اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا: اس کی سلطنت (کے مِن جانِبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسٰی اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا، اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے،
English Sahih:
And their prophet said to them, "Indeed, a sign of his kingship is that the chest will come to you in which is assurance from your Lord and a remnant of what the family of Moses and the family of Aaron had left, carried by the angels. Indeed in that is a sign for you, if you are believers."
1 Abul A'ala Maududi
اس کے ساتھ اُن کے نبی نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ "خدا کی طرف سے اُس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہے، جس میں آل موسیٰؑ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں، اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں اگر تم مومن ہو، تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسی ٰ او ر معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو،
3 Ahmed Ali
اوربنی اسرائیل سے ان کے نبی نے کہاکہ طالوت کی بادشاہی کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے اطمینان ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں ان میں سے جو موسیٰ اور ہارون کی اولاد چھوڑ گئی تھی اس صندوق کو فرشتے اٹھا لائیں گے بے شک اس میں تمہارے لیے پوری نشانی ہے اگرتم ایمان والے ہو
4 Ahsanul Bayan
ان کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (١) آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے۔ فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔ یقیناً یہ تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔
٢٤٨۔١ صندوق یعنی تابوت جو توب سے ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے یہ تابوت بھی ان کے دشمن چھین کر لے گئے تھے اللہ تعالٰی نے نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالٰی نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا سکینت کا مطلب اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ کانپ اٹھتے ہیں وہاں اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے
6 Muhammad Junagarhi
ان کے نبی نے انہیں پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ﻇاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وه صندوق آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے، فرشتے اسے اٹھا کر ﻻئیں گے۔ یقیناً یہ تو تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ان کے نبی نے ان سے یہ بھی کہا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا۔ جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے سکون کا سامان ہو گا اور موسیٰ (ع) و ہارون (ع) کے خاندان کے بچے کچھے تبرکات و متروکات بھی اور اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں بے شک تمہارے لئے (خدا کی قدرت کی) بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان کے پیغمبر علیھ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میںپروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسیٰ علیھ السّلام اور آل ہارون علیھ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے قدراُ پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ آیَۃَ مُلْکِہِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ ۔ (الآیۃ) تابوت، جو توب سے مشتق ہے، تاء مجرورہ زائدہ ہے جیسے ملکوت میں، اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے اسی لئے اس کو تابوت کہا گیا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) ۔ اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے تبرکات تھے، اس تابوت کو ان کے دشمن عمالقہ چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعہ حضرت طالوت کے دروازہ پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنی اسرائیل بہت خوش ہوئے اور من جانب اللہ طالوت کی بادشاہت کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس تابوت کو ان کی فتح و شکست کا سبب قرار دیا۔ فائدہ : اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و صالحین کے تبرکات یقیناً باذن اللہ اہمیت اور افادیت رکھتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعی تبرکات ہوں جس طرح اس تابوت میں یقیناً حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے تبرکات تھے، لیکن محض جھوٹی نسبت سے کوئی چیز متبرک نہیں ہوجاتی، جس طرح آج کل، تبرکات کے نام پر کئی مقامات پر مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں جن کا تاریخی طور پر پورا ثبوت نہیں ہے اسی طرح خود ساختہ چیزوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جس طرح بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نعلین مبارک کی تمثال بنا کر اپنے پاس رکھنے کو یا گھر میں لٹکانے کو قضائے حاجات اور دفع بلیات کے لئے اکسیر سمجھتے ہیں، اسی طرح قبروں پر بزرگوں کے ناموں کی نذر و نیاز کی چیزوں کو متبرک سمجھتے ہیں مزاروں کو غسل دیا جاتا ہے اور اس کے پانی