البقرہ آية ۲۷۵
اَلَّذِيْنَ يَأْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِىْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّۗ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۗ فَمَنْ جَاۤءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَۗ وَاَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِۗ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۤٮِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
طاہر القادری:
جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
English Sahih:
Those who consume interest cannot stand [on the Day of Resurrection] except as one stands who is being beaten by Satan into insanity. That is because they say, "Trade is [just] like interest." But Allah has permitted trade and has forbidden interest. So whoever has received an admonition from his Lord and desists may have what is past, and his affair rests with Allah. But whoever returns [to dealing in interest or usury] – those are the companions of the Fire; they will abide eternally therein.
1 Abul A'ala Maududi
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر، جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیا ہو اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے، اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود، تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا، اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتو ں رہیں گے
3 Ahmed Ali
جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح کہ وہ شخص اٹھتا ہے جس کے حواس جن نے لپٹ کر کھو دیئے ہیں یہ حالت ان کی اس لیے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسےسود لینا حالانکہ الله نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے پھر جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اوروہ باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا رہا اور اس کا معاملہ الله کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لے وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
سود خور (١) نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے (٢) یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے (٣) حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالٰی کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا (٤) اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے (٥) اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔
٢٧٥۔١ رِبَوا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَا الفَضْلِ اور ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ ربا الفضل اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلا گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اس میں کمی بیشی ہو گی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے) ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلا) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی ۱۲۵روپے ہو گی۔ ۲۵روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے دیے جائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے "کل قرض جر منفعۃ فھو ربا "(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج ۵، ص۲۸) (قرض پر لیا گیا نفع سود ہے)۔ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقا حرام قرار دیا ہے اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالٰی کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلا قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چا ہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار ہو) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت ومحبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت وسنگدلی کو کس طرح پسند کر سکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔
٢٧٥۔٢ سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔
٢٧٥۔٣ حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے جب کہ سود میں دونوں چیزیں نہیں ہیں علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے پھر یہ دونوں ایک کس طرح ہو سکتے ہیں۔
٢٧٥۔٤ قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔
