طٰہٰ آية ۴۳
اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۚ
طاہر القادری:
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بیشک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے،
English Sahih:
Go, both of you, to Pharaoh. Indeed, he has transgressed.
1 Abul A'ala Maududi
جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے
2 Ahmed Raza Khan
دونوں فرعون کے پاس جاؤ بیشک اس نے سر اٹھایا،
3 Ahmed Ali
فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے
4 Ahsanul Bayan
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے
6 Muhammad Junagarhi
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے
آیت نمبر 43 تا 54
ترجمہ : تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے دعوائے ربوبیت کرکے بڑی سر کسی کی ہے دعوئے ربوبیت سے رجوع کرنے کے بارے میں اسے نرمی سے سمجھاؤ شاید کہ وہ سمجھ جائے یا اللہ سے ڈر جائے اور باز آجائے اور ترجی کا صیغہ حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی کے اعتبار سے ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو تو معلوم تھا کہ وہ باز نہیں آئے گا (پھر ترجی کے صیغہ کے استعمال کا کوئی مطلب نہیں رہتا) تو دونوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے اوپر زیادتی کر بیٹھے یعنی سزا میں جلد بازی کر بیٹھے یا ہمارے اوپر شرارت کرنے لگے یعنی تکبر سے پیش آئے، تو ارشاد ہوا اندیشہ نہ کرو کیونکہ میں مدد سے تم دونوں کے ساتھ ہوں جو کچھ وہ کہے گا اس کو میں سنوں گا اور جو کچھ وہ کرے گا میں اس کو دیکھوں گا اب اس کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں لہٰذا بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ شام کی طرف جانے دے اور ان کو تکلیف مت پہنچا یعنی مشقت کے کاموں میں ان کا استعمال بند کر دے، جیسا کہ کھدائی کا کام اور معماری کا کام اور بار برداری کا کام ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی یعنی دعوئے رسالت کی صداقت پر دلیل لیکر آئے ہیں اور ایسے شخص کے لئے سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا یعنی ایسے شخص کے لئے عذاب سے سلامتی ہے ہمارے پاس وحی بھیجی گئی ہے کہ عذاب اس شخص پر ہوگا جس نے ہماری لائی ہوئی شئ کی تکذیب کی اور اس سے اعراض کیا چناچہ دونوں بھائی اس کے پاس گئے اور جو کچھ مذکور ہوا سب کہہ دیا تو وہ کہنے لگا اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ (خطاب میں) موسیٰ (علیہ السلام) پر اقتصار کیا اس لئے کہ موسیٰ ہی (رسالت) میں اصل تھے اور فرعون موسیٰ پر تربیت کا احسان جتانا چاہتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شئ کو مخلوق میں سے اس کے مناسب صورت عطا فرمائی جس کی وجہ سے وہ غیر سے ممتاز ہے پھر ہر شئ میں سے حیوان کو اس کے کھانے پینے اور جفتی کرنے وغیرہ کی سمجھ عطا فرمائی فرعون نے کہا کہ اچھا تو پہلی امتوں کا کیا حال ہوا، جیسا کہ قوم نوح اور ہود اور صالح ان کے بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ان کا یعنی ان کے حال کا علم میرے رب کے پاس کتاب لوح محفوظ میں محفوظ ہے قیامت کے دن ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا، نہ تو میرا رب کسی شئ کے بارے میں غلطی کرتا ہے اور نہ کسی شئ کو بھولتا ہے وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے منجملہ مخلوق کے زمین کو فرش بنایا اور زمین میں تمہارے لئے راستے بنائے اور آسمان سے پانی بارش برسائی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کو پورا کرنے کے لئے اہل مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ مختلف نباتات کی مختلف قسمیں پیدا کیں (من نباتِ شتّٰی) ازواجًا کی صفت ہے یعنی مختلف رنگوں اور ذائقے وغیرہ کی، اور شتّٰی شتیت کی جمع ہے جیسا کہ مرضیٰ مریض