البقرہ آية ۸
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَۘ
طاہر القادری:
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں،
English Sahih:
And of the people are some who say, "We believe in Allah and the Last Day," but they are not believers.
1 Abul A'ala Maududi
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں،
3 Ahmed Ali
اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دار نہیں ہیں
4 Ahsanul Bayan
بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ (١)
ف۱ یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کر لی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
6 Muhammad Junagarhi
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وه ایمان والے نہیں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لائے ہیں۔ حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
آیت نمبر ٨
ترجمہ : (آئندہ آیت) منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، یعنی قیامت کے دن پر اس لئے کہ وہ آخر الایام ہے حالانکہ وہ (بالکل ہی) ایمان لانے والے نہیں ہیں، (ھم، ضمیر جمع لانے میں) مَنْ کے معنی کی رعایت کی گئی ہے، اور یقول کی ضمیر (واحد لانے میں) مَن کے لفظ کی رعایت کی گئی ہے (بلکہ) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، اپنے اس کفر کے خلاف ظاہر کرکے جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر سے کفر کے دنیوی احکام کو دفع کرسکیں، حالانکہ (فی الواقع) وہ دھوکا کسی کو نہیں دے رہے بجز اپنی ذات کے اس لئے کہ ان کی دھوکہ دہڑی کا وبال خود ان پر پلٹنے والا ہے، چناچہ وہ دنیا ہی میں ذلیل ہوں گے اللہ کے اپنے نبی کو اس (نفاق) پر مطلع کرنے کی و کہ سے جس کو انہوں نے چھپا رکھا ہے اور آخرت میں ان کو سزا دی جائے گی، اور ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہے یعنی اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ ان کی دھوکہ بازی (کا ضرر) خود ان کے لئے ہے اور مُخَادعَۃ (مفاعلۃ) یہاں جانب واحد سے ہے، جیسا کہ عاقبت اللّص میں اور اللہ کا ذکر تحسین کے لئے ہے اور ایک قراءت میں وَمَا یُخٰدِعُوْنَ ہے اور ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے، جو ان کے دلوں کو مریض یعنی ضعیف کر رہی ہے، سو اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا بسبب اس کے کہ اللہ نے قرآن نازل کیا اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کے جھوٹ کہ وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے، (یکذّبون) کی تشدید کے ساتھ یعنی اللہ کے نبی کی تکذیب کرتے ہیں اور (ذال کی) تخفیف کے ساتھ یعنی اپنے قول آمَنَّا میں جھوٹے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَمِنَ النَّاسِ : مِن تبعیضیہ ہے، اَلنَّاس اصل میں اُنَاسٌ تھا، ہمزہ تخفیفاً حذف کردیا گیا سورة اسراء میں یہ اصل استعمال ہوئی ہے : ” یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اَنَاسٍ بِاِمٰمِھِمْ “ سیبویہ اور فراء کے نزدیک اناس کا مادہ ہمزہ، نون، سین ہے اور کسائی کے نزدیک اس کا مادہ نون واؤ سین ہے، یہ النّوس سے مشتق ہے، اسکی معنی حرکت کرنے کے ہیں، ناسَ یَنُوسُ نَوْسًا حرکت کرنا، ابو نواس شاعر کو جس کا اصل نام حسن بن ہانی تھا، ابو نواس اس لئے کہتے تھے کہ اس کے بالوں کی دولٹیں ہوا سے حرکت کرتی رہتی تھیں۔ (لغات القرآن للدرویش)
واؤ استینافیہ یا عاطفہ مِنَ الناسِ خبر مقدم مِنَ یَقُوْلُ امنَّا مبتداء مؤخر (دوسری ترکیب) مِنَ النِّاسِ ، فَرِیْقٌ، یانَاسٌ موصوف محذوف کی صفت ہے، موصوف باصفت مبتداء اور مَنْ یَقُوْلُ الخ جملہ ہو کر خبر۔
قولہ : وَبالْیَوْمِ الآخِرِ : باء حرف جر کا اعادہ اپنے دعوائے ایمان کی تاکید کے لئے کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوائے ایمان کو اپنے قول : ” وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ “ سے ابلغ اور زیادہ موکد طریقہ سے رد فرمایا ہے بایں طور پر جملہ اسمیہ استعمال فرمایا جو کہ دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ کسی زمانہ میں بھی متصف بالایمان نہیں رہے، نہ ماضی میں تھے، اور نہ حال میں اور نہ آئندہ مومن ہوں گے اور خبر پر حرف جر کا اضافہ تاکید کے لئے فرمایا
قولہ : وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ : واؤ حالیہ ہے مَا، مشابہ بلیس، ھُمْ اس کا اسم بِمُؤْمِنِیْنَ اس کی خبر بازائدہ تاکید کے لئے۔
