البقرہ آية ۲۶۷
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَـكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۗ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِۗ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے،
English Sahih:
O you who have believed, spend from the good things which you have earned and from that which We have produced for you from the earth. And do not aim toward the defective therefrom, spending [from that] while you would not take it [yourself] except with closed eyes. And know that Allah is Free of need and Praiseworthy.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروانہ سراہا گیا ہے۔
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے ستھری چیزیں خرچ کرو اور اس چیز میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہے اور اس میں سے ردی چیز کا ارادہ نہ کرو کہ اس کو خرچ کرو حالانکہ تم اسے کبھی نہ لو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور سمجھ لو کہ بے شک الله بے پرواہ تعریف کیا ہوا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو (١) ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو (٢) اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے
٢٦٧۔١ صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالٰی اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالٰی پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران;92) کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔
٢٦٧۔٢ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو۔ اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو۔ اور جان رکھو کہ خدا بےپروا (اور) قابل ستائش ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اپنی پاکیزه کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواه اور خوبیوں واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاک و پاکیزہ چیزوں سے اور ان چیزوں سے جو ہم نے زمین سے تمہارے لئے برآمد کی ہیں (خدا کی راہ میں) خرچ کرو۔ اور اس میں سے بری اور خراب چیز کے خیرات کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو۔ جبکہ خود تم ایسی چیز کے لینے پر (خوشی سے) آمادہ نہیں ہو۔ مگر یہ کہ مروت کی وجہ سے چشم پوشی سے کام لو۔ اور خوب جان لو کہ خدا بے نیاز ہے اور حمد و ستائش کے قابل ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے پیدا کیا ہے سب میں سے راسِ خدا میں خرچ کرو اور خبردار انفاق کے ارادے سے خراب مال کو ہاتھ بھی نہ لگانا کہ اگر یہ مال تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھوؤ گے بھی نہیں یاد رکھو کہ خدا سب سے بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرواہ (اور) قابل ستائش ہے
آیت نمبر ٢٦٧ تا ٢٧٣
ترجمہ : اے ایمان والو ! جو مال تم نے کمایا ہے اس میں سے عمدہ چیزیں خرچ کرو زکوٰۃ دو اور اس سے بھی عمدہ چیزیں جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں۔ (مثلاً ) غلہ اور پھل اور مذکورہ چیزوں میں سے خراب چیز کا قصد بھی نہ کرو کہ اس میں سے زکوٰۃ میں خرچ کرو گے تنفقون، تیمموا کی ضمیر سے حال ہے، حالانکہ تم خود بھی اس خراب چیز کو لینے والے نہیں ہو اگر وہ چیز تمہارے حقوق میں دی جائے مگر نرمی اور چشم پوشی کرتے ہوئے، تم نظر انداز کر جاؤ تو پھر تم خراب چیز سے اللہ کا حق کس طرح ادا کرتے ہو اور سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خرچے سے بےنیاز اور ہرحال میں ستودہ صفات ہے، شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے (یعنی) اگر تم صدقہ کرو گے تو محتاج ہوجاؤ گے سو تم خرچ نہ کرو، اور تم کو بخل اور زکوٰۃ نہ دینے کا حکم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خرچ کرنے پر اپنی طرف سے تمہارے گناہوں کو معاف کرنے کا اور اس (خرچ کردہ) کے عوض رزق کا وعدہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے معاملہ میں بڑا کشادہ دست اور خرچ کرنے والے سے باخبر ہے، وہ جس کو چاہتا ہے حکمت یعنی ایسا علم نافع جو عمل تک پہنچانے والا ہو عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خیر کی چیز مل گئی، اس کے سعادت ابدی تک پہنچنے کی وجہ سے۔ اور نصیحت تو بس دانشمند ہی قبول کرتے ہیں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو (یعنی) صدقہ و زکوٰۃ ادا کرتے ہو یا جو بھی نذر مانتے ہو پھر تم اس کو پوری کرتے ہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے، تو وہ تم کو اس کا صلہ دے گا، اور زکوٰۃ کو روک کر اور نذر کو پورا کرکے یا اللہ کی معصیت میں بےمحل خرچ کرکے ظلم کرنے والوں کا کوئی بھی حامی نہیں ہوگا۔ (یعنی) اس کے عذاب سے ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ اگر تم نفلی صدقات کو ظاہر کرو تب بھی اچھی بات ہے یعنی اس کا ظاہر کرنا اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے پوشیدہ رکھو اور فقراء کو دو تو اس کے ظاہر کرنے اور مالداروں کو دینے سے تمہارے حق میں بہتر ہے، لیکن فرض صدقہ کہ اس کا اظہار افضل ہے تاکہ لوگ اس کی اقتداء کریں اور تاکہ یہ شخص محل تہمت میں نہ رہے اور اس کا فقراء کو دینا متعین ہے، اور اللہ تمہارے کچھ گناہ بھی دور کر دے گا، یُکَفِّرُ ، یاء اور نون کے ساتھ مجزوم پڑھا جائے تو فَھُو، کے محل پر عطف ہوگا اور مرفوع پڑھا جائے تو مستانفہ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے، یعنی اس کے باطن سے اسی طرح واقف ہے جس طرح اس کے ظاہر سے، اس سے اس کی کوئی شئ مخفی نہیں ہے، اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین پر صدقہ کرتے ہوئے منع فرما دیا تاکہ وہ اسلام قبول کرلیں تب یہ آیت نازل ہوئی، (لِیْسِ عَلَیکَ ھُدٰھُمْ ) ان کی ہدایت یعنی اسلام میں داخل کرنا آپ کے ذمہ نہیں، آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے، بلکہ اللہ اسلام میں دخول کی جس کی ہدایت چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو کچھ بھی مال میں سے خرچ کرتے ہو سو اپنے لیے کرتے ہو، اس لیے کہ اس کا اجر تمہارے ہی لیے ہے، اور تم اللہ ہی کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہو یعنی اس کے ثواب کے لیے نہ کہ دنیا کی کسی اور غرض کے لیے، خبر بمعنی نہی ہے، اور مال میں سے تم جو کچھ خرچ کرتے ہو تم کو اس کی پوری پوری جزاء دی جائے گی، تم پر ذرا بھی زیادتی نہ کی جائے گی کہ اس کے اجر میں کچھ کمی کردی جائے، یہ دونوں جملے پہلے جملے کی تاکید ہیں۔ صدقات کے (اصل) مستحق وہ فقراء ہیں (لِلْفُقْرَاء) مبتداء محذوف کی خبر ہے جو اللہ کی راہ میں گھر گئے ہیں، یعنی جنہوں نے خود کو جہاد میں محبوس کرلیا ہے (اور آئندہ آیت) اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی اور وہ مہاجرین میں سے چار سو تھے، جو قرآن کی تعلیم اور سراپا کے ساتھ نکلنے کے لیے مستعد رہتے تھے، وہ جہاد میں مشغول رہنے کی وجہ سے (طلب) معاش اور تجارت کے لیے سفر نہیں کرسکتے تھے، ان کے حال سے ناواقف انہیں غنی سمجھتا تھا سوال سے ان کے احتیاط کرنے اور ترک سوال کرنے کی وجہ سے اے مخاطب تو ان کی تواضع اور مشقت کے اثر کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر کسی چیز کا سوال نہیں کرتے، یعنی وہ بالکل سوال نہیں کرتے، لہٰذا چمٹ کر سوال بھی ان کی طرف سے نہیں ہوتا اور الحاف کے معنی اصرار کے ہیں، اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے سو وہ تم کو اس کی جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الجیاد، طیبٰت کی تفسیر الجیاد سے کرکے اشارہ کردیا کہ طیبٰت کے معنی حلال کے نہیں ہیں جو کہ اکثر استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہاں عمدہ کے معنی ہیں جو ردّی کے مقابلہ میں مستعمل ہے۔
قولہ : تغمضوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر آنکھیں بند کرنا، یہاں مجازی معنی، درگذر کرنا، چشم پوشی کرنا مراد ہیں۔
قولہ : البخل، فحشآء کی تفسیر بخل سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں فحشاء کے مشہور معنی جو کہ زنا کے ہیں مراد نہیں ہیں۔
قولہ : مجزومًا بالعطف علیٰ محلِّ فَھُوَ و مرفوعاً علی الاستیناف۔ اس عبارت کا مقصد یُکَفِرُ کے اعراب کو بتانا ہے، اس کو مجزوم پڑھا جائے تو مجزوم فَھُوَ کے محل پر عطف ہونے کی وجہ سے ہوگا اس لیے کہ فَھُوَ ، جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، اور اگر مرفوع پڑھا جائے تو مرفوع جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے ہوگا شرط سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
قولہ : ای الناس اس میں اشارہ ہے کہ ھُدٰھم کی ضمیر الناس کی طرف راجع ہے اگرچہ وہ ماقبل میں صراحۃً مذکور نہیں ہے مگر مضمون کلام سے مفہوم ہے فقراء کی طرف راجع نہیں جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں معنیٰ درست نہیں رہتے۔
قولہ : الی الدخول فی السلام، اس اضافہ سے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہدایت کی نفی کا کیا مقصد ہے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہدایت ہی کے لئے ہے۔
