طٰہٰ آية ۱۵
اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَـةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰى
طاہر القادری:
بیشک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس (عمل) کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے،
English Sahih:
Indeed, the Hour is coming – I almost conceal it – so that every soul may be recompensed according to that for which it strives.
1 Abul A'ala Maududi
قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک قیامت آنے والی ہے قریب تھا کہ میں اسے سب سے چھپاؤں کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے
3 Ahmed Ali
بے شک قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ مل جائے
4 Ahsanul Bayan
قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قیامت یقیناً آنے والی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلا پائے
6 Muhammad Junagarhi
قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیده رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وه بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
یقیناً قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کی سعی و کوشش کا معاوضہ مل جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا وہ قیامت آنے والی ہے اور میں اسے چھپائے رہوں گا تاکہ ہر نفس کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جاسکے
9 Tafsir Jalalayn
قیامت یقینا آنے والی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلہ پائے
آیت نمبر 15 تا 24
ترجمہ : قیامت یقیناً آنے والی ہے میں اس کو لوگوں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں اور اس کا قرب اس کی علامات سے ظاہر ہوجائے گا تاکہ ہر شخص کو اس (دن) میں اس کے اعمال نیک و بد کا بدلہ دیا جاسکے، تو تجھ کو اس پر یقین رکھنے سے کوئی ایسا شخص باز نہ رکھ سکے، نہ روک سکے جس اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اس کے انکار میں اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے ورنہ تو تو ہلاک ہوجائے گا یعنی اگر تو اس پر یقین رکھنے سے باز رہا تو ہلاک ہوجائے گا اور اے موسیٰ تیرے داہنے ہاتھ میں یہ کیا ہے استفہام تقریر کے لئے ہے تاکہ اس پر معجزہ کا ترتب ہو سکے، کہا یہ میری لاٹھی ہے (جست) لگاتے وقت اور چلنے کے وقت اس پر سہارا دیتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں یعنی اس کے ذریعہ درخت کے پتے گراتا ہوں تاکہ وہ اس کو کھائیں اور اس سے میں دیگر کام بھی لیتا ہوں مآرب ماربۃٌ کی جمع ہے را پر تینوں اعراب جائز ہیں مآرب بمعنی حوائج ہے مثلاً کھانا پانی لٹکا لینا اور موذی جانوروں کو دفع کرنا (وغیرہ) (مقدار) جواب میں بیان حاجت کا اضافہ فرمایا ارشاد ہوا اے موسیٰ اسی (عصاء) کو (زمین) پر ڈالدے چناچہ اس کو ڈالدیا تو یکایک وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گیا بڑا اژدہا وہ اپنے پیٹ کے بل چھوٹے سانت (سپولیے) کے مانند دوڑتا تھا جس کو دوسری آیت میں جان کہا گیا ہے ارشاد ہوا اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں ہم اس کو (پکڑتے ہی) اس کی پہلی صورت پر لوٹادیں گے سِیْرَتَھَا حرف جار کو حذف کرنے کی وجہ سے منصوب ہے ای الیٰ حالَتِھا الاُولیٰ چناچہ حضرت مو سٰی علیہ اسلام نے اپناہا تھ اس کے منہ میں داخل کردیا تو وہ عصاء بن گیا اور یہ بات ظاہر ہوگئی کہ (ہا تھ) داخل کرنے کی جگہ دونوں شاخوں