کو متبرک سمجھا جاتا ہے، بہرحال یہ سب باتیں غلط ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ فائدہ : مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تقریباً تین صدی بعد اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سے کچھ ہی پہلے، جب کہ سن عیسوی کے آغاز میں ابھی تقریباً ہزار گیارہ سو سال کی مدت باقی تھی حضرت شمویل (علیہ السلام) کا زمانہ ١١٠٠ ق م تا ١٠٢٠ ق م کا زمانہ ہے ملک شام قدیم میں ایک کوہستانی علاقہ افرائیم نام کا تھا، اس کے شہر رامہ میں آپ رہتے تھے، بنو اسرائیل اس دور میں خاص طور سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور جنگ میں ان سے عاجز آچکے تھے، تورات میں اس کی صراحت موجود ہے کہ حضرت شمویل اس وقت بہت بوڑھے ہوچکے تھے، اور آپ کے صاحبزادوں میں امارات و سرداری کی کوئی صلاحیت نہ تھی۔ تابوت سکینہ : اس تابوت کا خاص اصطلاحی نام، تابوت سکینہ تھا، یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملی اور قومی سرمایہ تھا، اس میں تورات کا اصل نسخہ مع انبیاء (علیہم السلام) کے تبرکات کے محفوظ تھا، اسرائیلی اس کو نہایت برکت و تقدیس کی چیز سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ انتہائی احترام کا برتاؤ کرتے تھے، جنگ و امن میں اسے اپنے ساتھ رکھتے تھے سائز میں یہ کوئی بہت بڑا نہ تھا، موجودہ علماء یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسب ذیل تھی۔ طول ٢/١ ٢ فٹ۔۔۔۔۔ عرض ٢/١ ١ فٹ۔۔۔۔۔ اونچائی ٢/١ ١ فٹ بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اسی کے ساتھ وابستہ سمجھتے تھے، ایک جنت کے موقع پر فلسطینی مشرک اسے چھین کرلے گئے، اسرائیل اس بات کو اپنے حق میں انتہائی نحوست اور بدشگوفی سمجھتے تھے اس کی واپسی کے لئے نہایت بیتاب اوعر مضطرب رہتے تھے، لیکن یہ تابوت مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں آخر کار انہوں نے خوف کے مارے ایک بیک گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا، غالباً اسی صورت حال کو قرآن نے : ” تَحْمِلُہُ الْمَلَائِکَۃُ “ سے تعبیر کیا ہے یعنی وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے جب صندوق واپس آگیا تو اس قوم کے لئے بڑی تقویت قلبی کا موجب بنا جس سے ان کی ٹوٹی ہمتیں پھر بندھ گئیں۔ تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت طالوت کے زمانہ میں یہ تابوت واپس آنے کے بعد بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) متوفی ٩٣٣ ق م، تک رہا اور آپ نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اس تابوت کو بھی رکھ دیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں گیا ؟ یہود کا عام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
وہ جانتا ہے کہ فضل کا حق دار کون ہے اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے بعد ان کے نبی نے ایک حسی نشانی بھی بیان کی، جسے وہ دیکھ لیں گے۔ وہ ہے اس تابوت کا واپس مل جانا جو ایک طویل عرصہ سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس تابوت میں ان کے لئے اطمینان قلب اور سکون کا سامان موجود تھا۔ یعنی آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی اشیا موجود تھیں۔ اسے فرشتے اٹھا کر لائے تو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur inn say unn kay nabi ney yeh bhi kaha kay : taloot ki badshahat ki alamat yeh hai kay tumharay paas woh sandooq ( wapis ) aajaye ga jiss mein tumharay perwerdigar ki taraf say sakeenat ka saman hai , aur musa aur Haroon ney jo ashiya chorri then unn mein say kuch baqi maandda cheezen hain . ussay farishtay uthaye huye layen gay agar tum momin ho to tumharay liye uss mein bari nishani hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تابوت سکینہ اور جنگ طالوت و جالوت نبی فرما رہے ہی کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت برکت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا، جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو، بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دل دھوئے جاتے تھے جو حضرت موسیٰ کو ملا تھا اور جس میں آپ نے توراۃ کی تختیاں رکھی تھیں، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی، ہاتھ بھی تھا، دو سر تھے، دو پر تھے اور دم بھی تھی، وہب کہتے ہیں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہوجاتا اور لڑائی فتح ہوجاتی، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور حضرت طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہوگیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے، انہوں نے پھر بت کو اوپر کردیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کردیا، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے، تو یقین ہوگیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چناچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے، بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے واللہ اعلم، (لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے (مترجم) یہ بھی کہا گیا کہ ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو۔