٢٧٥۔٥ کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے یا سوء عمل اور فسادات کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے سزا کی دھمکی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا۔ اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اور جو پھر دوبارہ ﴿حرام کی طرف﴾ لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) نہیں کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے اپنے آسیب سے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ (جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ وہ سود خور ہیں)۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ قائل ہیں کہ تجارت بھی تو سود کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ پس جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت (فہمائش) آئی اور وہ (سودخوری سے) باز آگیا۔ تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا ہے اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے اور جو (ممانعت کے بعد) پھر ایسا کرے تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روزِ قیامت اس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس بنا دیا ہو اس لئے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ تجارت بھی سود جیسی ہے جب کہ خدا نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سودکو حرام . اب جس کے پاس خدا کی طرف سے نصیحت آگئی اور اس نے سود کو ترک کردیاتو گزشتہ کاروبار کا معاملہ خداکے حوالے ہے اور جو اس کے بعد بھی سود لے تو وہ لوگ سب جہّنمی ہیں او ر وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبوٰا لَایَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْنُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ۔ ” ربوا “ کے معنی زیادتی اور اضافہ کے ہیں اور شریعت میں اس کا استعمال ربا الفضل اور ربا النسیئہ پر ہوتا ہے ربا الفضل اس کو کہتے ہیں جو اشیاء میں بلا عوض حاصل ہوتا ہے اور ربا النسیئہ اس فائدہ کو کہتے ہیں جو مدت کے عوض حاصل ہو۔ اصطلاح میں ربوا اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں۔
نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی متعدد شکلیں رائج تھیں۔ اور وہ یہ تھیں مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقرر کردیتا اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا، یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کرلیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہوگی، یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک خاص شرح طے ہوجاتی تھی، اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی تو پھر مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی اسی نوعیت کے معاملات کا بیان یہاں کیا جارہا ہے۔
یہ کل چھ آیتیں ہیں جن میں سود کی حرمت اور احکام کا بیان ہے، پہلی آیت کے جملہ میں سود خوروں کے انجام بد اور محشر میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے جس میں سودخور کی حالت کو ایک آسیب زدہ کی حالت سے تشبیہ دی ہے، ضمنا اس آیت سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ شیطان کے اثر سے انسان بیہوش یا مجنون ہوسکتا ہے، اور اہل تجربہ کے متواتر مشاہدات اس پر شاہد ہیں۔ اور حافظ ابن رقیم (رح) تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اطباء اور فلاسفہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع، بیہوشی یا جنون مختلف اسباب سے ہوتا ہے ان میں بعض اوقات جنات و شیاطین کے اثر کا سبب بھی ہوتا ہے جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ان کے پاس بجز ظاہری استبعاد کے کوئی دلیل نہیں۔
ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰا ان کا کہنا تھا کہ بیع اور ربوا میں کیا فرق ہے دونوں میں مقصد حصول نفع ہے پھر تجارت حلال اور ربوا کیوں حرام ہو ؟ یہ نظریہ کی خرابی بلکہ عقل کا دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے ؟ کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو نفع لیا جاتا ہے اس کی نوعیت اور سود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دئیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے ؟ اسی قسم کے دلائل موجودہ زمانہ کے سود خور کے حق میں پیش کرتے ہیں، مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دنیا میں جتنے کاروبار ہیں خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرفت کے یا زراعت کے، اور خواہ انہیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایہ اور محنت سے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں آدمی نقصان کا خطرہ مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک حقیر منافع کی ضمانت ہو، پھر آخر پوری کاروباری دنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا کیوں ہو جو نقصان کے خطرہ سے بچ کر ایک مقرر لازمی نفع کا حقدار قرار پائے ؟
سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت، اپنی محنت، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپاتے رہے ہیں اور جن کی سعی و کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو بلکہ نقصان کا سارا خطرہ ان ہی کے سر ہو مگر سرمایہ دار جس نے اپنا روپیہ انہیں قرض دیا ہو وہ بےخطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے یہ آخر کس عقل اور کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہیں ؟ متجددین کو نہ معلوم اس کی قباحت کیوں نظر نہیں آتی ؟ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے ؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے خرورت مندوں پر بغیر کسی دنیوی غرض اور منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں، اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی خود غرضی نفرت، وحشت و عداوت کا جذبہ فروغ پاتا ہے، ایک سودخور سرمایہ دار کو اپنے سرمایہ سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرہ میں ضرورت مند بیماری و افلاس سے کراہ رہے ہوں شریعت اس سنگدلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے ؟ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے خواہ ذاتی غرض کے لیے ہو یا تجارتی مقاصد کے لئے۔