کے درمیان پکڑ نے کی جگہ تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سب کچھ اس لئے دکھا یا گیا تاکہ جب فرعون کے سامنے (یہ عصاء) سانث ( کی شکل) میں تبدیل ہوجائے تو ( موسیٰ ) خوف زدہ نہ ہوں اور تم اپنا داہنا ہاتھ یعنی ہتھیلی اینے بازئوں سے ملا لو، یعنی بائیں بغل میں بازو کے نیچے داخل کرلو اور (پھر) نکالو، اپنی پہلی گندمی حالت کے برخلاف بغیر کسی مرض مثلاً برص کے سورج کے مانند چمکدار ہو کر نکلے گا، جو آنکھوں کو چکا چوند (خیرہ) کر دے گا یہ دوسری نشانی ہوئی آیۃ اخریٰ اور بیضاء یہ دونوں تخرُجُ کی ضمیر سے حال ہیں، تاکہ ہم تم کو جب تم نشانی (معجزہ) کے اظہار کے لئے یہ سب کچھ کر چکو تو اپنی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی دکھا دیں یعنی تیری رسالت کی بڑی نشانی اور جب تم اس (ہاتھ) کو سابقہ حالت پر لوٹانا چاہو تو سابق کی طرح اس کو اپنے پہلو سے ملا لینا اور نکال لینا (اب) تم رسول بن کر فرعون اور ان لوگوں کے پاس جاؤ جو اس کے ساتھ ہیں بیشک وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے اپنے کفر میں دعوئ الوہیت کرکے حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
اکادُ اخفیھا ای ارید اخفاء وقتھا یہ عرب کے اس محاورہ کے مطابق ہے کہ عرب جب کسی بات کے اخفاء میں مبالغہ کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں (کتمہٗ حتی من نفسی) ای لم اطلع احَدًا لتجزیٰ یا تو اخفیھَا سے متعلق ہے یا آتِیَۃٌ سے متعلق ہے دوسری صورت میں متعلِّق اور متعلَّق کے درمیان اکاد اُخْفِیھا جملہ معترضہ ہوگا بہٖ کو مقدر ماننے کی وجہ یہ ہے کہ صلہ جب جملہ ہوتا ہے تو عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے اسی لئے مفسر نے بہٖ کو محذوف مانا ہے مِنْ خَیْر وشرّ میں مِنْ ، ما کا بیان ہے یَصُدَّنَّکَ واحد مذکر غائب نہی بانون ثقیلہ، مادہ صَدٌّ، ک ضمیر مفعول ہے تجھ کو باز نہ رکھنے پانئے فَتَرْدیٰ اصل میں فأن تردیٰ تھا فَتَرْدیٰ جواب نہی ہے وَمَا تِلکَ ما اسم استفہام مبتداء تلک اسم اشارہ خبر اور بیمینکَ کائنۃً مقدر کے متعلق ہو کر حال ہے اسم اشارہ بمعنی اشیر سے ما تلک میں ما استفہامیہ طلب فہم کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ یہ ذات باری کے لئے محال ہے بلکہ تقریر شئ کے لئے ہے یعنی اچھی طرح دیکھ لو یہ کیا ہے تاکہ مغالطہ نہ ہو اس لئے کہ عنقریب اسی عصاء کا سانپ کی شکل میں معجزہ ظاہر ہونے والا ہے حَیَّۃٌ چھوٹے بڑے ہر قسم کے سانپ کو کہتے ہیں، اور جَانٌّ خاص طور پر چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں اور ثعبان بڑے سانپ کو جس کو اژدہا کہا جاتا ہے، کہیں جَانٌّ کہا گیا ہے اور کہیں ثعبانٌ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ جسم وجثہ کے اعتبار سے تو ثعبان تھا اور حرکت و سرعت کے اعتبار سے جان یا ابتداءً جان رہتا تھا اور بعد میں ثعبان ہوجاتا تھا فاِذَا ھِیَ تَسعیٰ اِذا مفاجاتیہ ہے ھِیَ مبتداء ہے حیۃ خبر اول ہے اور تسعیٰ خبر ثانی ہے، تسعیٰ جملہ ہو کر حیۃ سے حال بھی ہوسکتا ہے، اور صفت بھی سِیْرَتَھا اصل میں اِلیٰ سِیْرَتِھَا الاُولیٰ تھا حذف الیٰ کی وجہ سے منصوب ہوگیا سِیْرَتَھا الاُولیٰ یہ سَنُعِیْدُھا کی ضمیر مفعول سے بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے ای ھیئتھا الاولیٰ بیضاء تخرجُ کی ضمیر سے حال ہے من غیر سُوءٍ تخرج کے متعلق ہے بمعنی الکف کا اضافہ اس شبہ کو زائل کرنے کے لئے کیا ہے کہ یدٌ عربی میں انگلیوں سے لیکر کندھے تک کو کہتے ہیں، اس کا بغل میں داخل کرنا ممکن نہیں ہے، جواب دیا کل بول کر جز مراد ہے یعنی صرف ہتھیلی الآیۃ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ الکبریٰ ، موصوف محذوف کی صفت ہے۔
