البقرہ آية ۶۷
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۗ قَالُوْاۤ اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۗ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰـهِلِيْنَ
طاہر القادری:
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (اس سے) کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں،
English Sahih:
And [recall] when Moses said to his people, "Indeed, Allah commands you to slaughter a cow." They said, "Do you take us in ridicule?" He said, "I seek refuge in Allah from being among the ignorant."
1 Abul A'ala Maududi
پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنے قوم سے کہا کہ، اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰؑ نے کہا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں
2 Ahmed Raza Khan
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو بولے کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں-
3 Ahmed Ali
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو انہوں نے کہا کیا تم ہم سے ہنسی کرتا ہے کہا میں الله کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلوں میں سے ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور (حضرت) موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالٰی تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے (١) تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالٰی کی پناہ پکڑتا ہوں۔
٦٧۔١ بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات موسیٰ علیہ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہو گیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مر گیا (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو۔ وہ بولے، کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ میں الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں
6 Muhammad Junagarhi
اور (حضرت) موسیٰ﴿علیہ السلام﴾ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناه پکڑتا ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں فرمایا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہ موقع بھی یاد کروجب موسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں. فرمایا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو ؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں
آیت نمبر ٦٧ تا ٧١
ترجمہ : اور اس وقت کو یاد کرو، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اور ان کا کوئی شخص مقتول ہوگیا تھا اور اس کے قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا، اور ان لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ اللہ سے دعاء فرمائیں کہ وہ قاتل کو ظاہر کر دے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعاء فرمائی (اور کہا) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ کہنے لگے کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہو، یعنی ہمارا مذاق بناتے ہو، جو اس قسم کا جواب دیتے ہو ؟ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں (یعنی) استہزا کرنے والوں میں شمار ہوں، چناچہ جب وہ سمجھ گئے، کہ آپ حقیقت کہہ رہے ہیں، (مذاق نہیں کر رہے) تو کہنے لگے آپ ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں اس (گائے) کے بارے میں کچھ (تفصیل) بتائے کہ اس کی کیا عمر ہو ؟ (موسیٰ (علیہ السلام) نے) فرمایا اللہ فرماتا ہے، وہ ایسی گائے ہو کہ جو نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا (بلکہ) اوسط عمر کی ہو لہٰذا (ذبح کا) جو حکم تم کو دیا جا رہا ہے وہ کرو، پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ لو کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ (موسیٰ (علیہ السلام) نے) فرمایا وہ فرماتا ہے کہ وہ نہایت شوخ رنگ کی زرد گائے ہو، دیکھنے والوں کو اس کی خوبی کی وجہ سے یعنی (ناظرین) کو تعجب میں ڈالدے، وہ پھر بولے کہ اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کہ کیسی (گائے) مطلوب ہے ؟ جنگل میں چرنے والی ہو یا پالتو (گھریلو) بلاشبہ مذکورہ صفات کی گائے کی تعیین میں ہمیں اشتباہ ہوگیا ہے اس صفت (جنس) کی گائے بکثرت ہونے کی وجہ سے جس کی وجہ سے مقصد تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی، اللہ نے چاہا تو ہم اس کا پتہ پالیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ انشا اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی ان کو اس کا پتہ نہ لگ پاتا، (موسیٰ (علیہ السلام) نے) فرمایا وہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جس سے خدمت نہ لی گئی ہو، کام میں استعمال نہ کی گئی ہو نہ زمین جوتنے میں استعمال ہوئی ہو کہ زمین کو زراعت کے لئے الٹ پلٹ کرتی ہو (جوتتی ہو) اور جملہ (تثیر الارض، ذلولٌ) کی صفت ہے جو نفی کے تحت داخل ہے، اور نہ کھیتی کو سینچتی ہو، یعنی اس زمین کو جس کو کھیتی کے لئے تیار کیا ہو، عیوب اور کام کے نشانات سے صحیح سالم ہو اور اس میں اس کے (اصلی) رنگ کے علاوہ کوئی داغ نہ ہو، تو کہنے لگے اب آپ نے ٹھیک پتہ بتادیا یعنی پوری وضاحت کردی، چناچہ انہوں نے اس کی تلاش کی تو اس کو ایک نوجوان کے پاس پایا جو کہ اپنی والدہ کا فرمانبردار تھا، تو ان لوگوں نے اس گائے کو اس کا چمڑا بھر سونے کے عوض خرید لیا پھر انہوں نے اسے ذنح کیا ورنہ وہ اس کے بیش قیمت ہونے کی وجہ سے ایسا کرتے معلوم نہیں ہوتے تھے، حدیث شریف میں ہے اگر وہ کسی بھی گائے کو ذبح کردیتے تو ان کے لئے کافی ہوجاتی لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بَقَرَۃٔ، بَقَرَۃ، کا اطلاق اگرچہ نرومادہ دونوں پر ہوتا ہے، مگر یہاں مادہ مراد ہے، بَقَرَۃٌ، بَقَرٌ، سے مشتق ہے جس کے معنی پھاڑنے کے ہیں چونکہ یہ زمین کو جوتتی ہے، اسی لئے اس کو بقرۃ کہا جاتا ہے۔