تجارت اور سود میں اصولی فرق : جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہوسکتی یہ ہے کہ۔
(١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جسے اس نے بائع سے خریدا ہے اور بائع اپنی محنت، ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقررہ مقدار لے لیتا ہے جو اس کے لیے یقیناً نفع بخش ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں، اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے، اور اگر وہ تجارت، زراعت یا صنعت وحرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا مکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے، پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔
(٢) تجارت میں بائع، مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد نفع لے بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ایک ہی بار لیتا ہے، لیکن سود کے معاملہ میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے، مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو بہرحال اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا، مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لئے کوئی حد نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی، اس کے تمام وسائل معیشت حتی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہے۔
(٣) تجارت میں شئی اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا دکان یا زمین یا سامان کے کرایہ میں اصل شئ جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے صرف نہیں ہوتی بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائداد کو واپس دیدی جاتی ہے، لیکن سود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صرف کرسکتا ہے اور پھر اس کو صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کرکے اضافہ کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے، ان وجوہ کی بناء پر تجارت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم فرق ہوجاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے پھر اخلاقی حیثیت سے سود کی یہ عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل، خود غرضی، شقاوت، نفرت، بےرحمی اور زرپرستی جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔ اور ہمدردی و امداد باہمی کی روح کو فنا کرتا ہے اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیت سے نوع انسانی کے لیے تبا کن ہے۔
سود کا اخلاقی نقصان : اخلاقی اور روحانی حیثیت سے آپ دیکھیں تو آپ کو یہ بات بالکل واضح طور پر نظر آئے گی کہ سود دراصل خود غرضی، بخ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ ان ہی صفات کو انسان میں نشو و نما دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات کے نتیجہ میں فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور علی ظرفی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے ہی صفات انسان کے نادر پرورش پاتی ہیں، کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعہ کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو۔
سود کا معاشی نقصان : معاشیات کے نقطہ نظر سے سودی قرض دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت، صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں، پہلی قسم کے قرض کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود و صول کرنے کا طریقہ نہایت ہی تباہ کن ہے، دنیا کا کوئی ملک ایس انہیں کہ جس میں مہاجن افراد اور مہاجن ادارے اس ذریعہ سے غریب مزدوروں، کاشتکاروں، قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں، سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض لوگوں کے لیے ادا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے ایک قرض ادا کرنے کے لیے دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں، اصل رقم سے کئی گنا سود دے چکنے کے باوجود بھی اصل رقم جوں کی توں باقی کھڑی رہتی ہے، محنت پیشہ کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا، یہ صورت حال رفتہ رفتہ کارکن کی اپنے کام سے دلچسپی ختم کردیتی ہے جس کی وجہ سے ملکی پیداوار میں شدید نقصان ہوتا ہے، جس سے ملک کی معیشت زوال پذیر ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر و پریشانی گھلا دیتی ہے اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے لئے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی صحیتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں، سودی قرض کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں۔ مگر نادار اور کمزور اور زیادہ نادار اور کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، اور انجام کار خود خون چوسنے والے افراد اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے، کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی بدولت مالداروں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا رہتا ہے اور کسی انقلاب کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتا ہے۔