تفسیر و تشریح
اکادُ اُخفِیھَا یعنی قیامت کے معاملہ کو میں تمام مخلوق سے مخفی رکھنا چاہتا ہوں حتی کہ انبیاء اور فرشتوں سے بھی اکاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر لوگوں کو قیامت اور آخرت کی فکر دلا کر ایمان و عمل صالح پر ابھارنا مقصود نہ ہوتا تو اتنی بات بھی ظاہر نہ کی جاتی کہ قیامت آنے والی ہے، البتہ قیامت کی علامات قریبہ اور بعیدہ بتادوں گا تاکہ بندوں کو وقوع قیامت کا علم ہوجائے، علامات بعیدہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے، اور علامات قریبہ میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) ظہور مہدی (علیہ السلام) اور خروج دجال اور سورج کا مغرب سے نکلنا وغیرہ ہیں۔
لِتُجزیٰ الخ تاکہ ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا دی جائے اگر اس جملہ کا تعلق آتیۃٌ سے ہے تو معنی ظاہر ہیں کہ قیامت کے آنے کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ دنیا دار الجزاء نہیں بلکہ دار العمل ہے بعض اوقات دنیا میں بھی قدرے جزاء مل جاتی ہے مگر وہ جزاء کامل نہیں ہوتی بلکہ جزاء کا ایک نمونہ ہوتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت آئے کہ جہاں ہر نیک و بد عمل کی کامل جزاء دی جائے ورنہ تو یہ انصاف کے تقاضہ کے خلاف ہوگا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا قیام عقلاً بھی ضروری ہے قیامت اور موت کے وقت کو مخفی رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیام قیامت اور احتضار کے وقت توبہ سے منع فرمایا ہے اگر لوگوں کو موت یا قیامت کا متعین وقت معلوم ہوجائے تو معصیت میں مبتلا رہیں گے پھر وقت سے کچھ پہلے توبہ و استغفار کرلیں گے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قیامت اور موت کے وقت کو مخفی رکھا ہے تاکہ بندہ ہمہ وقت ڈرتا رہے فَلاَ یَصُرَّنَّکَ اس میں خطاب گو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہے مگر سنانا مقصود امت کو ہے اس لئے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اس سے گناہ کبیرہ کا صدور نہیں ہوسکتا یا مقصد یہ ہے کہ اے موسیٰ جس طرح تم اب تک ایمان بالقیامۃ پر قائم رہے ہو آئندہ بھی اسی طرح قائم رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا شخص جو قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے دوڑ رہا ہو آپ کو قیامت کے معاملہ میں غفلت میں ڈال دے اگر بالفرض ایسا ہوا تو تم بھی ہلاکت میں پڑجاؤ گے۔
وما تلک رب العالمین کی طرف سے یہ ایک دوستانہ انداز خطاب ہے تاکہ حیرت انگیز مناظر دیکھنے اور کلام ربانی سننے کے بعد جو ہیبت اور دہشت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر طاری ہوگئی تھی وہ اس بےتکلفانہ کلام سے دور ہوجائے، اس کے علاوہ اس سوال میں یہ حکمت بھی ہے آئندہ چل کر اس عصا کو جو ان کے ہاتھ میں تھا ایک سانپ بنانا تھا اس لئے پہلے ان کو متنبہ کردیا اور فرمایا اے موسیٰ کیا تیرے ہاتھ میں عصا نہیں ہے خوب اچھی طرح دیکھ لے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھ لیا کہ لکڑی کا عصا ہے تب اس کو سانپ بنانے کا معجزہ ظاہر کیا گیا ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ مغالطہ اور احتمال ہوسکتا تھا کہ کہیں رات کی تاریکی میں عصا کی بجائے سردی سے ٹھٹرا ہوا سانپ نہ اٹھا لیا ہو اور اب گرمی پاکر حرکت کرنے لگا ہو۔