قولہ : مَھْزَوًّا، ھُزُوًا، کی تفسیر مَھْزُوًّا، سے کرکے اشارہ کردیا کہ : ھُزُوًا، مصدر بمعنی اسم مفعول ہے
قولہ : ماسِنُّھَا، ما ھِیَ کی تفسیر ماسِنُّھَا سے کرکے اشارہ کردیا کہ مَا، اگرچہ ماہیت سے سوال کرنے کے لئے آتا ہے مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ اکثر یہ ہے۔
قولہ : فَارِضٌ، بوڑھی۔
سوال : فارض، بقرۃ کی صفت ہے، لہٰذا فارِضۃ، ہونی چاہیے۔
جواب : مفسر علام نے فارض کی تفسیر مسنۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مسنۃ کا نام ہے نہ کہ بقرہ کی صفت فارض، فَرْضٌ، سے اسم فاعل ہے، اس کے معنی چیر نے پھاڑنے اور وسیع کرنے کے ہیں، یہاں فارض سے وہ گائے یا بیل مراد ہے کہ جو اپنی جوانی کاٹ کر بڑھاپے کو پہنچ گیا ہو یا جس کے سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے دانت اکھڑ گئے ہوں۔
قولہ : عَوَانٌ، متوسط، درمیانی عمر کا، جمع عُوْنٌ، تخفیفاً واؤ کے ضمہ کو حذف کردیا گیا ہے۔
قولہ : فَاقِعٌ، تیز زرد تاکید کے طور پر تیز زرد کے لئے لایا جاتا ہے اصفر فاقِعٌ اور تیز سیاہ کے لئے بولا جاتا ہے اَسْوَدُ حالِکٌ، اور تیز سفید کے لئے بطور تاکید لایا جاتا ہے، ابیض بھقٌ اور سرخ کے لئے بطور تاکید بولا جاتا ہے، احمر قانٍ اور سبز کے لئے اخضر ناضِرٌ۔ (لغات القرآن درویش)
قولہ : لَاذَلولٌ، ای لَاتُذَلَّل لِلْحراثَۃِ ، یعنی جس کو کھیتی باڑی کے کام کاج میں استعمال نہ کیا گیا ہو۔
قولہ : غَیر مُذَلَّلَۃٍ ، بالعمل اس اضافہ سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : لَاذَلُوْلٌ، بَقَرَۃ، کی صفت ہے حالانکہ حرف نہ صفت واقع ہوسکتا ہے اور نہ صفت کا جز لہٰذا لَاذَلُولٌ، کا صفت واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : لا بمعنی غَیْرَ ، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : الجملۃ صفۃ ذلولٍ ، یعنی (تثیر الارضَ ) ذَلُولٌ کی صفت ہے اور لا کے تحت داخل ہے ای لاتثیر الارضَ ۔
قولہ : شیۃ، داغ دھبہ، نشان ایک رنگ کے جانور میں دوسرے رنگ کا دھبہ، شِیَۃ اصل میں وشیۃ تھا واؤ حذف ہوگیا جیسا کہ عِدَۃٌ اور زِنَۃٌ میں اور حذف شدہ واؤ کے عوض آخر میں ھا لاحق کردی گئی جمع شِیَاتٌ۔
قولہ : مَسْکھا، مسکٌ جلد، جمع مَسُوکٌ۔
تفسیر و تشریح
’ وَاِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ اِنَّ اللہ یَأْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقْرَۃً ‘۔
بنی اسرائیل میں ایک مالدار لاولد آدمی تھا، جس کا وارث صرف ایک بھتیجا تھا، ایک رات اس بھتیجے نے مال کی لالچ میں اپنے چچا کو قتل کرکے لاش کی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح کو قاتل کی تلاش شروع ہوئی، مگر قاتل کا کچھ پتہ نہ چلا، آخر کار آپس میں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے لگے، یہاں تک کہ ہتھیار نکل آئے، اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگے۔
قَدْ اَخْرَج عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیھقی فی سننہٖ عن عبیدۃ السلمانی قال : رجلٌ مِنْ بنی اسرائیل عقیمًا لا یولَدُلہٗ وکانَ لَہٗ مالٌ کثیرٌ وکان ابن اخیہ واَرثہ فقتلہٗ ثم احتملَہٗ لَیْلاً فوضَعَہٗ عَلیٰ باب رجلٍ منھم ثم اَصْبَحَ یدعیہ علیہم حتیٰ تسلحوا ورکب بعضھم الہ بعض : فقال ذوالرأی منھم : عَلَامَ یَقْتُلُ بعضکم بَعْضا وھذا رسول اللہ فیکم ؟ فَأتَوْا موسیٰ فذکَرُوا ذلک لہٗ فقال (اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً ) ۔ (فتح القدیر شوکانی)
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) تعالیٰ نے معارف القرآن میں مرقات شرح مشکوٰۃ کے حوالہ سے قتل کا واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کی لڑکی سے شادی کی درخواست کی تھی، مگر اس نے انکار کردیا، جس کی وجہ سے درخواست کنندہ نے اس کو قت کردیا تھا، قاتل لاپتہ تھا، اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا، ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو رہی تھی، قوم کے کچھ سمجھدار لوگوں نے کہا اس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات نہیں ہے اللہ کے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) موجود ہیں ان سے معلوم کرلیا جائے، چناچہ یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قتل کا پورا واقعہ بیان کیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم الہٰی ایک گائے ذبح کرنے اور اس کا ایک حصہ مردے سے لگانے کے لئے فرمایا، بہت امین میخ اور آنا کانی کرنے کے بعد گائے ذبح کردی اور اس کا ایک ٹکڑا مردے سے لگا دیا وہ مردہ باذن الہٰی کچھ دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کو نام جو کہ خود اس کا بھتیجا تھا، بتادیا اور پھر فوراً ہی اس کا انتقال ہوگیا، ادھر اس قاتل کو جس نے مال کی حرص میں اپنے چچا کو قتل کردیا تھا، وراثت سے محروم کردیا گیا۔