فَمَنْ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ۔ اس جملہ میں یہ ارشاد ہے کہ سود حرام ہونے سے پہلے جس شخص نے کوئی رقم جمع کرلی تھی لیکن جب سود کو حرام قرار دیا گیا تو اگر آئندہ کے لئے اس نے توبہ کرلی اور باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ دل سے باز آیا یا منافقانہ توبہ کی اس کا یہ معاملہ خدا کے حوالہ رہا، عام لوگوں کو بدگمانی کرنے کا حق نہیں ہے، اور جو شخص نصیحت سنکر بھی اسی قول و فعل کی طرف پھر عود کرے تو چونکہ سود خوری گناہ ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کا انجام بدبیان فرمایا ہے۔ وہ قیامت کے دن قبروں سے اٹھیں گے ﴿إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ تو ان کی حالت یہ ہوگی گویا انہیں شیطان نے پاگل بنا دیا ہے۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو حیران پریشان ہوں گے۔ انہیں سخت سزا ملنے کا یقین ہوگا۔﴿ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ﴾” انہوں نے کہا تھا : تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔“ یہ بات کوئی ایسا جاہل ہی کہہ سکتا ہے جو جہالت کے انتہائی درجے تک پہنچا ہوا ہو، یا دین کا انتہائی دشمن کہہ سکتا ہے۔ جس طرح ان کی عقلیں اوندھی ہوگئی تھیں تو اس کا بدلہ بھی یہ ملے گا کہ ان کی حالت پاگلوں کے مشابہ ہوگی۔ آیت مبارکہ کے اس حصے کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ چونکہ سود کی کمائی کے حصول میں ان کی عقلیں سلب ہوگئیں، اس لئے وہ احمق بن گئے اور ان کی حرکات پاگلوں کے مشابہ ہوگئیں۔ جو بے سروپا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اور عظیم حکمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ ﴾” اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا“ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے، سب کو اس کی ضرورت ہے اور اسے حرام قرار دینے میں نقصان ہے اور حصول رزق سے تعلق رکھنے والوں کاموں میں یہ ایک عظیم اصل ہے۔ اس سے صرف وہی تصرفات مستثنیٰ ہوں گے جن سے صاف طور پر منع کردیا گیا ہے۔ ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾” اور سود کو حرام کیا۔“ کیونکہ یہ ظلم پر مبنی ہے اور اس کا انجام برا ہے۔ سود کی دو قسمیں ہیں : (١) ربانسیئہ مثلاً سودی چیز کا اس کی علت میں شریک چیز کے عوض ادھار تبادلہ۔ اور اس کی صورت یہ بھی ہے کہ واجب الادا رقم کو راس المال کا نام دے کر بیع سلم کرلی جائے (٢) ربا الفضل : کسی ایسی چیز کو جس میں سود ہوسکتا ہے، اس کی ہم جنس چیز کے عوض اضافے کے ساتھ بیچنا، دونوں کی حرمت پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں اور ربانسیئہ کی حرمت پر اجماع بھی ہے۔ جس نے ربا الفضل کو جائز قرار دیا ہے اس کا قول شاذ ہے جو بکثرت نصوص کے خلاف ہے بلکہ سود تباہ کن کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ ﴿فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ﴾ ” جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت آئی۔“ یعنی اللہ نے کسی کو توفیق دی کہ اسے نصیحت کرے، جو اس کے لئے رحمت کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے اس پر حجت قائم ہوگئی۔﴿ فَانتَهَىٰ ﴾پس اس کے ڈرانے سے وہ سود لینے سے باز آگیا۔ اس گناہ سے رک گیا تو﴿ فَلَهُ مَا سَلَفَ﴾” اس کے لئے ہے جو گزرا۔“ یعنی یہ نصیحت کی بات پہنچنے سے پہلے اس نے جو غلط لین دین کیا وہ معاف ہوجائے گا۔ یہ نصیحت قبول کرنے کی جزا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو باز نہیں آئے گا، اسے پہلے اور پچھلے دونوں گناہوں کی سزا ملے گی۔ ﴿وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾” اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔“ یعنی اسے سزا دینا اور مستقبل میں اس کے عمل دیکھنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿وَ مَنْ عَادَ﴾ ” اور جس نے پھر بھی کیا“ دوبارہ سود لیا، نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ سود خوری پر اصرار کیا ﴿ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” تو وہ جہنمی ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
jo log sood khatay hain woh ( qayamat mein ) uthen gay to uss shaks ki tarah uthen gay jissay shetan ney choo-ker pagal bana diya ho . yeh iss liye hoga kay unhon ney kaha tha kay : bey bhi to sood hi ki tarah hoti hai . halankay Allah ney bey ko halal kiya hai aur sood ko haram qarar diya hai . lehaza jiss shaks kay paas uss kay perwerdigar ki taraf say naseehat aagae aur woh ( soodi moamlaat say ) baaz aagaya to mazi mein jo kuch huwa woh ussi ka hai . aur uss ( ki batni kayfiyat ) ka moamla Allah kay hawalay hai . aur jiss shaks ney loat ker phir wohi kaam kiya to aesay log dozakhi hain . woh hamesha ussi mein rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
