البقرہ آية ۵۵
وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَـكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
طاہر القادری:
اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو (آنکھوں کے سامنے) بالکل آشکارا دیکھ لیں پس (اس پر) تمہیں کڑک نے آلیا (جو تمہاری موت کا باعث بن گئی) اور تم (خود یہ منظر) دیکھتے رہے،
English Sahih:
And [recall] when you said, "O Moses, we will never believe you until we see Allah outright"; so the thunderbolt took you while you were looking on.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آ لیا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے ۔
3 Ahmed Ali
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ روبرو الله کو دیکھ نہ لیں تب تمہیں بجلی نے دیکھتے ہی دیکھتے آ لیا
4 Ahsanul Bayan
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔
٥٥۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالٰی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تم نے (موسیٰ) سے کہا کہ موسیٰ، جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
6 Muhammad Junagarhi
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ ﻻئیں گے (جس گستاخی کی سزا میں) تم پر تمہارے دیکھتے ہوئے بجلی گری
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا اے موسیٰ! اس وقت تک ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک ظاہر بظاہر (اعلانیہ) خدا کو دیکھ نہ لیں۔ سو (اس پر) تمہارے دیکھتے بجلی نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسٰی علیھ السّلام سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تم نے (موسی سے) کہا کہ موسیٰ جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
آیت نمبر ٥٥ تا ٥٩
وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی .... الیٰ .... مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔
ترجمہ : (یاد کرو) جب تم نے موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام سے کہا تھا، (جب کہ) تم موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام کے ساتھ گاؤ پرستی کی عذر خواہی کے لئے اللہ کی طرف نکلے تھے، اور تم نے اس کا کلام سنا تھا، اے موسیٰ ہم ہرگز آپ کی بات کا یقین نہ کریں گے جب تک کہ ہم اپنی آنکھوں سے علانیہ اللہ کو نہ دیکھ لیں، سو تم کو بجلی کی کڑک نے آلیا، جس کی وجہ سے تم مرگئے اور جو کچھ تم پر گزرا، تم دیکھ رہے تھے، پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد تم کو زندہ کردیا، تاکہ تم اس احسان کی شکر گزاری کرو، اور ہم نے تم پر ابرکا سایہ کیا یعنی مقام تیہ میں رقیق (ہلکے) بادل کے ذریعہ سورج کی گرمی سے حفاظت کی اور اس مقام تیہ میں من وسلویٰ تمہارے لئے فراہم کیا اور وہ ترنجبین اور بٹیر تھیں میم کی تخفیف اور الف مقصورہ کے ساتھ اور ہم نے تم سے کہا جو پاک چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں، انہیں کھاؤ اور ذخیرہ نہ کرو، مگر انہوں نے نعمت کی ناشکری کی اور ذخیرہ اندوزی شروع کردی، جس کی وجہ سے وہ چیزیں موقوف ہوگئیں، اور (تمہارے اسلاف نے) اس ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، بلکہ خود انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا، اس لئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑنے والا ہے، اور جب ہم نے ان سے مقام تیہ سے نکلنے کے بعد کہا تھا، کہ اس بستی بیت المقدس یا اریحا میں داخل ہوجاؤ، اور اس میں جو چاہو اور جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ، اس میں کوئی پابندی نہیں، مگر اس بستی کے دروازے میں (عاجزی کے ساتھ) جھکے جھکے داخل ہونا، اور کہتے جانا ہماری درخواست معافی ہے، یعنی ہمارے خطاؤں کو معاف کر دے، ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کردیں گے اور ایک قراءت میں یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور دونوں صیغے مجہول کے ساتھ ہم نیکو کاروں کو مزید نوازیں گے طاعت کے سبب ثواب سے، مگر جو بات ان کو بتائی گئی تھی، ظالموں نے اس کو دوسری بات سے بدل ڈالا اور حَبَّة فی شعرةٍ کہا، یعنی خوشہ دانہ سمیت اور اپنے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے، ان کی تقبیح شان میں مبالغہ کرنے کے لئے آسمان سے طاعون کا عذاب نازل کردیا، ان کے فسق کی وجہ سے یعنی ان کے اطاعت سے انحراف کرنے کی وجہ سے، چناچہ اسی وقت ان میں سے ٧٠ ہزار یا (کچھ) کم ہلاک ہوگئے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ ۔ سوال : مؤمن بہ کیا ہے ؟