گائے ذبح کرنے کی مصلحت : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے بحکم خداوندی گائے ذبح کرنے کے لئے فرمایا تو ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں آیا، اول تو اس وجہ سے کہ قاتل کا پتہ لگانے اور گائے ذبح کرنے میں بظاہر کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ گائے ماتا ان کی دیوی تھی، جس کے ذبح کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اسی لئے ان لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا شاید آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔
گائے ذبح کرانے میں مصلحت یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو صدیوں تک مصر میں گائے پرستوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے گائے کی عظمت اور تقدیس کے مرض کو چھوت لگ گئی تھی، اس لئے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں، ان کے ایمان کا امتحان اسی طرح ہوسکتا تھا، کہ اگر وہ واقعی رب خدا کے سوا کوئی معبود نہیں سمجھتے تو جس بت کو اب تک پوجتے رہے ہیں، اسے اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں، چونکہ دلوں میں پوری طرح ایمان اترا ہوا نہیں تھا، اسلئے انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور گائے کی تفصیلات معلوم کرنے لگے، اور جس قدر تفصیلات معلوم کرتے گئے، اسی قدر گھرتے چلے گئے، یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر جسے اس زمانہ میں پرستش کے لئے مختص کیا جاتا تھا، گویا ابگلی رکھ کر بتادیا گیا کہ اسے ذبح کرو، بائیل میں بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
تورات میں ذبح گائے کا حکم : بنی اسرائیل سے کہو کہ ایک لال گائے جو بےداغ اور بےعیب ہو اور جس پر کبھی جو انہ رکھا گیا ہو، تجھ پاس لائیں، تم اسے الیعزر کاہن کو دو کہ وہ اسے خیمے سے باہر لے جائے، اور وہ اس کے حضور ذبح کی جائے۔ (گنتی، ٢: ١٩، ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
ان واقعات کو یاد کرو جو تمہارے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور اس کے قاتل کے بارے میں آپس میں اختلاف کرنا اور قتل کو ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردیا حتیٰ کہ تم نے معاملے کو بہت بڑھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی توضیح نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تم ایک بڑے شر اور فساد میں مبتلا ہوجاتے۔ حضرت موسیٰ نے قاتل کو تلاش کرنے کے لئے تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تم پر فرض تھا کہ تم فوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرتے مگر ہوا یہ کہ تم نے حضرت موسیٰ کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے : ﴿اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ﴾” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔“ اللہ کے نبی نے فرمایا : ﴿ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ﴾” میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔“ کیونکہ جاہل ہی ایسی بات کیا کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہی لوگوں کا تمسخر اڑایا کرتا ہے۔ عقلمند شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے جیسے کسی آدمی کا مذاق اڑانا عقل و دین کا سب سے بڑا عیب ہے۔ اگرچہ اسے اس آدمی پر فضیلت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ فضیلت تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( wo waqt yaad kero ) jab musa ney apni qoam say kaha tha kay Allah tumhen hukum deta hai kay tum aik gaye zibah kero . woh kehney lagay kay kiya aap humara mazaq banatay hain-? musa ney kaha : mein iss baat say Allah ki panah maangta hun kay mein ( aesay ) nadanon mein shamil hun ( jo mazaq mein jhoot bolen )
12 Tafsir Ibn Kathir
قاتل کون ؟
اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کرلوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کردیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں ؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اعوذ باللہ (مسائل شرعیہ کے موقع پر) مذاق جاہلوں کا کام ہے اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کردیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہئے ؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا حضرت ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے حضرت ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی۔
احترام والدین پر انعام الٰہی
اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کردیتا ہوں اس نے کہا نہیں حضرت میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہوجاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر حضرت موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لئے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کرلے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مرگیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق، تکذیب ہم نہیں کرسکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کردیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتادیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا۔