تجارت اور سود کو ہم معنی کہنے والے کج بحث لوگ
چونکہ پہلے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو نیک کا (صدقہ خیرات کرنے والے زکوتیں دینے والے حاجت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنے والے غرض ہر حال میں اور ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے تو ان کا بیان ہو رہا ہے جو کسی کو دینا تو ایک طرف رہا دوسروں سے چھیننے ظلم کرنے اور ناحق اپنے پرایوں کا مال ہضم کرنے والے ہیں، تو فرمایا کہ یہ سودخور لوگ اپنی قبروں سے ان کے بارے میں دیوانوں اور پاگلوں خبطیوں اور بیہوشوں کی طرح اٹھیں گے، پاگل ہوں گے، کھڑے بھی نہ ہوسکتے ہوں گے، ایک قرأت میں من المس کے بعد یوم القیامۃ کا لفظ بھی ہے، ان سے کہا جائے گا کہ لو اب ہتھیار تھام لو اور اپنے رب سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوجاؤ، شب معراج میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں کی مانند تھے، پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ بتایا گیا سود اور بیاج لینے والے ہیں، اور روایت میں ہے کہ ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ڈستے رہتے تھے اور ایک مطول حدیث میں ہے کہ ہم جب ایک سرخ رنگ نہر پر پہنچے جس کا پانی مثل خون کے سرخ تھا تو میں نے دیکھا اس میں کچھ لوگ بمشکل تمام کنارے پر آتے ہیں تو ایک فرشتہ بہت سے پتھر لئے بیٹھا ہے، وہ ان کا منہ پھاڑ کر ایک پتھر ان کے منہ میں اتار دیتا ہے، وہ پھر بھاگتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے، پوچھا تو معلوم ہوا یہ سو خوروں کا گروہ ہے، ان پر یہ وبال اس باعث ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے ان کا یہ اعتراض شریعت اور احکام الٰہی پر تھا وہ سود کو تجارت کی طرح حلال جانتے تھے، جبکہ بیع پر سود کا قیاس کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین تو تجارت کا شرعاً جائز ہونے کے قائل نہیں ورنہ یوں کہتے کہ سود مثل بیع ہے، ان کا کہنا یہ تھا کہ تجارت اور سود دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو حلال کہا جائے اور دوسری کو حرام ؟ پھر انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حلت و حرمت اللہ کے حکم کی بنا پر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ بھی کافروں کا قول ہی ہو، تو بھی انتہائی اچھے انداز سے جواباً کہا گیا اس میں مصلحت الہیہ کہ ایک کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اور دوسرے کو حلال پھر اعتراض کیسا ؟ علیم و حکیم اللہ کے حکموں پر اعتراض کرنے والے تم کون ؟ کس کی ہستی ہے ؟ اس سے بازپرس کرنے کی، تمام کاموں کی حقیقت کو ماننے والا تو وہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میرے بندوں کا حقیقی نفع کس چیز میں اور فی الواقع نقصان کس چیز میں ہے، تو نفع الی چیزیں حلال کرتا ہے اور نقصان پہنچانے والی چیزیں حرام کرتا ہے، کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر اتنی مہربان نہ ہوگی جتنا اللہ اپنے بندوں پر ہے، وہ روکتا ہے تو بھی مصلحت سے اور حکم دیتا ہے تو مصلحت سے، اپنے رب کی نصیحت سن کر جو باز آجائے اس کے پہلے کئے ہوئے تمام گناہ معاف ہیں، جیسا فرمایا عفا اللہ عما سلف اور جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن فرمایا تھا جاہلیت کے تمام سود آج میرے ان قدموں تلے دفن کر دئیے گئے ہیں، چناچہ سب سے پہلا سود جس سے میں دست بردار ہوتا ہوں وہ عباس کا سود ہے، پس جاہلیت میں جو سود لے چکے تھے ان کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا، ایک روایت میں ہے کہ ام بحنہ حضرت زید بن ارقم کی ام ولد تھیں، حضرت عائشہ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے ایک غلام حضرت زید کے ہاتھوں آٹھ سو کا اس شرط پر بیچا کہ جب ان کے پاس رقم آئے تو وہ ادا کردیں، اس کے بعد انہیں نقدی کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ہی وہ اسے فروخت کرنے کو تیار ہوگئے، میں نے چھ سو کا خرید لیا، حضرت صدیقہ نے فرمایا تو نے بھی اور اس نے بھی بالکل خلاف شرع کیا، بہت برا کیا، جاؤ زید سے کہہ دو اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو اس کا جہاد بھی غارت جائے گا جو اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا ہے، میں نے کہا اگر وہ دو سو جو مجھے اس سے لینے ہیں چھوڑ دوں اور صرف چھ سو وصول کرلوں تاکہ مجھے میری پوری رقم آٹھ سو کی مل جائے، آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں، پھر آپ نے ( فمن جاء موعظۃ والی آیت پڑھ کر سنائی (ابن ابی حاتم) یہ اثر بھی مشہور ہے اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو عینہ کے مسئلے کو حرام بتاتے ہیں اس کی تفصیل کتاب الاحکام میں ہے اور احادیث بھی ہیں، والحمداللہ۔ پھر فرمایا کہ حرمت کا مسئلہ کانوں میں پڑنے کے بعد بھی سود لے تو وہ سزا کا مستحق ہے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا جو مخابرہ کو اب بھی نہ چھوڑے وہ اللہ کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہوجائے (ابو داؤد) " مخابرہ " اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسروں کی زمین میں کھیتی بوئے اور اس سے یہ طے ہو کہ زمین کے اس محدود ٹکڑے سے جتنا اناج نکلے وہ میرا باقی تیرا اور " مزابنہ " اسے کہتے ہیں کہ درخت میں جو کھجوریں ہیں وہ میری ہیں اور میں اس کے بدلے اپنے پاس سے تجھے اتنی اتنی کھجوریں تیار دیتا ہوں، اور " محاقلہ " اسے کہتے ہیں کہ کھیت میں جو اناج خوشوں میں ہے اسے اپنے پاس سے کچھ اناج دے کر خریدنا، ان تمام صورتوں کو شریعت نے حرام قرار دیا تاکہ سود کی جڑیں کٹ جائیں، اس لئے کہ ان صورتوں میں صحیح طور پر کیفیت تبادلہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا، پس بعض علماء نے اس کی کچھ علت نکالی، بعض نے کچھ، ایک جماعت نے اسی قیاس پر ایسے تمام کاروبار کو منع کیا، دوسری جماعت نے برعکس کیا، لیکن دوسری علت کی بنا پر، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فرماتے ہیں افسوس کہ تین مسئلے پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئے دادا کی میراث کا کلالہ اور سود کی صورتوں کا یعنی بعض کاروبار کی ایسی صورتیں جن پر سود کا شبہ ہوتا ہے، اور وہ ذرائع جو سود کی مماثلت تک لے جاتے ہوں جب یہ حرام ہیں تو وہ بھی حرام ہی ٹھہریں گے، جیسا کہ وہ چیز واجب ہوجاتی ہے جس کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو، بخاوی و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس طرح حلال ظاہر ہے، اسی طرح حرام بھی ظاہر ہے لیکن کچھ کام درمیانی شبہ والے بھی ہیں، ان شبہات والے کاموں سے بچنے والے نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑا وہ حرام میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانور چراتا ہو، تو ممکن ہے کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی منہ مار لے، سنن میں حدیث ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے لے لو جو شک شبہ سے پاک ہے، دوسری حدیث میں ہے گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے طبیعت میں تردد ہو اور اس کے بارے میں لوگوں کا واقف ہونا اسے برا لگتا ہو، ایک اور روایت میں ہے اپنے دل سے فتویٰ پوچھ لو لوگ چاہے کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سود کی حرمت سب سے آخر میں نازل ہوئی (بخاری) حضرت عمر یہ فرما کر کہتے ہیں افسوس کہ اس کی پوری تفسیر بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا۔ لوگو سود کو بھی چھوڑو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا بھی شائبہ ہو (مسند احمد) حضرت عمر نے ایک خطبہ میں فرمایا شاید میں تمہیں بعض ان چیزوں سے روک دوں جو تمہارے لئے نفع والی ہوں اور ممکن ہے میں تمہیں کچھ ایسے احکام بھی دوں جو تمہاری مصلحت کیخلاف ہوں، سنو ! قرآن میں سب سے آخر سود کی حرمت کی آیت اتری، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا اور افسوس کہ اسے کھول کر ہمارے سامنے بیان نہ فرمایا پس تم ہر اس چیز کو چھوڑو جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو (ابن ماجہ) ایک حدیث میں ہے کہ سود کے تہتر گناہ ہیں جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے، سب سے بڑا سود مسلمان کی ہتک عزت کرنا ہے (مستدرک حاکم) فرماتے ہیں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے، صحابہ نے پوچھا کیا سب کے سب ؟ فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی، (مسند احمد) پس غبار سے بچنے کیلئے ان اسباب کے پاس بھی نہ پھٹکنا چاہئے جو ان حرام کاموں کی طرف پہنچانے والے ہوں، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب سورة بقرہ کی آخری آیت حرمت سود میں نازل ہوئی تو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں آکر اس کی تلاوت کی اور سودی کاروبار اور سودی تجارت کو حرام قرار دیا، بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح شراب اور اس طرح کی تمام خریدو فروخت وغیرہ وہ وسائل (ذرائع) ہیں جو اس تک پہنچانے والے ہیں سب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کئے ہیں، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت اس لئے کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے حیلہ سازی کرکے حلال بنانے کی کوشش کی چناچہ یہ کوشش کرنا بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے، اسی طرح پہلے وہ حدیث بھی بیان ہوچکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص دوسرے کی تین طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہوجائے اس پر اور اس خاوند پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت ہے، آیت حتی تنکح زوجا غیرہ کی تفسیر میں دیکھ لیجئے، حدیث شریف میں ہے سود کھانے والے پر کھلانے والے پر شہادت دینے والوں پر گواہ بننے والوں پر لکھنے والے پر سب اللہ کی لعنت ہے، ظاہر ہے کاتب و شاہد کو کیا ضرورت پڑی ہے جو وہ خواہ مخواہ اللہ کی لعنت اپنے اوپر لے، اسی طرح بظاہر عقد شرعی کی صورت کا اظہار اور نیت میں فساد رکھنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں۔ حضرت علامہ امام ابن تیمیہ نے ان حیلوں حوالوں کے رد میں ایک مستقل کتاب " ابطال التحلیل " لکھی ہے جو اس موضوع میں بہترین کتاب ہے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے خوش ہو۔