قولہ : ای یَوْمِ القِیَامَۃِ : اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : شبہ یہ ہے کہ آخر ایام پر ایمان لانا موجبات دین میں سے نہیں ہے تو اس کے منکر کو کافر کیوں کہا جاتا ہے ؟
جواب : یوم الآخرۃ : سے مراد یوم القیامۃ ہے، یعنی حساب و کتاب اور جزائے اعمال کا دن ہے، اور یہ موجباتِ دین میں سے ہے۔
قولہ : لَاِنَّہُ آخر الایّام : اس عبارت سے یوم الآخر کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : یُخَادِعُوْنَ اللہ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا : یُخَادِعُوْنَ : جمع مذکر غائب کا صیغہ باب ہے (مفاعلۃ) وہ باہم فریب دیتے ہیں، اَلْخُداعُ لغت میں فساد اور اِخْفاء کو کہتے ہیں اور مُخْدِعُ ، میم مثلث کے ساتھ بڑے کمرے میں چھوٹے کمرے یعنی کوٹھری کو کہتے ہیں، جس میں مال اور اسباب چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) یُخَادِعُوْنَ : جملہ استینافیہ بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں ایک سوال مقدر کا جواب ہوگا۔
سوال : یہ ہوگا کہ باطن کے خلاف یہ منافقین ایمان کا اظہار کیوں کرتے ہیں ؟
جواب : اللہ کو دھوکا دینے کے لئے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ : ” یُخَادِعُوْنَ اللہ “ یقول کی ضمیر سے حال ہو، ای مُخَادِعین اللہ الخ (اعراب القرآن) اور یَقُوْلُ آمَنَّا باللہ سے بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : ” مِنَ الکُفْر یہ مَا اَبْطَنُوْا “ کا بیان ہے۔
قولہ : لِیَدْفَعُوْا یہ اظہار ایمان کی علت ہے۔
قولہ : اَحکامَہٗ : ای احکام الکفر، اور احکام کفر سے دنیوی احکام مراد ہیں یعنی منافقین باطن کے خلاف ایمان کا اظہار گرفت سے بچنے کے لئے کرتے ہیں مثلاً اظہار ایمان کی وجہ سے قتل وقید، جزیہ و رسوائی سے محفوظ رہتے ہیں اور مراعات اسلامی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (صاوی)
قولہ : یَعْلَمُوْنَ کو یشعرون : سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ذریعہ علم مشاعر خمسہ ہی ہیں خواہ ظاہرہ ہوں یا باطنہ۔
قولہ : اَلْمُخَادَعَۃُ ھُنَا مِنْ وَّاحِدٍ : اس عبارت کے اضافہ کا فائدہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : باب مفاعلہ طرفین سے شرکت کا تقاضہ کرتا ہے منافقین کی طرف سے تو مکرو خداع سمجھ میں آتا ہے مگر اللہ کی طرف سے اس کی نسبت سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کہ مکرو فریب خصائل رذیلہ میں سے ہے، جن سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔
جواب : باب مفاعلۃ اگرچہ طرفین کی شرکت کا تقاضہ کرتا ہے مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی ایک خاصیت موافقت مجرد بھی ہے جیسے : عاقبت اللص۔ وسَافَرَ بمعنی سَفَرَ ، لہٰذا خادعَ بمعنی خَدَعَ ہے۔
اعتراض : یُخَادِعُوْنَ اللہ : وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، کیا اللہ دھوکا کھا سکتا ہے، وہ تو علیم بذات الصدور ہے، اس سے کسی کا کوئی راز مخفی نہیں دھوکا تو وہ کھاتا ہے جو خادع کے خدع اور ما کر کے مکر سے بیخبر ہو۔
جواب : لفظ اللہ، تحسین کلام کے لئے ہے، معنی مقصود نہیں، تقدیر عبارت اس طرح ہے : ” یُخَادِعُوْن رسول اللہ وَالَّذِیْنَ ّمَنُوْا “ یا مقصد تحسین معنوی ہے، اس طور پر کہ یہ استعارہ رمثیلیہ ہے، مشبہ بہ کو مشبہ کیلئے مستعار لیا گیا ہے، یعنی اللہ کے ساتھ منافقین کے معاملہ کو اس شخص کے حال کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے صاحب کے ساتھ دھوکا دہی کا معاملہ کرتا ہے، یا مجاز عقلی کے طور ہر اللہ کی طرف نسبت کردی گئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول : ” فَاَنَّ لِلہِ خُمْسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی “ میں اسناد مجازی ہے، یا مشاکلت کے طور پر خدا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی گئی ہے جیسے : اللہ تعالیٰ کے قول : ’ وَجَزؤُا سَیّئَۃٍ سَیَّئَۃٌ‘ میں
قولہ : فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ: مرض، طبیعت کے حد اعتدال سے نکل جانے کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے افعال و افکار میں خلل واقع ہوجاتا ہے یہاں مرض سے روحانی مرض مراد ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ جسمانی مرض مراد ہو، جب یہ دونوں امراض اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو روحانی اور جسمانی موت کا باعث ہوجاتے ہیں۔