جواب : صاحب کشاف نے کہا ہے کہ مومن بہ یہ ہے کہ : اللہ ہی آپ سے ہمکلام ہے اور یہ کہ اللہ ہی نے آپ کو تورات دی ہے ؟ اور محی السنہ نے کہا ہے کہ مومن بہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نبی ہیں ؟
سوال : نُؤمِنُ ، متعدی بنفسہ ہے، لہٰذا اس کے صلہ میں لام کیسا ہے ؟
جواب : لام بمعنی اجل ہے : اَیْ لَانُؤْمِنْ لِاَجلکَ ، یعنی محض آپ کے کہنے کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔
قولہ : عیانا، جَھْرَةً کی تفسیر عیاناً سے کرنے سے ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔
سوال : جَھْرْةً ، جَھَرْتُ بالقراء ة کا مصدر ہے، جس کا تعلق صوت سے ہے، جَھْرَةً کو رؤیةً کے معنی میں استعمال کرنے کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : جَھْر، رؤیة کے معنی میں مجاز ہے، مناسبت دونوں میں ظہور تام ہے۔
قولہ : صَاعِقَة، بجلی کی کڑک، کڑکڑاہٹ۔
قولہ : فَمُتُّمْ ، فَمُتُّمْ ، کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ثُمَّ بَعْثْنٰکُمْ کا عطف مقدر پر ہے لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ بعث تو بعد الموت ہوتا ہے اور اخذ صاعقہ کے لئے موت لازم نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صاعقہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔
قولہ : ما حَلَّ بِکُمْ ، اس اضافے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ تنظرون کا مفعول محذوف ہے کہ : اَخَذتکم الصاعقة۔
قولہ : اَلغَمام، السَّحابُ الرقیق الابیض۔
قولہ : تیہ، شام اور مصر کے درمیان ایک وادی کا نام ہے، جس کی وسعت نو فرسخ ہے۔
قولہ : مَنَّ ، ایک قسم کی شبنمی شریں گوند کی شکل کی چیز تھی، جو رات کو پتوں پر جم جاتی تھی، مفسر علام نے اس کو ترنجبین سے تعبیر کیا ہے۔
قولہ : سَلْوٰی، ایک قسم کا پرندہ ہے، جو کبوتر سے چھوٹا اور چڑیا سے بڑا ہوتا ہے، اردو میں اس کو بیٹر کہتے ہیں، اس کو لَوَیٰ اور فارسی میں ببودنہ کہتے ہیں، قاموس میں ہے کہ : اس کا واحد سلواةً ہے، اخفش سے منقول ہے کہ اس کا واحد نہیں سنا گیا۔ (لغات القرآن)
قولہ : سُمانی، سین کے ضمہ اور الف مقصورہ کے ساتھ اس کی جمع سمانات آتی ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : منحنینَ ، اس میں اشارہ ہے کہ سُجَّدًا حال ہے ای متواضعین۔
قولہ : مسالتنا حِطة، اس میں اشارہ ہے کہ حِطّة مبتداء محذوف کی خبر ہے اور حِطّة کلمہ استغفار ہے، اور اس میں حذف کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
سوال : حِطّة کو قولوا کا مقولہ کیوں قرار نہیں دیا، حالانکہ یہی ظاہر ہے۔
جواب : اس لئے کہ قول کا مقولہ جملہ ہوتا ہے اور حِطّة مفرد ہے اسی اعتراض سے بچنے کے لئے مَسْألتنا، مبتداء محذوف کی حِطَّة کو خبر قرار دیا ہے۔
قولہ : یَزحَفُوْنَ علیٰ استاھم، ای یمشون علی اَدْبارھم، یعنی سرین کے بل گھسٹتے ہوئے، اَستاہ، جمع سَتْةٍ ، سرین۔
قولہ : بسبب فسقھم، اس میں اشارہ ہے کہ : بماء میں باء سببیہ اور ما، مصدریہ ہے۔
تفسیر و تشریح
وَاِذْقُلْتُمْ یَا مُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ (الآیة) خطاب اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود یہودیوں کو ہے مگر مراد ان کی قوم کے وہ ستر نمائندے ہیں، جن کو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اپنے ہمراہ کوہ طور پر لے گئے تھے : \&\& والقائلون ہُم السَبْعُونَ الَّذِیْنَ اخْتَارَہُم موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام لِلْمِیْقات۔ (بیضاوی) لَنْ نؤمنَ لَکَ ای لَاجْلکَ (بیضاوی) یعنی محض آپ کے کہنے سے یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ تاریخ بنی اسرائیل کے اہم ترین واقعات دہرائے جا رہے ہیں اور اسرائیلیوں پر حجت ان کی قومی تاریخ سے قائم کی جا رہی ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام جزیرہ نمائے سینا میں ستر بزرگان قوم کو ہمراہ لے کر لشکر گاہ سے کوہ طور پر گئے تھے، دامن کوہ میں انہیں چھوڑ کر خود آگے بڑھ گئے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی سے مشرف ہونے کے بعد اس کی اطلاع اور خوشخبری ان بزرگان قوم کو پہنچائی تھی۔
وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ، یعنی صاعقہ گرنے کے بعد ابتدائی حالات کو دیکھ رہے تھے، جس کے بعد موت واقع ہوئی، بعض مفسرین نے : \&\& فَاَخذتکم الصاعقة \&\& سے بےہوش ہوجانا بھی مراد لیا ہے اور \&\& وَخرّ موسیٰ صَعِقا، فَلَمَّا اَفَاقَ \&\& سے استدلال کیا ہے، اور انتم تنظرون کو اس کا قرینہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ افاقہ غشی سے ہوتا ہے، نہ کہ موت سے امام رازی (رح) تعالیٰ اور ابن جریر (رح) تعالیٰ کی بھی یہی رائے ہے۔ (ماجدی)
مفسر علام نے \&\& اخذ صاعقة \&\& سے موت مراد لی ہے، اور اس کا قرینہ بعد میں آنے والے جملہ \&\& ثم بعثنا کم من بعد موتکم \&\& کو قرار دیا ہے، یہی قول راجح ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً﴾ ” اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ! ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں“ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمہاری جرأت کی انتہا تھی۔ ﴿فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ ﴾پس تمہیں بے ہوشی نے آلیا۔ (اس بے ہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بے ہوشی۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ﴾تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے۔ ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab tum ney kaha tha ! aey musa hum uss waqt tak hergiz tumhara yaqeen nahi keren gay jab tak Allah ko hum khud khuli aankhon naa dekh len nateeja yeh huwa kay karrkay ney tumhen iss tarah aa pakra kay tum dekhtay reh gaye
12 Tafsir Ibn Kathir
ہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے
موسیٰ (علیہ السلام) جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو حضرت موسیٰ سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مرگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ دیکھ کر گریہ وزاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ۔ یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی۔ پھر انہیں زندہ کردیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے۔ ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لئے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہوجاؤ کپڑوں کو پاک کرلو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ (علیہ السلام) کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ بادل کی اوٹ ہوگئی اور سب لوگ سجدے میں گرپڑے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے۔ تو قبول فرما۔ اور ہم پر فضل و کرم کر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کردیا، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں۔ رازی نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے۔ آپ نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سوائے ہارون (علیہ السلام) کے اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ خود موسیٰ (علیہ السلام) نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کردیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری کی تاب کیسے لاتے ؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہوجاؤ تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے ؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کردیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لئے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بےاختیاری امر ہوگیا۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے۔ قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کرسکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