کی جمع ہے اور یہ شتَّی الامر بمعنی تفرق سے (ماخوذ ہے) اس میں سے خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی کھلاؤ (انعام) نَعْمٌ کی جمع ہے اور وہ اونٹ اور گائیں اور بکریاں ہیں بولا جاتا ہے جانور چرگئے اور میں نے ان کو چرایا، صیغہ امر اباحت اور تذکیر نعمت کے لئے ہے اور جملہ اخرجنا کی ضمیر سے حال ہے یعنی حال یہ کہ ہم تمہارے لئے کھانا، اور جانوروں کو چرانا مباح کرنے والے ہیں، یہاں مذکور تمام چیزوں میں عبرت آمیز نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے یعنی نُھٰی نُھْیَۃٌ کی جمع ہے جیسا کہ غُرَفٌ غرفۃٌ کی جمع ہے بعض حضرات نے نُھٰی کو مفرد بھی کہا ہے عقل کا نام نُھٰی اس لئے رکھا گیا ہے کہ عقل، عقلمند کو قبائح کے ارتکاب سے روکتی ہے، نُھٰی اصل میں نُھَیٌ تھا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیر فوائد
سوال : اِذْھَبَا فِرعَوْنَ دونوں کو ایک صیغہ میں جمع کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جبکہ خطاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہے بلکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) تو اس وقت وہاں موجود بھی نہیں تھے بلکہ مصر میں تھے۔
جواب : نمبر 1 حاضر کو غائب پر ترجیح دینے کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے۔
نمبر 2 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حجاب منکشف فرما دیا تھا جس کی وجہ سے ہارون (علیہ السلام) نے وہی کلام ربانی سنا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سنا تھا، لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے کلام ربانی بلاواسطہ سنا تھا اور ہارون (علیہ السلام) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے سنا تھا۔ قولہ : فی رجوعہٖ عن ذٰلک ای رجوع الفرعون عن اِدّعاءِ الربوبیۃ۔ قولہ : فیرجِعَ جواب ترجی کی وجہ سے منصوب ہے والترجی بالنسبۃ الیھما یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے کلمہ ترجی (شک کا کلمہ) کیوں استعمال فرمایا ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں فرعون کا ایمان نہ لانا متعین تھا۔
جواب : کلمہ ترجی کا استعمال موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کے اعتبار سے ہے نہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے۔
یَفرُطَ (ن) فَرْطًا جلدی کرنا، پیش دستی کرنا، پوری بات سنے بغیر سزا میں جلدی کرنا (روح) فاتیاہ اس کا عطف لاتخافا پر ہے اَسمَعُ واریٰ اِنَّنی معکما کی تاکید ہے، قولہ : بِعَوْنِی کا اضافہ کرکے معیت جسمانی کو باطل کردیا ہے، یہاں معیت سے مراد اعانت اور نصرت ہے فَاْتِیَاہٗ تم بذات خود اس کے پاس جاؤ، نہ یہ کہ کسی کے ذریعہ پیغام پہنچا دو ۔ قولہ : فأَتَیاہٗ وقال لہٗ جمیعَ مَاذُکِرَ کو مقدر مان کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ فرعون کا قول قَالَ مَنْ رَّبُّکُمَا میں ہارون اور موسیٰ دونوں سے خطاب ہے اور یا موسیٰ میں نداء صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو ہے، مفسر علام نے اس کے دو جواب دئے ہیں، اول جواب یہ ہے کہ ان دونوں حضرات میں اصل حضرت موسیٰ ہی ہیں حضرت ہارون تو معاون اور تابع ہیں لہٰذا اصل کو ندا کے لئے منتخب کیا، دوسرا جواب لإدلالہٖ سے دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے موسیٰ بچپن میں تیری پرورش تو میں نے کی ہے لہٰذا تیرا رب تو میں ہوں تو میرا رب کس کو قرار دیتا ہے گویا کہ احسان جتانے اور عار دلانے کے لئے خاص طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو ندا دی کہ تیرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ تو میرا رب کسی اور کو قرار دے جبکہ خود تیرا رب میں ہوں بخلاف ہارون (علیہ السلام) کے ان پر فرعون کا کوئی احسان نہیں تھا۔ قولہ : اِدّلالٌ احسان جتانا، ناز و نخرے کرنا رَبُّنا الذی اعطیٰ الخ ربنا مبتداء اور الذی الخ اس کی خبر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ھُوَ مبتداء محذوف ہو اور ربنا اس کی خبر مبتداء خبر سے مل کر موصوف اور الذی الخ اس کی صفت موصوف صفت سے مل کر مقولہ اَعْطٰی کُلُّ شئ خَلْقَہ کُلَّ شئ اعطٰی کا مفعول اول ہے اور خَلْقَہٗ مفعول ثانی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خَلْقَہٗ مفعول اول ہو اور کُلَّ شئٍ مفعول ثانی، اہتمام کے لئے مفعول ثانی کو مقدم کردیا گیا ہے ای اَعْطٰی خَلْقَہٗ کُلَّ شئٍ قال فرعَوْن فمَا بالُ الخ جب فرعون پر موسیٰ (علیہ السلام) کا حق پر اور خود کا باطل پر ہونا ظاہر ہوگیا تو ایسی باتیں کرکے کہ جن کا رسالت سے کوئی تعلق نہیں تھا بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی تاکہ اس کی ریاست خطرہ میں نہ پڑجائے، موسیٰ (علیہ السلام) اس کی چالبازی کو سمجھ گئے اور بہت مختصر سا جواب دے کر اصل موضوع پر جمے رہے اور فرعون کو بھی موضوع سے نہ ہٹنے دیا اس لئے کہ ایک مناظر کی خوبی یہ ہے کہ مخالف کو موضوع سے ہٹنے نہ دے اس لئے کہ مخالف کے پاس جب کوئی دلیل نہیں رہتی تو وہ موضوع سے ہٹنے کی کوشش کرتا اور غیر متعلق باتیں کرنی شروع کردیتا ہے۔
قولہ : اَلَّذِیْ جَعَلَ لکمُ الارضَ یہ فرعون کے سوال اول کے جواب ہی سے متعلق ہے۔ قولہ : لایَضِلُّ ای لایُخْطِیْ ابتداءً یعنی کوئی شئ اس سے چھوٹتی نہیں ہے۔ قولہ : ولا یَنسٰی یعنی علم کے بعد ذہول و نسیان نہیں ہوتا اَلَّذِیْ جَعَلَ لکم الارضَ مھدًا اور ثم ھدی کے درمیان مابال قرون الاولیٰ الخ جملہ معترضہ ہے علمھا عِند ربی فی الکتاب۔ قولہ : ای علم حالھم محفوظ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ھا ضمیر مضاف الیہ سے پہلے حال مضاف محذوف ہے اس لئے کہ کسی کے علم سے مراد اس شئ کے حالات کا علم ہوتا ہے نہ کہ ذات شئ کا، اور محفوظ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ علمھا مبتداء خبر محذوف ہے علمھا بترکیب اضافی مبتداء ہے اور عند ربی خبر اول اور فی الکتاب خبر ثانی اور یہ بھی جائز ہے کہ ھٰذا حُلُوٌّ حامِضٌ کے مانند دونوں ایک ہی خبر ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عند ربی خبر ہو اور فی الکتاب ظرف کی ضمیر مستتر سے حال ہو۔
قال تعالیٰ تتمِیْمًا لِمَا وَصَفَہٗ الخ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فاخرَجْنا بِہٖ الخ یہ بطور حکایت ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس سے موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام وانزلنا من السماء ماءً کو مکمل کرکے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے خطاب کیا ہے اور ان پر اپنے احسانات جتاتے ہوئے انعامات کو شمار کرایا ہے اور یہ کلام تارۃً اخُریٰ پر ختم ہوا ہے۔ قولہ : شَتّٰی یہ فعل ہے اس کا الف علامت تانیث ہے شَتّٰی شتِیْتٌ کی جمع ہے جیسے مریض کی جمع مرضٰی اور ازواجًا کی صفت ہے نبات کی صفت بھی ہوسکتی ہے کُلُوا وَارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ یہ تقدیر مبیحین کے ساتھ اَخْرَجْنَا کی ضمیر سے حال ہے ای اَخْرَجْنَا اَصنافَ النبات مبیحین لکم الاکلَ ورَعْیَ الانعام مبیحین کے بجائے قائلین بھی مقدر مان سکتے ہیں۔ قولہ : رَعَتِ الاَنْعَامُ وَرَعَیْتُھَا کے اضافہ کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ رَعٰی لازم اور متعدی دونوں مستعمل ہے۔
تفسیر و تشریح