روحانی امراض : مثلاً کفر، شرک، شک، نفاق، جہل، بخل، وغیرہ، علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے اپنے قول شک و نفاق سے، روحانی مرض کی جانب اور یُمَرِّضُ قلوبَھُمْ سے جسمانی مرض کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : مُوْلَمٌ، لام کے فتحہ کے ساتھ اس لئے کہ فعیل بمعنی مفعول مستعمل نہیں ہے (ترویح الارواح) عذابٌ مُوْلَمُ ، ایسا شدید عذاب کہ شدت کی وجہ سے خود عذاب بھی اذیت محسوس کرنے لگے یہ بطور مبالغہ ہے، اس لئے کہ : اَلِیْمٌ، مَعذّب کی صفت ہے، نہ کہ عذاب کی بعض حضرات نے مولِمٌ لام کے کسرہ کے ساتھ بھی کہا ہے، اس صورت میں عذاب کی طرف الیمٌ کی نسبت حقیقی ہوگی۔
اللغۃ والبلاغۃ
اَلمشاکلۃُ فی قولھمْ ، ” یخٰدِعون اللہ “ لأن المفاعلۃ تقتضی المشارکۃَ فی المعنی وقد اطلق علیہ تعالیٰ مقابلا لما ذکرہٗ من خداع المنافقین کمقابلۃ المکر بمکرھم، ومن امثلۃِ ھذا الفن فی الشعر قول بعضھم۔ ؎
قالوا : التمس شیئًا نجدلک طبخۃ قلت : اطبخو الی جُبِّۃً وقمیصا
تفسیر و تشریح
مذکورہ بالا آیات میں پہلی دو آیتوں میں منافقین کے متعلق فرمایا کہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر حالانکہ وہ بالکل ایمان لانے والے نہیں، بلکہ وہ اللہ سے اور مومنین سے فریب کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ فریب نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور اس کا ان کو احساس بھی نہیں۔
ان آیتوں میں منافقین کے دعوائے ایمان کو فریب محض بلکہ خود فریبی قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ اللہ کو کوئی فریب نہیں دے سکتا جو سمجھتا ہے کہ میں اللہ کو فریب دے رہا ہوں، وہ خود اپنی ذات کو فریب دے رہا ہے، البتہ اللہ کے رسول اور مومنین کے ساتھ ان کی چالبازی کو ایک حیثیت سے اللہ کے ساتھ چالبازی فرمایا گیا ہے۔
مدینہ میں نفاق کی ابتداء : نفاق کی تاریخ اگرچہ بڑی قدیم ہے، مگر اسلام میں نفاق کی ابتداء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ہوئی مگر شباب ٢ ھ میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد آیا۔
اسلام میں نفاق کے اسباب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا اور اہم کام یہ انجام دیا کہ مدینہ اور اطراف مدینہ میں رہنے والے یہود اور غیر یہود سے معاہدہ امن فرمایا تاکہ امن اور اطمینان کی فضا میں لوگوں کو اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے، جس کے نتیجے میں مدینہ میں مسلمان ایک بڑی طاقت سمجھے جانے لگے، مگر ایک طبقہ کو جس کو سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ صورت حال ناپسند اور ناگوار تھی، ابھی قوموں اور قبیلوں سے معاہدہ کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اندرونی خفیہ سازشوں اور بیرونی کھلی عداوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، مدینہ میں ایک شخص جس کا نام عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، بہت عقلمند ہوشیار، چالاک اور تجربہ کار شخص تھا، اوس و خزرج کے تمام قبائل پر اس کا کافی اثر و رسوخ تھا، لوگ اس کی سرداری کو متفقہ طور پر تسلیم کرتے تھے، اوس اور خزرج چند روز قبل ہی جنگ بعاث میں آپس میں صف آرا ہو کر اور اپنے اپنے بہادروں کو قتل کرا کر کمزور ہوچکے تھے، عبداللہ بن ابی نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے اور دونوں قبیلوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے میں کوئی کوتاہی اور غفلت نہیں کی، اہل مدینہ یہ طے کرچکے تھے کہ : عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا افسر اعلیٰ اور بادشاہ بنالیں اور ایک عظیم الشان اجلاس منعقد کرکے اس کا باقاعدہ اعلان کردیں، عبداللہ بن ابی کی تاجپوشی کے لئے ایک قیمتی تاج بھی بنوا لیا گیا تھا، اب صرف اعلان ہی باقی تھا، اسی دوران مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام داخل ہوگئے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد لوگوں کا رخ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب ہوگیا اور آپ مسلم قائد اور رہبر تسلیم کے لئے گئے، جب عبداللہ نے یہ صورت حال دیکھی اور اپنی تمناؤں کا خون ہوتے اور امیدوں پر پانی پھرتے دیکھا تو اس کے دل میں رقابت کی آگ بھڑکنے لگی، اور بادشاہت اور سرداری خاک