جواب : نفی ہدایت سے مراد ایصال الی المطلوب کی نفی ہے نہ کہ ارادءۃ الطریق کی۔
قولہ : خبر بمعنی النھی یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللہِ میں خبر دی گئی ہے کہ تم رضاء الہیٰ ہی کے لیے خرچ کرتے ہو حالانکہ بہت سے لوگ ریاء و نمود کے لیے بھی خرچ کرتے ہیں۔ اس میں کذب باری لازم آتا ہے۔
جواب : یہ ہے کہ خبر بمعنی نہی ہے، کہ تم غیر رضاء کے لیے خرچ مت کرو۔
قولہ : لتعففھم اس میں اشارہ ہے کہ مِن التعفف، میں مِنْ تعلیلیہ ہے نہ کہ تبعیضیہ۔ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا، وہ اصرار کے ساتھ سوال نہیں کرتے، اس میں فن بیان کی ایک صنعت ہے جس کو ” نفی الشیء بایْجابہ “ کہتے ہیں، اس میں بظاہر ایک شئ کی نفی اور دوسری شئ کا اثبات ہوتا ہے، مگر حقیقت میں دونوں کی نفی مقصود ہوتی ہے، مذکورہ آیت میں بظاہر الحاف (اصرار) کی نفی ہے، نفس سوال کی نفی نہیں ہے، مگر مقصود کلام ” مطلقاً “ کی نفی ہے یعنی بظاہر قید کی نفی ہے مگر باطن میں قید اور مقید دونوں کی نفی ہے۔
تفسیر و تشریح
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ (الآیۃ) صدقہ کی قبولیت کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ مَنْ و اَذَیٰ اور ریا کاری سے خالی ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بیان کیا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ اور عمدہ چیز ہو۔
شان نزول : بعض انصار مدینہ جو کھجوروں کے باغات کے مالک تھے وہ بعض اوقات نکمی اور ردی کھجوروں کا خوشہ مسجد میں لاکر لٹکا دیا کرتے تھے اور اصحاب صفہ کا چونکہ کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا جب ان کو بھوک لگتی تو ان خوشوں میں سے جھاڑ کو کھجوریں کھالیا کرتے تھے اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر بحوالہ ترمذی)
طیبٰت، کا ترجمہ بعض حضرات نے جن میں مفسر علام بھی شامل ہیں، عمدہ چیز کیا ہے اور قرینہ ممّا اَخرَجْنا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ کو قرار دیا ہے اس لیے کہ زمین سے پیدا ہونے والی شئ حلال تو ہوتی ہے البتہ جودت اور ردأت میں کافی مختلف ہوتی ہے اس لیے طیبٰت، کا ترجمہ عمدہ شئ سے کیا ہے شان نزول کے واقعہ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، اور بعض حضرات نے حلال شئ سے کیا ہے اس لئے کہ مکمل اور پوری طرح عمدہ شئ وہی ہوتی ہے جو حلال بھی ہو۔ اگر دونوں ہی معنیٰ مراد لئے جائیں تو کوئی تضاد نہیں ہے، البتہ جس کے پاس اچھی چیز ہو ہی نہیں وہ اس ممانعت سے بری ہے۔
عشری اراضی کے احکام : مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ، لفظ اخرجنا سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عشری زمین سے عشر واجب ہے، اس آیت کے عموم سے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے استدلال کیا ہے کہ عشری زمین کی ہر قیل و کثیر پیداوار میں عشر واجب ہے، عشر اور خراج دونوں اسلامی حکومت کی جانب سے زمین پر عائد کردہ ٹیکس ہیں، ان میں فرق یہ ہے کہ عشر فقط ٹیکس نہیں بلکہ اس میں عبادت مالی کی حیثیت بھی ہے جیسا کہ زکوٰۃ میں ہے، اس لئے اس کو زکوۃ الارض بھی کہا جاتا ہے اور خراج خالص ٹیکس ہے جس میں عبادت کا کوئی پہلو نہیں ہے، مسلمان چونکہ عبادت کا اہل ہے لہٰذا عشری زمین سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے اسے عشر کہتے ہیں اور غیر مسلم سے جو اراضی کا ٹیکس لیا جاتا ہے اس کو خراج کہتے ہیں، عشری اور خراجی زمین کا فرق اور عشر و خراج کے تفصیلی مسائل کتب فقہ سے معلوم کیے جاسکتے ہیں، یہاں اس کا موقع نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس نے انہیں جس کمائی کی توفیق دی ہے اور ان کے لئے زمین سے جو کچھ نکالا ہے، اس میں سے کچھ پاکیزہ اموال خرچ کریں۔ جس طرح اس نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس کا حصول تمہارے لئے آسان فرما دیا، اسی طرح اس کا شکر ادا کرنے کے لئے، اپنے بھائیوں کے کچھ حقوق ادا کرنے کے لئے اور اپنے مالوں کو پاک کرنے کے لئے اس میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ خرچ کرنے کے لئے وہ عمدہ چیز منتخب کرو، جو تمہیں اپنے لئے پسند ہے۔ ایسی نکمی چیز دینے کا قصد نہ کرو، جو خود تمہیں پسند نہیں اور جسے تم خود دوسروں سے وصول کرنا پسند نہیں کرتے۔ ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔“ وہ تم سے بے نیاز ہے۔ تمہارے صدقات اور دوسرے اعمال کا فائدہ خود تمہی کو حاصل ہوگا۔ وہ اس بات پر تعریف کے قابل ہے کہ اس نے تمہیں اچھے اعمال کے کرنے کا اور اچھی خوبیاں اپنانے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کرو، کیونکہ ان سے دلوں کو روحانی غذا ملتی ہے۔ دل زندہ ہوتے ہیں اور روح کو نعمت حاصل ہوتی ہے اپنے دشمن یعنی شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرنا، جو تمہیں بخل کا حکم دیتا ہے اور تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجاؤ گے۔ وہ تمہاری خیر خواہی کے طور پر یہ مشورہ نہیں دیتا، بلکہ یہ اس کا بہت بڑا دھوکا ہے ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ (فاطر :35؍ 6) ” وہ اپنی جماعت کو (گناہ کی طرف) بلاتا ہے، تاکہ وہ بھی جہنمی بن جائیں۔“ بلکہ اپنے رب کا حکم مانو، جو تمہیں ایسے انداز سے خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے، جو تمہارے لئے آسان ہو، اور جس میں تمہارا کوئی نقصان نہ ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jo kuch tum ney kamaya ho aur jo pedawaar hum ney tumharay liye zameen say nikali ho uss ki achi cheezon ka aik hissa ( Allah kay raastay mein ) kharch kiya kero ; aur yeh niyyat naa rakho kay bus aesi kharab qisam ki cheezen ( Allah kay naam per ) diya kero gay jo ( agar koi doosra tumhen dey to nafrat kay maaray ) tum ussay aankhen meechay baghair naa ley sako . aur yaad rakho kay Allah aisa bey niaz hai kay her qisam ki tareef ussi ki taraf loatti hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو ۔ ردی، واہیات، سڑی گلی، گری پڑی، بےکار، فضول اور خراب چیزیں راہ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کرلے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان مسلمان نہ ہوجائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہوجائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کرجاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی، پس دو قول ہوئے۔ ایک تو ردی چیزیں دوسرا حرام مال۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لیناہی اچھا معلوم ہوتا ہے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھالیتے، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے۔ ہاں اگر شرم ولحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا (ابن جریر) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا، حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی، مراد یہ ہے کہ بیکار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا، آپ نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو حضرت عائشہ نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ حضرت براء فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بےقدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کرکے اسی کو لو گے، ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لوگے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران :92) کے بھی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے، نہیں نہیں وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو، یہ حکم صرف اس لئے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا آیت (لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ ) 22 ۔ الحج :37) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے۔ وہ کشادہ فضل والا ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ آعوذ پڑھے، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (آیت الشیطان الخ) کی تلاوت فرمائی (ترمذی) یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے موقوف بھی مروی ہے، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہوجائیں گے، اس نیک کام سے روک کر پھر بےحیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہوگا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہوسکتا ہے ؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم موخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے، پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو، اللہ کا ڈر اس کے دل میں ہو، چناچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے، ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا، سدی کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کرلیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی، وہ صاحب وحی نہیں، لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابل رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے، سمجھ رکھتا ہو، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے۔