اذھبا الیٰ فرعون تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ دعوئے ربوبیت کرکے حد سے تجاوز کر گیا ہے اور اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا تاکہ وہ نصیحت قبول کرلے اور اس حرکت سے بخوشی باز آجائے یا عذاب الٰہی سے ڈر کر ہی دعوئے ربوبیت سے باز آجائے، اس آیت میں داعیان دین کے لئے ایک اہم اور ضروری اصول بیان کیا گیا ہے فرعون جو کہ خدائی کا دعویدار ظالم و جابر اور اپنی حفاظت کے لئے ہزار ہا بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا مجرم تھا، اس کے پاس جب اپنے خاص پیغمبروں کو بھیجا تو یہ ہدایت دیکر بھیجا کہ اس سے نرم گفتگو کریں تاکہ اس کو غور و فکر کا موقعہ ملے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فرعون اپنی سرکشی اور گمراہی سے باز آنے والا نہیں ہے، مگر اپنے پیغمبروں کو اس اصول کا پابند کرنا تھا جس کے ذریعہ خلق خدا سوچنے سمجھنے پر مجبور ہو کر خدا کی طرف راجع ہوجائے فرعون کو ہدایت ہو یا نہ ہو مگر اصول وہ ہونا چاہیے جو ہدایت و اصلاح کا ذریعہ بن سکے، آج کل جو بہت سے اہل علم اپنے اختلافات میں ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی اور الزام تراشی کو اسلام کی خدمت سمجھ بیٹھے ہیں، انہیں اس پر بہت غور کرنا چاہیے۔
قالا ربنا اننا نخاف الخ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابتداء کلام میں جب موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت پر سرفراز فرمایا گیا تھا تو اطمینان دلایا گیا تھا کہ ہم تم کو تقویت عطا کریں گے اور تم کو غلبہ عطا کریں گے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے بعد پھر یہ خوف ہراس کیسا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پہلا وعدہ کہ ہم تم کو غلبہ عطا کریں گے اور وہ لوگ آپ تک رسائی حاصل نہ کرسکیں گے یہ ایک مبہم اور مجمل وعدہ تھا اس لئے کہ غلبہ سے مراد حجت و دلیل کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور مادی غلبہ بھی، نیز یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر غلبہ تو جب حاصل ہوگا تب وہ دلائل سنیں گے اور معجزات دیکھیں گے مگر خطرہ یہ ہے کہ وہ بات سننے سے پہلے ہی ان پر حملہ کر بیٹھے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ خوف کی چیزوں سے طبعی خوف تو تمام انسانوں کی فطرت ہے انبیاء بھی اس میں شامل ہیں نیز طبعی خوف نبوت کے منافی بھی نہیں ہے، یہ ہر نبی کو پیش آتا ہے، خود موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہی لاٹھی کے سانپ بن جانے کے بعد اس کے پکڑنے سے ڈرنے لگے تو حق تعالیٰ نے فرمایا لاَتَخَفْ ڈرو نہیں، غزوۂ احزاب میں بھی طبعی خوف سے بچنے کے لئے خندق کھودی گئی حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ نصرت و غلبہ بار بار آچکا تھا اس سے معلوم ہوا کہ طبعی خوف نبوت کے منافی نہیں ہوتا۔
اِننی معکما الخ مدد اور نصرت سے میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم فرعون سے جا کر جو کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا میں اس کو سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا اس لئے تم بےخوف و خطر اس کے پاس جاؤ تردد کی کوئی ضرورت نہیں، اور اس سے کہنا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے، ان حضرات کو فرعون کے پاس جانے کے وقت اس سے چھ باتیں کہنے کا حکم فرمایا نمبر 1 اَنا رسولُ ربِّکَ نمبر 2 فاَرْسِلْ معَنَا بنی اسرائیل نمبر 3 ولا تعذِّبھُمْ نمبر 4 قد جئناکَ بآیۃٍ من رَّبکَ نمبر 5 سلام علی مَنْ اتبعَ الھدیٰ نمبر 6 انا قد اوحِیَ الینا اَنَّ العذابَ علیٰ مَنْ کَذَّبَ وتَوَلّٰی ان مذکورہ چھ باتوں سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) جس طرح خلق خدا کو ہدایت ایمان دینے کا منصب رکھتے ہیں اسی طرح اپنی امت کو دنیوی اور معاشی مسائب سے آزاد کرانا بھی ان کے فرض منصبی میں شامل ہوتا ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت فرعون میں دونوں چیزیں شامل ہیں۔
