاع دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس معاملہ سے متعلق یہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (طاعونی گلٹی) کا ذکر فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا، پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا، اس کا یہ حال ہے کہ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی پھر آجاتا ہے، تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطہ میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس علاقہ میں نہ جائے، اور جو شخص اس خطہ میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے۔ (بخاری شریف)
حضرت فاروق اعظم (رض) نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپس کا حکم دیدیا، حضرت ابو عبیدہ جو ملک شام کے امیر (گورنر) بھی تھے، اس مجلس میں موجود تھے، فاروق اعظم کا یہ حکم سن کر فرمانے لگے، اَفِرارًا مِن قدر اللہ، یعنی کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں ؟ تو فاروق اعظم نے جواب دیا نعم نفر مِن قدر اللہ الی قدر اللہ، بیشک ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں مطلب یہ تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا
حکمت : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا بستی میں طاعون وغیرہ وبائی مرض پھیلا ہوا ہو باہر والوں کو وہاں جانا منع ہے اور وہاں کے باشندوں کو اس جگہ سے موت کے ڈر سے بھاگنا ممنوع ہے۔
عجیب واقعہ : صحابہ کرام (رض) کے ایک بہت بڑے جنگی کمانڈر حضرت خالد بن ولید (رض) جن کی ساری اسلامی عمر جہاد میں گزری وہ کسی جہاد میں شہید نہیں ہوئے بیمار ہو کر گھر میں بستر مرگ پر وفات پائی، وفات کے قریب بستر پر اپنے مرنے کا افسوس کرتے ہوئے گھر والوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں فلاں فلاں عظیم الشان جنگوں اور جہادوں میں شریک ہوا، اور میرا کوئی عضو ایسا نہیں جس میں تیر یا نیزے کے زخم کا نشان نہ ہو مگر افسوس کہ میں اب گدھے کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، خدا تعالیٰ بزدلوں کو آرام نہ دے ان کو میری نصیحت پہنچاؤ !۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کا واقعہ بطور تمہید لایا گیا ہے اگلی آیت میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا جو اس قصہ کے ذکر کرنے سے اصل مقصود تھا کہ جہاد میں جانے کو موت اور بھاگنے کو نجات نہ سمجھو، تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرما رہا ہے جو ایک متفقہ مقصد کے تحت کثیر تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ وبایا کسی اور وجہ سے مرجانے کا خوف رکھتے تھے۔ گھروں سے نکلنے سے ان کا مقصود موت سے بچنا تھا، لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی چنانچہ ﴿ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ۣ﴾” اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : مر جاؤ۔“ تو وہ مر گئے۔ ﴿ ثُمَّ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ نے : ﴿اَحْیَاھُمْ ۭ﴾” انہیں زندہ کردیا۔“ یا نبی کی دعا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے یہ ان پر رحمت، مہربانی اور حلم کا اظہار تھا اور مردوں کو زندہ کرنے کی ایک نشانی دکھانا مقصود تھا اس لئے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لَكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔‘،پس وہ نعمت ملنے پر شکر میں اضافہ نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید گناہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں ایسے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں جو نعمت کو پہچان کر، اس کا اعتراف کر کے اسے منعم حقیقی کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے اپنے دشمنوں یعنی کافروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tumhen unn logon ka haal maloom nahi huwa jo moat say bachnay kay liye apney gharon say nikal aaye thay , aur woh hazaron ki tadaad mein thay ? chunacheh Allah ney unn say kaha : mar jao phir unhen zinda kiya . haqeeqat yeh hai kay Allah logon per boht fazal farmaney wala hai , lekin aksar log shukar ada nahi kertay .
12 Tafsir Ibn Kathir
موت اور زندگی :
ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے، بعض تو ہزار کہتے ہیں، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کردیا، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہوگیا، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہوجاؤ، چناچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو، چناچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہوگیا، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آجائے چناچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا ( سبحانک لا الہ الا انت) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اٹھنے کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہوگئے، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چناچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا۔