میں ملتی نظر آنے لگی، چونکہ عبداللہ بڑا چالاک اور ہوشیار شخص تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ اپنا رقیب اور حریف سمجھتا تھا، لیکن اس دشمنی کے اظہار کو غیر مفید سمجھ کر اپنے دل میں چھپائے رہا، اوس و خزرج کے وہ لوگ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ سب عبداللہ کے زیر اثر تھے، جب مکہ کے مشرکوں کو معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے رفقاء مدینہ میں پہنچ کر اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے ہیں اور مذہب اسلام کا دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے، تو انہوں نے عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دیگر مشرکوں سے رابطہ قائم کرکے ساز باز شروع کردی، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی نے منافقین اور مشرکین مکہ کی دشمنی کی جلتی آگ پر تیل کا کام دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
معلوم ہونا چاہئے کہ نفاق کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا : " آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " [صحيح بخاري، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔“ ایک اور روایت میں آتا ہے وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ [حوالہ سابق حدیث: 34]” جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ “
رہا نفاق اعتقادی جو دائرہ اسلام سے خاج کرنے والا ہے۔ تو یہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآں حالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔
اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کردیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ (لتوبة: ٩؍٣٦) ” منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کردی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔ “
پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴾ کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ اس لئے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہار ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kuch log woh hain jo kehtay hain kay hum Allah per aur yoam-e-aakhirat per emaan ley aaye , halankay woh ( haqeeqat mein ) momin nahi hain
12 Tafsir Ibn Kathir
منافقت کی قسمیں۔
دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہوگا۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں " منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کردی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کرلی تھی۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چناچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کرچکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنادیا۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کرلینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہوگئی۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ (فرضی اللہ عنھم اجمعین) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں " یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ " ابو العالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آجائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورة منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون :1) یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا۔ اور سورة منافقون میں فرمایا آیت (وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون :1) یعنی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت (وما ھم بمومنین) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ :18) یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ) 4 ۔ النسآء :142) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہوگا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہوگی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہوگا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہوگا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہوگا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت (لا الہ الا اللہ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہوجاتی ہے کبھی ادھر۔