قال ربنا الذی اعطی کل شئ خلقہ ثم ھدیٰ ایک ہدایت خاصہ ہوتی ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ اور فرض منصبی ہے اس کے مخاطب انسان اور جنات ہوتے ہیں ایک دوسری ہدایت تکوینی ہوتی ہے یہ ہدایت ہر مخلوق کے لئے عام ہوتی ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر شئ کو کم و بیش ادراک و شعور عطا فرمایا ہے، جنات اور انسانوں کو کامل شعور عطا فرمایا ہے جس کی وجہ سے یہ احکام کے مکلف قرار دئے گئے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر شئ کو اس کے ادراک و شعور کے مطابق ہدایت کردی کہ تو کس کام کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی تکوینی ہدایت کے تابع زمین و آسمان اور ان کی تمام مخلوقات اپنے اپنے کام میں لگی ہوئی ہے، غرضیکہ چاند سورج اور دیگر سیارے و ثوابت اپنے کام میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ سرمو بھی اس سے انحراف نہیں کرتے اور نہ ایک سکنڈ اپنے وقت سے مقدم و مؤخر ہوتے ہیں، ہر شئ اپنی منشائے پیدائش میں لگے ہوئے ہے، عام مخلوق کی ہدایت اجباری اور غیر اختیاری ہے اس پر ان کو کوئی اجر وثواب نہیں، اور اہل عقول کو جو ہدایت ہوتی ہے وہ اختیاری ہوتی ہے، اسی اختیار کے نتیجہ میں اس پر ثواب یا عذاب مرتب ہوتا ہے اَعطٰی کل شئ خَلْقہٗ ثمَّ ھدیٰ میں پہلی قسم کی ہدایت مذکور ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو سب سے پہلے رب العالمین کا وہ کام بتلایا جو ساری مخلوق پر حاوی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہم نے یا کسی دوسرے انسان نے کیا ہے، فرعون اس کا تو کوئی جواب نہ دے سکا، تو ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے لگا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اصل موضوع سے ہٹایا جاسکے، اسی مقصد کے پیش نظر فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک سوال کا ڈالا جس کا مقصد لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا تھا، فرعون نے کہا اے موسیٰ یہ بتاؤ کہ پچھلے دور کی تمام امتیں اور اقوام عالم جو بتوں کی پرستش کرتے رہے آپ کے نزدیک ان کا کیا حکم ہے ؟ ان کا کیا انجام ہوا ؟ مقصد یہ تھا کہ اس سوال کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ وہ سب گمراہ اور جہنمی ہیں تو مجھے یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یہ تو ساری دنیا ہی کو گمراہ اور جہنمی سمجھتے ہیں اور لوگ یہ سن کر بدظن ہوں گے تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا مگر پیغمبر خدا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا ایسا حکیمانہ جواب دیا کہ جس سے اس کا منصوبہ ناکام ہوگیا وہ حکیمانہ جواب ایسا تھا کہ بات بھی پوری ہوگئی اور فرعون کو بہکانے کا موقع بھی نہ ملا، آپ نے فرمایا اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے کہ ان کا کیا انجام ہوگا ؟ میرا رب نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے بہکنے اور غلطی کرنے کا مطلب یہ کہ کرنا کچھ چاہیے اور کچھ ہوجائے اور بھولنے کا مقصد واضح ہے، یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر پوری ہوگئی، آگے اللہ تعالیٰ اپنی شان ربوبیت کی کچھ تفصیل بیان فرماتے ہیں جس کا ذکر اجمالاً موسیٰ (علیہ السلام) کے اس کلام میں تھا رَبُّنَا الذی اَعْطٰی الخ آگے اللہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کی تکمیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَاَخرَجْنَا بِہٖ اَزْوَاجًا مِن بنَاتٍ شَتّٰی الخ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ اقسام مختلفہ کی نباتات پیدا کیں اور تم کو اجازت دی کہ خود بھی اس نے خشک زمین سے پانی کے ذریعہ مختلف اقسام کی نباتات پیدا فرمائیں، اسی طرح وہ تمام مخلوق کو قیامت کے دن زمین سے نکالے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ﴾ ” تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، وہ سرکش ہوگیا ہے۔“ یعنی وہ کفر، سرکشی، ظلم اور تعدی کی تمام حدود پھلانگ گیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
dono firon kay paas jao . woh hadd say aagay nikal chuka hai .