قَال ھِیَ عَصَایَ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صرف اتنا سوال ہوا تھا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس کا اتنا جواب کافی تھا کہ لاٹھی ہے، مگر یہاں موسیٰ نے اصل جواب پر تین باتیں مزید فرمائیں جن کا جواب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اول تو یہ کہ یہ میری لاٹھی ہے دوسرے یہ کہ اس سے بہت سے کام لیتا ہوں مثلاً یہ کہ میں اس سے نیک لگاتا ہوں، نیز اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیتا ہوں اس کے علاوہ بھی اس سے اور بہت سے کام لیتا ہوں مثلاً یہ کہ اگر کودنے کی ضرورت پڑجاتی ہے تو اس کے سہارے سے کود جاتا ہوں ضرورت کے وقت اس پر اپنا سامان بھی کندھے پر رکھ کر ٹانگ لیتا ہوں، موذی جانوروں کو دفع کرنے کا کام بھی اسی سے لیتا ہوں اور یہ عصا بکریاں ہانکنے کے کام بھی آتا ہے، اس طویل اور تفصیلی جواب میں عشق و محبت اور اس کے ساتھ رعایت ادب کی جامعیت کا کمال ظاہر ہوتا ہے، عشق و محبت کا تقاضا ہے کہ جب محبوب مہربان ہو کر متوجہ ہو تو موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات دراز کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کا شرف حاصل ہوسکے اور بےجا طوالت بھی نہ ہو جیسا کہ آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرما دیا وَلِیَ فیھا مآرب اخریٰ (معارف القرآن ملخصاً ) فرعون کے پاس بھیجنے سے پہلے عصاء کے سانپ بننے کا عملی تجربہ بھی کرا دیا تاکہ اچانک عصاء کے سانپ بننے کی وجہ سے بشری خوف غالب نہ آجائے، چناچہ عملی تجربہ کے وقت ایسا ہی ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس خوفناک منظر کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا، لا تَخَفْ سَنعیدُھا سیرتھا الاولیٰ ۔
اِذھب الی فرعون اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کو دو عظیم معجزوں سے مسلح کرنے کے بعد حکم دیا کہ اب فرعون سرکش کو دعوت ایمان دینے کے لئے چلے جائیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی کا واقع ہونا لازمی امر ہے۔ ﴿أَكَادُ أُخْفِيهَا ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھپی ہوئی ہے، جیسا کہ بعض قراءت میں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے : ﴿يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّٰـهِ ﴾ (الاحزاب :33؍63) ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔“ اور فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمٰن :33؍31) ” قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کے علم کو تمام مخلوقات سے چھپا رکھا ہے قیامت کے بارے میں کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبی مرسل۔
اور قیامت کے آنے کی حکمت یہ ہے کہ ﴿ لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ ﴾ ہر شخص نے جو بھلے یا برے اعمال میں بھاگ دوڑ کی ہے اس کو ان کی جزا دی جائے کیونکہ قیامت دارالجزا کا دروازہ ہے۔ ﴿لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَ﴾ (النجم :53؍31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کئے، انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کو اچھا بدلہ دے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
yaqeen rakho kay qayamat ki gharri aaney wali hai . mein uss ( kay waqt ) ko khufiya rakhna chahta hun , takay her shaks ko uss kay kiye ka badla milay .